Tag: 14 اپریل وفات

  • امینُ الملک کا خطاب پانے والے میر معصوم شاہ بکھری کا تذکرہ

    امینُ الملک کا خطاب پانے والے میر معصوم شاہ بکھری کا تذکرہ

    سندھ کے قدیم اور تاریخی حیثیت کے حامل شہر سکھر میں سب سے نمایاں عمارت میر معصوم شاہ بکھری کا مینار ہے۔ ایک زمانہ تھا جب یہ سکھر کے ہر کونے سے نظر آتا تھا، لیکن آبادی بڑھنے کے ساتھ اس کے اطراف رہائشی اور مختلف دوسری عمارتیں بنتی چلی گئیں اور یہ مینار ان کے درمیان کہیں گم ہوگیا ہے۔ آج میر معصوم شاہ بکھری کا یومِ وفات ہے جنھوں نے یہ مشہور مینار تعمیر کروایا تھا۔

    تاریخ کے اوراق میں‌ میر معصوم شاہ بکھری کا سنِ وفات 1606ء درج ہے۔ وہ سندھ کے مشہور شہر سکھر کے ممتاز عالم، مؤرخ اور ادیب اور شاعر ہی نہیں‌ بہادر سپاہی اور فوجی افسر بھی تھے۔ معصوم شاہ اس زمانے کے مشہور علاقے بکھر میں 1528ء میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ جائے پیدائش کی نسبت ان کے نام کے ساتھ بکھری لکھا جاتا ہے۔ وادی سندھ کی اس نابغۂ روزگار ہستی کے کار ہائے نمایاں سے نہ صرف سندھ بلکہ ہندوستان کی تاریخ بھی روشن ہے۔ انھیں امینُ الملک کا خطاب دیا گیا تھا۔

    وہ فنونِ سپہ گری و تیغ زنی کا شوق بھی رکھتے تھے اور میدانِ جنگ میں اس کا مظاہرہ بھی خوب کیا۔ آپ کی جرأت و بہادری کے کارنامے سکھر شہر کے گرد و نواح میں مشہور تھے۔ ان کی اس بہادری اور کارناموں کی خبر کسی طرح شہنشاہِ ہند جلال الدّین اکبر کو ہوگئی تو اس نے میر معصوم شاہ کو طلب کرکے ان کی عزّت افزائی کی اور انھیں اپنی فوج کا افسر مقرر کیا۔ فوج میں ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد معصوم شاہ 20 سال تک اجمیر سمیت مختلف علاقوں میں فتنوں کو کچلنے میں مصروف رہے۔ اس عرصے میں کئی محاذوں پر لڑائی میں‌ حصّہ لیا۔

    میر معصوم کو شعر و ادب سے گہری دل چسپی تھی۔ گجرات کی مہم کے دوران آپ نے ہندوستان کی تاریخ پر مشتمل کتاب ’’طبقاتِ اکبری ‘‘کے مصنّف اور ادبی شخصیت خواجہ نظام الدّین احمد کی معاونت کی تھی اور اسی دوران آپ نے خود بھی سندھ کی تاریخ لکھنے کا ارادہ کیا تھا۔

    کئی بغاوتوں‌ کو کچلنے اور شاہی فوج کے لیے جنگی مہمّات انجام دینے کے بعد انھیں‌ ایران میں مغلیہ سلطنت کا سفیر مقرر کیا گیا۔ سفارتی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہونے کے بعد وہ وطن واپس آگئے تھے اور یہیں‌ انتقال کیا۔ انھوں نے اپنے شہر میں رفاہِ‌ عامّہ کے کام کروائے اور اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے تصنیف و تالیف کا شوق بھی پورا کیا۔ میر محمد معصوم شاہ بکھری کی سندھ کی تاریخ پر تاریخِ معصومی نامی کتاب مشہور ہے جو بہت مستند مانی جاتی ہے۔ یہ کتاب انھوں نے فارسی زبان میں‌ تحریر کی تھی۔ ان کی چند دیگر کتب میں ’پنج گنج‘،’طب و مفردات نامی‘، فارسی شاعری کے دو دیوان، رباعیات کا دیوان شامل ہے۔ ان کا یہ علمی اور ادبی سرمایہ سندھ کی ثقافت کا درخشاں باب ہے۔

    سندھ کے تاریخی اہمیت کے حامل شہر سکھر میں میر معصوم شاہ بکھری نے ایک مینار تعمیر کروایا تھا جو انہی کے نام سے موسوم ہے۔ اس مینار کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کی بلندی ہی نہیں بنیادوں پر اس کا قطر بھی 84 فٹ ہے اور اس کی سیڑھیوں کی تعداد بھی 84 ہے۔ مینار کی چوٹی گنبد کی مانند ہے جس پر لوگ چڑھ کر دور تک نظارہ کرسکتے ہیں۔ سیڑھیوں کے درمیان مختلف جگہوں پر خوبصورت کھڑکیاں بنائی گئی ہیں تاکہ روشنی اور ہوا بھی آسکے۔ میر معصوم شاہ بکھری کی وفات کے بعد اس مینار کو ان کے بیٹے نے مکمل کروایا تھا۔

    میر محمد معصوم شاہ بکھری کا مزار ان کے تعمیر کردہ مینار سے ملحق قبرستان میں ہے۔

  • سارتر جنھوں نے دنیا کا سب سے معتبر اعزاز قبول کرنے سے انکار کردیا تھا

    سارتر جنھوں نے دنیا کا سب سے معتبر اعزاز قبول کرنے سے انکار کردیا تھا

    نوبیل جسے دنیا کا سب سے معتبر انعام سمجھا جاتا ہے، ژاں پال سارتر نے یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کردیا تھا کہ وہ اپنی پرانی شناخت کے ساتھ جینا چاہتے ہیں اور یہ اعزاز قبول کرکے اپنی پہچان نہیں کھونا چاہتے۔ اس عظیم فلسفی، دانش ور، ڈراما نویس، ناول نگار اور محقق نے 1980 میں آج ہی کے روز اس دنیا کو خیرباد کہا تھا۔ سارتر کو سیاست، سماج اور ادب کی دنیا میں ان کے افکار اور نظریات کی وجہ سے بڑا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔

    1905ء میں فرانس کے مشہور شہر پیرس میں پیدا ہونے والے سارتر ایک سال کے تھے جب ان کے والد کا انتقال ہوا۔ ان کا بچپن اپنے نانا کے گھر میں گزرا، جہاں ایک بڑا کتب خانہ تھا۔ یوں سارتر کو کم عمری ہی میں کتابوں اور مطالعے کا شوق ہو گیا۔ وہ سارادن مختلف موضوعات پر کتابیں پڑھتے اور اسی عرصے میں انھوں نے لکھنا بھی شروع کردیا۔ سارتر کہتے تھے کہ انھیں نوعمری ہی میں ادب کا چسکا پڑ گیا تھا اور لکھنے لکھانے کا شوق ان کا جنون بن گیا تھا۔ سارتر بہت اچھے گلوکار، پیانو نواز اور باکسر بھی تھے۔

    سارتر کو فرانس کا ضمیر بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے روشن نظریات اور اجلی سوچ نے انھیں اس بلند مقام تک پہنچایا جہاں ایک دنیا ان سے متاثر ہوئی۔ 70ء کے عشرے میں سارتر بینائی سے یکسر محروم ہوگئے، لیکن انھوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری تھی۔ سارتر نے جہاں عملی جدوجہد سے فرانسیسی معاشرے میں شخصی آزادی کی شمع روشن کی، وہیں سماجی انصاف کے لیے اپنی فکر کا پرچار بھی کیا۔

    وہ درس وتدریس سے بھی منسلک رہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران انھیں جرمن فوج نے گرفتار کر لیا اور ایک سال تک جرمنی میں نظر بند رکھا۔ سارتر کسی طرح فرار ہونے میں کام یاب ہوگئے اور بعد میں‌ فرانس پر جرمنی کے قبضہ کے خلاف مزاحمتی تحریک میں پیش پیش رہے، جنگ کے بعد انھوں نے بائیں بازو کے نظریات کا پرچارک جریدہ نکالا، جو بہت مشہور ہوا۔ اس میں اپنے وقت کے مشہور فلسفی مارلو پونتی اور البرٹ کامیو کی نگارشات شائع ہوئیں اور یہ جریدہ فکری انقلاب کا زینہ ثابت ہوا۔

    سارتر کا پہلا ناول 1938ء میں شائع ہوا۔ وہ مارکسزم اور سوشلزم کے زبردست حامی تھے، لیکن بائیں بازو کی کسی جماعت سے وابستہ نہیں رہے۔ وہ جنگ کے خلاف تحاریک میں انتہائی سرگرم رہے۔ انھوں نے الجزائر پر فرانس کی یلغار، ویت نام میں کمیونسٹوں کے خلاف امریکیوں کی جنگ، عربوں کے خلاف فرانس، برطانیہ اور اسرائیل کی جنگی مہمات اور خوں ریزی کے خلاف آواز اٹھائی اور مظاہروں میں پیش پیش رہے۔

  • فارغ بخاری، ‘یاد آئیں گے زمانے کو مثالوں کے لیے’

    فارغ بخاری، ‘یاد آئیں گے زمانے کو مثالوں کے لیے’

    اردو اور پشتو زبان کے ممتاز شاعر، ادیب اور نقّاد فارغ بخاری 14 اپریل 1997ء کو وفات پا گئے تھے۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے فارغ بخاری ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔

    فارغ بخاری کا اصل نام سید میر احمد شاہ تھا۔ وہ 11 نومبر 1917ء کو پشاور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے پشتو زبان و ادب اور ثقافت کے فروغ کے لیے بیش بہا کام کیا۔ وہ رضا ہمدانی کے ساتھ علمی، تحقیقی اور ادبی کام کرتے رہے اور ان کی مشترکہ تصانیف میں ادبیاتِ سرحد، پشتو لوک گیت، سرحد کے لوک گیت، پشتو شاعری اور پشتو نثر شامل ہیں۔

    فارغ بخاری نے اردو شاعری میں بھی نام و مقام پیدا کیا۔ ان کے شعری مجموعوں میں زیر و بم، شیشے کے پیراہن، خوشبو کا سفر، پیاسے ہاتھ، آئینے صدائوں کے اور غزلیہ شامل ہیں۔ ان کی نثری کتب میں شخصی خاکوں کے دو مجموعے البم، مشرقی پاکستان کا رپورتاژ، براتِ عاشقاں اور خان عبدالغفار خان کی سوانح عمری باچا خان شامل ہیں۔

    فارغ بخاری کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    یاد آئیں گے زمانے کو مثالوں کے لیے
    جیسے بوسیدہ کتابیں ہوں حوالوں کے لیے

    دیکھ یوں وقت کی دہلیز سے ٹکرا کے نہ گر
    راستے بند نہیں سوچنے والوں کے لیے

    سالہا سال عقیدت سے کھلا رہتا ہے
    منفرد راہوں کا آغوش جیالوں کے لیے

    شبِ فرقت میں سلگتی ہوئی یادوں کے سوا
    اور کیا رکھا ہے ہم چاہنے والوں کے لیے

  • نام وَر مؤرخ، شاعر اور ادیب میر معصوم شاہ بکھری کا یومِ وفات

    نام وَر مؤرخ، شاعر اور ادیب میر معصوم شاہ بکھری کا یومِ وفات

    14 اپریل کو میر محمد معصوم شاہ بکھری اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ انھیں صوبۂ سندھ کی ایک عالم فاضل شخصیت، مؤرخ، شاعر اور ادیب کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔

    تاریخ کے اوراق میں ان کی وفات کا سنہ 1606ء درج ہے۔ میر محمد معصوم شاہ بکھری سندھ کے قدیم شہر بکھر میں 1528ء میں‌ پیدا ہوئے۔ وادیٔ سندھ کی اس نابغۂ روزگار ہستی نے نہ صرف سندھ بلکہ برصغیر کی تاریخ مزّین کی اور ان کی تصانیف معلومات کا خزانہ ہیں۔ معصوم شاہ بکھری کو نظام الدین کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے۔

    سندھ کی تاریخی کتابوں میں‌ لکھا ہے کہ میر معصوم شاہ بکھری اکبرِاعظم کے دربار سے وابستہ رہے تھے جس نے ان کو اس زمانے کے ایران میں مغلیہ سلطنت کی جانب سے سفیر مقرر کیا تھا۔ اکبر کے دربار میں پذیرائی کے بعد جہانگیر نے آپ کو امینُ الملک کا خطاب عطا کیا۔ میر محمد معصوم شاہ بکھری ایک بلند پایہ مؤرخ اور سندھ کی تاریخ پر مشہور کتاب، تاریخِ معصومی تحریر کی جو نہایت وقیع اور مستند کتاب مانی جاتی ہے۔ شعروادب اور مختلف علوم میں ان کی گہری دل چسپی نے انھیں‌ درباروں اور اپنے وقت کے علما کی مجالس میں بڑی عزّت اور توقیر عطا کی۔ ان کی چند کتب میں ’پنج گنج‘،’طب و مفردات نامی‘، فارسی شاعری کے دو دیوان، رباعیات کا دیوان شامل ہے۔ ان کا یہ علمی اور ادبی سرمایہ سندھ کی ثقافت کا درخشاں باب ہے۔

    سندھ کے تاریخی اہمیت کے حامل شہر سکھر میں میر معصوم شاہ بکھری نے ایک مینار تعمیر کروایا تھا جو انہی کے نام سے موسوم ہے۔ اس مینار کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کی بلندی ہی نہیں بنیادوں پر اس کا قطر بھی 84 فٹ ہے اور اس کی سیڑھیوں کی تعداد بھی 84 ہے۔ اس مینار کی بنیاد میر محمد شاہ معصوم شاہ بکھری نے رکھی تھی جسے بعد میں ان کے بیٹے نے مکمل کروایا۔

    میر محمد معصوم شاہ بکھری کا مزار ان کے تعمیر کردہ مینار سے ملحق قبرستان میں واقع ہے۔

  • نام وَر سائنس دان ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کا یومَ وفات

    نام وَر سائنس دان ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کا یومَ وفات

    14 اپریل 1994ء کو پاکستان کے نام وَر سائنس دان ڈاکٹر سلیم الزّماں صدیقی انتقال کر گئے تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ سائنس کے میدان میں‌ ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں ملک اور بیرونِ ملک کئی اعزازات سے نوازا گیا تھا۔ 1966ء میں ڈاکٹر سلیم الزّماں نے جامعہ کراچی میں حسین ابراہیم جمال پوسٹ گریجویٹ انسٹیٹیوٹ آف کیمسٹری قائم کیا اور زندگی بھر اس مرکز سے وابستہ رہے۔

    ڈاکٹر سلیم الزّماں صدیقی 19 اکتوبر 1897ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ 1919ء میں انھوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے گریجویشن کیا، بعد میں نگلستان اور جرمنی سے کیمسٹری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔

    1927ء میں انھوں نے فرینکفرٹ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا اور ہندوستان لوٹے جہاں مشہور حکیم اجمل خان کے ریسرچ انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ہوگئے۔ یہ جڑی بوٹیوں پر تحقیق کا ایک بڑا مرکز اور مستند ادارہ تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد ڈاکٹر سلیم الزّماں صدیقی پاکستان کراچی چلے آئے۔ یہاں 1983ء میں پاکستان کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کی بنیاد رکھی اور بانی چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ بعد میں حسین ابراہیم جمال پوسٹ گریجویٹ انسٹیٹیوٹ آف کیمسٹری کے تحت علمی و تحقیقی کام کیا اور سائنس کی دنیا میں‌ معروف ہوئے۔

    ڈاکٹر سلیم الزّماں صدیقی ایک اچھے مصوّر بھی تھے۔ ان کی تصاویر کی باقاعدہ نمائشیں بھی منعقد ہوئی تھیں۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی، ستارہ امتیاز اور ہلالِ امتیاز سے نوازا تھا جب کہ بیرونِ ممالک سے جو اعزازات ان کے حصّے میں آئے، ان میں سوویت سائنس اکیڈمی اور کویت فائونڈیشن کے طلائی تمغے اور برطانیہ کی رائل اکیڈمی آف سائنسز اور ویٹیکن اکیڈمی آف سائنسز کی رکنیت سرفہرست تھیں۔