Tag: 14 اکتوبر وفات

  • یومِ‌ وفات:‌ نظامُ الملک طوسی کو قابل ترین ایشیائی منتظم کہا جاتا ہے

    یومِ‌ وفات:‌ نظامُ الملک طوسی کو قابل ترین ایشیائی منتظم کہا جاتا ہے

    دنیا کے مختلف خطّوں میں اسلامی دورِ حکم رانی اور سلطنتوں کے عروج و زوال اور تاریخ کا ادنیٰ طالبِ علم بھی یہ جانتا ہے کہ ہارون الرّشید کا دور برامکہ کے تذکرے کے بغیر نامکمل ہے اور بالکل اسی طرح سلجوقیوں کا دور نظامُ الملک طوسی کے ذکر کے بغیر ادھورا ہے۔

    سلجوقی حکومت میں نظامُ الملک کو اعلیٰ و ارفع مقام حاصل ہے جس نے رفاہی، اصلاحی، تعمیری اور فوجی انتظام سے متعلق اہم ترین کارنامے انجام دیے۔

    نظامُ الملک طوسی کا پورا نام ابوعلی حسن ابن علی بن اسحاق تھا جو سلجوق خاندان کے سب سے مشہور بادشاہ ملک شاہ سلجوق کا وزیرِ اعلیٰ اور معتمد خاص تھا۔

    آج اسی نظام الملک طوسی کا یومِ وفات ہے۔ اس باصلاحیت وزیر کے بارے میں ممتاز مؤرخ فلپ کے ہیٹی نے کہا کہ ’’یہ اسلام کی سیاسی تاریخ کا ایک ہیرا ہے۔‘‘ ایک اور تاریخ داں امیر علی نے طوسی کو یحییٰ برمکی کے بعد دوسرا قابل ترین ایشیائی منتظم قرار دیا۔

    نظام الملک طوسی 10 اپریل 1018ء کو طوس کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔ اس نے سلجوقی حکومت میں لگ بھگ بیس سال مکمل اختیارات کے ساتھ منظّم و مؤثر انداز میں انتظامات سنبھالے اور زندگی کے بیش تر شعبوں خصوصاً درس و تدریس کے حوالے سے لا تعداد خدمات انجام دیں۔ سلجوقی نظم و نسق اور مستحکم حکومت کے پسِ پردہ نظامُ الملک طوسی کی ذہانت، صلاحیت اور مہارت تھی جس نے مملکت کو استحکام اور خوش حال کیا۔ نظام الملک طوسی بغداد کے سفر کے دوران صحرائے سینا سے گزرتے ہوئے 1092ء کو ایک قاتلانہ حملے میں دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔

    مؤرخین نے لکھا ہے کہ طوسی تعلیم کا رسیا اور عالموں، فاضلوں، ادبا و شعرا کا قدر دان تھا۔ دربار میں ملک بھر کے مشاہیر، دانش ور اسی کے سبب اکٹھا تھے۔ اسی کے دور میں‌ 1066ء میں اسلامی دنیا کی پہلی عظیم نظامیہ یونی ورسٹی نیشا پور میں قائم کی گئی۔

    نظام الملک طوسی نے مشہور شاعر، ماہرِ ارضیات و جغرافیہ عمر خیاّم کے تعاون سے ’’جلالی کیلنڈر‘‘ کا اجرا بھی کیا تھا۔ طوسی نے حکومت کے انتظامی امور، رموزِ مملکت اور سیاست پر اہم ترین کتاب ’’سیاست نامہ‘‘ تحریر کی جو اس کے ذاتی تجربات، علم اور مشاہدات پر مشتمل تھی۔

    نظام الملک کا ایک اور بڑا کارنامہ ملک بھر میں خصوصاً سیاسی، انتظامی، حکومتی اور افواج میں جاسوسی و مخبری کے نظام کو رائج کرکے اسے جدید اور عصری خطوط پر آراستہ کرنا ہے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ طوسی نے ساری عمر خدمتِ اسلام اور فروغِ تعلیم میں گزاری۔

  • معروف محقّق، ماہرِ لسانیات و آثارِ قدیمہ ابوالجلال ندوی کی برسی

    معروف محقّق، ماہرِ لسانیات و آثارِ قدیمہ ابوالجلال ندوی کی برسی

    ابوالجلال ندوی مشہور محقّق، نقّاد، معلّم اور ماہرِ لسانیات تھے جنھوں نے موئن جو دڑو سے برآمد ہونے والی قدیم مہروں کی تشریح و توضیح پر تنقیدی اور وقیع کام کیا۔ وہ 14 اکتوبر 1984ء کو وفات پاگئے تھے۔

    دارُ العلوم ندوۃُ العلما سے فراغت پانے والے ابوالجلال ہندوستانی نژاد پاکستانی تھے۔ وہ سید سلیمان ندوی کی نگرانی میں دارُ المصنّفین میں کام کرنے والوں میں شامل تھے، جہاں انھیں علمی و تحقیقی ماحول میں ادبی و لسانیات سے گہرا شغف ہوگیا اور بعد ازاں ان کی تحقیق اور علمی مواد رسائل کی بدولت عام ہوا۔

    ابو الجلال ندوی کی زندگی کو دو ادوار میں منتقسم کیا جائے تو ایک طرف وہ ہندوستان میں رہ کر اعلام القرآن اور قدیم تہذیبوں بالخصوص یمنی تہذیب کے کتبات وغیرہ پر کام کرتے رہے اور بعد میں پاکستان آکر ہڑپہ اور موئن جو دڑو جیسی تہذیبوں پر کام کیا۔

    وہ اردو، عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں کے ساتھ قدیم زبانیں عبرانی اور سنسکرت بھی جانتے تھے جس سے انھوں نے اپنے تحقیقی کام میں بہت مدد لی اور قدیم تاریخ اور مخطوطات کو سمجھا۔

    ابو الجلال ندوی 1894ء میں اعظم گڑھ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسے اور اپنے والد سے حاصل کی، اور پھر دار العلوم ندوۃُ العلما لکھنؤ میں داخل ہوگئے۔ فراغت کے بعد شبلی نیشنل کالج میں مدرس ہوئے۔ 1923ء میں سید سلیمان ندوی نے انھیں دارُ المصنّفین میں کام کرنے کا موقع دیا۔

    1927ء میں ابو الجلال ندوی نے سید سلطان بہمنی اور نذیر احمد شاکر کے ساتھ مل کر مدراس سے روزنامہ مسلمان جاری کیا جو اب بھی جاری ہے اور تمل ناڈو کا واحد اردو اخبار ہے جس نے کتابت کے فن کو زندہ رکھا ہوا ہے۔

    لسانیات اور دوسرے تحقیقی موضوعات پر ان کے مضامین معارف اور دیگر جرائد میں شائع ہوئے اور علمی و ادبی حلقوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ لسانیات، علم الاشتقاق اور تقابلِ ادیان ان کا خاص موضوع تھا۔

    وادیٔ سندھ خصوصاً موئن جو دڑو سے برآمد ہونے والی قدیم مہروں کی تشریح و توضیح کے علاوہ قدیم رسم الخط پر ان کے متعدد مقالات بھی شائع ہوئے جو ایک اہم کام تھا۔

    ابو الجلال ندوی کراچی میں ملیر، سعود آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • تحریکِ پاکستان کے نام وَر راہ نما راجا صاحب محمود آباد کا تذکرہ

    تحریکِ پاکستان کے نام وَر راہ نما راجا صاحب محمود آباد کا تذکرہ

    تحریکِ پاکستان کے نام ور راہ نما راجا امیر احمد خان المعروف راجا صاحب محمود آباد 1973ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    راجا صاحب کا شمار قائدِ اعظم کے رفیق اور تحریکِ‌ پاکستان کے ان عظیم راہ نماؤں میں ہوتا ہے جنھوں نے آزادی کے لیے عملی میدان میں نہ صرف اپنی تمام استعداد اور صلاحیتوں کو استعمال کیا بلکہ اپنی دولت بھی بے دریغ تحریکی کاموں پر خرچ کی۔

    وہ 5 نومبر 1914ء کو پیدا ہوئے تھے۔ راجا صاحب کوئی عام ہندوستانی نہیں تھے بلکہ ان کا تعلق یو پی کے ایک حکم ران گھرانے سے تھا۔ ان کے والد مہا راجا سر محمد علی خان یو پی کی مشہور ریاست محمود آباد کے والی تھے۔ اسی گھرانے میں راجا صاحب نے آنکھ کھولی اور خاندانی ماحول پھر روپے پیسے کی فراوانی دیکھی، ان کی تعلیم و تربیت بڑے اچھے پیمانے پر ہوئی۔ انھوں نے اردو کے علاوہ انگریزی اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل کیا۔

    23 مارچ 1931ء کو ان کے والد کی وفات کے بعد راجا امیر احمد خان محمود آباد کے والی بن گئے اور اسی کے ساتھ مسلمانوں کے قومی مسائل کے حل کے لیے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست میں فعال حصہ لینے لگے۔

    اس زمانے میں مسلم لیگ کو جب کبھی مالی امداد کی ضرورت پڑی راجا صاحب نے سب سے پہلے بڑھ کر اس ضرورت کو پورا کیا۔ انھوں نے اپنی وسیع و عریض ریاست کی ساری آمدنی مسلمانوں کے مسائل کے حل کے وقف کردی تھی۔

    1947ء میں جب پاکستان بنا تو راجا صاحب پاکستان چلے آئے۔ انھیں یہاں متعدد مرتبہ وزارت اور سفارتی عہدوں کی پیشکش ہوئی لیکن راجا صاحب نے ہمیشہ اس سے گریز کیا۔ وہ ایسے پُرخلوص، درویش صفت اور جاہ و منصب سے بے نیاز انسان تھے جس کی زندگی کا واحد مقصد تحریک اور آزادی رہا۔

    بعد میں راجا صاحب انگلستان چلے گئے جہاں وہ اسلامک ریسرچ سینٹر سے وابستہ تھے۔ انھوں نے لندن میں انتقال کیا اور مشہد میں سپردِ خاک کیے گئے۔