Tag: 14 اگست

  • ویڈیو رپورٹ: بی آر ٹی گرین لائن میں یوم آزادی کے حوالے سے اقلیتی برادری کا ایک حیرت انگیز سفر

    ویڈیو رپورٹ: بی آر ٹی گرین لائن میں یوم آزادی کے حوالے سے اقلیتی برادری کا ایک حیرت انگیز سفر

    کراچی میں یوم آزادی اور اقلیتی برادری کے دن کی مناسبت سے بی آر ٹی گرین لائن میں ایک خوب صورت سفر کا اہتمام کیا گیا، جس میں گیت اور نغمے پیش کیے گئے، تقاریر کی گئیں اور شرکا میں پرچم تقسیم کیے گئے۔

    بی آر ٹی گرین لائن کے نمائش اسٹیشن پہ اتوار کی صبح سے رونق تھی، کیوں کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے پاکستانی جمع ہو کر یگانگت کا پیغام دے رہے تھے۔

    منتظمین کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد پاکستان سے محبت کا پیغام کا عام کرنا ہے، گرین لائن کے مسافر اس دل کش اور خوب صورت سفر کو کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔


    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں


  • ’’ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا کبھی متحد نہیں ہو سکیں گے!‘‘

    ’’ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا کبھی متحد نہیں ہو سکیں گے!‘‘

    برصغیر میں‌ صدیوں تک مختلف مذاہب اور عقائد کے ماننے والے اکٹھا رہے ہیں۔ آپس میں میل جول اور راہ و رسم سے معاشرہ میں بھائی چارہ اور یگانگت فضا قائم رہی ہے۔ مغل دور کی بات کریں‌ تو دربار میں بھی بلاتفریقِ مذہب و ملّت یگانہ روزگار شخصیات اکٹھا تھیں، لیکن ہندوستان پر کمپنی کا قبضہ ہوگیا اور انگریزوں نے اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے سب سے پہلے اس فضا کو مسموم کیا اور یہ اتحاد و اتفاق پارہ پارہ ہوگیا۔

    اس کے بعد دنیا نے ہندوستان کی تقسیم دیکھی۔ یہ انسانی تاریخ کا ایک عظیم اور ایسا دردناک واقعہ ہے جس میں لاکھوں انسانی جانیں ضایع ہوئیں اور کئی دردناک داستانیں رقم ہوئیں۔ برصغیر اور مسلم ہند کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو سب سے نمایاں اور اہم بات یہ سامنے آتی ہے کہ یہاں مسلم قومیت کا تصوّر پہلے سے موجود تھا۔ انگریزوں نے ہندوؤں میں اقتدار کی ہوس دیکھی اور یہ جانا کہ وہ کئی سو سال تک مغل بادشاہت کی وجہ سے احساسِ محرومی کا شکار ہیں اور اسی کا فائدہ اٹھانے کے لیے ہندوستان میں نفرت کو ہوا دی، ہر قسم کی مذہبی اور قومی تفریق کو اجاگر کرکے انگریزوں نے اپنی حکومت اور اقتدار کو فائدہ پہنچایا۔ انگریز مسلمانوں کے دشمن تھے اور ان کو کچلنے اور استحصال کے لیے ہندوؤں سے گٹھ جوڑ کر کے اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے تھے۔ انہی سازشوں نے مسلمانوں میں جداگانہ تشخّص کو برقرار رکھنے کی خواہش کو تقویت دی اور تحریکِ پاکستان کا سفر شروع ہوا۔

    تحریکِ پاکستان کے یوں کئی عوامل ہیں، لیکن یہاں ہم اس حوالے سے چند بنیادی اور نمایاں پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔

    جداگانہ تشخص اور تحریکِ پاکستان
    تحریکِ پاکستان کا ایک وسیع پس منظر ہے جسے جاننے کے بعد یہ کہنا مشکل نہیں کہ مسلمانوں میں جداگانہ تشخص اور علیحدہ وطن کی خواہش نے متعصب اور انتہا پسند ہندوؤں کی وجہ سے جنم لیا اور حالات کو بگاڑتے ہوئے مسلمان قیادت کو اس مقام پر پہنچا دیا جہاں انھوں نے اسلامیانِ ہند کے لیے الگ ریاست کی تشکیل کا مطالبہ کیا اور اس کے لیے ہر محاذ پر انگریزوں اور متعصب ہندوؤں کا مقابلہ کیا۔ 1920ء کے بعد جو حالات پیدا کردیے گئے تھے، ان کا بغور جائزہ لیا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ مسلمان انگریزوں اور ہندوؤں کی سازشوں کے سبب اکٹھے نہیں رہ سکتے تھے۔

    حالات میں بگاڑ، انگریز ہندو گٹھ جوڑ
    جنگِ بلقان کے دوران 1913ء میں کانپور میں مچھلی بازار کی مسجد کا بیرونی حصہ شہید کر دیا گیا جس سے مذہبی جذبات بُری طرح مجروح ہوئے، اور مسلمانوں کو یہ احساس ہوگیا کہ برطانوی حکومت نے مسلمانوں کو مذہبی اور سماجی اعتبار سے پامال کرنے کا تہیہ کر لیا ہے، چناں چہ سانحہ کانپور سے اسلامیانِ ہند کی سیاست نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔

    اس واقعے سے پورے ہندوستان کے مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف غم و غصہ پیدا ہوا اور ہر طرف ہلچل مچ گئی۔ مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد جیسے راہ نماؤں اور اکابرین نے بالترتیب لاہور سے ’’زمیندار‘‘، دہلی سے ’’کامریڈ‘‘ اور کلکتہ سے ’’الہلا ل‘‘ نامی اخبارات جاری اور مسلمانوں کا مؤقف سامنے رکھتے ہوئے انگریز سرکار کی پالیسیوں پر تنقید کی۔ دیگر مسلم زعماء مثلا ًمولانا عبدالباری فرنگی ، محلی، مولانا آزاد سبحانی ، مولانا شوکت علی وغیرہ نے ایسے واقعات کو انگریزوں کی مسلم دشمن پالیسی قرار دے کر کڑی نکتہ چینی کی۔ اسی واقعے کے بعد جب مسلمانوں پر فائرنگ اور مسلم راہ نماؤں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں تو ان راہ نماؤں نے شدید احتجاج کیا جس سے مسلمانوں میں ملّی بیداری اور عملی سیاست میں حصّہ لینے کی سوچ کو تقویت پہنچی۔

    ہندو مسلم فسادات
    1920ء کے بعد ہندوستان میں انگریز سرکار کی مسلم دشمن پالیسیوں اور ہندوؤں سے گٹھ جوڑ کر کے نقصان پہنچانے کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ نہ صرف برطانوی دور کی بدترین یاد ہے بلکہ مسلسل فسادات نے ایک خونیں تاریخ رقم کی۔ اس عشرے میں ہندو مسلم فسادات کی تاریخ میں ایک نئے اور سنگین باب کا اضافہ ہوا اور ہندو مسلم اتحاد کے لیے ماضی میں کی جانے والی تمام کوششیں برباد ہوگئیں۔ مسلمانوں پر عیاں ہوگیا کہ انگریز اور ہندو ان کے بدترین دشمن ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل ہوگئی جسے پاٹنا ممکن نہ تھا۔

    محمد علی جناح اور اتحاد کی کوششیں
    محمد علی جناح جو اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے ایک سفیر اور اہم راہ نما تھے، وہ بھی حالات سے دل گرفتہ نظر آئے۔ اسی عشرہ میں اتحاد و اتفاق بڑھانے اور انگریزوں سے ہندوستان کو آزاد کرانے کے حوالے سے کانفرنسیں بھی ہوئیں اور ہندو مسلم مفاہمت کے لیے کئی تجاویز سامنے آئیں جن میں قائد اعظم کے ایما پر دہلی تجاویز اہم ترین تھیں۔ یہ تجاویز 1937 میں مسلم زعما کے ایک اجلاس میں مرتب کی گئی تھیں، مگر آل انڈیا نیشنل کانگریس نے گاندھی اور نہرو کی سرکردگی میں ان مطالبات پر غور کیا اور اپنے ابتدائی اجلاس میں تسلیم بھی کرلیا لیکن بعد میں چند متعصب ہندوؤں کے زیرِ اثر ان میں سے چند مطالبات کو رد کر دیا گیا۔

    کانگریس کی چالیں
    اس کے بعد جب نہرو رپورٹ سامنے آئی جو کانگریس نے ہندوستان کے آئین کی حیثیت سے تیار کی تھی، ان میں بھی مسلم حقوق کو پامال کیا گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ دسمبر 1928ء اور جنوری 1929ء میں جب نہرو رپورٹ کو حتمی شکل دینے کے لیے کلکتہ میں نیشنل کنونشن منعقد ہوا تواس میں بھی محمد علی جناح کے تین بنیادی مطالبات کو مسترد کر دیا گیا۔

    ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا
    محمد علی جناح اور ان ساتھیوں کے لیے یہ ایک انتہائی مایوس کن اور چونکا دینے والی صورت حال تھی۔ محمد علی جناح نے اپنے پارسی دوست جمشید نسروانجی سے کہا کہ ’’آج ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا اس طرح جدا ہو گئے ہیں کہ اب کبھی متحد نہیں ہو سکیں گے۔‘‘

    اس رپورٹ کے بعد اس وقت مختلف معاملات پر گروہ بندی اور اختلافات کی وجہ سے دور ہو جانے والے مسلمان راہ نماؤں کو بھی جب کانگریس کی مسلم دشمنی کا یقین ہوگیا تو وہ سب متحد ہوگئے۔

    مسلمان قیادت کا اتحاد اور آل پارٹیز مسلم کانفرنس
    جنوری 1929ء میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس اسی اتحاد کا مظہر ہے۔ اس کانفرنس کا اجلاس دہلی میں ہوا جس کی صدارت سر سلطان محمد آغا خان نے کی۔ اس کانفرنس میں نہ صرف میاں محمد شفیع اور سر شفاعت احمد خان پیش پیش تھے بلکہ ترک موالات اور تحریک خلافت کے راہ نما مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور حسرت موہانی جیسے جید علما اور سیاست دانوں نے بھی اس میں اہم کردار اداکیا۔

    قائدِ اعظم کے 14 نکات
    ان واقعات کی روشنی میں محمد علی جناح نے 1929ء میں اپنے مشہور چودہ نکات پیش کیے اور اسے برصغیر کی تاریخ میں اسلامیانِ ہند کے منشور کی حیثیت حاصل ہوئی۔ بعد کے برسوں میں مسلم لیگ اور محمد علی جناح کی قیادت میں مختلف مسلم جماعتوں کے اتحاد کی کوششیں جاری رہیں اور لندن میں تین گول میز کانفرنسیں منعقد ہوئیں جس کے بعد ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء مرتب کیا گیا۔

    انتخابات اور کانگریس کی غیر متوقع کام یابی
    1906ء سے 1938ء تک ہندو مسلم مفاہمت کی کوششیں اور اس ضمن میں تجاویز مسلمانوں کی ہی جانب سے پیش کی جاتی رہی تھیں لیکن کانگریس اور ہندوؤں کی جانب سے منفی رویہ اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ دیکھا گیا جس نے 1937ء کے انتخابات کے بعد شدت اختیار کرلی۔ انتخابات سے قبل قوی امید تھی کہ کانگریس اور مسلم لیگ میں مفاہمت ہو جائے گی اور دونوں جماعتیں مل کر مخلوط وزارتیں قائم کریں گی، لیکن انتخابات میں کانگریس کی غیر متوقع کام یابی کے بعد طاقت کے نشے میں بدمست کانگریس نے کچھ اور ہی منصوبہ بنا لیا۔

    کانگریس کے متعصب اور مفاد پرست ہندو راہ نماؤں نے دوسری تمام پارٹیوں کو اپنے اندر ضم کر کے ہندوستان کی واحد سیاسی جماعت بن جانے کا سوچا اور مخلوط وزارتوں کے بارے میں مسلم لیگ کی پیش کش کو ٹھکرا دیا، یہی نہیں جن ہندو اکثریتی صوبوں میں کانگریسی وزارتیں قائم ہوئیں وہاں مسلمانوں کو ان کے حقوق سے محروم کردیا۔

    کانگریس کی پالیسیاں اور مسلم کش اقدامات
    سیاسی طاقت کے حصول کے بعد کانگریس کی جانب سے ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت یکے بعد دیگرے مسلم کش اقدامات کیے جن میں بندے ماترم کو قومی ترانہ کی حیثیت دینا، تمام سرکاری عمارتوں پر کانگریس کے پرچم کو قومی پرچم کی حیثیت سے لہرانا، اردو کی جگہ ہندی زبان، گائے کو ذبح کرنے پر پابندی، ملازمتوں میں مسلمانوں کو ان کے مخصوص اور مقررہ حقوق سے محروم کرنا۔

    آل انڈیا مسلم لیگ کی مقبولیت
    مسلم قیادت اور اکابرین نے یہ سب دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی غرض سے قائدِ اعظم کے ساتھ 1934ء میں‌ کوششوں کا آغاز کیا اور جب مسلم لیگ کا اجلاس لکھنؤ میں 1937ء میں ہوا تو اس نے ہندوستان بھر میں مسلمانوں کو ایک ایسے جوش و جذبہ سے سرشارکردیا جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس اجلاس کے صرف تین ماہ بعد ہی مسلم لیگ کی نئی شاخیں قائم ہونے لگیں اور رکنیت سازی زوروں پر تھی۔

    محمد علی جناح کی حکمت عملی، صبر و تحمل اور سیاسی بصیرت کے باوصف تحریک کام یاب ہوتی چلی گئی اور ہندوستان بھر میں ترقی کی اور بڑے صوبوں میں اسلامیانِ ہند کے کام یاب ترین اجلاس منعقد ہوئے۔ مسلم لیگ کی روز افزوں قوّت اور مقبولیت بڑھنے کا اندازہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے بھی ہوتا ہے جس نے سیاسی طور پر مسلمانوں کو بہت فائدہ پہنچایا۔ مسلم لیگ کی مقبولیت کا ایک ثبوت 1939ء میں یومِ نجات منانے کی جناح صاحب کی اپیل تھی جس پر برصغیر کے مسلمانوں نے والہانہ انداز اور جوش و جذبے سے لبیک کہا۔

    مسلم قومیت کا فروغ اور علیحدہ ریاست کا قیام
    وہ وقت بھی آیا جب قائداعظم نے الگ مسلم قومی تشخص کی اس طرح توضیح اور تشریح کی کہ مسلم اکثریتی صوبوں میں ایک علیحدہ مملکت کے قیام پر سب رضامند ہوگئے۔ چنانچہ قائداعظم کی زیرِ قیادت مسلم لیگ نے لاہور میں 1940ء میں منعقدہ اجلاس میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کو اپنا نصب العین قرار دیا اور اس کو پاکستان کا نام دیا گیا۔

    یہ پہلا موقع تھا جب مسلمانانِ ہند نے اتنے واضح اور مدلل انداز میں اپنی منفرد اور علیحدہ قومیت کا نہ صرف اعلان اور دعویٰ کیا بلکہ برصغیر میں ایک علیحدہ وطن کی تشکیل پر بھی زور دیا اور پھر 14 اگست 1947ء کو پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔

  • نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ 14 اگست سے آپریشنل کرنے کا امکان

    نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ 14 اگست سے آپریشنل کرنے کا امکان

    کوئٹہ: نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو 14 اگست سے آپریشنل کیے جانے کا امکان ہے جس کے لیے تیاریاں مکمل کر لی گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو 14 اگست سے فعال کیے جانے کا امکان ہے جس کی تمام تر تیاریاں مکمل کر لی گئیں۔

    ذرائع نے بتایا کہ نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی سافٹ لانچنگ وزیراعظم شہبازشریف کریں گے، کراچی سے پی آئی اے کی خصوصی پرواز ایئرپورٹ پر بطور پہلی پرواز لینڈ کریگی۔

    ذرائع نے بتایا کہ نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر محتاط اندازے کے مطابق 54 ارب 98 کروڑ روپے کی لاگت آئی ہے، گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے رن وے عالمی معیار کے مطابق بنائے گئے ہیں جس پر ایئر بس 380 سمیت دیگر بڑے طیارے بھی لینڈ کر سکتے ہیں۔

    واضح رہے کہ گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا اہم منصوبہ ہے، چین کے اشتراک سے سول ایوی ایشن اتھارٹی نے ایئرپورٹ تعمیر کیا گیا ہے۔

  • سمندر میں نیوی اور پی ایم ایس اے کی منفرد بوٹ ریلی، قومی ترانے گونجتے رہے

    سمندر میں نیوی اور پی ایم ایس اے کی منفرد بوٹ ریلی، قومی ترانے گونجتے رہے

    کراچی: سمندر میں نیوی کی منفرد بوٹ ریلی نے جشن آزادی کی تقریبات کو چار چاند لگا دیے، ریلی میں شریک شہریوں میں زبردست جوش و خروش دکھائی دیا۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز چودہ اگست کو پاکستان نیوی اور میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی (پی ایم ایس اے) کی جانب سے سمندر میں ایک بوٹ ریلی کا انعقاد کیا گیا، جس میں بٹ شاہ اور بابا آئلینڈ سے جڑے 60 کے لگ بھگ ماہی گیروں کی کشتیوں نے حصہ لیا۔

    یہ ریلی پی این ایس ڈاک یارڈ سے منوڑہ تک نکالی گئی، کراچی چینل میں ہر سو پاکستان زندہ باد کے نعرے گونجتے رہے، اور کشتیوں پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرا کر محبت کا اظہار کیا گیا۔

    ریلی کے دوران سمندری حدود میں قومی ترانے کی آواز ہر سو گونجتی رہی اور بچے ملی نغموں پر پرجوش دکھائی دیے۔

  • قوم کو یوم آزادی مبارک، بہادر افواج سے مل کر دشمن کے عزائم خاک میں ملا دیں گے: وزیر اعظم

    قوم کو یوم آزادی مبارک، بہادر افواج سے مل کر دشمن کے عزائم خاک میں ملا دیں گے: وزیر اعظم

    اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف نے قوم کو یوم آزادی کی مبارک باد دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اپنی بہادر افواج کے ساتھ مل کر دشمن کے عزائم خاک میں ملا دیں گے۔

    اے آروائی نیوز براہِ راست دیکھیں live.arynews.tv پر

    تفصیلات کے مطابق جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد میں پرچم کشائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے، آج ہم یوم آزادی منا رہے ہیں، میں دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانیوں کو دل کی گہرائی سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

    وزیر اعظم نے کہا مشاہیر پاکستان کی عظمت کو سلام جن کی وجہ سے آزاد وطن میسر آیا، یہ ملک آئین، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لیے حاصل کیا گیا تھا، پاکستان ہمارے آبا و اجداد کی عظیم قربانیوں کا ثمر ہے، بہادر افواج سے مل کر دشمن کے عزائم خاک میں ملا دیں گے۔

    شہباز شریف نے کہا میں پاکستان کی ترقی میں اوورسیز پاکستانیوں کے کردار کو سراہتا ہوں، جب قومیں اجتماعی نصب العین طے کرتی ہیں تو پہاڑ اور سمندر بھی ان کا راستہ نہیں روک سکتے، ملکی حصول میں جدوجہد کرنے والی اقلیتوں کی جدوجہد کو بھی سلام پیش کرتے ہیں۔

    انھوں ںے کہا قیام پاکستان کا ایک مقصد مکمل ہو چکا، دوسرامقصد ہنوز جاری ہے، قیام پاکستان کا دوسرا مقصد ہم سب نے مل کر پورا کرنا ہے، دعا ہے مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کو بھی جلد آزادی ملے۔

    31 توپوں کی سلامی سے دن کا آغاز، ملک بھر میں آج 75 واں یوم آزادی جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے

    وزیر اعظم نے کہا نیشنل ڈائیلاگ کی اشد ضرورت ہے، کسی بھی قوم کے لیے اندرونی خلفشار، تقسیم، انتشار سے بڑھ کر کوئی چیز خطرناک نہیں، آزادی کی حفاظت کے لیے خون کا آخری قطرہ تک بہائیں گے۔

    شہباز شریف نے کہا آج کا دن پاکستانی سول سوسائٹی کی خدمات کے اعتراف کا بھی دن ہے، عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر رتھ فاؤ کی خدمات کو بھی خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، وطن عزیز ایک مقدس امانت اور مشن ہے۔

  • 10 اگست 1947ء: کراچی میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا افتتاحی اجلاس

    10 اگست 1947ء: کراچی میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا افتتاحی اجلاس

    ہندوستان میں مسلمانوں کی تحریکِ آزادی کی طویل جدوجہد کے دوران کئی تاریخ ساز موڑ اور یادگار لمحات آئے جن کا تذکرہ عظیم اور لازوال قربانیوں کی یاد دلاتے ہوئے حصولِ پاکستان کی داستان کو مکمل کرتا ہے۔ آج ایک ایسا ہی تاریخی دن ہے جب 1947ء میں کراچی میں سندھ اسمبلی کی موجودہ عمارت میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا افتتاحی اجلاس منعقد کیا گیا تھا۔

    اس تاریخی اجلاس کی صدارت وزیرِ قانون جوگندر ناتھ منڈل نے کی اور اجلاس کی کارروائی کا آغاز مولانا شبیر احمد عثمانی نے تلاوتِ قرآن کریم سے کیا تھا۔ 14 اگست 1947ء تک جاری رہنے والے اس اجلاس کی کارروائی میں کئی اہم فیصلے کیے گئے۔

    10 اگست سے شروع ہونے والے اجلاس میں مشرقی بنگال کے 44، پنجاب کے 17، سرحد کے 3، بلوچستان کے ایک اور صوبہ سندھ کے 4 نمائندے شریک تھے جنھوں نے قائدِاعظم محمد علی جناح کو اسمبلی کا پہلا صدر اور مولوی تمیز الدین کو پہلا اسپیکر منتخب کیا۔

    اجلاس میں طے پایا کہ جب تک پاکستان کا مستقل آئین تیار نہیں ہوتا اس وقت تک گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کو بعض ترامیم کے ساتھ پاکستان کے آئین کی شکل دی جائے۔

    پاکستان کی یہ پہلی دستور ساز اسمبلی 24 اکتوبر 1954ء تک قائم رہی۔

  • تحریکِ‌ پاکستان: علمائے کرام جو قائدِ اعظم کا دست و بازو بنے

    تحریکِ‌ پاکستان: علمائے کرام جو قائدِ اعظم کا دست و بازو بنے

    تحریکِ پاکستان کو کام یابی سے ہم کنار کرنے میں مشائخِ عظام و علمائے کرام کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔

    تاریخ گواہ ہے کہ برِّصغیر کے علما اور مختلف خانقاہوں سے وابستہ مشائخِ عظام نے قائدِاعظم محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کی کوششوں اور ان کے حقیقی کردار کی بدولت ہندوستان کے بطن سے ایک آزاد اور اسلامی ریاست نے جنم لیا۔

    مفکّرِ پاکستان، شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے برّصغیر کے مسلمانوں کے لیے جس آزاد اسلامی اور فلاحی ریاست کا خواب دیکھا تھا، اسے شرمندہ تعبیر کرنے کا سہرا بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناحؒ کے سَر ہے۔

    تحریکِ پاکستان میں لاکھوں مسلمانوں نے بے شمار اور ناقابلِ فراموش قربانیاں پیش کیں اور اس تحریک میں علمائے کرام کی خدمات بھی سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ یہ علما اور صوفی بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کے دست و بازو تھے۔ یہاں ہم تحریکِ پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والے چند علمائے کرام کا تذکرہ کررہے ہیں۔

    پیر جماعت علی شاہ: آپ نے تحریکِ پاکستان میں بھرپور حصّہ لیا اور قائداعظم محمد علی جناح سے رابطہ و مشاورت میں پیش پیش رہے۔ آپ مسلم لیگ اور قائدِاعظمؒ پر مکمل اعتماد کا اعلان کرتے ہوئے تحریک کو آگے بڑھانے میں ہر طرح سے ممد و معاون ثابت ہوئے۔ وائسرائے ہند کے نام تار میں آپ نے فرمایا ’’مسلم لیگ‘‘ مسلمانانِ ہند کی واحد نمائندہ جماعت ہے اور قائدِاعظم محمد علی جناح اسلامیانِ ہند کے واحد لیڈر ہیں۔ ایگزیکٹو کونسل کے مسلم ارکان کی نام زدگی مسلم لیگ اور قائدِاعظم کا کام ہے۔ طول و عرضِ ہندوستان میں میرے لاکھوں مرید مسلم لیگ کے ساتھ ہیں۔

    مولانا عبدالحق بدایونی: تحریک پاکستان کے ہراول دستے میں شامل مولانا صاحب نے لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخ ساز اجلاس میں قراردادِ پاکستان پیش کرنے کی بھرپور تائید کی اور اپنے رفقا سمیت قراردادِ پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا۔ برطانوی ہند میں انتخابات کے موقع پر آپ کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ آپ نے یو پی، بہار،اڑیسہ، بنگال، آسام، بمبئی، سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے دور افتادہ علاقے میں جا کر مسلمانوں کو مسلم لیگ کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ کیا۔ صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں قائداعظم نے مسلم لیگ کے جس وفد کو بھیجا تھا اس میں مولانا بدایونی شامل تھے۔

    شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی: تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لینے والوں میں ایک نام شاہ صاحب کا بھی ہے جنھوں نے قائدِاعظم سے کئی ملاقاتیں کیں جس میں اسلامیانِ ہند کے لیے الگ ریاست اور مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتے ہوئے دنیا بھر میں اہم شخصیات اور بالخصوص مسلمانوں کی اس حوالے سے تائید اور حمایت حاصل کرنے کے لیے کوششوں پر مفید بات چیت ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم کے کہنے پر آپ نے اپنے بیرونِ ممالک اپنے دوروں میں عالمی راہ نماؤں کو پاکستان کے قیام کی کوششوں کی ضرورت اور اس کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا۔

    علّامہ سید احمد سعید کاظمی: ہندوستان کے علما میں ایک نام کاظمی صاحب کا ہے جنھوں نے آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس جس میں لاکھوں لوگ اور ہزاروں علمائے کرام شریک ہوئے تھے، اپنی شرکت یقینی بنائی اور کانفرنس میں تشریف لائے جس سے اس وقت ہند بھر میں ان کے ماننے والوں تک بھی تحریکِ پاکستان کا مقصد پہنچا اور اسے تقویت ملی۔ 27 اپریل 1946ء کو منعقدہ آل انڈیا سنی کانفرنس کو جدوجہدِ آزادی میں ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔

    مجاہدِ ملّت مولانا عبدالستار خان نیازی: مولانا نیازی نے علامہ محمد اقبال کے حکم پر ’’مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن‘‘ کی بنیاد رکھی اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ تحریک پاکستان کے لیے بہت کام کیا۔ آپ کی بانی پاکستان کے ساتھ خط و کتابت اور ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ قائدِاعظم نے آپ کے لیے فرمایا ’’جس قوم کے پاس نیازی جیسے نوجوان ہوں، اسے پاکستان بنانے سے کون روک سکتا ہے۔‘‘

    ہندوستان کے مسلمانوں کی آزادی کی تحریک کے قافلے میں یوں تو مجاہدوں، قائداعظم کے جاں نثاروں، مسلم لیگ کے متوالوں اور آزادی کے لیے کٹ مرنے کا جذبہ رکھنے والوں کی قربانیوں، شبانہ روز محنت، کاوشوں اور ان کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

    ہم نے یہاں فقط چند نام تحریر کیے ہیں جن کے کردار اور کارناموں کی تفصیل کئی ابواب کی متقاضی ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ اس وقت ہر قسم کی مسلکی تفریق اور تمام تر اختلافات کو ایک طرف رکھ کر تمام مکاتبِ فکر کے علمائے کرام نے پاکستان کے قیام کو ایک مذہبی فریضہ قرار دیا اور قائدِ اعظم کی قیادت اور ان کی ہدایت پر علمائے کرام ملک کے طول و عرض میں اپنے ارادت مندوں کو تحریکِ پاکستان کی کام یابی کے لیے اکٹھا کرنے کے لیے پھیل گئے۔

    پیر جماعت علی شاہ، مولانا ابو الحسنات و دیگر، مولانا اشرف علی تھانوی اور ان کے رفقا، مولانا شفیع دیو بندی، مولانا ادریس کاندھلوی، مولانا شبیراحمد عثمانی، مولانا ظفراحمد عثمانی نے اپنے مکتبِ فکر کی قیادت کی، ان علمائے کرام نے عبادت گاہوں، خانقاہوں اور جلسے، جلوس کے دوران اور عام لوگوں سے ملاقاتیں کرکے ان میں آزادی کی اہمیت اجاگر کی جس نے تحریک کو کام یابی سے ہم کنار کیا۔

  • چند قومی یادگاریں جو تحریکِ‌ آزادی کا نقشِ جاوداں ہیں!

    چند قومی یادگاریں جو تحریکِ‌ آزادی کا نقشِ جاوداں ہیں!

    ہندوستان کے مسلمانوں کی لازوال جدوجہد اور تحریکِ پاکستان کے لیے دی گئی بے شمار قربانیوں کی بدولت اس سال ہم 74 واں جشنِ آزادی منائیں گے جس کے لیے تیّاریاں جاری ہیں۔

    14 اگست قریب ہے اور ہر سال کی طرح قومی پرچم اور بانی پاکستان و تحریکِ‌ آزادی کے مجاہدین کی تصاویر سے سرکاری و نجی اداروں کی بلند بالا عمارتیں، گھر اور شہروں کے مرکزی چوراہے اور نمایاں مقامات سجے ہوئے ہیں۔ یہ اس بات علامت ہے کہ ہم زندہ قوموں کی طرح جہاں اپنی تہذ یب و ثقافت، معاشرت اور اقدار کے امین ہیں، یہ اس امر کا اظہار بھی ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے بزرگوں کی جدوجہد اور قربانیوں کو یاد رکھیں گے۔

    یہاں ہم جدوجہدِ آزادی کی عظیم شخصیات اور تحریکِ پاکستان سے متعلق چند قومی یادگاروں کے بارے میں بتارہے ہیں جو آزادی کے ہیروز کی یاد ہی تازہ نہیں‌ کرتیں بلکہ فنِ معماری اور اپنے طرزِ تعمیر کی انفرادیت کے ساتھ انھیں خراجِ تحسین پیش کرنے کی ایک کاوش ہیں۔ ان میں مزارِ قائد، مزارِ اقبال، مینارِ پاکستان اور پاکستان مونومنٹ شامل ہیں۔

    مزارِ قائد
    بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا مقبرہ معروف آرکیٹیکٹ یحیٰ مرچنٹ نے ڈیزائن کیا تھا۔ اس سے قبل چار نقشے رد کر دیے گئے تھے اور1959ء میں مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح کی خواہش پر یحییٰ مرچنٹ نے یہ کام انجام دیا تھا۔

    یحییٰ مرچنٹ نے مزار کے ڈیزائن کا بنیادی کام 28 جنوری 1960ء کو مکمل کیا۔ تعمیر کا آغاز فروری 1960ء میں ہوا تھا۔ 31 جولائی 1960ء کو اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے مزار کا سنگِ بنیاد رکھا تھا- 31 مئی 1966ء میں مزار کا بنیادی ڈھانچہ مکمل کرلیا گیا۔

    قائد اعظم کی آخری آرام گاہ پر مقبرہ تعمیر کرتے ہوئے اس عمارت کے ڈھانچے کو پائیلنگ (جس میں عمارت کے وزن کو زیرِ زمین بنائے گئے کنکریٹ کے ستونوں پر استوار کیا جاتا ہے) پر کھڑا کیا گیا ہے جو ہر قسم کے موسموں کا سامنا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ مزار کی مرکزی عمارت بنیاد سے مربع شکل میں ہے جو کہ اندرونی طرف سے مثمن یعنی ہشت پہلو بنائی گئی ہے۔

    اس مزار کے احاطے میں بانی پاکستان کے سیاسی اور آزادی کے سفر میں شریک رفقا کی قبور بھی ہیں۔ ایک طرف لیاقت علی خان اور دوسری قبر سردار عبد الرّب نشتر اور تیسری قبر محترمہ فاطمہ جناح کی ہے۔

    مزارِ اقبال
    ہندوستان میں مسلمانوں کی عظیم ریاست حیدر آباد دکن کے مشہور اور ماہر معمار صاحبزادہ نواب زین یار جنگ بہادر نے شاعرِ‌ مشرق کے مزار کا ڈیزائن تیّار کیا تھا۔

    اس مزار کی تعمیر کا کام بوجوہ چند سال تاخیر سے شروع ہوا اور ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے اس وقت کی انتظامیہ سے 1946ء میں مزار کی تعمیر کی اجازت حاصل کی۔ اس کی تکمیل 1950ء میں ہوئی۔ نواب زین یار جنگ کو حیدر آباد سے لاہور بلوایا گیا اور انھوں نے علّامہ کی قبر اور محلِ وقوع کا جائزہ لینے کے بعد مزار کا ڈیزائن پیش کیا جس کی منظوری کے بعد چند سال میں تعمیر کا کام مکمل ہوگیا۔

    مینارِ پاکستان
    مینارِ پاکستان ایک قومی یادگار ہے۔ یہ عین اس جگہ واقع ہے جہاں 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ نے قراردادِ پاکستان منظور کی تھی اور اس کے بعد مسلمانانِ برِصغیر کے لیے آزاد و خود مختار ریاست کے قیام کی جدوجہد شروع ہوئی تھی۔

    اس قومی یادگار کے معمار و مصوّر روسی نژاد پاکستانی نصیر الدّین مرات خان تھے۔

    مینارِ پاکستان کا سنگِ بنیاد 23 مارچ 1960ء کو رکھا گیا اور یہ تقریبا 8 سال کے عرصہ میں 21 اکتوبر 1968ء کو پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اس یادگار کے ساتھ ایک وسیع و عریض باغ یا سبزہ زار کے لیے بھی جگہ مخصوص کی گئی تھی۔

    پاکستان مونومنٹ
    پاکستان کے دارُالحکومت اسلام آباد کے مشہور مقام شکرپڑیاں کا مونومنٹ یا یادگارِ پاکستان اُس عظیم جدوجہد اور تحریک کے لیے اپنی جان و مال اور ہر قسم کی قربانیاں دینے والوں کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے جن کی بدولت ہم ایک آزاد وطن کی فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔

    اسلام آباد میں پہاڑیوں پر بنائی گئی یہ یادگار پاکستانی عوام کے اتّحاد کی علامت بھی ہے۔ اسے آرکیٹیکٹ عارف مسعود نے ڈیزائن کیا تھا۔ پاکستان مونومنٹ کی تعمیر کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا اور یہ کام 2004ء میں شروع ہوا اور 23 مارچ 2007 ء میں مکمل کیا گیا۔

  • جدوجہدِ آزادی: شدھی اور سَنگَھٹن تحریکوں نے ہندو انتہا پسند ذہنیت کو بے نقاب کیا

    جدوجہدِ آزادی: شدھی اور سَنگَھٹن تحریکوں نے ہندو انتہا پسند ذہنیت کو بے نقاب کیا

    ناکام غدر کے بعد جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے گھناؤنے اور پُر فریب کردار کو سمیٹ کر برطانیہ نے ہندوستان کو اپنی کالونی بنایا اور یہاں انگریز راج قائم ہوا تو مسلمان اور ہندو سیاسی و سماجی راہ نما اور اکابرین نے متحد ہوکر انگریزوں کو اپنے وطن سے نکالنے اور اپنی حکومت قائم کرنے کا خواب دیکھنا شروع کیا۔

    اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے نعرے نے زور پکڑا، لیکن اس سے قبل کئی واقعات اور سانحات رونما ہو چکے تھے جن سے ثابت ہوتا تھا کہ ہندوستان میں دو بڑی قومیں آباد ہیں جو اپنے مذہب، رہن سہن، روایات اور ثقافت کے اعتبار سے ہر طرح جداگانہ شناخت رکھتی ہیں اور اکٹھے نہیں‌ رہ سکتیں۔

    ہندو مسلم اتحاد کا سنہری خواب تحریکِ خلافت کے دوران ہی ادھورا نظر آنے لگا تھا اور جونہی یہ تحریکِ کم زور پڑی ہندو مسلم فسادات کا ایک طویل اور خوف ناک سلسلہ چل نکلا۔

    1920ء کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہر قسم کے تعلقات بڑھتی ہوئی کشیدگی کی نذر ہونے لگے۔ اس کشیدگی کی انتہا کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1923ء میں 11، اگلے سال 18، 1925ء میں 16 اور اس کے ایک سال بعد یعنی 1926ء میں 35 اور اگلے ہی برس 37 افسوس ناک واقعات رونما ہوئے جو ہندو مسلم فسادات کا نتیجہ تھے۔ ہر سال ایسے واقعات بڑھتے رہے جب کہ چھوٹے اور معمولی نوعیت کی تکرار اور جھگڑے عام ہوتے جارہے تھے۔

    تاریخ سے ثابت ہے کہ ہندو شروع ہی سے مسلمانوں کو اپنا مطیع و حاشیہ نشیں بنا کر رکھنے کا خواب دیکھتے آئے تھے جس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ جس ہندوستان میں‌ رہتے تھے، اس پر صدیوں سے مسلمان حکم رانی کررہے تھے اور دہلی میں ان کا تخت سجا رہا تھا۔

    مغل سلطنت کے کم زور پڑ جانے کے بعد اور انگریزوں کی آمد سے قبل بھی یہاں مختلف چھوٹے بڑے علاقے مسلمان حکم رانوں کے زیرِ‌نگیں تھے اور ریاستوں پر انہی کی حکم رانی تھی۔

    ہندو احساسِ محرومی کا شکار بھی تھے اور خود کو مسلمانوں کا محکوم خیال کرتے تھے جب کہ انھیں مغل دور میں مذہبی اور ہر قسم کی آزادی حاصل تھی۔ ان کی عبادت گاہیں محفوظ تھیں اور وہ اپنے رسم و رواج اور طور طریقوں کے مطابق زندگی بسر کررہے تھے۔

    انگریزوں کی آمد کے بعد مخصوص ذہنیت اور انتہا پسندوں نے ہندو مسلم تعلقات کو خراب کرنے کی کوششیں شروع کیں اور خیال کیا کہ انگریزوں سے ساز باز اور سازشیں کرکے اقتدار حاصل کرسکیں گے۔

    ہندو مسلم تعلقات خراب کرنے کی ابتدا ہندوؤں کی جانب سے ہوئی جنھوں نے پنڈت مدن موہن مالویہ، لالہ لاجپت رائے اور شردھا نند کی قیادت میں سَنگَھٹن اور شدھی تحریکیں شروع کیں۔ سَنگَھٹن کے معنی ایک ساتھ جوڑ کر مضبوطی سے باندھنا تھا۔ اس تحریک کا مقصد ہندوؤں کی تعلیم و تربیت کرنا، انھیں نظم و نسق اور مختلف امور کا ماہر بنانا، اور مخالفین سے اپنا دفاع سکھانا تھا جس کے لیے ایسے اسلحہ کا استعمال بھی سکھایا جاتا جس سے فسادات کی صورت میں مسلمانوں کے خلاف کام لینا مقصود تھا۔ ہندو نوجوانوں کو لاٹھیوں، اینٹوں کے ٹکڑوں اور بنوٹ کا دشمن پر استعمال سکھایا جارہا تھا۔

    دوسری طرف شدھی تحریک کا شور ہونے لگا جس کا مطلب تھا پاک کرنا۔ یعنی وہ لوگ جو اسلام کے ہمہ گیر اور آفاقی نظریات اور اس کی تعلیمات سے متاثر ہوکر ہندو مت ترک کر کے مسلمان ہو گئے تھے انھیں مجبور کرکے دوبارہ ہندو مت میں داخل کر لیا جائے۔

    ان حالات میں ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ محض فریب ہی تھا۔ ان دونوں تحریکوں کا مقصد ہندوستان سے مسلمانوں کے وجود کو مٹانا تھا اور اسے بڑے بڑے ہندو راہ نماؤں کی حمایت حاصل تھی۔

    ایسی تحریکوں کے انتہا پسند ہندو لیڈروں نے مسلمانوں کے بارے میں اپنی ذہنیت کا کھلم کھلا اظہار شروع کردیا تھا اور ڈاکٹر مونجے نے اودھ ہندو سبھا کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ’’جس طرح انگلستان انگریزوں کا، فرانس فرانسیسیوں اور جرمن جرمنوں کا ملک ہے اسی طرح ہندوستان ہندوؤں کا ملک ہے۔‘‘ ہندو چاہتے تھے کہ یا تو مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال دیا جائے یا انھیں ہندو مت قبول کرنے پر مجبور کردیا جائے۔

    جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات وسیع پیمانے پر ہونے لگے اور ان کا دائرہ پھیلتا جارہا تھا اور ہندو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے، لیکن مسلم زعما بالخصوص قائدِاعظم ان مایوس کن حالات میں بھی ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوشاں تھے۔ تاہم جلد ہی انھیں بھی احساس ہو گیا کہ علیحدہ وطن کا حصول ناگزیر ہے۔

    مصوّرِ پاکستان ڈاکٹر علّامہ اقبال کی بات کی جائے تو وہ برطانوی راج میں ہندوستانی آئین کے مطابق مسلمانوں کے لیے جداگانہ طرزِ‌ انتخاب سمیت علیحدہ ریاست کو اُس وقت بھی اہمیت دے رہے تھے جب قائداعظم سمیت دیگر مسلمان راہ نما ہندو مسلم اتحاد کے نعروں کے پیچھے چھپی ہندوؤں کی ذہنیت کا صحیح اندازہ نہیں لگا پائے تھے۔

    علّامہ اقبال نے ایک موقع پر واضح طور پر کہا کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں بحثیت مسلمان زندہ رہنا ہے تو ان کو جلد از جلد اپنی اصلاح و ترقی کے لیے سعی و کوشش کرنی چاہیے اور ایک علیحدہ سیاسی پروگرام بنانا چاہیے۔

    بیسویں صدی كے آغاز پر جو حالات اور فسادات سمیت دیگر واقعات رونما ہوئے تو مسلمان قائدین اور اکابرین نے علیحدہ تشخص کی بات کرتے ہوئے الگ سیاسی پلیٹ فارم بنانے كی کوششیں تیز کردیں اور بے شمار قربانیوں کے بعد پاکستان حاصل کیا۔

  • سعودی عرب: سمندر کی گہرائی میں پاکستانیوں کا سعودی اور شامی دوستوں کے ہمراہ جشن آزادی

    سعودی عرب: سمندر کی گہرائی میں پاکستانیوں کا سعودی اور شامی دوستوں کے ہمراہ جشن آزادی

    جدہ: سعودی عرب کے ساحلی شہر جدہ میں گزشتہ روز پاکستانیوں نے سعودی اور شامی دوستوں کے ہمراہ پاکستان کا یوم آزادی منایا۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں پاکستانی جہاں کہیں بھی موجود ہیں انھوں نے کرونا کی وبا میں بھی احتیاطی تدابیر کے ساتھ اپنے انداز میں جشن آزادی منایا، اس سلسلے میں جدہ کے سمندر میں بھی یوم آزادی منایا گیا اور پاکستان کی 74 ویں سال گرہ کا کیک کاٹا گیا۔

    پاکستانی، سعودی اور شامی ڈائیورز جدہ کے سمندر میں پاکستان کی سالگرہ کا کیک کاٹ رہے ہیں

    جدہ میں موجود پاکستانی ڈائیور یحییٰ اشفاق نے اس منفرد انداز میں یوم آزادی منانے کا انتظام کیا، ڈائیور (غوطہ خور) یحییٰ اشفاق نے جمعے کو جدہ میں بحیرہ احمر کے ساحل کے قریب تین پاکستانی نوجوانوں عمر جان، حسن بخش اور فائز، 2 سعودیوں اور ایک شامی  کے ہمراہ زیر آب پاکستان اور سعودی عرب کے پرچم لہرائے اور کیک کاٹا۔

    غوطہ خوروں نے زیر آب رہتے ہوئے اذان دی اور نماز بھی پڑھی

    پاکستانی اور سعودی نوجوانوں کے ساتھ 7 برس کے چھوٹے بچے باسل نے بھی ڈائیو کر کے وہاں موجود لوگوں کو حیران کر دیا اور اس طرح پاکستان کے ساتھ اپنی دلی وابستگی کا اظہار کیا۔ ڈائیورز نے زیر آب رہتے ہوئے اذان بھی دی اور باجماعت نماز پڑھی۔

    ڈائیور یحیٰ اشفاق اپنے دوستوں کے ہمراہ زیر آب جانے کو تیار

    تمام غوطہ غوروں نے اپنی اس کاوش کو کرونا وائرس کے خلاف فرنٹ لائن پر موجود ڈاکٹرز اور طبی عملے کے نام کیا، اس موقع پر تمام ڈائیورز نے فرنٹ لائن ورکرز کی کٹ پہن رکھی تھی۔

    یحییٰ اشفاق نے کہا کہ میں اپنے دوستوں کے ہمراہ ہر سال پاکستان کا یوم آزادی اس منفرد انداز کے ساتھ منا رہا ہوں اور اس بار کرونا کی وبا میں بھی یہ روایت برقرار رکھی ہے، اس بار کا ایک مقصد کرونا وائرس سے آگہی بھی تھا۔

    کم سن بہنوں نے 14 اگست منفرد انداز میں منا کر مثال قائم کر دی