Tag: 14 مارچ وفات

  • معروف ادیب، صحافی اور سیاست داں پیر علی محمد راشدی کا یومِ وفات

    معروف ادیب، صحافی اور سیاست داں پیر علی محمد راشدی کا یومِ وفات

    پاکستان کے ممتاز سیاست دان، صحافی، مؤرخ، سفارت کار اور ادیب پیر علی محمد راشدی 14 مارچ 1987ء کو وفات پاگئے تھے۔ وہ تحریکِ پاکستان کے کارکن اور قائد اعظم محمد علی جناح کے رفقا میں سے ایک تھے جنھوں‌ نے قیامِ پاکستان کے بعد مختلف سرکاری عہدوں پر خدمات انجام دیں۔

    علی محمد راشدی کو ایک نہایت قابل علمی اور ادبی شخصیت اور زیرک سیاست داں مانا جاتا ہے، انھوں نے اردو، انگریزی اور سندھی زبانوں میں لکھا اور صحافت سے سیاست سے اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو منوایا۔

    1905ء میں‌ ضلع لاڑکانہ کے چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہونے والے پیر علی محمد راشدی کو وفات کے بعد کراچی میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ہر شخص کی زندگی خوبیوں اور خامیوں کا مرقع ہوتی ہے اور پیر علی محمد راشدی بھی اپنی علمی و ادبی حیثیت، سیاسی مرتبے اور قابلیت و صلاحیت کے باوجود مطعون کیے جاتے رہے اور مختلف حلقوں میں ناپسندیدہ رہے، لیکن علم و ادب کے حوالے سے ان خدمات کا دائرہ وسیع ہے جس کا اعتراف بھی کیا جاتا ہے۔

    ان کی چند کتابوں‌ میں رودادِ چمن (اردو)، فریادِ سندھ (سندھی)، چین جی ڈائری (سندھی)، ون یونٹ کی تاریخ (اردو)، کراچی کی کہانی (اردو) شامل ہیں جب کہ ان کے کئی مضامین اردو اور انگریزی زبان میں مختلف اخبار اور جرائد کی زینت بنے۔

  • عالمی شہرت یافتہ طبیعیات داں اسٹیفن ہاکنگ کا یومِ وفات

    عالمی شہرت یافتہ طبیعیات داں اسٹیفن ہاکنگ کا یومِ وفات

    شہرۂ آفاق سائنس داں اسٹیفن ہاکنگ کو دنیا سے رخصت ہوئے تین برس بیت گئے۔ وہ 14 مارچ 2018ء کو لندن میں وفات پاگئے تھے۔ پروفیسر اسٹیفن ہاکنگ نے دنیا کو کائنات کے راز سمجھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں آئن سٹائن کے بعد گزشتہ صدی کا دوسرا بڑا سائنس داں کہا جاتا ہے۔

    اسٹیفن ہاکنگ کو ان کی کتاب "اے بریف ہسٹری آف ٹائم” سے بین الاقوامی شہرت ملی۔ 8 جنوری 1942ء کو پیدا ہونے والے اسٹیفن ہاکنگ نے نوجوانی میں زندگی کا بدترین اور تکلیف دہ موڑ دیکھا جب انھیں‌ موٹر نیوران جیسی مہلک اور جسم کو مفلوج کردینے والی بیماری لگی۔ اس وقت وہ 21 سال کے تھے۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھاکہ وہ مزید دو سال زندہ رہ سکیں گے، لیکن اس نوجوان نے اپنی مضبوط قوّتِ ارادی اور ہمّت سے کام لے کر دنیا کو حیران کردیا، وہ اس مرض کے ساتھ لڑتے ہوئے 55 سال تک کائنات کو کھوجتے اور دنیا کو اس بارے میں بتاتے، سکھاتے رہے۔ وہ جسمانی طور پر حرکت کرنے سے محروم اور ان کے اعضا مفلوج رہے، لیکن ان کا ذہن متحرک و بیدار رہا جس کا انھوں نے بھرپور استعمال کیا۔

    کائنات کے کئی رازوں سے پردہ اٹھانے والے اس باکمال سائنس داں کی زندگی ایک کرسی اور ایک کمپیوٹر اسکرین تک محدود رہی۔ وہ نہ صرف چلنے پھرنے سے قاصر تھے، بلکہ قوّتِ گویائی سے بھی محروم تھے۔

    اسٹیفن ہاکنگ نے اپنی معذوری کو طاقت بنایا اور ریاضیات، طبیعات اور کونیات پر اپنی تحقیق و جستجو کا نچوڑ کتابی شکل میں دنیا کو دے گئے، انھوں نے آئن اسٹائن کے نظریہ اضافت کی تشریح کے علاوہ بلیک ہول سے تابکاری کے اخراج پر اپنا سائنسی نظریہ پیش کیا جو آنے والوں کے لیے کائنات کو سمجھنے اور اسے مسخّر کرنے میں‌ مددگار ثابت ہورہا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ کی دل چسپی اور تحقیقی سرگرمیوں کا مرکز اور محور علمِ طبیعیات اور اس کے موضوعات تھے۔

    اسٹیفن ہاکنگ کا انتقال 76 سال کی عمر میں ہوا۔ خصوصاﹰ بلیک ہول کی پرسراریت اور وقت سے متعلق ان کا کام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

  • پنجابی زبان کے معروف شاعر اور فلمی نغمہ نگار ایف ڈی شرف کی برسی

    پنجابی زبان کے معروف شاعر اور فلمی نغمہ نگار ایف ڈی شرف کی برسی

    آج پنجابی زبان کے معروف شاعر اور فلمی نغمہ نگار ایف ڈی شرف کی برسی ہے۔ وہ 14 مارچ 1955ء کو لاہور میں انتقال کرگئے تھے۔ ان کا پورا نام فیروز الدین شرف تھا، لیکن ادب کی دنیا اور فلم نگری میں ایف ڈی شرف کے نام سے مشہور ہوئے۔

    ایف ڈی شرف 1898ء میں تولا ننگل، ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ اس زمانے میں تحریکِ خلافت زوروں‌ پر تھی اور ہندوستان کے دوسرے مسلمانوں کی طرح نوجوان فیروز الدّین شرف بھی اس تحریک میں فعال رہے۔ بعد میں‌ وہ تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن بنے۔

    ایف ڈی شرف نے اپنے زمانے کے پنجابی زبان کے مشہور شاعر استاد محمد رمضان ہمدم کی شاگردی اختیار کی اور مشقِ سخن جاری رکھی۔ "تیرے مکھڑے دا کالا کالا تل وے” وہ فلمی گیت ہے جو پاکستان ہی نہیں سرحد پار بھی مقبول ہوا۔ ان کے دیگر فلمی گیت بھی لازوال ثابت ہوئے اور ایف ڈی شرف نے ہندوستان بھر میں‌ شہرت حاصل کی۔

    ایف ڈی شرف نے‌ ہیر سیال، سسی پنوں، چوہدری، مندری، چن وے، پتن، دُلا بھٹی، بلو اور بلبل جیسی فلموں‌ کے لیے نغمات لکھے۔ ان کا مدفن لاہور میں‌ ہے۔

  • معروف شاعرہ شہناز نُور دنیا سے رخصت ہوگئیں

    معروف شاعرہ شہناز نُور دنیا سے رخصت ہوگئیں

    معروف شاعرہ شہناز نُور کراچی میں انتقال کرگئیں۔ شہناز نور نے اپنی خوب صورت شاعری سے جہانِ سخن میں نام و مقام بنایا اور اپنے دل کش ترنم کے سبب بھی ادبی حلقوں اور باذوق سامعین میں مقبولیت حاصل کی۔

    14 مارچ 2021ء کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لینے والی شہناز نور 10 نومبر 1947ء کو پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد بھی صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ شہناز نور نے سکھر میں قیام کے دوران تعلیم مکمل حاصل کی۔ ادبی ماحول میں پروان چڑھنے والی شہناز نور کو بھی ابتدائی عمر ہی سے شاعری کا شوق ہوگیا تھا۔ انھوں نے پہلا شعر 13 برس کی عمر میں کہا تھا۔ یہ مشقِ سخن جاری رہی اور شہناز نور کی پہلی غزل رسالہ ’’کلیم‘‘ میں 1974ء میں شائع ہوئی۔

    شہناز نور نے اپنا کلام شعری مجموعے ’’نشاطِ ہجر‘‘ میں یکجا کیا تھا۔ ان کا یہ مجموعہ 2004ء میں منظرِعام پر آیا۔ یہاں ہم ان کی ایک غزل نقل کررہے ہیں‌ جس کا مطلع بہت مشہور ہوا۔

    کسی سے ہاتھ کسی سے نظر ملاتے ہوئے
    میں بجھ رہی ہوں روا داریاں نبھاتے ہوئے

    کسی کو میرے دکھوں کی خبر بھی کیسے ہو
    کہ میں ہر ایک سے ملتی ہوں مسکراتے ہوئے

    عجیب خوف ہے اندر کی خامشی کا مجھے
    کہ راستوں سے گزرتی ہوں گنگناتے ہوئے

    کہاں تک اور میں سمٹوں کہ عمر بیت گئی
    دل و نظر کے تقاضوں سے منہ چھپاتے ہوئے

    نہیں ملال کہ میں رائیگاں ہوئی ہوں نورؔ
    بدن کی خاک سے دیوار و در بناتے ہوئے