Tag: 14 نومبر وفات

  • یومِ وفات: خورشید اختر کا تذکرہ جنھیں فلمی پردے پر شیاما کے نام سے شہرت ملی

    یومِ وفات: خورشید اختر کا تذکرہ جنھیں فلمی پردے پر شیاما کے نام سے شہرت ملی

    سید شوکت حسین رضوی اپنی فلم ’’زینت‘‘ کی عکس بندی کررہے تھے اسٹوڈیو میں قوّالی کا منظر عکس بند کیا جارہا تھا۔ وہاں ایک اسکول کی چند طالبات بھی موجود تھیں جن میں خورشید اختر بھی شامل تھی۔ یہ 1945ء کی بات ہے۔

    شوکت حسین رضوی نے خورشید اختر کو قوّالی میں شامل کرلیا۔ ریلیز کے بعد اس فلم نے ہندوستان بھر میں زبردست کام یابی سمیٹی اور وہ قوّالی بہت مقبول ہوئی۔ اس کے بول تھے، ’’آہیں نہ بھریں، شکوہ نہ کیا۔‘‘ اسی فلم نے خورشید اختر کو شیاما کے نام سے بڑے پردے پر نام و مقام بنانے کا موقع دیا۔

    شیاما نے 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں متعدد فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے اور شہرت پائی۔ ان کا تعلق باغ بان پورہ، لاہور سے تھا۔ وہ ایک متموّل آرائیں خاندان کی فرد تھیں۔ 1935ء میں‌ پیدا ہونے والی شیاما کا خاندان 1945ء میں ممبئی منتقل ہوگیا تھا جہاں انھوں‌ نے فلم نگری میں‌ بحیثیت اداکارہ خوب شہرت پائی۔

    شیاما کی ایک فلم ‘پتنگا’ 1949ء میں ریلیز ہوئی تھی جو اپنے زمانے کی کام یاب ترین اور مشہور فلموں میں سے ایک تھی۔ اس میں شیام، نگار سلطانہ، یعقوب اور گوپ جیسے منجھے ہوئے فن کاروں کے ساتھ شیاما نے بڑے اعتماد سے کام کیا اور فلم سازوں کو متاثر کرنے میں کام یاب رہیں۔

    ہدایت کار وجے بھٹ نے خورشید اختر کو 1953ء میں شیاما کا فلمی نام دیا تھا اور بعد میں وہ اسی نام سے جانی گئیں۔

    شیاما پُرکشش، اور خوب صورت نین نقش کی حامل ہی نہیں‌ ذہین اور پُراعتماد بھی تھیں۔ انھوں نے اپنی عمدہ اداکاری سے جہاں فلم بینوں کے دل جیتے، وہیں اپنے اعتماد اور ذہانت کے سبب فلم سازوں کو بھی متاثر کرنے میں کام یاب ہوگئیں۔ ان میں‌ اپنے زمانے کے باکمال اور نام وَر ہدایت کار اے آر کار دار اور گرو دَت بھی شامل تھے۔ گرو دَت نے شیاما کو اپنی فلم ‘آرپار’ میں کاسٹ کیا جس کی کام یابی نے شیاما کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ 1954ء کی اس فلم کے گیت بہت مقبول ہوئے جب کہ شیاما کی اداکاری کو شائقین نے بے حد سراہا۔

    شیاما کی ایک کام یاب ترین فلم ضیا سرحدی کی ‘ہم لوگ’ تھی جو سال 1951ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں ان پر فلمائے گئے گیت ‘چھن چھن چھن باجے پائل موری’ کو بہت سراہا گیا۔ اداکارہ شیاما نے 200 سے زائد فلموں میں کام کیا۔

    ان کی مشہور فلموں میں برسات کی رات، ترانہ، ساون بھادوں، پائل کی جھنکار، اجنبی، نیا دن نئی رات، تقدیر، بھابی و دیگر شامل ہیں۔

    1957ء کی فلم ‘شاردا’ کے لیے شیاما کو بہترین معاون اداکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ شیاما نے 1953ء میں ایک سنیماٹو گرافر سے شادی کی تھی۔ وہ آخری بار سلور اسکرین پر فلم ‘ہتھیار’ میں نظر آئی تھیں۔ انھوں نے 82 سال کی عمر پائی اور 14 نومبر 2017ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ وہ ممبئی میں‌ مقیم تھیں اور وہیں‌ ایک قبرستان میں‌ ان کی تدفین کی گئی۔

  • پنجابی فلموں کے مقبول اداکار اقبال حسن کی برسی

    پنجابی فلموں کے مقبول اداکار اقبال حسن کی برسی

    آج اقبال حسن کی برسی ہے جو 1984ء میں کار کے حادثے میں‌ زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔

    پاکستانی فلمی صنعت کے اس مشہور و معروف اداکار کے تذکرے کے ساتھ ہی اسلم پرویز کی جدائی کا زخم بھی تازہ ہو جاتا ہے جو کار میں اُن کے ساتھ تھے۔ اس حادثے میں شدید زخمی ہو جانے والے اسلم پرویز بھی ایک ہفتے بعد خالقِ‌ حقیقی سے جاملے۔

    اقبال حسن فلم جھورا کی عکس بندی کے بعد اپنے ساتھی اداکار کے ساتھ فیروز پور روڈ، لاہور سے اپنی کار میں گزر رہے تھے جو ایک ویگن سے ٹکرا گئی۔ اس تصادم کے نتیجے میں اقبال حسن جاں بحق ہوگئے تھے۔

    پاکستان کی فلمی تاریخ میں یوں تو پنجابی فلموں کے ٹائٹل کردار نبھا کر کئی فن کاروں نے نام پیدا کیا، لیکن جو مقام فلم ’’شیر خان‘‘ کی ریلیز کے بعد اقبال حسن کو ملا، وہ ایک مثال ہے۔

    فلم انڈسٹری میں اقبال حسن نے اپنے کیریئر کے دوران 285 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور مقبول ہوئے۔ ان کی فلمی زندگی کا آغاز ہدایت کار ریاض احمد کی پنجابی فلم سستی پنوں سے ہوا تھا۔ انھوں نے چند اردو فلموں میں بھی کام کیا لیکن ان کی وجہِ شہرت علاقائی زبان میں بننے والی فلمیں ہی بنیں۔ وہ بلاشبہ پنجابی فلموں کے ایک مقبول اداکار تھے۔

    اقبال حسن کی مشہور فلموں میں یار مستانے، سر دھڑ دی بازی، وحشی جٹ، طوفان، گوگا شیر، وحشی گجر، شیرتے دلیر، دو نشان، سر اچے سرداراں دے، میری غیرت تیری عزت، ہتھکڑی ،ایمان تے فرنگی، بغاوت، سجن دشمن، مرزا جٹ، شامل ہیں۔

  • عالمِ دین، شعلہ بیاں مقرر شاعر اور مصنّف مولانا ظہورُ‌الحسن درس کا یومِ وفات

    عالمِ دین، شعلہ بیاں مقرر شاعر اور مصنّف مولانا ظہورُ‌الحسن درس کا یومِ وفات

    مولانا ظہورُ الحسن اسلامیانِ ہند کے خیر خواہ اور ایسے راہ نما تھے جنھوں نے تحریکِ پاکستان اور مسلم لیگ کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔ انھیں قائدِ اعظم محمد علی جناح نسبتِ خاطر رہی۔ وہ ایک باکردار، جرأت مند، کھرے اور سچّے انسان مشہور تھے۔

    مولانا ظہورُ‌الحسن عالمِ دین اور شعلہ بیاں خطیب ہی نہیں شاعر اور متعدد کتب کے مصنّف بھی تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    وہ 9 فروری 1905ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ ظہورُ الحسن کے والد بھی اپنے وقت کے جیّد و نام وَر عالمِ دین تھے۔ مولانا نے اپنے بزرگوں کے قائم کردہ مدرسہ میں تعلیم حاصل کی۔

    مولانا ظہور الحسن درس نے بھی اپنے والد کی طرح عالمِ دین بننے کے بعد مسلمانوں کی دینی تعلیم و تربیت اور راہ نمائی میں مشغول ہوگئے۔ انھوں نے بعد میں بندر روڈ کراچی میں واقع عید گاہ میں ہر جمعہ اور عیدین کے اجتماعات میں‌ امامت و خطابت کی اور اپنے علم سے لوگوں کی راہ نمائی اور فکروعمل سے ان کے لیے مثال بنے۔

    بندر روڈ کا عید گاہ میدان، برصغیر کے مسلمانوں کی مذہبی و سیاسی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ تحریکِ پاکستان کے سلسلے میں 11 اکتوبر 1938ء کو صوبائی مسلم لیگ کانفرنس قائد اعظم محمد علی جناح کی زیرِ صدارت اسی میدان میں منعقد ہوئی تھی۔ 15 اکتوبر 1939ء کو علامہ درس کی کاوشوں سے اسی جگہ ایک تاریخی جلسہ بھی منعقد ہوا جس میں پاک و ہند سے صفِ اوّل کے راہ نماؤں اور علما نے شرکت کی۔ 15 دسمبر 1941ء کو اسی عید گاہ میں علامہ ظہور الحسن درس کی صدارت میں کراچی مسلم لیگ کانفرنس منعقد ہوئی۔

    قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد میں بھی نمازِ جمعہ و عیدین کا سب سے بڑا اجتماع اسی عید گاہ میدان میں ہوا کرتا تھا اور یہ علامہ درس کی سحر انگیز شخصیت کا کمال تھا کی لوگ دور دراز کے علاقوں سے آتے اور ان اجتماعات میں شرکت کرتے۔

    قیام پاکستان کے چند دن بعد 18 اگست 1947ء کو عید الفطر کے موقع پر نمازیوں کا ایک عظیم الشّان اجتماع اسی عید گاہ میں ہوا، جس میں قائدِاعظم محمد علی جناح، نواب زادہ لیاقت علی خان، سردار عبدالرّب نشتر، خواجہ ناظم الدین، راجہ غضنفر علی خان، حسین شہید سہروردی و دیگر اہم حکومتی شخصیات اور اکابرینِ ملت نے مولانا درس کی اقتدا میں نمازِ عید ادا کی اور خطبہ سنا۔

    مولانا ظہور الحسن درس 14 نومبر 1972ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ وہ قبرستان مخدوم صاحب، کراچی میں آسودۂ خاک ہیں۔