Tag: 15 اکتوبر وفات

  • ماضی کی معروف اداکارہ سلونی کی برسی

    ماضی کی معروف اداکارہ سلونی کی برسی

    27 نومبر 1964ء میں ‘غدار’ بڑے پردے پر نمائش کے لیے پیش کی گئی اور فلم کے ساتھ ہی سلونی کا انڈسٹری اور شائقینِ سنیما سے تعارف ہوا۔ 1970ء میں سلونی کے مداحوں کو اخبارات کے ذریعے معلوم ہوا کہ انھوں نے خودکشی کی کوشش کی تھی، مگر ڈاکٹروں نے موت کے منہ میں جانے سے بچا لیا ہے۔

    اداکارہ سلونی کو اپنے دور کے مشہور فلم ساز اور ہدایت کار باری ملک سے محبّت ہوگئی تھی اور عشق میں ناکامی پر دلبرداشتہ ہوکر انھوں نے اپنی جان لینے کی کوشش کی تھی۔ باری ملک نے اس واقعے کے بعد سلونی سے شادی کرلی اور کاروبار کے سلسلے میں 25 برس متحدہ عرب امارات میں اپنی اہلیہ سلونی کے ساتھ گزارے۔

    پاکستانی فلمی صنعت کی معروف اداکارہ سلونی نے 15 اکتوبر 2010ء کو یہ دنیا چھوڑ دی۔ آج ماضی کی اس اداکارہ کی برسی ہے۔

    1943ء میں راولپنڈی میں پیدا ہونے والی اداکارہ نے فلم نگری میں‌ خود کو سلونی کے نام سے متعارف کروایا۔ انھیں مشہور فلم ساز فضل احمد کریم فضلی نے اپنی فلم میں سائڈ رول کے لیے منتخب کیا تھا، لیکن اس فلم کی ریلیز سے قبل 1964ء میں اداکارہ سلونی کی ایک اور فلم ’’غدار‘‘ سنیما کے پردے پر سج گئی اور یوں یہی فلم اس اداکارہ کا شائقین سے پہلا تعارف ثابت ہوئی۔

    سلونی نے اپنے فلمی کیریئر میں 67 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے جن میں 36 اردو اور 31 فلمیں تھیں۔ اداکارہ کی مقبول فلموں میں کھوٹا پیسا، عادل، باغی سردار، حاتم طائی، درندہ، چن مکھناں، دل دا جانی، لٹ دا مال، بالم، چھین لے آزادی سرفہرست ہیں۔

    فلم انڈسٹری کی سلونی نے کراچی میں‌ اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔ وہ یہاں اپنی ایک صاحبزادی کے ہاں مقیم تھیں اور علالت کے سبب ایک اسپتال میں زیرِ علاج تھیں۔ ان کا جسدِ خاکی لاہور لے جایا گیا اور وہیں‌ ان کی تدفین کی گئی۔

  • بے باک رقاصہ اور بہادر جاسوس ماتا ہری کے درد ناک انجام کی کہانی

    بے باک رقاصہ اور بہادر جاسوس ماتا ہری کے درد ناک انجام کی کہانی

    کہتے‌ ہیں ماتا ہری نے ایک زمانے میں یورپ کے دارالحکومتوں کو اپنے قدموں پر جھکا رکھا تھا۔ کیا وزیر، مشیر، امرا و صنعت کار اور جنرل سبھی اس کے دیوانے تھے۔ وہ رقص میں بے بدل اور اپنے زمانے کی سلیبرٹی تھی۔

    حسین و جمیل ماتا ہری کو رجھانے کا فن آتا تھا۔ وہ نیم عریاں رقص کے لیے مشہور تھی۔ اس نے سبھی کو اپنی اداؤں سے مار رکھا تھا۔ دولت اور ہر قسم کی آسائش اس کے قدموں میں تھی۔ رقص کی ماہر اور بے باک ماتا ہری کو پہلی جنگِ عظیم کے دوران جاسوسہ اور ڈبل ایجنٹ بن کر کام کرنا پڑا اور یہی اس کی موت کی وجہ بنا۔

    گرفتاری اور ‘الزامات’ ثابت ہونے کے بعد 15 اکتوبر 1917ء کو اس کی موت کی سزا پر عمل کرتے ہوئے شوٹ کردیا گیا۔ مشہور ہے کہ ماتا ہری نے فائرنگ اسکواڈ کو اپنی آنکھوں پر پٹی باندھنے سے منع کردیا تھا۔

    وہ نیدر لینڈز میں کے شہر لیووارڈن میں‌ پیدا ہوئی۔ مخلوط النسل مارگریٹ زیلے کا سنِ پیدائش 1876ء ہے جو ماتا ہری کے نام سے معروف ہے۔ یہ انڈونیشیائی زبان سے آیا ہوا نام تھا جہاں وہ کم عمری میں شادی کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ مقیم تھی۔ اس کی یہ شادی زیادہ عرصہ نہ چل سکی اور وہ رشتہ ختم کرکے فرانس چلی گئی۔

    وہ ایک ولندیزی تاجر کی بیٹی تھی، جس نے ایک فوجی افسر سے اسے بیاہ دیا، لیکن 26 سال کی ماتا ہری یہ تعلق توڑ کر پیرس پہنچ گئی۔ وہاں پیٹ بھرنے کے لیے اس نے اپنے حسن اور اداؤں کا سہارا لیا اور ایک کلب میں رقص کرنے لگی۔ جلد ہی اس کے حسن و جمال اور نیم عریاں رقص کا یورپ بھر میں چرچا ہونے لگا۔ اور بعد کے برسوں میں‌ وہ باکمال رقاصہ کہلائی۔ لیکن چند سال بعد اس کی کشش نجانے کیوں ماند پڑ گئی۔ اس دوران اس کے مال و آسائش میں بھی کمی آئی اور وہ مقروض ہوگئی۔ اپنی زندگی کے اسی موڑ پر ماتا ہری نے جاسوسہ بننے کا فیصلہ کیا۔

    ایک جرمن سفارت کار نے اس کو فرانس کے راز جرمن حکومت کو فراہم کرنے پر آمادہ کر لیا تھا۔ ماتا ہری کو پیسے سے غرض تھی۔ وہ اب بھی اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ آسانی سے فرانس کے اعلیٰ حکام اور فوج کے افسران تک رسائی حاصل کرسکتی تھی۔

    یہ سلسلہ شروع ہوا تو ماتا ہری نے فرانسیسی خفیہ ایجنسیوں سے بھی رقم بٹورنے کا سوچا اور خود کو جاسوسی کے کام کے لیے پیش کردیا۔ فرانسیسی حکام کو کسی وقت اس پر شبہ ہو چکا تھا کہ وہ جرمنوں کے لیے کام کررہی ہے۔ تاہم اسے متعدد مشن دیے گئے اور ساتھ ہی اس کی نگرانی بھی کی جانے لگی اور ایک دن اسے گرفتار کرلیا گیا۔