Tag: 15 ستمبر وفات

  • مشہور سیرت نگار، مؤرخ اور ہندوستانی اسکالر محمد یاسین مظہر صدیقی ندوی کی برسی

    مشہور سیرت نگار، مؤرخ اور ہندوستانی اسکالر محمد یاسین مظہر صدیقی ندوی کی برسی

    2020ء میں آج ہی کے دن پروفیسر ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی ندوی کے انتقال کی خبر آئی تھی اور علمی و ادبی اور دینی حلقوں کی جانب سے اس پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا تھا۔ آج ان کا یومِ‌ وفات ہے۔

    وہ ہندوستان کے نام وَر مسلم اسکالر، مشہور سیرت نگار اور مؤرخ تھے جنھوں نے تصنیف و تالیف کردہ کئی کتابیں یادگار چھوڑی ہیں۔

    26 دسمبر 1944ء کو پیدا ہونے والے پروفیسر مظہر صدیقی کا تعلق برطانوی ہند کی ریاست اتر پردیش کے ضلع لکھیم پور سے تھا۔ ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی، بعد ازاں روایتی دینی تعلیم کے لیے لکھنؤ کے دار العلوم ندوۃُ العلماء میں داخلہ لیا اور 1959ء میں وہاں سے اسناد حاصل کرنے کے بعد مدارجِ تعلیمی طے کرتے ہوئے یونیورسٹی سے 1965ء میں بی- اے اور 1966ء میں بی-ایڈ کی ڈگری حاصل کی۔

    بعد ازاں انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں سے 1968ء میں ایم-اے تاریخ، 1969ء میں ایم-فل اور 1975ء میں تاریخ ہی کے مضمون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان ادوار میں مرحوم نے اپنے جن اساتذہ سے فیض پایا ان میں ہندوستان کی نابغہ روزگار ہستیاں شامل ہیں۔

    ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی کے تدریسی سفر کا آغاز سن 1970ء سے شروع ہوا۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں بطور ریسرچ اسسٹنٹ تعینات ہوئے۔ 1977ء میں ان کا تقرر اسی شعبہ میں بطور لیکچرار ہوگیا۔ بعد میں "ادارہ علوم اسلامیہ” پہنچے اور 1991ء میں پروفیسر بنائے گئے۔ 1997ء سے 2000ء تک بطور ڈائریکٹر ادارہ علومِ اسلامیہ فرائض سر انجام دیے اور 2006ء میں سبک دوش ہوئے۔

    انھوں نے اسلامی تاریخ اور سیرت پر درجنوں کتابیں اور مضامین و مقالات لکھے۔ سیرت کے بہت سے اہم گوشوں پر ان کی تحقیقات قابلِ قدر ہیں۔ موجودہ دور میں سیرت اور علومِ سیرت کے موضوع پر انھیں اتھارٹی سمجھا جاتا تھا۔ مرحوم کی چند تصانیف میں نبی اکرم اور خواتین ایک سماجی مطالعہ، عہد نبوی کا نظام حکومت، بنو ہاشم اور بنو امیہ کے معاشرتی تعلقات، مصادرِ سیرت النبی، حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی، شخصیت و حکمت کا ایک تعارف، شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی، سر سید اور علو م اسلامیہ شامل ہیں۔

  • حسّانُ الہند، مؤرخِ بے نظیر غلام علی آزاد بلگرامی کا تذکرہ

    حسّانُ الہند، مؤرخِ بے نظیر غلام علی آزاد بلگرامی کا تذکرہ

    غلام علی آزاد بلگرامی ہندوستان کے ایک نہایت عالم فاضل اور بزرگ شخصیت ہیں جنھوں نے شعروادب، تاریخ اور تذکرہ نگاری کے ساتھ اپنے دینی ذوق و شوق اور نہایت اہم اور وقیع موضوعات پر تصنیف و تالیف کے سبب نام و مقام پایا۔

    وہ نواب ناصر جنگ والیِ حیدر آباد دکن کے استاد تھے۔ بلگرام سے اورنگ آباد آئے تھے اور یہاں دربار سے وابستہ ہو گئے۔ انھیں عربی، فارسی، اردو اور ہندی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔

    1704ء میں پیدا ہونے والے غلام علی آزاد کا تعلق بلگرام سے تھا اور اسی نسبت ان کے نام کے ساتھ بلگرامی لکھا جاتا ہے۔ اورنگ آباد میں قیام کے دوران 1786ء میں آج ہی کے دن ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ انھیں حسّانُ الہند بھی کہا جاتا ہے۔

    حضرت غلام علی آزاد بلگرامی بیک وقت مختلف علوم و فنون میں طاق اور متعدد زبانوں پر کامل عبور رکھنے کے باعث اپنے ہم عصروں میں ممتاز ہوئے۔ انھیں نثر و نظم پر یکساں قدرت حاصل تھی۔ وہ تصنیف و تالیف اور شعر و شاعری تک ہی محدود نہ رہے بلکہ علمی میدان میں اپنے افکار و خیالات کے نقش یادگار چھوڑے۔

    ان کی نثری تالیف میں’’شمامہ العنبر فی ما ورد فی الہند من سید البشر‘‘ کے علاوہ سبحۃ المرجان جو دراصل علمائے ہند کا تذکرہ ہے، نہایت وقیع و مستند کتاب ہے۔ اسی طرح یدِ بیضا، جو عام شعرا کے تذکرے سے سجائی گئی ہے، خزانۂ عامرہ ان شعرا کے تذکرے پر مبنی ہے جو صلہ یافتہ تھے اور سرورِ آزاد ہندی نژاد شعرا پر نہایت معلوماتی اور مفید کتاب ہے۔ اس کے بعد مآثر الکرام میں انھوں نے علمائے بلگرام کا تذکرہ کیا ہے اور روضۃُ الاولیا میں اولیائے اورنگ آباد کے بارے میں‌ مستند اور جامع معلومات اکٹھی کردی ہیں۔

  • یومِ وفات: ہاجرہ مسرور نے اپنی کہانیوں میں معاشرتی بے حسی پر گرفت کی

    یومِ وفات: ہاجرہ مسرور نے اپنی کہانیوں میں معاشرتی بے حسی پر گرفت کی

    ’’عورت ایک کٹھ پتلی ہے جس کی ڈور سماج کے کوڑھی ہاتھوں میں ہے اور ان کوڑھی ہاتھوں میں جب چُل ہونے لگتی ہے تو ڈور کے جھٹکوں سے یہ کٹھ پتلی نچائی جاتی ہے۔‘‘

    یہ سطور ہاجرہ مسرور کے قلم سے نکلی ہیں جنھیں خواتین کے حقوق کی علم بردار بھی کہا جاتا ہے۔ اردو کی اس ممتاز افسانہ نگار نے زندگی کے مختلف روپ اور پہلوؤں کو عورت کی نظر سے دیکھتے ہوئے ہمارے سامنے پیش کیا۔

    آج ہاجرہ مسرور کی برسی ہے۔ انھوں نے 15 ستمبر 2012ء کو کراچی میں‌ وفات پائی۔ ان کا تعلق لکھنؤ سے تھا جو قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے لاہور پاکستان آگئی تھیں۔ بعد میں کراچی منتقل ہوگئیں اور اسی شہر میں زندگی کا سفر تمام ہوا۔

    ہاجرہ مسرور 17 جنوری 1929ء کو پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ڈاکٹر تہوّر احمد خاں برطانوی فوج میں ڈاکٹر تھے۔ ہاجرہ کم عمری میں والد کے دستِ شفقت سے محروم ہوگئیں اور ان کا کنبہ مالی مسائل کا شکار ہو گیا۔ انھوں نے والدہ کو سخت محنت اور کٹھن حالات کا مقابلہ کرتے دیکھا۔ تاہم بچّوں کی تربیت اچھے انداز سے کی اور یہ گھرانا علم و ادب کے حوالے سے پہچانا گیا۔ انھیں شروع ہی سے مطالعہ کی نعمت اور سہولت میسر رہی جس نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشی۔

    ہاجرہ مسرور کی بہنیں خدیجہ مستور اور اختر جمال بھی اْردو کے معروف ادیبوں میں‌ شمار ہوئے۔ ان کے ایک بھائی توصیف احمد صحافت سے وابستہ رہے جب کہ ایک اور بھائی خالد احمد کا شمار اپنی نسل کے ممتاز شاعروں میں ہوتا تھا۔

    وہ قیام پاکستان کے بعد لاہور آئیں تو یہ شہر ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا اور اس وقت تک ہاجرہ بطور کہانی کار اور افسانہ نگار اپنا سفر شروع کرچکی تھیں۔ یہاں ان کی کہانیوں کو ادبی حلقوں میں ابتدا ہی سے پذیرائی ملنے لگی۔ انھوں نے معروف ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی کے ساتھ مل کر ادبی جریدہ ’’نقوش‘‘ شائع کرنا شروع کیا۔

    اس دوران ان کے افسانوں اور مختصر کہانیوں کے سات مجموعے شایع ہوئے جن میں چاند کے دوسری طرف، تیسری منزل، اندھیرے اجالے، چوری چھپے، ہائے اللہ، چرکے اور وہ لوگ شامل ہیں۔ ہاجرہ مسرور نے ڈرامے بھی لکھے۔

    انھوں نے پاکستان میں متعدد فلموں کے لیے اسکرپٹ بھی لکھے۔ انھیں اپنے ایک اسکرپٹ پر پاکستانی فلمی صنعت کا سب سے بڑا اعزاز ’’نگار ایوارڈ‘‘ بھی ملا۔ 1965ء میں بننے والی پاکستانی فلم ’’آخری اسٹیشن‘‘ کی کہانی بھی ہاجرہ مسرور نے لکھی تھی۔

    پاکستان کی اس معروف ادیب کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا۔

    ہاجرہ مسرور پاکستان کے معروف صحافی احمد علی خان کی زوجہ تھیں اور شادی کے بعد کراچی منتقل ہوگئی تھیں۔ وہ اس شہر میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    اردو ادب میں انھیں ایک فعال، مستعد اور جذبۂ انسانیت اور اصلاح سے سرشار ادیب کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ ہاجرہ مسرور نے معاشرے کی بے حسی پر گرفت کی اور خواتین سے متعلق جس خلوص اور درد مندی سے لکھا وہ اپنی مثال آپ ہے۔