Tag: 15 years have passed

  • سانحہ کارساز کو گزرے 15 برس بیت گئے

    سانحہ کارساز کو گزرے 15 برس بیت گئے

    کراچی : سانحہ کارساز کو گزرے آج 15 سال مکمل ہوگئے، سانحہ کارساز اس وقت رونما ہوا جب 2007 میں محترمہ بےنظیر بھٹو کے جلوس پر کراچی میں خود کش حملہ کیا گیا۔

    سانحہ کارساز کے شہداء کے اہل خانہ آج بھی اپنے پیاروں کو یاد کرکے غمزدہ ہیں، پیپلزپارٹی آج سانحہ کارساز کے شہداء کی یاد میں مختلف اجتماعات منعقد کرے گی۔

    وزیر محنت و افرادی قوت سندھ سعید غنی نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ پیپلزپارٹی اس سال کوئی جلسہ نہیں کرے گی، صرف قرآن خوانی کے اجتماعات ہوں گے۔

    انہوں نے کہا کہ یادگار شہداء اور شہداء کے گھروں پر پارٹی کے قائدین اور کارکن حاضری دیں گے۔ پیپلز پارٹی کی سیاسی جدوجہد اور تاریخ قربانیوں سے بھری ہوئی ہے۔

    سعید غنی کا کہنا تھا کہ سانحہ اٹھارہ اکتوبر جیسی دہشت گردی ملکی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی، سانحہ کارساز کے شہید کارکنوں کو ہم نے پہلے بھلایا ہے نہ آئندہ بھلاسکیں گے۔

    یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی پاکستان آمد پر نکالی گئی ریلی میں دہشت گردی کی اس خوفناک واردات نے 130 افراد کی جان لی تھی۔

    پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم کا اعزاز پانے والی محترمہ بے نظیر بھٹو آٹھ سال کی جلاوطنی ختم کرکے اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کو کراچی ائیر پورٹ پہنچیں تو ان کا فقید المثال استقبال ہوا۔

    خطروں میں گھری اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کااعزاز پانے والی اس بہادر رہنما کو ستائیس دسمبر کو پھر دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس بار دشمن کامیاب رہا، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کردی گئیں۔

    پیپلز پارٹی آج ان شہداء کی یاد کا دن مناتی ہے، ہزاروں کی تعداد میں پیپلز پارٹی کے جیالے کارکنان اور رہنما یادگار شہداء کارساز پر پہنچ کر ان شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

  • مظفرآباد : 2005 کے قیامت خیز زلزلے کو15سال گزر گئے

    مظفرآباد : 2005 کے قیامت خیز زلزلے کو15سال گزر گئے

    مظفر آباد : 8 اکتوبر 2005 کو آزاد کشمیر سمیت ملک کے شمالی علاقے میں آنے والے قیامت خیز زلزلے کو 15 سال بیت گئے مگر جانے والوں کی یاد آج بھی تازہ ہے۔

    8اکتوبر 2005کو صوبہ پنجاب، آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا میں 7.6ریکٹر اسکیل کی شدت سے آنے والا زلزلہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین اور2005ء میں دنیا کا چوتھا بڑا زلزلہ تھا۔

    زلزلے سے 17 ہزار بچوں سمیت 73 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے، جن کی 15 ویں برسی آج منائی جائے گی۔ شہدائے زلزلہ کی یاد میں آج مظفرآباد میں تعزیتی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں وزیراعظم آزاد کشمیر ،سفارت کاروں اور دیگرافراد نے شرکت کی۔

    اس موقع پر شہدائے زلزلہ کی یاد میں 8بج کر52منٹ پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی، وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے شہداء کی یادگار پر پھول رکھے اور پولیس کے چاق و چوبند دستے نے سلامی بھی پیش کی۔

    پاکستان کی تاریخ کا ناقابل فراموش زلزلہ 8 اکتوبر 2005 کو صبح 8 بجکر 50 منٹ پر آیا، جب آزاد کشمیر، اسلام آباد، ایبٹ آباد، خیبرپختونخوا اور ملک کے بالائی علاقوں پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی. اس کی شدت رکٹر اسکیل پر7.6 تھی اور اس کا مرکز اسلام آباد سے 95 کلو میٹر دور اٹک اور ہزارہ ڈویژن کے درمیان تھا۔

    المناک سانحے کو15سال گزرجانے کے باوجود قیامت خیز زلزلے کی تباہ کاریوں کو فراموش نہیں جاسکا، متاثرین کے غم آج ایک بار پھر تازہ ہوگئے، زلزلے میں اسلام آباد میں مارگلہ ٹاور منہدم ہوگیا تھا اور عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا تھا جبکہ آزاد کشمیر اور مانسہرہ میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔

    زلزلہ2005ء تمام ادوار میں ہونے والے زلزلوں میں المیے کے لحاظ سے چودہواں بڑا زلزلہ تصور کیا جاتا ہے، صرف پاکستان میں3.3 ملین لوگ بے گھر ہوئے۔ پہاڑی علاقے میں آنے والے زلزلے بڑے پیمانے پر لینڈ سلائیڈنگ کی جس کی وجہ سے مواصلات کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا۔

    اقوام متحدہ کے مطابق 8 ملین سے زیادہ آبادی اس المیے سے متاثر ہوئی، ایک اندازے کے مطابق 5 ارب ڈالر کی مالیت کا نقصان ہوا جو تقریباً 400 ارب پاکستانی روپے بنتے ہیں،تاریخ میں پہلی بار کشمیر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول کو پانچ مختلف جگہوں سے کھول دیا گیا تھا تاکہ لوگوں کو بآسانی صحت اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد پہنچائی جا سکے۔

    یہ زلزلہ ماہ رمضان میں بروز ہفتہ پیش آیا جو علاقہ میں عام دن تھا اور تقریباً اسکول اس دوران کام کر رہے تھے، اسی وجہ سے یہاں زیادہ ہلاکتیں اسکولوں اور ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد بچوں کی بتائی جاتی ہے۔ زیادہ تر بچے منہدم ہونے والی اسکول کی عمارتوں کے ملبے تلے دب گئے۔

    زلزلے کے مقام پر تقریباً تمام قصبے اور گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے جبکہ مضافاتی علاقوں میں بھی بڑے پیمانے پر مالی نقصان ہوا، بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی کی وجہ سے مواصلات کا نظام درہم برہم ہو چکا تھا اور بگڑتے موسم کی وجہ سے امدادی اداروں اور کارکنوں کو متاثرین تک پہنچنے میں بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔