Tag: 16 اپریل وفات

  • اردو، فارسی، عربی کے عالم اور غالب شناس مالک رام کا تذکرہ

    اردو، فارسی، عربی کے عالم اور غالب شناس مالک رام کا تذکرہ

    برصغیر کے اردو، فارسی اور عربی کے مشہور عالم اور ماہرِ غالبیات مالک رام کی زندگی کا سفر 16 اپریل 1993ء کو تمام ہوا۔ وہ نہ صرف اردو، انگریزی کے بلند پایہ ادیب، نقّاد اور محقق تھے بلکہ انھوں نے اسلام اور اس کی تعلیمات کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور اس حوالے سے مختلف موضوعات پر نہایت جامع اور مستند مضامین سپردِ‌ قلم کیے۔ انھیں غالب شناس کہا جاتا ہے۔

    ادب، مذہب اور تاریخ مالک رام کی دل چسپی کے موضوعات ہیں جب کہ انھوں نے 200 سے زائد مقالے اور مضامین لکھے جو پاک و ہند کے مشہور و معروف جرائد میں شایع ہوئے۔

    دہلی میں وفات پانے والے مالک رام کا تعلق متحدہ ہندوستان کے علاقے پھالیہ سے تھا جہاں انھوں نے 1906ء میں آنکھ کھولی۔ وزیر آباد میں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج، لاہور میں داخلہ لیا۔ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انھوں نے لاہور کے ماہانہ ادبی جریدے نیرنگِ خیال کے لیے معاون مدیر کی حیثیت سے کام کیا اور بعد میں اس کے مدیر بنے۔ انھوں نے انڈین فارن سروس میں شمولیت کے دوران ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کے مختلف ممالک کے دورے کیے جہاں اپنے علمی و ادبی شوق کے سبب لائبریریوں، عجائب گھروں اور تاریخی مقامات کی سیر کی اور ان سے متعلق معلوماتی مضامین اور تذکرے لکھے۔ مالک رام مختلف اداروں اور جرائد سے منسلک رہے اور بکثرت لکھا۔

    مالک رام نے اپنی زندگی کا بڑا حصّہ مرزا اسد اللہ خان غالب کے مطالعے میں گزارا۔ انھوں نے اردو اور فارسی میں غالب کے زیادہ تر کلام کی تدوین کی اور حاشیے بھی لکھے۔ ان میں سبدِ چین، دیوانِ غالب، گلِ رعنا اور خطوطِ غالب شامل ہیں۔

    ذکرِ غالب وہ کتاب تھی جو غالب کی حیات اور تخلیقات پر مالک رام کی علمی اور تحقیقی مہارت کا نمونہ ہے۔ اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے اور اسے غالب پر تحقیقی اعتبار سے سند مانا جاتا ہے۔

    مالک رام کو اسلامی ثقافت اور ادب پر بھی خاصا عبور حاصل تھا۔ انھوں نے اسلامی ادب، روایات اور رسومات پر کئی مضامین لکھے۔ ان کی دو کتب ہر خاص و عام کے لیے مفید ہیں جن میں ایک ‘عورت اور اسلامی تعلیم‘ ہے جس کا انگریزی، عربی زبانوں میں بھی ترجمہ ہوا جب کہ اسلامیات کے حوالے سے ان کی دوسری اہم کتاب کا نام ہی ‘اسلامیات‘ تھا۔ اس میں مالک رام نے اسلام اور اسلامی روایات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔

    مالک رام نے ادبی دنیا کے کئی اعزازات حاصل کرنے کے علاوہ بھارتی حکومت سے بھی اپنی علمی اور ادبی کاوشوں کے اعتراف میں ایوارڈ حاصل کیے۔

  • ماہرِ تعلیم، ادیب اور محقق پری شان خٹک کی برسی

    ماہرِ تعلیم، ادیب اور محقق پری شان خٹک کی برسی

    آج معروف ماہرِ تعلیم، ادیب اور متعدد علمی و تحقیقی اداروں‌ کے سربراہ پروفیسر پری شان خٹک کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 16 اپریل 2009ء میں‌ وفات پاگئے تھے۔ تعلیم کے شعبے میں بے مثال خدمات انجام دینے والے پری شان خٹک نے اپنے علمی و تحقیقی کام اور ادبی تخلیقات کے سبب بڑا نام و مرتبہ پایا۔

    پروفیسر پری شان خٹک علمی و تحقیقی سرگرمیوں‌ سے متعلق مختلف اداروں کے منتظم بھی رہے۔ ان کا اصل نام محمد غمی جان تھا۔ 10 دسمبر 1932ء کو صوبہ سرحد (کے پی کے) کے ایک گائوں غنڈی میر خان خیل میں آنکھ کھولنے والے غمی جان نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پشاور یونیورسٹی سے تاریخ اور پشتو ادب میں ایم اے کیا اور پشاور یونیورسٹی ہی سے بہ طور لیکچرار عملی زندگی کا آغاز کیا۔ بعدازاں پشتو اکیڈمی کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے جہاں اپنی قابلیت اور صلاحیتوں سے خود کو منوایا اور بعد میں انھیں متعدد علمی و تعلیمی اداروں کا سربراہ مقرر کیا گیا۔

    پروفیسر پری شان خٹک اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین بھی رہے۔ انھوں نے کئی کتابوں کی تدوین اور تالیف کا کام بخوبی انجام دیا۔ ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز اور تمغہ امتیاز سے نوازا تھا۔

    پری شان خٹک پشاور کے ایک قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔

  • معروف شاعر آرزو لکھنوی کا یومِ وفات

    معروف شاعر آرزو لکھنوی کا یومِ وفات

    آج اردو کے معروف شاعر آرزو لکھنوی کا یومِ وفات ہے۔ 16 اپریل 1951ء کو کراچی میں ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لینے والے اس شاعر نے اپنے دور میں روایت سے ہٹ کر اپنے کلام کو نہ صرف رعایتِ لفظی، تشبیہات اور خوب صورت استعاروں سجایا بلکہ ‌نکتہ آفرینی کے سبب اپنے عہد کے منفرد اور مقبول شاعر کہلائے۔

    اردو کے اس خوش فکر شاعر کا اصل نام سید انوار حسین تھا۔ وہ لکھنؤ کے ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جس کا اوڑھنا بچھونا علم و ادب اور شاعری تھا۔

    آرزو نے نوعمری میں شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ غزل ان کی محبوب صنفِ سخن تھی جس کے ساتھ ساتھ انھوں نے فلموں کے لیے گیت نگاری کا سلسلہ بھی شروع کردیا، بعد میں نثر میں بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور ریڈیو کے لیے چند ڈرامے جب کہ فلموں کے مکالمے بھی لکھے، لیکن ان کی وجہِ شہرت شاعری اور خاص طور پر غزلیں ہیں۔

    آرزو لکھنوی نے جن فلموں کے مکالمے لکھے ان میں اسٹریٹ سنگر، جوانی کی ریت، لگن، لالہ جی، روٹی، پرایا دھن اور دیگر شامل ہیں۔ اس زمانے میں کلکتہ فلم اور تھیٹر سے متعلق سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا جہاں اس سلسلے میں آرزو نے بھی قیام کیا۔

    اردو زبان کے اس معروف شاعر کا کلام فغانِ آرزو، جہانِ آرزو اور سریلی بانسری کے عنوان سے کتابوں میں محفوظ ہے۔ آرزو لکھنوی کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    دفعتاً ترکِ تعلق میں بھی رسوائی ہے
    الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر

    وفا تم سے کریں گے، دکھ سہیں گے، ناز اٹھائیں گے
    جسے آتا ہے دل دینا اسے ہر کام آتا ہے