Tag: 16 جنوری وفات

  • کئی مقبول فلمی گیتوں کے خالق ابراہیم اشک انتقال کرگئے

    کئی مقبول فلمی گیتوں کے خالق ابراہیم اشک انتقال کرگئے

    معروف شاعر اور بھارتی فلموں کے گیت نگار ابراہیم اشک گزشتہ روز ممبئی کے ایک اسپتال میں‌ انتقال کرگئے۔ ابراہیم اشک نے مشہور فلم ’کہو نہ پیار ہے‘ سے بطور نغمہ نگار فلمی دنیا میں قدم رکھا تھا۔ ان کی عمر 70 برس تھی۔

    ابراہیم اشک اردو اور ہندی دونوں زبانو‌ں میں‌ لکھتے تھے۔ وہ صحافت سے وابستہ رہے اور متعدد اردو اخبارات میں کام کیا۔ ابراہیم اشک نے کئی ہندی فلموں کے لیے نغمات لکھے اور ٹی وی سیریلوں کے اسکرپٹ تحریر کیے۔

    انھیں گزشتہ ہفتے سے علالت کے باعث ممبئی کے نواح میں ایک اسپتال میں علاج کی غرض سے داخل کیا گیا تھا، جہاں اتوار کی شام ان کی زندگی کا سفر تمام ہوگیا۔ اہلِ خانہ کے مطابق وہ کووڈ 19 کا شکار تھے۔

    ابراہیم اشک جن کا اصل نام ابراہیم خاں غوری تھا، اپنے دور کے نمائندہ شعرا میں شمار ہوتے تھے۔ انھوں نے فلم نگری میں ایک نغمہ نگار کی حیثیت سے شہرت اور شناخت بنائی۔

    ابراہیم اشک نے متعدد شعری اصناف میں طبع آزمائی جن میں غزل اور نظم کے علاوہ دوہے اور گیت شامل ہیں۔ ان کی شاعری کے متعدد مجموعے شائع ہوئے جن میں الہام اور آگہی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ابراہیم اشک نے شاعری کے ساتھ تنقید بھی لکھی۔ اقبال اور غالب پر ان کی کتابیں ان کی ثروت مند تنقیدی فکر کا اعلان ہیں۔

    ابراہیم اشک 20 جولائی 1951ء کو اجین مدھیہ پردیش میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم اجین میں ہی حاصل کی اور بعد میں ہندی ادبیات میں ایم اے کی سند حاصل کی۔ انھوں نے شاعری کا آغاز کیا تو اشک تخلّص اختیار کیا۔

    کہو نہ پیار ہے، کوئی مل گیا، جانشین، اعتبار، آپ مجھے اچھے لگنے لگے، کوئی میرے دل سے پوچھے اور دھند وہ فلمیں تھیں جن کے نغمات ابراہیم اشک نے تحریر کیے اور انھیں بہت پسند کیا گیا۔ ان کے لکھے ہوئے گیت مختلف گلوکاروں کی آواز میں مقبول ہوئے۔ مرحوم کو کئی ادبی ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔

  • 1906: نواب سلیم اللہ خان اور آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام

    1906: نواب سلیم اللہ خان اور آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام

    ہندوستان میں جب مسلمان سیاسی و مذہبی راہ نماؤں علیحدہ وطن کے حصول کو ناگزیر اور اسلامیانِ ہند کی سیاسی میدان میں مؤثر اور منظّم طریقے سے ترجمانی کی ضرورت محسوس کی تو آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ تحریکِ‌ آزادی کے متوالے اسی مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھے ہوئے اور برصغیر کی تاریخ بدل کر رکھ دی۔

    آل انڈیا مسلم لیگ كا قیام 1906ء میں ڈھاكہ میں عمل میں آیا تھا۔ محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كے سالانہ اجلاس كے اختتام پر برصغیر كے مختلف صوبوں سے آئے ہوئے مسلم عمائدین نے ڈھاكہ كے نواب سلیم اللہ خان كی دعوت پر خصوصی اجلاس میں شركت كی جس میں مسلمانوں كی سیاسی راہ نمائی كے لیے ایک جماعت تشكیل دینے کا تاریخی فیصلہ کیا گیا۔

    بیسویں صدی كے آغاز سے كچھ ایسے واقعات رونما ہونے شروع ہوئے كہ مسلمان ایك سیاسی پلیٹ فارم بنانے كی ضرورت محسوس كرنے لگے۔ ڈھاكہ اجلاس كی صدارت نواب وقارُ الملك نے كی جس میں نواب محسن الملك٬ مولانا محمد علی جوہر٬ مولانا ظفر علی خاں٬ حكیم اجمل خاں اور نواب سلیم اللہ خان سمیت بہت سے اہم مسلم اكابرین موجود تھے۔

    سَر نواب سلیم اللہ خان جن کی رہائش گاہ پر اس تنظیم کی بنیاد رکھی گئی اور دیگر اکابرین نے اس بات کا اعلان کیا کہ مسلم لیگ کے ذریعے مسلمانوں کے لیے مذہب میں آزادی اور سیاسی و مالی حقوق کے لیے آواز بلند کی جائے گی۔ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ اچھے، مناسب تعلقات کو اہمیت دی جائے گی اور یہ واضح ہے کہ مسلمانوں کی ترقی اور فوائد کے لیے یہ جماعت تشکیل دی گئی ہے۔ مسلمانانِ ہند کا یہ اجتماع یا میٹنگ 30 دسمبر1906 ء کو ہوئی تھی جس کے ساتھ ہی ایک دو رکنی کمیٹی نواب وقار الملک اور نواب محسن الملک پر تشکیل دی گئی جنھیں مسلم لیگ کا آئین تیار کرنے کا کام سونپا گیا اور اس حوالے سے خدوخال اور وضاحت و تفصیل کو تحریری شکل دینے کے لیے بعد میں مزید اکابرین کو کام تفویض کیا گیا۔

    آل انڈیا مسلم لیگ کے عہدے داروں کا انتخاب مارچ 1908 ء میں لکھنؤ میں عمل میں آیا اور اس وقت تک مزید صلاح و مشورے اور تجاویز کی روشنی میں لیگ کو برطانوی ہند میں انگریز حکومت اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے مسلمانوں کی سیاسی، سماجی، معاشی ترقی اور حقوق کے تحفظ کی مؤثر تنظیم کے طور پیش کیا گیا جو آگے چل کر تشکیل و قیامِ پاکستان کا ذریعہ بنی۔

    نواب سلیم اللہ خان عین عالمِ شباب میں 16 جنوری 1915ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ان کے مسلمانوں کی علیحدہ سیاسی شناخت اور مؤثر نمائندگی کے ضمن میں کردار کو اور مسلم لیگ کے لیے دیگر خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔