Tag: 17 جون وفات

  • یومِ‌ وفات: استاد لطافت حسین گائیکی کے ساتھ ہارمونیم، سرمنڈل اور تانپورہ بجانے میں اختصاص رکھتے تھے

    یومِ‌ وفات: استاد لطافت حسین گائیکی کے ساتھ ہارمونیم، سرمنڈل اور تانپورہ بجانے میں اختصاص رکھتے تھے

    آج کلاسیکی موسیقی کے استاد لطافت حسین کی برسی ہے۔ وہ گائیکی کے ساتھ ہارمونیم بجانے میں‌ اختصاص رکھتے تھے۔ استاد لطافت حسین 17 جون 2005ء کو وفات پاگئے تھے۔

    کلاسیکی موسیقی میں استاد کا مرتبہ حاصل کرنے والے لطافت حسین کا تعلق شام چوراسی گھرانے سے تھا جو برصغیر میں اس فن کے حوالے سے مشہور رہا ہے اور اس گھرانے نے پاکستان کو وہ نام دیے جو سُر اور ساز کی دنیا میں معروف ہوئے اور اپنے وطن کی پہچان بنے۔ استاد لطافت حسین فنِ موسیقی میں نام ور استاد سلامت علی خان کے فرزند اور استاد نزاکت علی خان کے بھتیجے تھے۔

    ان کا خاندان خیال، دھرپد اور کلاسیکی موسیقی کے حوالے سے برصغیر میں معروف ہے۔ استاد لطافت حسین خان گائیکی کے علاوہ ہارمونیم، سرمنڈل اور تانپورہ بجانے میں اختصاص رکھتے تھے۔

    استاد لطافت حسین کے بھائیوں میں شرافت علی خان، سخاوت علی خان اور شفقت علی خان بھی کلاسیکی گائیکی کے حوالے سے نام و پہچان رکھتے ہیں‌ اور مقبول گلوکار رفاقت علی خان بھی ان کے عزیز ہیں۔

  • نام ور پاکستانی سائنس داں آئی ایچ عثمانی کی برسی

    نام ور پاکستانی سائنس داں آئی ایچ عثمانی کی برسی

    پاکستان کے نام وَر سائنس داں ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی 17 جون 1992ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    15 اپریل 1917ء کو پیدا ہونے والے عشرت حسین عثمانی نے بمبئی یونیورسٹی سے بی ایس سی آنرز، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ایم ایس سی اور لندن کی جامعہ سے مشہور نوبیل انعام یافتہ سائنس داں جی پی ٹامسن کے زیرِ نگرانی اپنا پی ایچ ڈی مکمل کیا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے سول سروس میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دیں جن میں سب سے اہم عہدہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی چیئرمین شپ تھا۔ ان کے دور میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھی گئی اور کراچی میں کینپ کا نیوکلیئر پاور پلانٹ نصب کیا گیا۔ 1972ء میں وہ وزارتِ سائنس اور ٹیکنالوجی کے سیکریٹری مقرر ہوئے جو انہی کی تجویز پر قائم کی گئی تھی۔

    حکومتِ پاکستان نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ستارۂ پاکستان اور نشانِ امتیاز عطا کیے تھے۔

    آئی ایچ عثمانی کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • جادو بیاں اور ہر دل عزیز، طارق عزیز کی پہلی برسی

    جادو بیاں اور ہر دل عزیز، طارق عزیز کی پہلی برسی

    آج طارق عزیز کی پہلی برسی منائی جارہی ہے جنھوں نے ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلم نگری تک بے مثال کام کیا اور ان کے منفرد اندازِ میزبانی نے پروگرام کے شائقین کو ان کا پرستار بنا دیا۔ پچھلے سال 17 جون کو طارق عزیز نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔

    علم و ادب، فنونِ لطیفہ بالخصوص پرفارمنگ آرٹ کی دنیا میں طارق عزیز کی خاص پہچان ان کی منفرد آواز اور شستہ و شائستہ لب و لہجہ اور طرزِ گفتگو تھا۔ نیلام گھر نے انھیں ہفت آسمان مقبولیت دی۔ وہ پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ میں کئی دہائیوں تک جاری رہنے والے اس معلوماتی اور ذہنی آزمائش کے پروگرام کے میزبان تھے۔ وہ اپنے پروگرام کا آغاز مخصوص انداز میں اس جملے سے کرتے، ’دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام‘ جو بہت مشہور ہوا۔ انھوں نے پروگرام کے حاضرین اور ناظرین کی تفریح اور دل چسپی کو بھی مدنظر رکھا۔ وہ حاضر باش اور طباع تھے اور اکثر اس طرح‌ شوخیِ اظہار سے کام لیتے کہ سبھی مسکرانے پر مجبور ہو جاتے۔

    چار دہائیوں تک جاری رہنے والے اس پروگرام کو ’بزمِ طارق عزیز‘ ہی کا نام دے دیا گیا تھا۔

    طارق عزیز ایسے فن کار تھے جو علم دوست اور شائقِ مطالعہ بھی تھے، وہ مختلف موضوعات پر جامع اور مدلّل طریقے سے اظہارِ خیال کرتے اور ان کی گفتگو سے علمیت، قابلیت اور ذہانت جھلکتی تھی۔ برجستہ اور موقع کی مناسبت سے کوئی مشہور قول سنانا یا شعر کا سہارا لے کر اپنی بات کو آگے بڑھانے والے طارق عزیز اہلِ محفل کو متوجہ کرنے کا ہنر جانتے تھے۔

    طارق عزیز نے اپنے فن کا سفر ریڈیو پاکستان سے شروع کیا اور جب پاکستان میں ٹیلی ویژن نشریات کا آغاز ہوا تو وہی پہلے میزبان کے طور پر اسکرین پر نظر آئے۔

    طارق عزیز 28 اپریل 1936ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے وقت ان کا خاندان پاکستان آگیا جہاں طارق عزیز کا بچپن ساہیوال میں گزرا اور وہیں ابتدائی تعلیم بھی حاصل کی۔

    انھوں نے فلموں میں بھی اداکاری کی۔ ان کی پہلی فلم انسانیت 1967ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی جب کہ سال گرہ، قسم اس وقت کی، ہار گیا انسان میں بھی انھیں‌ بطور اداکار دیکھا گیا۔ طارق عزیز نے سیاست میں بھی حصہ لیا اور 1997ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔

    وہ ادیب اور شاعر بھی تھے۔ انھیں بے شمار اشعار بھی ازبر تھے۔ کالم نویسی بھی کی اور اپنے پروگراموں کا اسکرپٹ بھی لکھا، ان کے کالموں کا ایک مجموعہ داستان کے نام سے جب کہ پنجابی شاعری کا مجموعہ ہمزاد دا دکھ شایع ہوچکا ہے۔ اردو زبان میں ان کا یہ شعر بہت مشہور ہوا:

    ہم وہ سیہ نصیب ہیں طارق کہ شہر میں
    کھولیں دکاں کفن کی تو سب مرنا چھوڑ دیں

    لاہور میں انتقال کرجانے والے طارق عزیز نے زندگی کے 84 سال اس عالمِ فانی میں بسر کیے۔

    1992ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔