Tag: 17 مئی وفات

  • یومِ‌ وفات: رقاص ہی نہیں‌ بلبل چوہدری ناول نگار بھی تھے

    یومِ‌ وفات: رقاص ہی نہیں‌ بلبل چوہدری ناول نگار بھی تھے

    آج پاکستان کے مشہور رقاص بلبل چوہدری کا یومِ وفات ہے۔ 17 مئی 1954ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ جانے والے بلبل چوہدری سرطان کے مرض میں مبتلا تھے۔

    رقص، پرفارمنگ آرٹ کی وہ شکل ہے جسے اعضا کی شاعری بھی کہا جاتا ہے۔ یہ آرٹ اور ثقافت کی ایک خوب صورت شکل ہی نہیں بلکہ بعض خطّوں میں‌ رقص کو عبادت کا درجہ حاصل ہے اور اسے روحانی سکون کا ایک ذریعہ خیال کیا جاتا ہے۔ بلبل چوہدری کو اسی فن کی بدولت دنیا بھر میں شہرت اور پذیرائی حاصل ہوئی۔

    1919ء میں بوگرا میں آنکھ کھولنے والے بلبل چوہدری کا اصل نام رشید احمد چوہدری تھا۔ والد ان کے پولیس انسپکٹر تھے اور چٹاگانگ کے ایک قصبے کے رہائشی تھے۔

    بلبل چوہدری بچپن ہی سے فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی لینے لگے تھے۔ جلد ہی انھوں‌ نے رقص کو اپنالیا۔ زمانہ طالبِ علمی میں اسٹیج پر پرفارم کرنے کا موقع ملا اور جب کالج میں‌ قدم رکھا تو وہاں اورینٹل فائن آرٹس ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔

    بلبل چوہدری کے لیے زمانہ طالبِ علمی ہی سے رقص محض تفریحِ طبع کا ذریعہ اور تماشا نہیں تھا بلکہ وہ اسے باقاعدہ فن کے طور پر اہمیت دیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اس فن کو باقاعدہ سیکھنے، سکھانے اور فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے ہندوستان میں تھیٹر کی مشہور تنظیم انڈین پیپلز تھیٹریکل ایسوسی ایشن سے ناتا جوڑ لیا اور اس پلیٹ فارم سے جو بیلے ترتیب دیے ان کی شہرت امریکا اور یورپ تک جا پہنچی تھی۔

    بلبل چوہدری نے 1943ء میں ایک ہندو رقاصہ سے شادی کی تھی جنھوں نے قبولِ اسلام کے بعد ان کے ساتھ پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں انھوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں تھیٹر اور اسٹیج پر پرفارمنس دی اور خوب شہرت حاصل کی۔

    بلبل چوہدری کو بہترین رقاص اور اس فن کے فروغ کے لیے ان کی کوششوں کے اعتراف میں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی سے عطا کیا گیا تھا۔

    انھیں اردو زبان و ادب سے بھی لگاؤ تھا۔ بلبل چوہدری کا ایک ناول اور متعدد مختصر کہانیاں بھی شایع ہوچکی ہیں۔

  • تحریکِ پاکستان کے مقبول ترین نعرے کے خالق اصغر سودائی کی برسی

    تحریکِ پاکستان کے مقبول ترین نعرے کے خالق اصغر سودائی کی برسی

    آج پروفیسر اصغر سودائی کی برسی منائی جارہی ہے جو ”پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ“ جیسے مقبول نعرے کے خالق ہیں۔ ان کی ایک نظم کا یہ مصرع نعرے کی صورت ہندوستان کے طول و عرض میں‌ یوں گونجا کہ اسے تحریکِ پاکستان کی روح تصور کیا جانے لگا اور مسلمانوں نے اسے حرزِ جاں بنا لیا۔

    پروفیسر اصغر سودائی اردو کے نام وَر شاعر اور ماہرِ تعلیم تھے جن کا اصل نام محمد اصغر تھا۔ وہ 17 ستمبر 1926ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ وہ تحریکِ پاکستان کے سرگرم رکن تھے۔ اصغر سودائی نے 1945ء میں ایک نظم لکھی جس کا مصرع نعرے کی صورت مسلمانانِ ہند کے دل میں اتر گیا اور آزادی کی بنیاد بنا۔ آج بھی جشنِ آزادی کی تقاریب میں اور تحریکِ آزادی اور قیامِ پاکستان سے متعلق تحریر و تقریر میں اس نعرے کا ذکر لازمی ہوتا ہے جس نے مسلمانوں میں‌ ایک نئی روح پھونکی اور جوش و ولولہ پیدا کیا تھا۔

    پروفیسر اصغر سودائی نے مرے کالج سیالکوٹ اور اسلامیہ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی اور گورنمنٹ اسلامیہ کالج سیالکوٹ سے بطور لیکچرار وابستہ ہوگئے۔ 1965ء میں وہ اس کالج کے پرنسپل بنے۔ 1966ء میں انھوں نے سیالکوٹ میں علامہ اقبال کالج قائم کیا۔

    پروفیسر اصغر سودائی کے شعری مجموعوں میں شہِ دو سَرا اور چلن صبا کی طرح شامل ہیں۔

    17 مئی 2008ء کو اصغر سودائی انتقال کرگئے، وہ سیالکوٹ میں آسودۂ خاک ہیں۔