Tag: 17 نومبر وفات

  • اشتیاق احمد کا تذکرہ جن کے ناولوں کے کردار ذہنوں‌ پر نقش ہوگئے

    اشتیاق احمد کا تذکرہ جن کے ناولوں کے کردار ذہنوں‌ پر نقش ہوگئے

    جاسوسی ادب میں اشتیاق احمد کا نام ان قلم کاروں‌ میں شامل ہے جو بچّوں اور بڑوں میں‌ یکساں‌ مقبول تھے۔ ان کی جاسوسی کہانیوں کے کردار ہر دل عزیز ثابت ہوئے۔ اشتیاق احمد نے آٹھ سو ناول تحریر کیے اور افسانے بھی لکھے۔

    چند دہائیوں قبل آج کی طرح بامقصد تفریح و معلومات یا وقت گزاری کے لیے نہ تو ہر ایک کو تیز رفتار انٹرنیٹ کی سہولت میسّر تھی، اور نہ ہی موبائل فون جن پر بچّے اور نوجوان من پسند ویڈیو، آڈیو دیکھتے سنتے اور تحریری مواد سے لطف اندوز ہوتے۔ ماہ وار رسائل اور ناول ہی اس دور میں بچّوں اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کے ساتھ تفریح کا بڑا ذریعہ تھے۔ اشتیاق احمد نے بھی اپنے ناولوں کو معیاری تفریح کا وسیلہ بنایا اور جاسوسی ناول نگار کے طور پر شہرت حاصل کی۔ وہ 17 نومبر 2015ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔

    اشتیاق احمد 5 اگست 1944ء کو بھارتی ریاست پانی پت میں پیدا ہوئے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان کا خاندان جھنگ میں آکر آباد ہوا۔ ان کی پہلی کہانی 1960ء میں ہفت روزہ ’قندیل‘ میں چھپی جس کا عنوان “بڑا قد” تھا جب کہ ان کے پہلے ناول کا نام” پیکٹ کا راز“ تھا۔

    انھوں‌ نے بچّوں کی کہانیاں بھی لکھیں، افسانے بھی اور نوجوانوں اور بڑوں کو اپنے جاسوسی ناولوں کا گرویدہ بنایا۔ انسپکٹر جمشید، انسپکٹر کامران اور شوکی سیریز کے ناولوں نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ ان کے تخلیق کردہ یہ کردار کسی واردات اور واقعے کی کھوج، معمّے کو حل کرنے اور سراغ رسی کے ماہر تھے جو پڑھنے والوں کے ذہن میں آج بھی محفوظ ہیں۔

    جاسوسی ناول نگار اور ادیب اشتیاق احمد کراچی میں منعقدہ ایک کتب میلے میں شرکت کے بعد اپنے شہر لوٹنے کے لیے کراچی ایئرپورٹ پر موجود تھے جہاں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 71 برس تھی۔

    اشتیاق احمد نے سی مون کی واپسی، چائے کا بھکاری، جھیل کی موت، جیرال کا منصوبہ جیسے کئی ناول تخلیق کیے جنھیں‌ قارئین کی بڑی تعداد نے پڑھا اور پسند کیا۔ انہی ناولوں کے ولن جیرال، سلاٹر، رے راٹا اور سی مون وغیرہ بھی قارئین کے ذہنوں‌ پر نقش ہیں۔

  • ’دی گولڈن نوٹ بک‘ کی خالق نوبل انعام یافتہ ڈورِس لیسنگ کا تذکرہ

    ’دی گولڈن نوٹ بک‘ کی خالق نوبل انعام یافتہ ڈورِس لیسنگ کا تذکرہ

    1962ء میں ’دی گولڈن نوٹ بک‘ منظرِعام پر آیا تو تحریکِ نسواں کے حامیوں نے اِسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ان کے نزدیک یہ ناول حقوقِ‌ نسواں اور اس حوالے سے بلند ہونے والی ہر آواز کا نمایاں حوالہ ثابت ہوسکتا تھا، لیکن ڈورِس لیسنگ جو اس ناول کی خالق تھیں، اس کے برعکس فکر اور سوچ رکھتی تھیں۔ انھیں 2007ء میں‌ ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔

    ناول کی مصنّفہ ‌نے کبھی اپنے معاشرے میں عورتوں کی زندگی میں آنے والی تبدیلی، اور حقوق و آزادی کے حوالے سے ان کی کام یابیوں کو کسی ایسی تحریک اور حقوقِ‌ نسواں‌ کے نعروں کا ثمر نہیں سمجھا۔

    ڈورِس لیسنگ نے 2003ء میں ایک انٹرویو میں کہا تھا: ’’خواتین کی حالت اگر واقعی کچھ بدلی ہے تو حقوقِ نسواں کی تحریک اس کی وجہ نہیں بلکہ یہ سب سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ عورت کی زندگی واشنگ مشین، ویکیوم کلینر اور مانع حمل گولی نے بدلی ہے نہ کہ نعروں نے۔ اِس حوالے سے کمیٹیاں بنانا، اخبارات میں لکھا جانا چاہیے، عوام کے منتخب کردہ افراد کو پارلیمان میں بھیجنا چاہیے جو ایک کٹھن اور سست رفتار عمل ہو گا، لیکن اِسی طرح منزل مل سکتی ہے۔‘‘

    آج ڈورس لیسنگ کا یومِ وفات ہے۔ وہ 2013ء میں چل بسی تھیں۔ زندگی کی 94 بہاریں دیکھنے والی اس مصنّفہ نے اپنی فکر، نظریہ اور تخیلقات کے سبب دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔

    22 اکتوبر 1919ء کو ایران کے شہر کرمان میں مقیم ایک برطانوی فوجی افسر کے گھر جنم لینے والی بچّی کا نام ڈورِس مے ٹیلر رکھا گیا۔ یہ ہندوستان پر برطانوی راج کا زمانہ تھا۔ بعد میں یہ کنبہ ایران سے نقل مکانی کر کے برطانیہ کی ایک افریقی نو آبادی رہوڈیشیا (موجودہ زمبابوے) چلا گیا۔

    ڈورس لیسنگ ایک بیدار مغز خاتون تھیں۔ مطالعے کے سبب وہ غور و فکر کی عادی ہوگئی تھیں اور قوّتِ مشاہدہ نے انھیں حسّاس و باشعور بنا دیا تھا۔ افریقا میں انھوں‌ نے بدترین نسلی امتیاز اور اُس معاشرے میں‌ ہر سطح پر روایتی سوچ اور پستی کا مظاہرہ دیکھا اور وہاں‌ پالیسیوں پر کڑی تنقید کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انھیں‌ کئی برس تک رہوڈیشیا اور جنوبی افریقا کے سفر کی اجازت نہیں‌ تھی۔

    بیس سال کی عمر میں رہوڈیشیا میں‌ ڈورس لیسنگ نے ایک برطانوی فوجی افسر سے شادی کرلی، جس سے اُن کے دو بچّے ہوئے، لیکن بعد میں جرمنی سے جلاوطن ایک یہودی کی شریکِ سفر بنیں جو رہوڈیشیا میں مقیم تھا۔ یہ تعلق بھی 1949ء تک برقرار رہ سکا۔ ڈورس لیسنگ نے اس سے طلاق لے لی اور اپنے بیٹے پیٹر کے ساتھ انگلینڈ چلی آئیں اور وہیں باقی ماندہ زندگی بسر کی۔

    وہ اپنا پہلا ناول افریقا سے مسوّدے کی شکل میں برطانیہ ساتھ لائیں۔ اس کا نام تھا ’’دا گراس اِز سنگنگ‘‘ جس کی کہانی ایک سفید فام خاتون اور ایک سیاہ فام مرد کے ممنوع تعلق پر بُنی گئی تھی۔ تاہم اُن کا پہلا ناول ’’افریقی المیہ‘‘ 1950ء میں چھپا اور بعد کے برسوں میں ان کی پچاس سے زیادہ کتابیں شایع ہوئیں۔

    چند سال قبل برطانوی انٹیلی جنس ایجنسی ایم آئی فائیو نے اس ناول نگار کے بارے میں خفیہ معلومات جاری کرتے ہوئے بتایا کہ 20 سال تک ان کی کڑی نگرانی کی جاتی رہی۔ کیوں‌ کہ وہ بائیں بازو کے رجحانات رکھنے کے علاوہ نسل پرستی کے خلاف تحریک میں بھی متحرک رہی تھیں۔ اس حوالے سے برطانوی انٹیلی جنس نے 1964ء تک ان کی نگرانی کی تھی۔

    وہ متعدد مرتبہ ادب کے نوبل انعام کے لیے نام زد ہوئیں‌، لیکن اپنی تخلیقات پر کئی بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کرنے والی ڈورس لیسنگ کو اس کا سزاوار نہیں سمجھا گیا تھا۔ ان کا ادبی سفر تقریباً چھے عشروں پر محیط رہا جس میں ان کی شخصیت اور ادبی تخلیقات پر افریقا کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ ’میموائرز آف اے سروائیور‘ اور ’دی سمر بیفور دی ڈارک بھی ان کی مشہور تخلیقات ہیں۔

  • معروف شاعر اور ماہرِ اقبالیات اسد ملتانی کا تذکرہ

    معروف شاعر اور ماہرِ اقبالیات اسد ملتانی کا تذکرہ

    آج اردو اور فارسی کے معروف شاعر اور ماہرِ اقبالیات اسد ملتانی کی برسی ہے۔ وہ 1959ء میں خالقِ حقیقی سے جاملے تھے۔ اسد ملتانی سول سرونٹ تھے۔

    وہ 1902ء میں متحدہ ہندوستان کے اُس وقت کے ضلع ملتان میں پیدا ہوئے۔ محمد اسد خان نے 1924ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کیا اور ملتان میں اسلامیہ ہائی اسکول میں بطور انگلش ٹیچر مامور ہوئے۔ وہ علم و ادب کے رسیا اور شائق تھے اور اسی زمانے میں اپنے بھائی کے ساتھ مل کر ملتان ہی سے روزنامہ’’ شمس ‘‘ کا اجراء بھی کیا اور مطبعُ الشّمس قائم کیا تھا۔ بعد میں انھوں نے ”ندائے افغان” نکالا تھا۔

    1926ء میں اسد ملتانی نے انڈین پبلک سروس کمیشن سے منتخب ہوکر وائسرائے ہند کے پولیٹیکل آفس میں تقرری حاصل کی۔ ملازمت کے سلسلے میں دہلی اور شملہ میں قیام رہا۔ پاکستان بننے کے بعد دارُالحکومت کراچی میں اسسٹنٹ سیکرٹری بن کر آفس سنبھالا اور ڈپٹی سیکرٹری خارجہ کے عہدے تک پہنچے۔

    1955 میں ریٹائرمنٹ لے کر ملتان آبسے اور یہاں علمی و ادبی مشاغل میں مصروف رہے۔ اسد ملتانی راولپنڈی میں حرکتِ قلب بند ہوجانے سے انتقال کر گئے تھے۔ انھیں ملتان میں ان کے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    اردو کے اس قادرُ الکلام شاعر کے شعری مجموعوں میں مشارق، مرثیہ اقبال اور تحفہ حرم شامل ہیں جب کہ اقبالیات کے موضوع پر اقبالیاتِ اسد ملتانی شائع ہوچکی ہے۔

  • معروف ادیب اور نقّاد پروفیسر وقار عظیم کا یومِ وفات

    معروف ادیب اور نقّاد پروفیسر وقار عظیم کا یومِ وفات

    آج اردو کے ممتاز ادیب، نقّاد اور ماہرِ تعلیم پروفیسر وقار عظیم کا یومِ وفات ہے۔ وہ 1976ء میں آج ہی کے دن خالقِ حقیقی سے جا ملےتھے۔

    وہ افسانوی ادب کے اوّلین نقّاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ وقار عظیم کو اردو کا پہلا “غالب پروفیسر” بھی مقرر کیا گیا تھا۔ یہ تخصیص و مقام ثابت کرتا ہے کہ وہ اردو ادب میں نثر و نظم کے کلاسیکی اور جدید دور کے ایک ایسے نکتہ بیں و رمز شناس تھے جن کی رائے معتبر اور مستند تھی۔

    وقار عظیم محقّق اور مترجم بھی تھے جو محنت اور لگن کے ساتھ اپنے وسیع مطالعے اور علمی استعداد کو بروئے کار لاتے ہوئے مختلف موضوعات پر تصنیف و تالیف میں مصروف رہے۔ انھوں‌ نے متعدد کتب یادگار چھوڑیں جو علم و ادب کی دنیا کا بڑا سرمایہ ہیں۔ ان میں نثر اور نظم کی مختلف اصناف ہیں‌ جن پر انھوں نے تحقیقی اور تنقیدی کام سپردِ‌ قلم کیا۔

    ان کا پورا نام سیّد وقار عظیم تھا۔ انھوں نے 15 اگست 1910ء کو الٰہ آباد (یو پی) کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ الٰہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) کیا اور بعد میں الٰہ آباد یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ دہلی میں‌ تدریسی فرائض انجام دیے۔ اسی زمانے میں انھوں نے ادبی جریدے “آج کل” کی ادارت سنبھالی۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ 1949ء میں لاہور چلے آئے اور نقوش کے مدیر کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ 1950ء میں اورینٹل کالج لاہور میں اردو کی تدریس کا سلسلہ شروع کیا جو 1970ء تک جاری رہا۔ اس عرصے میں انھوں‌ نے اقبال اکیڈمی اور مختلف ادبی مجالس اور انجمنوں‌ اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تصنیف و تالیف کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔

    اردو ادب کو سید وقار عظیم نے کئی علمی و ادبی تحریروں سمیت اہم موضوعات پر تصانیف سے مالا مال کیا۔ ان میں‌ افسانہ نگار، داستان سے افسانے تک، نیا افسانہ، ہماری داستانیں، فن اور فن کار، ہمارے افسانے، شرح اندر سبھا، اقبال بطور شاعر، فلسفی اور اقبالیات کا تنقیدی جائزہ سرفہرست ہیں۔

    وہ لاہور میں‌ میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • پاکستان ٹیلی وژن کے معروف اداکار شفیع محمد شاہ کی برسی

    پاکستان ٹیلی وژن کے معروف اداکار شفیع محمد شاہ کی برسی

    دھیمے لب و لہجے، مگر رعب دار شخصیت کے مالک شفیع محمد شاہ نے پاکستان ٹیلی وژن ڈراموں میں اپنی لاجواب اداکاری سے ناظرین کے دل جیتے اور خود کو ورسٹائل فن کار بھی ثابت کیا۔ آج شفیع محمد شاہ کا یومِ وفات ہے۔ وہ 17 نومبر 2007ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    شفیع محمد شاہ نے اردو اور سندھی فلموں میں بھی کردار نبھائے، لیکن پاکستان بھر میں انھیں ٹیلی ویژن ڈراموں کی بدولت مقبولیت ملی۔ ان کے کئی ڈرامے یادگار ثابت ہوئے۔

    1948ء میں کنڈیارو میں پیدا ہونے والے شفیع محمد شاہ نے سندھ یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے کا امتحان پاس کیا اور ایک زرعی بینک میں ملازمت اختیار کرلی۔ لیکن وہ بطور اداکار کام کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ ان کی آواز میں‌ خاص قسم کی مٹھاس، نرمی اور لہجے میں وہ دھیما پن تھا جس میں ایک جاذبیت اور کشش تھی۔ ان کا یہی انداز اور لب و لہجہ انھیں ریڈیو پاکستان تک لے گیا جہاں وہ صدا کار کے طور پر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے لگے۔

    فن کار کی حیثیت سے اپنے سفر کا آغاز کرنے کے بعد شفیع محمد شاہ نے ملازمت ترک کی اور لاہور چلے گئے جہاں اداکار محمد علی نے فلم کورا کاغذ میں ایک کردار دلوا دیا۔ اسی زمانے میں ٹیلی وژن کے نہایت قابل اور نام ور پروڈیوسر شہزاد خلیل نے انھیں اپنے ڈرامے اڑتا آسمان میں‌ ایک کردار کی پیش کش کی اور یوں ٹی وی کے ناظرین سے ان کا تعارف ہوا۔ انھوں نے لاہور میں قیام کے دوران چند فلموں میں کام کیا اور پھر کراچی آگئے۔

    شفیع محمد شاہ کو سیریل تیسرا کنارا اور آنچ سے ملک بھر میں شہرت ملی۔ آنچ وہ ڈرامہ ثابت ہوا جس نے زبردست مقبولیت حاصل کی اور وہ ہر دل عزیز فن کار بن گئے۔

    ٹیلی وژن ڈراموں کے مقبول ترین ڈراموں آنچ، چاند گرہن، جنگل، دائرے، تپش، کالا پل، ماروی میں‌ شفیع محمد شاہ نے اپنے کرداروں میں‌‌ حقیقت کا رنگ بھرا اور ناظرین کے دل جیتے۔

    اس اداکار نے سیاست کی دنیا میں بھی قدم رکھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے ٹکٹ پر انھوں نے قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب میں حصّہ لیا، لیکن کام یاب نہ ہوسکے۔ یہ 2002ء کی بات ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا اور بعد از مرگ شفیع محمد شاہ کے لیے ستارۂ امتیاز کا اعلان کیا۔