Tag: 18ویں ترمیم

  • ن لیگ کی منشور کمیٹی میں 18ویں ترمیم کے معاملے پر اختلافات

    ن لیگ کی منشور کمیٹی میں 18ویں ترمیم کے معاملے پر اختلافات

    لاہور: مسلم لیگ ن کی منشور کمیٹی میں 18ویں ترمیم کے معاملات پر اختلافات سامنے آگئے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق مسلم لیگ ن میں اکثریت کی رائے ہے کہ 18ویں ترمیم کا معاملہ دوسری سیاسی جماعتوں سے مشاورت پر چھوڑ دیا گیا ہے جب تک سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے نہ ہو 18ویں ترمیم کو نہ چھیڑا جائے۔

    ذرائع کا بتانا ہے کہ ن لیگ کے چند رہنما 18ویں تمریم کی کچھ شقوں میں تبدیلی کے حامی ہیں۔

    منشور کمیٹی کی حکومت میں آنے کی صورت میں جلد بلدیاتی انتخابات کی سفارش کی گئی ہے، بلدیاتی اداروں کو مالی، انتظامی معاملے پر خود مختار بنانے پر قانون سازی کی جائے گی۔

    ذرائع کے مطابق ڈی سی، اسسٹنٹ کمشنر کے چند اختیارات بلدیاتی نمائندوں کو دینے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے جبکہ منشور کمیٹی نے بلدیاتی اداروں کی مدت اسمبلیوں کے برابر کرنے کی بھی تجویز دی ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ رواز مسلم لیگ ن کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ پارٹی کا منشور تیاری کے آخری مراحل میں ہے جلد عوام کے سامنے پیش کریں گے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ کے منشور کا ایجنڈا پاکستان اور پاکستانی عوام کی ترقی ہوگی، ہم صرف وعدے نہیں کریں گے، ماضی کی طرح عمل کرکے دکھائیں گے۔

  • 8 اپریل: پاکستان کی سیاست میں ایک اہم اور یادگار دن

    8 اپریل: پاکستان کی سیاست میں ایک اہم اور یادگار دن

    آئین میں اٹھارہویں ترمیم کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم سنگِ میل کہا جاتا ہے جس نے صدارتی نظام سے اختیارات کو دوبارہ پارلیمان تک پہنچایا۔

    پاکستان کی قومی اسمبلی میں آج ہی کے دن اٹھارہویں آئینی ترمیم پیش کی گئی تھی جسے 15 اپریل 2010ء کو سینیٹ نے پاس کیا اور صدرِ پاکستان کی حیثیت سے آصف علی زرداری کے دستخط سے یہ ترمیم 19 اپریل کو آئین کا حصّہ بنی۔

    یہ جنرل ضیاء کا دور تھا جب آٹھویں ترمیم کے ذریعے وزیرِاعظم کے اختیارات صدر کو منتقل ہوئے اور اسمبلی توڑنے کا صوابدیدی اختیار صدر کو مل گیا۔ آپ نے آرٹیکل 58-2 (b) کا ذکر سنا ہی ہو گا۔ اسی کے ذریعے ملک کا صدر اسمبلی برطرف کرسکتا تھا۔ ملکی سیاست میں اس صوابدیدی اختیار کو جنرل ضیاء الحق نے وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت ختم کرنے کے لیے استعمال کیا، صدر غلام اسحٰق خان نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتوں اور پھر صدر فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو برطرف کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔

    سیاسیات اور آئین و قانون کے ماہرین کے مطابق 18 ویں ترمیم نے ملک میں شراکتی وفاقی کلچر کو فروغ دیا اور یہ ترمیم سیاسی اتفاقِ رائے کا مظہر ہے۔ اس ترمیم نے مارشل لاء کے ادوار میں‌ کی گئی ترامیم کو ختم کرکے پارلیمانی اختیارات کو اس کی اصل شکل میں بحال کیا۔ اس ترمیم کو ملک کے تمام صوبوں کو اختیارات دے کر وفاق کو مضبوط کرنے کا ذریعہ کہا جاتا ہے۔

    8 اپریل 2010ء کو قومی اسمبلی نے آمرانہ دور کی ترامیم ختم کرتے ہوئے دو تہائی اکثریت سے زیادہ ارکان کی حمایت سے بل کو منظور کیا تھا اور پارلیمانی جمہوریت بحال ہوئی تھی جس میں اہم اختیارات صدر سے وزیرِ اعظم کو منتقل ہوگئے۔ اس بل کی منظوری کو سیاسی جماعتیں تاریخی اقدام قرار دیتی ہیں۔