Tag: 18 اکتوبر وفات

  • بابائے ایجادات کا تذکرہ تھامس ایلو ایڈیسن جنھیں مخالفت اور لعن طعن کا سامنا کرنا پڑا

    بابائے ایجادات کا تذکرہ تھامس ایلو ایڈیسن جنھیں مخالفت اور لعن طعن کا سامنا کرنا پڑا

    تھامس ایلوا ایڈیسن کو عموماً بابائے ایجادات کہا جاتا ہے۔ اس عظیم امریکی سائنس دان کا سنِ پیدائش 1847ء ہے جو زندگی کی 84 بہاریں دیکھنے کے بعد 1931ء آج ہی کے دن اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا تھا۔

    آج کی طرح ایڈیسن کے زمانے میں نہ تو خبر رسانی کے ذرایع ایسے تھے کہ کسی کارنامے کی سیکنڈوں میں دنیا کو خبر ہوجائے اور نہ ہی مستند معلومات کا حصول سہل تھا۔ کوئی خبر، اطلاع، اعلان یا کسی بھی واقعے کے بارے میں‌ لوگ سنی سنائی باتوں پر یقین کرلیتے۔ اس طرح مبالغہ آرائی، جھوٹ یا غلط فہمی بھی پیدا ہوجاتی تھی۔ ایسا ہی کچھ ایڈیسن کے ساتھ بھی ہوا اور اس کی ایجادات، سائنسی تھیوری یا اکثر کارناموں پر اسے حاسدین کی مخالفت کے ساتھ لعن طعن بھی برداشت کرنا پڑا۔ اس پر الزام لگا کہ وہ دوسروں کی سائنسی نظریات اور ان کی تحقیق و تجربات سے فائدہ اٹھا رہا ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بلب ایڈیسن کی ایجاد نہیں تھا بلکہ اس نے ہمفرے ڈیوی کے خیالات اور آئیڈیا پر کام کر کے ایک تجربہ کیا اور بلب ایجاد کرلیا۔ تاہم اسے اوّلین برقی قمقمے کا موجد مانا جاتا ہے۔

    تھامس ایڈیسن ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور اس خاندان کے آمدنی کے ذرائع محدود تھے جس میں تھامس اور اس کے 8 بہن بھائیوں کی پرورش مشکل تھی۔ اس کے باوجود اس کی والدہ نے جو ایک اسکول میں استانی تھیں، اپنے بچّوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔

    یہ عجیب بات ہے، مگر اس زمانے کے اکثر سائنس داں اور اہم اشیا اور قابلِ ذکر ایجادات کے لیے مشہور شخصیات کسی نہ کسی بیماری یا جسمانی معذوری کا شکار رہی ہیں۔ ایڈیسن کو بھی 8 برس کی عمر میں تیز بخار ہوا جس سے ان کے دونوں کانوں کی سماعت متاثر ہوئی اور چند برس میں وہ کچھ بھی سننے کے قابل نہیں رہا۔ ایڈیسن کو بچپن سے سائنسی تجربات کا بہت شوق تھا۔

    وہ بارہ سال کا ہوا تو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ریل گاڑی میں کتابیں بیچنے کا کام کرنے لگا۔ اس نے کچھ عرصہ بعد اسی ڈبے میں ایک چھوٹا سا کیبن بنا لیا، اور بعد میں اسی جگہ کو ایک لیبارٹری میں تبدیل کرکے برقی کام شروع کردیا۔ اس نے اپنی ذہانت اور شوق و لگن سے کچھ ایسے تجربات کیے جنھوں نے اسے موجد بنا دیا۔

    ایڈیسن نے آٹومیٹک ٹیلگراف کے لیے ٹرانسمیٹر ریسور ایجاد کیا اور اس اثنا میں چند مزید چھوٹی ایجادات کیں جن سے اسے خاصی آمدنی ہوئی۔ بعد میں وہ ایک ذاتی تجربہ گاہ بنا کر سائنسی تجربات اور ایجادات میں‌ مصروف ہوگیا جن میں فونو گراف (جس نے آگے چل کر گرامو فون کی شکل اختیار کی) بلب، میگا فون، سنیما مشین وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

    اس امریکی موجد کو 1915ء میں نوبل پرائز بھی ملا۔ بچپن سے تنگی اور عسرت دیکھنے کے علاوہ بیماری کا شکار ہوجانے کے باوجود ایڈیسن نے ہمّت نہ ہاری اور آج اس کا شمار انیسویں صدی کے بہترین موجد کے طور پر کیا جاتا ہے۔

  • بابائے فطرت استاد اللہ بخش کی برسی

    بابائے فطرت استاد اللہ بخش کی برسی

    استاد اللہ بخش کو بابائے فطرت اور ثقافتی مصوّر بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے اس نام وَر مصوّر کی زندگی کے اوراق 1978ء میں آج ہی کے دن بے رنگ ہوگئے تھے۔

    استاد اللہ بخش کو ماڈرن لینڈ اسکیپ اور تشبیہی نقّاشی (Figurative painting) کا ماہر جانا جاتا ہے۔ وہ انتہائی باصلاحیت تھے اور فنِ مصوّری میں مہارت و کمال ان کی توجہ، دل چسپی اور ریاضت و مشق کا نتیجہ تھا۔ البتہ مصوّری میں بنیادی تعلیم منی ایچر پینٹنگ کے ماہر استاد عبد اللہ سے حاصل کی تھی۔

    ابتدائی عمر میں انھوں نے تشہیری بورڈ پینٹ کرنے کا کام کیا تھا اور بعد میں بمبئی، کلکتہ میں مختلف اداروں سے وابستہ رہے اور پینٹنگ اور سینری بنانے کا کام کرتے رہے۔ اس طرح انھوں نے رنگوں اور برش کو سمجھا اور تجربہ حاصل کیا۔ لاہور لوٹنے پر ایک اخبار میں کمرشل آرٹسٹ کے طور پر کام کرنا شروع کردیا اور پھر ایک مصوّر کی حیثیت سے پنجاب کی دیہاتی زندگی اور ثقافت کو کینوس پر اتارنے کا وہ سلسلہ شروع کیا جس نے انھیں دنیا بھر میں شہرت دی۔

    انھوں نے پنجاب کی رومانی داستانوں کے لافانی کرداروں ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال اور مرزا صاحباں کو اپنے مصوّرانہ تخیل سے چار چاند لگا دیے۔

    استاد اللہ بخش وزیر آباد میں 1895ء میں پیدا ہوئے تھے۔ استاد اللہ بخش کے والد کرم دین محکمہ ریلوے کی ورک شاپ میں رنگ ساز تھے اور ریل گاڑیوں پر رنگ کیا کرتے تھے، اور اس طرح وہ شروع ہی سے رنگ اور برش سے واقف تھے۔ وہ قدرتی مناظر اور دیہات کے سادہ اور روایتی ماحول میں‌ پلے بڑھے جس کی کشش نے انھیں فن کار بنا دیا۔

    وہ آبی، روغنی ، ٹیمپرا اور پوسٹر رنگوں کے علاوہ چاک وغیرہ میں بھی بڑی مہارت سے کام کرتے تھے۔ پنجاب کے دیہات کی روزمرّہ زندگی کی تصویر کشی کے علاوہ انھوں نے زرخیز میدانی علاقوں اور وہاں کی لوک داستانوں کو اپنے فن میں پیش کیا۔ ان کی حقیقت سے قریب تر پینٹنگز رنگوں، زندگی اور جیتے جاگتے لوگوں سے بھرپور تھیں، جس نے دیکھنے والوں کو بہت متاثر کیا۔

    1919ء میں انھیں شملہ فائن آرٹس سوسائٹی کی جانب سے انعام سے نوازا گیا تھا اور اخبارات نے انھیں بمبئی کا ماسٹر پینٹر کہا، مگر اس حوصلہ افزائی کے باوجود وہ سب کچھ چھوڑ کر لاہور واپس آگئے۔ وہ سیلانی طبیعت کے سبب کسی ایک جگہ جم کر کام نہیں کر پائے۔ 1924ء میں مہاراجہ جموں کشمیر نے انھیں کورٹ پینٹر کی ملازمت کی پیشکش کی، جہاں وہ تقریباً 1938ء تک خدمات انجام دیتے رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے بہت سی تصاویر بنائیں اور 1928ء میں ممبئی میں ہونے والی تصویری نمائش میں ان کے ایک شاہ کار کو اوّل انعام دیا گیا۔ لوگ ان کے فن پاروں سے بہت متاثرہوئے اور ان کا کام مشہور مصوّروں میں زیرِ بحث آیا۔

    استاد اللہ بخش کے لاہور میوزیم میں کئی فن پارے رکھے گئے ہیں جو شائقین کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔

    استاد اللہ بخش کو حکومت پاکستان کی طرف سے ’تمغہ حسن کارکردگی‘ سے نوازا گیا تھا۔

  • چارلس ببیج کا پہلا میکانی کمپیوٹر جو الیکٹرونک کمپیوٹر کی بنیاد بنا

    چارلس ببیج کا پہلا میکانی کمپیوٹر جو الیکٹرونک کمپیوٹر کی بنیاد بنا

    چارلس ببیج (Charles Babbage) کو فادر آف کمپیوٹر تصوّر کیا جاتا ہے۔ وہ ایک موجد اور میکانی مہندس ہی نہیں‌ ریاضی دان اور فلسفی بھی مشہور تھا۔

    26 دسمبر 1791ء لندن کے ایک قصبے میں‌ آنکھ کھولنے والے چارلس ببیج 18 اکتوبر 1871ء کو وفات پا گیا تھا۔ چارلس ببیج نے ڈیجیٹل پروگرام ایبل کمپیوٹر(programmable computer) كا تصوّر پیش کرکے شہرت حاصل کی۔ اس نے پہلا میکانی کمپیوٹر ایجاد کیا تھا جو الیکٹرونک کمپیوٹر کی بنیاد بنا۔

    ماہرین کے مطابق جدید کمپیوٹر کا تصوّر دراصل اسی سائنس دان اور موجد کے اینالیٹکل انجن کے مطابق ہے۔

    چارلس کی زندگی کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہو گاکہ وہ لندن کے ایک بینک کار اور امیر آدمی کا بیٹا تھا جس کی ابتدائی تعلیم اعلیٰ‌ درجے کے اسکولوں میں ہوئی۔ وہ تقریباً آٹھ سال کا تھا جب ایک خطرناک بخار کی وجہ سے اس کی تدریس کا عمل متاثر ہوا۔ اسے گھر پر پڑھنے کا مشورہ دیا گیا۔ اسی عرصے میں اس کا وقت ایک بڑی لائبریری میں گزرا جہاں اس کی توجہ اور دل چسپی ریاضی کے مضمون میں بڑھ گئی۔ وہ ایک زبردست ریاضی دان تو بن گیا، لیکن سند یافتہ نہیں تھا۔ 1814ء میں اس نے بغیر امتحان کے ایک اعزازی ڈگری حاصل کرلی۔

    ببیج کی محنت اور اپنے مضمون میں‌ غور و فکر کا سلسلہ جاری رہا اور ایک وقت آیا جب وہ مصنوع و ایجاد کے قابل ہوگیا۔ اس نے جس وقت ریاضی اور اعداد و شمار کے جدولوں كی تیّاری کا کام شروع کیا تو اس کے لیے معاوضے پر لوگوں کو رکھنا پڑا۔ لیکن ان جدولوں کی جانچ پڑتال پر کئی گھنٹے لگ جاتے اور تب بھی انسانی غلطیاں ختم کرنا آسان نہیں‌ ہوتا تھا، وہ جدول بنانے كے کام سے اکتا گیا اور ایک ایسی مشین بنانے کے بارے میں سوچنے لگا جو غلطی کے بغیر جدولوں كا حساب كرلے۔

    1822ء میں اس سائنس دان نے ڈفرینشل انجن تیّار کر لیا جو قابلِ اعتماد جدول بنا سکتا تھا۔ 1842ء میں اس نے اینالیٹکل انجن کا خیال پیش کیا، جو فی منٹ 60 اضافے کی اوسط رفتار سے ریاضی کے کسی بھی مسئلے کے لیے حساب کے افعال کو مکمل طور پر خود کار طریقے سے انجام دے سکے۔ بدقسمتی یہ تھی کہ وہ اس مشین کا قابلِ عمل نمونہ تیار نہیں کرسکتے تھے۔ تاہم اس کے ان مفروضوں اور تصوّرات کو اہم مانا جاتا ہے۔