Tag: 18 جولائی وفات

  • راجیش کھنہ: بالی وڈ کا پہلا سپر اسٹار جو مغرور اور لیٹ لطیف مشہور تھا

    راجیش کھنہ: بالی وڈ کا پہلا سپر اسٹار جو مغرور اور لیٹ لطیف مشہور تھا

    راجیش کھنہ کو بالی وڈ کا پہلا سپر اسٹار کہا جاتا ہے۔ انھوں نے 2012ء میں آج ہی کے دن زندگی سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیا تھا۔

    گزشتہ صدی میں 70 کے عشرے تک راجیش کھنہ جس فلم میں جلوہ گر ہوئے، باکس آفس پر ہٹ ہوئی۔ راجیش کھنہ ان اداکاروں میں‌ سے تھے جنھوں نے اپنے زمانہ عروج میں لگا تار پندرہ سپر ہٹ فلمیں دیں جو ایک ریکارڈ ہے۔

    راجیش کھنہ 1942ء میں پنجاب کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئے۔ 1966ء میں انھوں‌ نے چیتن آنند کی فلم ’آخری خط‘ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور 1969ء میں ’آرادھنا‘ کی ریلیز کے بعد راتوں رات اسٹار بن گئے۔ اس فلم میں انھوں‌ نے باپ اور بیٹے کا ڈبل رول نبھایا تھا۔

    راجیش کھنہ نے اپنے سَر کو ایک خاص انداز میں جھٹکنے، اپنی منفرد چال اور آنکھوں کے مخصوص اشارے سے شائقین بالخصوص لڑکیوں کی توجہ حاصل کی اور ان کے دلوں میں اتر گئے۔

    انھوں نے اپنے دور کی مقبول ترین اداکاراؤں کے ساتھ کام کیا جن میں شرمیلا ٹیگور اور ممتاز کے ساتھ ان کی جوڑی سب سے زیادہ ہٹ ہوئی۔ ’دو راستے‘، ’خاموشی‘، ’آنند‘ اور ’سفر‘ جیسی فلموں سے انھوں نے ثابت کر دیا کہ وہ کردار کی گہرائی میں بھی اترسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ راجیش کھنہ اور ممتاز کی جوڑی نے ’آپ کی قسم‘، ’دشمن، ’روٹی‘ اور ’سچا جھوٹا‘ جیسی سپر ہٹ فلمیں دیں۔

    ہندی فلموں کے مشہور مصنّف سلیم خان کے مطابق راجیش کھنہ کے لیے لوگوں میں ایسی دیوانگی تھی جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ ان کی مسکراہٹ لڑکیوں کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ ان کی آواز تو اچھی تھی ہی، ان کی فلموں کے گانے بھی بہت عمدہ ثابت ہوئے۔‘

    یہ بھی مشہور ہے کہ وہ اپنی شہرت کو سنبھال نہیں پائے اور خاصے مغرور ہوگئے تھے۔ وہ سیٹ پر آمد کے بعد جونیئر فن کاروں اور عملے کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے اور خاموشی سے کام کرکے چلے جاتے تھے۔ راجیش کھنہ لیٹ لطیف بھی مشہور تھے اور بددماغ یا غرور بھی۔ تاہم بعض قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ شروع ہی سے ایسے تھے اور یہ کہنا درست نہیں‌ کہ فلم کی کام یابیوں نے انھیں ایسا بنا دیا تھا۔

    بالی وڈ میں‌ ان کی کام یابیوں کا سفر جاری تھا کہ امیتابھ بچن کا سورج چڑھنا شروع ہوا اور ستّر کی دہائی کے ساتھ ہی راجیش کھنہ کا عروج دم توڑنے لگا، ان کی فلمیں باکس آفس پر فلاپ ہونے لگی تھیں۔

    راجیش کھنہ نے اداکارہ ڈمپل کپاڈیا سے شادی کی تھی اور ان کی ٹوئنکل کھنہ اور رنکی کھنہ ان کی بیٹیاں ہیں۔ راجیش کھنہ سرطان کے مرض میں‌ مبتلا تھے۔ فلمی دنیا میں انھیں ’کاکا‘ کے نام سے بھی پہچانا جاتا تھا۔

  • یومِ وفات: معروف شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کی خوش اخلاقی اور خوش مزاجی بھی مشہور ہے

    یومِ وفات: معروف شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کی خوش اخلاقی اور خوش مزاجی بھی مشہور ہے

    اردو زبان کے ممتاز شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر 18 جولائی 1998ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ہندوستان ہی نہیں‌ وہ پاکستان میں بھی اپنی شاعری اور خوب صورت شخصیت کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔

    ان کا نام کنور مہندر سنگھ بیدی اور تخلّص سحر تھا۔ 1909ء میں منٹگمری (ساہیوال) میں پیدا ہوئے۔ لاہور میں کالج سے تعلیم پائی۔ تاریخ اور فارسی کے ساتھ بی اے کیا جس کے بعد سول انتظامیہ کے تحت امتحانات پاس کیے اور 1935ء کے آواخر میں ان کا تبادلہ بطور فرسٹ کلاس مجسٹریٹ، روہتک ہوگیا۔ یہ گوڑ گاؤں میں ڈپٹی کمشنر بھی رہے۔ وہ ڈائریکٹر محکمہ پنچایت کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔

    سکھ شعرا میں انھیں معتبر اور پُروقار شخصیت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ سحرؔ ایک ہر دل عزیز شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ خوش اخلاق اور ظرافت و خوش مزاجی کے لیے بھی مشہور تھے۔ وہ محفل کو زعفران زار بنانے کا ہنر جانتے تھے اور ہر مجلس میں لوگوں کو متاثر کرلیتے تھے۔ ادیب و شاعر ہی نہیں مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ نام ور شخصیات ان سے گفتگو اور تبادلۂ خیال کرنے کو اپنے لیے باعث لطف و کرم تصور کرتتی تھیں۔

    کنور مہندرسنگھ بیدی نے کم عمری میں‌ شاعری کا آغاز کردیا تھا، انھوں نے کسی سے اصلاح نہیں‌ لی۔ انھوں نے اپنے کلیات کے علاوہ ’یادوں کا جشن‘ کے نام سے خود نوشت بھی یادگار چھوڑی ہے۔

    ان کی ایک غزل دیکھیے۔

    تیرِ نظر چلاتے ہوئے مسکرا بھی دے
    آمادہ قتل پر ہے تو بجلی گرا بھی دے

    رخ سے نقاب اٹھا کے کرشمہ دکھا بھی دے
    سورج کو چاند چاند کو سورج بنا بھی دے

    منزل ہے تیری حدِ تعیّن سے ماورا
    دیر و حرم کے نقش کو دل سے مٹا بھی دے

    سجدے ہیں لاکھ نقشِ کف پا کے منتظر
    یہ سر نہیں ہے عرش سحر آ جھکا بھی دے

  • یومِ وفات: مشہور انگریزی ناول نگار جین آسٹن کا تذکرہ

    یومِ وفات: مشہور انگریزی ناول نگار جین آسٹن کا تذکرہ

    انگریزی زبان کی مشہور ناول نگار جین آسٹن نے 18 جولائی 1817ء کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔ 41 برس کی عمر میں وفات پا جانے والی اس تخلیق کار نے چھے ناول لکھے جن میں انسانی فطرت اور رشتوں کی باریکیوں کو خوب صورتی سے سمویا گیا ہے۔

    وہ ایک برطانوی پادری کی بیٹی تھیں۔ 1775ء میں‌ جنم لینے والی جین آسٹن کی تخلیقات کو انگریزی کلاسیکی ادب کا حصّہ سمجھا جاتا ہے۔

    ‘پرائڈ اینڈ پریجوڈیس’ ان کا وہ ناول ہے جسے دنیا بھر میں‌ سراہا گیا اور اردو میں‌ اس کے متعدد تراجم سامنے آئے۔ اسے اردو کے قالب میں ڈھالنے والوں نے فخر اور تعصّب کا نام دیا۔ جین آسٹن کے دیگر ناولوں میں‌ ‘مینز فیلڈ پارک’ اور ‘ایما’ بھی شامل ہیں۔ ایما پہلی بار 1816ء میں شائع ہوا تھا۔ سینس اینڈ سینسیبلٹی یعنی شعور و احساس اور نارتھینجر ایبے وہ ناول تھے جو بہت بعد میں شائع ہوئے۔ اس کا سبب اس دور کی عورتوں کے کام کرنے اور گھروں سے باہر نکلنے کے حوالے سے قدامت پسندانہ سوچ اور تعلیم و ادب کے حوالے سے انھیں اہمیت نہ دیا جانا تھا۔ اس لیے ان کے ناول لکھنے کے کافی عرصہ بعد چھپے اور وہ بھی فرضی نام سے۔

    مصنّفہ کے ناول سماج کے کرداروں اور اشراف کے اطراف گھومتے ہیں۔ انھوں‌ نے اپنے ناولوں میں‌ سماج پر طنز اور ہلکے پھلکے انداز میں‌ چوٹ بھی کی۔ مشہور ہے کہ وفات کے کئی برس بعد ان کی کہانیوں کو بہت زیادہ پڑھا اور سراہا گیا اور آج انھیں اس دور کی سماجی اور اخلاقی حالت کو سمجھنے اور بعض روایات کے تناظر میں‌ اہم خیال کیا جاتا ہے۔