Tag: 18 جون وفات

  • 18 جون: لکشمی بائی جس نے وطن کی حرمت و ناموس پر جان قربان کردی

    18 جون: لکشمی بائی جس نے وطن کی حرمت و ناموس پر جان قربان کردی

    لکشمی بائی جنگِ آزادیٔ ہند کا وہ کردار ہے جس کی لازوال قربانی، فہم و فراست اور بہادری کی داستان خطّے کی تاریخ میں‌ ہمیشہ زندہ رہے گی۔ یہ کردار آنے والی نسلوں کو اپنے وطن سے محبّت اور دھرتی کی حرمت و ناموس پر مَر مٹنے کا راستہ دکھاتا رہے گا۔

    لکشمی بائی ہندوستان کی ایک چھوٹی سی ریاست جھانسی کی رانی تھی۔ 1817ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے جھانسی کے راجہ کی وفات کے بعد وہاں اپنا قبضہ جمانے کی کوشش کی تو نوجوان بیوہ رانی لکشمی بائی نے انگریزوں کی طاقت کو للکارا اور اعلانِ جنگ کر دیا۔ اس وقت ہندوستان کا ہر بسنے والا بلاتفریقِ رنگ و نسل اور مذہب انگریزوں سے نفرت اور ان کے قبضے کے خلاف مزاحمت پر آمادہ تھا۔

    رانی نے فارسی اور اردو بھی پڑھی تھی، لیکن لکھنے پڑھنے کے ساتھ شمشیر زنی، نشانہ بازی اور گھڑ سواری اور دوسرے فنونِ حرب کی تربیت بھی حاصل کی تھی۔ وہ بہترین نشانے باز تھی۔ مشہورہ ہے کہ اس کی بندوق کا نشانہ کبھی خطا نہ جاتا تھا۔

    وہ ایک خوب صورت دوشیزہ تھی اور جب جھانسی کے گنگا دھر کی طرف سے شادی کا پیغام آیا تو والدین نے قبول کرلیا۔ اسے تعلیم و تربیت کے وہ تمام مواقع ملے جو راج کماروں اور راج کماریوں کے لیے مخصوص ہوتے تھے، یوں وہ جھانسی کی رانی بن گئی۔ راجہ نے اسے رانی لکشمی بائی کا خطاب دیا تھا۔

    غدر کے سال بھر بعد 18 جون 1858ء کو انگریز گوالیار پر حملہ آور ہوئے تو رانی نے مختصر فوج کے ساتھ ان کے حملے کا بھرپور جواب دیا۔ مردانہ لباس میں وہ دشمن پر برق بن کر کوندی۔ لیکن ایک موقع پر جب انگریز سپاہی نے عقب سے تلوار ماری تو زندگی کا سفر تمام ہو گیا۔

    مشہور ہے کہ اس نے مرتے ہوئے وصیّت لاش کو انگریزوں کے ہاتھ نہ لگنے دینے کی وصیّت کی تھی اور اسی لیے اس کے جسدِ خاکی کو اسی مقام پر نذرِ آتش کردیا گیا جہاں اس نے زندگی کی آخری سانسیں‌ لی تھیں۔

  • جنگِ طرابلس: 11 سالہ فاطمہ مسلمان سپاہیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہوگئی تھیں

    جنگِ طرابلس: 11 سالہ فاطمہ مسلمان سپاہیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہوگئی تھیں

    آج عالمِ اسلام کی ایک کم سن بیٹی فاطمہ بنتِ عبداللہ کی شہادت کا دن ہے۔ انھوں نے 18 جون 1912ء کو جنگِ طرابلس میں مجاہدین کو پانی پلاتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا تھا۔

    فاطمہ بنت عبداللہ لیبیا کے شہر طرابلس میں 1898ء میں پیدا ہوئیں۔ اسلامی ماحول میں تعلیم و تربیت پانے والی فاطمہ عرب قبیلے کے سردار کی اکلوتی بیٹی تھیں۔

    اطالوی اور سلطنتِ عثمانیہ کی افواج کے مابین لڑی گئی اس جنگ میں اگرچہ طاقت اور تعداد میں مسلمان کم تھے، لیکن مسلمان سپاہی ہی نہیں ان کے ساتھ عرب عورتیں بھی دشمن کی طاقت اور عددی برتری سے بے نیاز اور جذبہ شہادت سے سرشار میدان میں نظر آئیں۔ کئی خواتین نے دورانِ جنگ زخمی سپاہیوں کی مرہم پٹّی اور دیکھ بھال کی ذمہ داری نبھائی تھی جن میں فاطمہ بھی شامل تھیں۔

    شاعرِ‌ مشرق علّامہ اقبال نے اسی کم عمر شہید پر ایک نظم بھی لکھی تھی جو بانگِ درا میں شامل ہے، لیکن اس کلام میں اقبال نے جہاں فاطمہ کو ان کی جرات اور بہادری پر سلام پیش کیا ہے، وہیں امّتِ مسلمہ کے ظاہری امراض کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو لائقِ توجہ ہے۔

    18 جون کو دشمن سے ایک جھڑپ کے دوران جب فاطمہ بنتِ عبدُ اللہ چند زخمی مجاہدوں کو پانی پلا رہی تھیں تو اطالوی سپاہی نے انھیں گولیوں‌ کا نشانہ بنایا تھا۔

    اس ننّھی مجاہدہ پر لکھی گئی اقبال کی نظم پڑھیے۔

    "فاطمہ بنت عبدُاللہ”
    فاطمہ! تو آبروئے امّتِ مرحوم ہے
    ذرہ ذرّہ تيری مشتِ خاک کا معصوم ہے

    يہ سعادت، حورِ صحرائی! تری قسمت ميں تھی
    غازيانِ ديں کی سقّائی تری قسمت ميں تھی

    يہ جہاد اللہ کے رستے ميں بے تيغ و سپر
    ہے جسارت آفريں شوقِ شہادت کس قدر

    يہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر ميں تھی
    ایسی چنگاری بھی یارب، اپنی خاکستر ميں تھی!

    اپنے صحرا ميں بہت آہو ابھی پوشيدہ ہيں
    بجلياں برسے ہوئے بادل ميں بھی خوابيدہ ہيں!

    فاطمہ! گو شبنم افشاں آنکھ تيرے غم ميں ہے
    نغمۂ عشرت بھی اپنے نالۂ ماتم ميں ہے

    رقص تیری خاک کا کتنا نشاط انگيز ہے
    ذرّہ ذرّہ زندگی کے سوز سے لبريز ہے

    ہے کوئی ہنگامہ تيری تربتِ خاموش ميں
    پَل رہی ہے ايک قومِ تازہ اس آغوش ميں

    بے خبر ہوں گرچہ ان کی وسعتِ مقصد سے ميں
    آفرينش ديکھتا ہوں ان کی اس مرقد سے ميں

    تازہ انجم کا فضائے آسماں ميں ہے ظہور
    ديدۂ انساں سے نامحرم ہے جن کی موجِ نور

    جو ابھی ابھرے ہيں ظلمت خانۂ ايّام سے
    جن کی ضو ناآشنا ہے قيدِ صبح و شام سے

    جن کی تابانی ميں اندازِ کہن بھی، نو بھی ہے
    اور تيرے کوکبِ تقدير کا پَرتو بھی ہے

  • میکسم گورکی: وہ ناول نگار جسے "ماں” نے دنیا بھر میں لازوال شہرت عطا کی

    میکسم گورکی: وہ ناول نگار جسے "ماں” نے دنیا بھر میں لازوال شہرت عطا کی

    18 جون 1936ء کو دنیا سے رخصت ہوجانے والے نام ور روسی ادیب اور شاعر میکسم گورکی کو "ماں” نے دنیا بھر میں لازوال شہرت عطا کی اور یہ ناول شہرۂ آفاق ثابت ہوا۔

    روسی ادب میں ناول ماں کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے جس نے الیکسی میکسیمووچ پیشکوف المعروف میکسم گورکی کو اپنے ہم عصروں‌ میں ممتاز کیا۔ اس نے 28 مارچ 1868ء کو روس میں جنم لیا، والد کا سایہ کم عمری میں‌ سر سے اٹھ گیا، گورکی نے چھوٹے موٹے کام کیے، اور غربت و افلاس دیکھا، ایک مہربان نے تھوڑا بہت پڑھنا لکھنا سکھا دیا اور پھر وہ علم و ادب کی جانب مائل ہوا۔ آج اسے ایک انقلابی کے طور پر پہچانا جاتا ہے جو توانا اور تازہ فکر شاعر، باکمال ناول نگار، ڈراما نویس اور مستند صحافی بھی تھا۔ اس کے ناول اور مختصر کہانیاں بہت مقبول ہوئیں۔

    میکسم گورکی کا ناول “ماں” 1906ء میں منظر عام پر آیا تھا۔ اس ناول کی کہانی ایک مزدور، اس کی ماں، اس کے چند دوستوں اور چند خواتین کے گرد گھومتی ہے۔ بیٹا انقلابی فکر کا حامل ہے اور گرفتاری کے بعد ماں اپنے بیٹے اور اس کے مقصد یعنی انقلاب کے لیے سختیاں برداشت کرتی ہے، وہ ان پڑھ اور سادہ عورت ہے جو بیٹے کو جیل کے دوران خود بھی ایک انقلابی بن جاتی ہے۔ اس ناول کا دنیا کی بے شمار زبانوں میں ترجمہ جب کہ گورکی کو پانچ مرتبہ ادب کے نوبیل انعام کے لیے بھی نام زد کیا گیا تھا۔

    روس کے اس ادیبِ اعظم نے اپنی آپ بیتی بھی رقم کی جس کا مطالعہ گورکی کے نظریات سے اور اس کے دور میں روس کے حالات سے واقف ہونے کا موقع دیتا ہے، اس آپ بیتی میں کئی اہم سیاسی اور سماجی اور دل چسپ نوعیت کے واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔

  • یومِ وفات: استاد علی اکبر خان نے دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منوایا

    یومِ وفات: استاد علی اکبر خان نے دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منوایا

    کلاسیکی موسیقی میں استاد کا مرتبہ پانے والے علی اکبر خان کا شمار ان فن کاروں میں کیا جاتا ہے جنھوں نے مغرب کو مشرقی موسیقی سے آشنا کیا۔ 18 جون 2009ء کو اس نام وَر اور باکمال فن کار نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔

    علی اکبر خان نے 1922ء میں بنگال کے شہر کومیلا کے ایک قصبے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد علاءُ الدّین بھی فنِ‌ موسیقی میں استاد مشہور تھے اور انہی کے زیرِ سایہ علی اکبر خان نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اس کے بنیادی رموز سیکھے۔ بعدازاں تربیت کے لیے ‘سنیہ میہار گھرانے ’ سے وابستہ ہوگئے۔

    علی اکبر خان 22 سال کے ہوئے تو ریاست جودھ پور میں دربار سے بحیثیت موسیقار وابستہ ہوگئے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ بھارت میں رہے، لیکن 1967ء میں امریکا منتقل ہوگئے اور ریاست کیلی فورنیا میں سکونت اختیار کرلی، بعد میں انھوں نے برکلے میں علی اکبر کالج آف میوزک قائم کیا، جس میں اُن کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔

    سرود کے علاوہ استاد علی اکبر خان ستار، طبلہ اور ڈرم بھی مہارت اور خوبی سے بجاتے تھے۔ سرود کی تعلیم انھوں نے اپنے والد سے اور طبلے کی تربیت اپنے چچا فقیر آفتاب الدّین سے لی تھی۔

    کہتے ہیں ‘سُر بہار’ پیش کرنے میں ان کا کوئی ثانی ہی نہ تھا۔ استاد علی اکبر خان نے بھارت سمیت دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منوایا۔

    1989ء میں انھیں بھارت کا دوسرا بڑا شہری اعزاز عطا کیا گیا، جب کہ 1997ء میں انھیں امریکا میں روایتی فنون کے لیے معروف ‘ہیریٹیج فیلوشپ’ دی گئی۔ ان کی اہمیت اور اپنے فن کے سبب عالمی سطح پر پذیرائی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ انھیں 5 مرتبہ گریمی ایوارڈ کے لیے بھی نام زد کیا گیا تھا۔

    امریکا کے شہر سان فرانسسکو میں وفات پانے والے استاد علی اکبر خان کو برصغیر ہی نہیں‌ بلکہ دنیا بھر میں پہچانا جاتا ہے۔

  • یومِ وفات: فلمی موسیقار واجد علی ناشاد نے پی ٹی وی کے کئی مقبول ڈراموں‌ کے ٹائٹل سانگ بھی بنائے

    یومِ وفات: فلمی موسیقار واجد علی ناشاد نے پی ٹی وی کے کئی مقبول ڈراموں‌ کے ٹائٹل سانگ بھی بنائے

    پاکستان کی فلم نگری کے ممتاز موسیقار واجد علی ناشاد 18 جون 2008ء کو دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کے والد شوکت علی ناشاد بھی فلمی موسیقار تھے۔

    واجد علی ناشاد کا سنِ پیدائش 1953ء ہے۔ ان کا تعلق ممبئی سے تھا۔ ان کے والد 1964ء میں اپنے کنبے کے ساتھ ہجرت کرکے لاہور چلے آئے۔ ہجرت سے قبل واجد جس اسکول میں زیرِ تعلیم تھے، وہاں انھوں نے میوزک ٹیچر پیٹر ہائیکین سے پیانو بجانا سیکھا تھا۔

    واجد علی ناشاد کو اپنے والد کی وجہ سے موسیقی کا شوق تو تھا ہی، بعد میں انھوں نے خود اس فن میں دل چسپی لی اور مہارت حاصل کی۔ انھوں نے پاکستان میں کئی فلموں میں اپنے والد کے ساتھ بطور اسٹنٹ میوزک ڈائریکٹر کام کرتے ہوئے کلاسیکل گیت سنگیت کو سیکھا اور مغربی میوزک کا مطالعہ بھی کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ترتیب دی ہوئی دھنیں منفرد اور مقبول ثابت ہوئیں۔

    واجد علی ناشاد نے تقریباً 50 فلموں کے لیے بطور موسیقار کام کیا جب کہ تقریباً 300 فلموں کا بیک گراؤنڈ میوزک بھی دیا۔ انھوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کے مشہور ڈراموں ’’دشت ‘‘، ’’دوریاں‘‘، ’’ باغی ‘‘ ، ’’پراندہ ‘‘ ، ’’سلسلہ‘‘ ، ’’لنڈا بازار ‘‘ سمیت کئی سیریلوں کے ٹائٹل سانگ بھی بنائے۔

    واجد علی ناشاد نے 1977ء میں فلم ’’پرستش‘‘ کی موسیقی ترتیب دے کر اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔

  • معروف فلمی نغمہ نگار ناظم پانی پتی کی برسی

    معروف فلمی نغمہ نگار ناظم پانی پتی کی برسی

    18 جون 1998ء کو معروف فلمی نغمہ نگار ناظم پانی پتی وفات پاگئے۔ ان کا شمار متحدہ ہندوستان کے اُن تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جن کی فنی عظمت کو سبھی نے تسلیم کیا اور تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آجانے کے باوجود ان کا نام اور ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا بھارتی فلم انڈسٹری میں تذکرہ ہوتا رہا۔ انھوں نے فلم نگری کو دل میرا توڑا، کہیں کا نہ چھوڑا اور چندا کی نگری سے آ جا ری نندیا جیسے مقبول گیت دیے تھے۔

    ناظم پانی پتی کا اصل نام محمد اسماعیل تھا۔ 15 نومبر 1920 کو لاہور میں پیدا ہونے والے ناظم پانی پتی کے بڑے بھائی ولی صاحب اور ان کی بھاوج ممتاز شانتی کا تعلق فلمی دنیا سے تھا۔ ناظم پانی پتی نے لاہور سے فلموں کے لیے نغمہ نگاری شروع کی۔ خزانچی، پونجی، یملا جٹ، چوہدری، زمین دار اور شیریں فرہاد جیسی فلموں کے لیے انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور نام و مقام حاصل کیا۔

    وہ لگ بھگ دس سال تک بمبئی میں رہے جہاں 25 سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے۔ ان کی مشہور فلموں میں مجبور، بہار، شیش محل، لاڈلی، شادی، ہیر رانجھا اور دیگر شامل ہیں۔

    پاکستان میں انھوں نے جن فلموں کے لیے یادگار نغمات تحریر کیے ان میں لختِ جگر، شاہی فقیر، سہیلی، بیٹی اور انسانیت سرفہرست ہیں۔ انھوں نے اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں بھی گیت نگاری کی اور متعدد فلموں کا اسکرپٹ بھی لکھا۔

    ناظم پانی پتی لاہور میں ماڈل ٹائون کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔