Tag: 18 نومبر وفات

  • پاکستانی فلمی صنعت کے منفرد ہدایت پرویز ملک کا تذکرہ

    پاکستانی فلمی صنعت کے منفرد ہدایت پرویز ملک کا تذکرہ

    پرویز ملک اُن ہدایت کاروں میں‌ سے ایک تھے جنھوں نے اپنی فلموں کے لیے منفرد موضوعات کا چناؤ کیا، اور موسیقی اور شاعری پر خاص توجہ دی۔ انھوں نے پاکستانی فلم انڈسٹری کو متعدد کام یاب فلمیں دیں جو ان کی فنی مہارت اور کمال کی یادگار ہیں۔

    پرویز ملک 1937ء کو پیدا ہوئے تھے اور 2008 میں‌ آج ہی کے دن وفات پائی۔ وہ پاکستانی فلموں کے چاکلیٹی ہیرو اور مقبول ترین اداکار وحید مراد کے ہم جماعت تھے۔ پرویز ملک ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد امریکا چلے گئے جہاں انھوں نے فلم سازی کی تعلیم اور تربیت حاصل کی اور 1963ء میں وطن واپس آئے۔ یہاں اس وقت ان کے دوست اپنے والد کے فلمی ادارے کے تحت کام شروع کرچکے تھے جس میں پرویز ملک بھی شامل ہوگئے اور ہیرا اور پتھر، ارمان اور احسان جیسی کام یاب فلمیں بنائیں۔

    پرویز ملک کی ہدایت کاری میں بننے والی فلموں کو ناقدین اور شائقین دونوں کی طرف سے بہت پزیرائی ملی۔ پہچان، تلاش، پاکیزہ، انتخاب، ہم دونوں، دوراہا اور غریبوں کا بادشاہ جیسی فلمیں پرویز ملک ہی کی یادگار ہیں۔

    پرویز کی تین فلموں گمنام، کام یابی اور غریبوں کا بادشاہ) کو اس وقت ٹیکس سے مستثنٰی قرار دیا گیا تھا۔ فلمی صنعت کے لیے ان کے کام اور خدمات پر انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی‎ سے بھی نوازا گیا۔ پرویز ملک کو فلمی صنعت کے لیے ان کے منفرد کام اور فلموں کی بدولت مدتوں یاد رکھا جائے گا۔

  • ایم کلیم، ریڈیو پاکستان کا وہ انجینیئر جس نے بحیثیت گلوکار شہرت حاصل کی

    ایم کلیم، ریڈیو پاکستان کا وہ انجینیئر جس نے بحیثیت گلوکار شہرت حاصل کی

    ایک زمانہ تھا جب متحدہ ہندوستان کے طول و عرض میں‌ بسنے والوں کی تفریح کا واحد ذریعہ ریڈیو تھا۔ آل انڈیا ریڈیو پر نشر ہونے والے موسیقی کے پروگرام سامعین میں‌ مقبول تھے۔ ان پروگراموں نے کئی سریلے گلوکاروں کو متعارف کرایا اور ان کی رسیلی آوازوں‌ نے سماعتوں‌ میں‌ رس گھولا۔

    ریڈیو سننا ایم کلیم کا بھی مشغلہ تھا۔ انھیں موسیقی اور گلوکاری کا شوق تھا۔ اس کی ایک وجہ ان کے چچا تھے جو موسیقی کے دلدادہ اور گلوکار بھی تھے۔

    یہ شوق ایم کلیم کو ریڈیو تک لے گیا، لیکن وہاں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو پر بطور ٹیکنیشن ملازمت اختیار کی تھی، چند دنوں بعد سب کو معلوم ہو گیا کہ وہ ایک اچّھے گلوکار بھی ہیں۔ تاہم ایم کلیم خود اسے شوق سے بڑھ کر اہمیت نہیں‌ دیتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے ریڈیو پاکستان سے اسی حیثیت میں وابستگی اختیار کی اور یہاں‌ بھی ان کے احباب کو موسیقی اور گلوکاری کے ان کے شوق کا علم ہو گیا۔

    آج ایم کلیم کی برسی ہے۔ وہ کینیڈا میں مقیم تھے جہاں 1994ء میں زندگی کی بازی ہار گئے اور وہیں‌ آسودۂ خاک ہیں۔

    ان کا اصل نام حفیظ اللہ تھا۔ وہ 1924ء میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہاں ریڈیو پر ملازمت کے دوران اکثر احباب ان سے کوئی غزل یا گیت سننے کی فرمائش کرتے تو ایم کلیم کچھ نہ کچھ سنا دیتے، لیکن انھیں‌ یہ خیال نہیں آیا تھا کہ کبھی وہ ریڈیو کے لیے ایسے گیت ریکارڈ کروائیں گے جن کا چرچا سرحد پار بھی ہو گا۔

    ان کی آواز مشہور گلوکار کے ایل سہگل سے مشابہ تھی۔ ریڈیو پر ان کے رفقائے کار اور وہاں‌ آنے والے فن کار انھیں‌ سنتے تو سنجیدگی سے گائیکی پر توجہ دینے کو کہتے۔ نام وَر موسیقاروں اور گائیکوں نے جب ان کی تعریف کی اور اس میدان میں‌ انھیں اپنی قسمت آزمانے کا مشورہ دیا تو ایم کلیم بھی کچھ سنجیدہ ہوگئے۔

    اس ہمّت افزائی اور احباب کے مسلسل اصرار پر انھوں نے 1957ء میں اپنا پہلا نغمہ “ناکام رہے میرے گیت” ریکارڈ کروایا۔ یہ نغمہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا تو ان کی شہرت بھی ہر طرف پھیل گئی۔

    ایم کلیم کی آواز میں سُروں کا رچاؤ بھی تھا اور گلے میں سوز و گداز بھی۔ وہ ایک اچھے موسیقار بھی ثابت ہوئے اور اس فن میں بھی اپنی صلاحیتوں‌ کا مظاہرہ کیا۔ ایم کلیم کی آواز میں‌ ایک اور گیت سامعین میں‌ مقبول ہوا جس کے بول تھے: “گوری گھونگھٹ میں شرمائے۔”

    اسی زمانے میں ان کی آواز میں‌ ایک غزل بہت مقبول ہوئی، جس کا مطلع ہے۔

    ان کے آنسو سرِ مژگاں نہیں دیکھے جاتے
    سچ تو یہ ہے وہ پشیماں نہیں دیکھے جاتے

    ایم کلیم کی آواز میں کئی گیت ریکارڈ کیے گئے جن کی شہرت پاکستان ہی نہیں‌ سرحد پار بھی پہنچی اور شائقین نے انھیں‌ بہت پسند کیا۔

  • پاکستانی فلم انڈسٹری کے مشہور گلوکار علی بخش ظہور کی برسی

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے مشہور گلوکار علی بخش ظہور کی برسی

    سن 1953ء تک علی بخش ظہور نے گلوکار کی حیثیت سے پاکستانی فلم انڈسڑی کو کئی مقبول گیت دیے۔ منوّر سلطانہ کے ساتھ ان کے دوگانے اس زمانے میں‌ بہت مقبول ہوئے۔ وہ اپنے وقت کے نام وَر غزل گائیک تھے جو 18 نومبر 1975ء کو وفات پاگئے۔ آج علی بخش ظہور کی برسی ہے۔

    وہ 11 مئی 1905ء کو پیدا ہوئے تھے۔ استاد برکت علی گوٹے والے کے شاگرد ہوئے اور بعد میں استاد عاشق علی خان سے اکتسابِ فن کیا۔ علی بخش ظہور قیامِ پاکستان سے پہلے سے ریڈیو پر اپنے فنِ گائیکی کا مظاہرہ کرتے رہے تھے۔ وہ ٹھمری، غزل، گیت اور کافیاں گانے کے لیے مشہور تھے۔

    پاکستان ہجرت کرنے کے بعد انھوں‌ نے فلم انڈسٹری سے ناتا جوڑا اور یہاں کئی فلموں کے نغمات ان کی آواز میں ریکارڈ ہوئے۔ پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد کے لیے بھی علی بخش ظہور نے گانا ریکارڈ کروایا تھا۔

    ان کے دور میں منوّر سلطانہ بھی فلم نگری کی ایک کام یاب گلوکارہ تھیں جن کے ساتھ ان کے گائے ہوئے دوگانے بہت مشہور ہوئے۔ فلم بے قرار کے لیے منور سلطانہ کے ساتھ ان کا گایا ہوا نغمہ ”دل کو لگا کے کہیں ٹھوکر نہ کھانا، ظالم زمانہ ہے یہ ظالم زمانہ” بہت پسند کیا گیا۔

    اس وقت فلم انڈسٹری میں نئے اور متحدہ ہندوستان کے باکمال موسیقاروں اور گلوکاروں‌ کی آمد کا سلسلہ جاری تھا جن میں عنایت حسین بھٹی بھی شامل تھے انھوں نے پاکستان کی فلم انڈسٹری میں‌ قدم رکھا تو فلم ساز اور موسیقار ان کی جانب متوجہ ہوگئے اور یوں علی بخش ظہور کو فلم انڈسٹری سے دور ہونا پڑا۔

  • نام وَر عالم، محقّق اور سوانح نگار علاّمہ شبلی نعمانی کی برسی

    نام وَر عالم، محقّق اور سوانح نگار علاّمہ شبلی نعمانی کی برسی

    علاّمہ شبلی نعمانی کے اسلوبِ نگارش کا یہی طرّۂ امتیاز ہے کہ انھوں نے خشک اور بے کیف موضوعات میں بھی انشا پردازی سے ایسی شان پیدا کردی کہ اُن کی تحریریں دلآویز اور دل نشیں اور اثر انگیز ہوگئیں۔

    انھیں اردو تنقید کے بانیوں میں نمایاں مقام حاصل ہے شبلی نعمانی ایک مؤرخ، محقّق، ادیب اور شاعر تھے۔ سیرت و سوانح نگاری ان کا خاص میدان تھا۔ وہ ایک عالمِ دین اور مفکّر کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔

    علّامہ شبلی نعمانی کو ان کی تصانیف اور ندوۃُ العلما کے قیام کی کوششوں کے سبب ہندوستان میں بڑی شہرت ملی۔ دارُالمصنّفین، شبلی اکیڈمی ایک علمی و تحقیقی ادارہ ہے جو علّامہ شبلی نعمانی کا خواب تھا، لیکن وہ اس کی عملی صورت دیکھنے سے پہلے ہی دنیا سے چلے گئے۔ وہ اعظم گڑھ میں آسودۂ خاک ہیں۔ 18 نومبر 1914ء کو جہانِ علم و ادب کا یہ تابندہ ستارہ ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔ آج شبلی نعمانی کی برسی ہے۔

    ان کا اصل نام محمد شبلی تھا۔ حضرت امام ابو حنیفہ کی نسبت کو اپنے لیے باعثِ برکت و اعزاز جانتے ہوئے انھوں نے اپنا نام شبلی نعمانی رکھا۔ 1857ء میں اعظم گڑھ کے ایک نواحی قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کی تربیت نہایت عمدہ ماحول میں ہوئی اور اپنے دور کی اعلیٰ ترین درس گاہوں میں تعلیم حاصل کی۔

    شبلی نے اپنے وقت کے جیّد علما سے فارسی، عربی حدیث و فقہ اور دیگر اسلامی علوم کی تحصیل کے بعد ایک ملازمت اختیار کی اور بعد میں وکالت کا پیشہ اپنایا، لیکن ناکام رہے اور پھر علی گڑھ میں سر سیّد کے کالج میں عربی کے معلّم کی ملازمت اختیار کرلی۔ یہاں وہ سرسیّد کے بہت قریب آگئے اور یہیں سے شبلی کی کام یابیوں کا سفر شروع ہوا۔

    علاّمہ شبلی کے دل میں حمیّتِ اسلامی کا جو دریا موجزن تھا، اُس سے مغلوب ہوکر انھوں نے ’المامون‘، ’الفاروق‘، ’سیرۃ النبی‘ جیسی بلند پایہ کتب تصنیف کیں، سرسیّد احمد خان اور دیگر اہلِ علم و فن کی صحبت نے شبلی کی فکر کو وسعت دی اور ان کے ذوق کو نکھارا اور وہ اپنے ہم عصروں میں ممتاز ہوئے۔

    شبلیؔ نے اس زمانے میں‌ مغربی تہذیب اور یورپ کے کارناموں کا شور سننے والوں کو تاریخِ اسلام کے تاب ناک پہلوؤں سے متعارف کرایا اور انھیں ان کی عظمتِ رفتہ کا احساس دلانے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں عالمِ اسلام کی نام وَر شخصیات کی سیرت و سواںح، علم و فنون کے تذکرے کو کتابی شکل میں جامع و مستند معلومات کے ساتھ اپنے سحر انگیز اسلوب میں قارئین تک پہنچایا۔

    سیرت النّبی ان کی وہ تصنیف ہے جس کا بہت شہرہ ہوا، لیکن شبلی کی زندگی میں اس کی صرف ایک جلد ہی شایع ہوسکی تھی۔ اس کام کو ان کے ایک لائق شاگرد سید سلیمان ندوی نے پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ علّامہ شبلی نعمانی کی دیگر تصانیف میں شعرُ العجم، موازنۂ انیس و دبیر اور الغزالی بہت مشہور ہیں۔