Tag: 18th death anniversary

  • برصغیر کی نامور گلوکارہ ملکہ ترنم نورجہاں کو ہم سے بچھڑے18برس بیت گئے

    برصغیر کی نامور گلوکارہ ملکہ ترنم نورجہاں کو ہم سے بچھڑے18برس بیت گئے

    لاہور : لازوال گیتوں سے اپنی آواز جادو جگانے والی برصغیر کی نامور گلوکارہ ملکہ ترنم نور جہاں کو ہم سے بچھڑے18برس بیت گئے مگر اُن کا فن آج بھی ان کے مداحوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

    تمغہ امتیاز اور پرائیڈ آف پرفارمنس کی حامل پاکستان کی معروف گلو کارہ ملکہ ترنم نور جہاں کی آج 18ویں برسی منائی جارہی ہے، مگر وہ اپنے صدا بہار گیت اور غزلوں کی بدولت آج بھی ہم میں موجود ہیں۔

    ملکہ ترنم نور جہاں 21 ستمبر1926کو قصور میں پیدا ہوئیں، ان کا اصل نام اللہ وسائی جبکہ نور جہاں ان کا فلمی نام تھا۔
    انہوں نے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز 1935 میں پنجابی زبان میں بننے والی پہلی اولین فلم ’شیلا عرف پنڈ دی کڑی‘سے بطور چائلڈ سٹار  بےبی  نور جہاں کے نام سے کیا۔

    بے بی نورجہاں نے بطور چائلڈ اسٹارمتعدد فلمیں کیں جن میں ’گل بکاﺅلی‘، ’سسی پنوں‘ ’ہیرسیال‘شامل ہیں‘۔
    موسیقار غلام حیدر نے1941میں انہیں اپنی فلم ’خزانچی‘ میں پلے بیک سنگر کے طور پر متعارف کروایا اور اسی برس بمبئی میں بننے والی فلم ’خاندان‘ ان کی زندگی کا ایک اور اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔

    اسی فلم کی تیاری کے دوران ہدایت کار شوکت حسین رضوی سےان کی شادی ہوگئی،جبکہ قیام پاکستان کے بعد وہ اپنے شوہر شوکت حسین رضوی کے ہمراہ ممبئی سے کراچی منتقل ہوگئیں۔

    انہوں نےبطوراداکارہ بھی متعدد فلمیں کیں جن میں گلنار،چن وے، دوپٹہ، پاٹے خان، لخت جگر، انتظار،نیند، کوئل، چھومنتر، انار کلی اور مرزا غالب کے نام شامل ہیں۔

    میڈم نورجہاں نے 1965ءکی جنگ میں اے وطن کے سجیلے جوانوں، رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو، میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں راکھاں، میرا ماہی چھیل چھبیلا کرنیل نی جرنیل نی، اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے گاکرپاک فوج کے جوش وجذبے میں بے پناہ اضافہ کیا۔


    انہیں شاندار پرفارمنس کے باعث صدارتی ایوارڈ تمغہ امتیاز اور بعد میں پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا، میڈم نور جہاں نےتقریباََ10 ہزار سے زائد غزلیں و گیت گائے جن میں سے بیشتر اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہیں۔

    ملکہ ترنم نور جہاں 23 دسمبر 2000 کو 74 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں۔اگرچے ایسا لگتا ہے کہ وہ ہم میں نہیں لیکن ان کے گائے ہوئے گیت آج بھی عوام میں بےپناہ مقبول ہیں۔

  • لیڈی ڈیانا کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 18برس ہوگئے

    لیڈی ڈیانا کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 18برس ہوگئے

    اپنی خوبصورتی اور ملنساری سے دلوں پرراج کرنے والی لیڈی ڈیانا کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 18برس ہوگئے۔

    شہزادی ڈیانا یکم جولائی انیس سو اکسٹھ میں برطانیہ کے شہر نورفوک میں پیدا ہوئیں، شہزادی ڈیانا کو ہمیشہ سے ہی تعلیمی سرگرمیوں سے زیادہ فلاحی کاموں میں دلچسپی تھی۔

    انتیس جولائی 1981 کو لیڈی ڈیانا، شہزادہ چارلس کے ساتھ رشتہ اذدواج میں منسلک ہوئیں ان کی شادی کو فیری ٹیل میرج قرار دیا گیا جس کی کوریج دنیا بھر کے میڈیا نے کی، شادی کے بعد ان کے ہاں دو بیٹوں شہزادہ ولیم اور ہیری نے جنم لیا، دو بچوں کی پیدائش کے بعد شہزادہ چارلس کی سرد مہری سے لیڈی ڈیانا کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی اور شادی کے مقدس بندھن میں دراڑ پیدا ہونے لگی۔

    دنیا کے اس مقبول ترین شاہی جوڑے میں شادی کے سولہ سال بعد اگست 1996 میں طلاق ہوگئی، ڈیانا کی عالمی سطح پر مقبولیت کا بڑا سبب ان کی خوبصورت شخصیت تھی، طلاق کے بعد بھی ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہ آئی۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ تصاویر لیڈی ڈیانا کی کھینچی گئیں۔

    ڈیانا نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں ناکام ازدواجی زندگی کا اعتراف بھی کیا۔ لیڈی ڈیانا نے اپنی ذاتی زندگی کی ناچاکیوں سے دل برداشتہ ہو کر خود کو فلاحی سرگرمیوں میں مصروف کر لیا اور کبھی بارودی سرنگوں کا معاملہ اٹھایا، تو کبھی ایڈز کے خاتمے پر لب کشائی کی۔

    انیس سو ستاسی میں وہ پہلی مشہور ترین ہستی تھیں جنہوں نے ایڈز کے کسی مریض کو چھوا تھا، ڈیانا نے اپنے اس ایک قدم سے ساری دنیا کو ایڈز کے بارے میں اپنے خیالات بدلنے پر مجبور کر دیا۔

     طلاق کے بعد خبروں میں رہنے والی ڈیانا کا نام ایک بار پاکستان نژاد برطانوی سرجن ڈاکٹر حسنات خان کے نام کے ساتھ سنا گیا اور کچھ عرصے کے بعد ان کانام دودی الفائد کے نام سے جڑ گیا۔

    شہزادی ڈیانا اٹھارہ سال قبل 31 اگست 1997 میں پیرس میں ایک کار حادثے کے نتیجے میں دنیا سے چل بسی تھیں تاہم ان کی پُرکشش شخصیت اور فلاحی خدمات ہمیشہ یاد رہیں گی۔

    دنیا میں لیڈی ڈیانا کیلئے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی وفات پر دنیا بھر سے بھیجے جانے والے پھولوں کی تعداد اتنی تھی کہ شاہی محل میں پھول رکھنے کی جگہ باقی نہ رہی۔

    لیڈی ڈیانا کو ان کی گراں قدر خدمات پر مرنے کے بعد 1997 میں امن کا نوبل انعام دیا گیا۔

    خیال رہے کہ شہزادی کی شخصیت سے متاثر ہو کر فلم ‘ڈیانا’ بنائی گئی، جس کے مرکزی کردار میں ہالی وڈ اداکار نومی واٹس جلوہ گر ہوئی۔

  • معروف اداکارہ خالدہ ریاست کو بچھڑے 18برس بیت گئے

    معروف اداکارہ خالدہ ریاست کو بچھڑے 18برس بیت گئے

    لاکھوں لوگوں کا دل عمدہ پر فارمنس سے جیتنے والی معروف اداکارہ خالدہ ریاست کو بچھڑے اٹھارہ برس بیت گئے۔

    اپنی دلفریب اداکاری کے باعث مداحوں کو متاثر کرنے والی ماضی کی مشہور اداکارہ خالدہ ریاست نے پاکستان ٹیلی ویژن انڈسٹری میں مختلف کردار نبھا کر خود کو منوایا۔ خا لدہ ریاست یکم جنوری انیس سو تیرپن میں کراچی میں پیدا ہوئیں،

    خا لدہ ریاست نے اپنے کرئیر کا آغاز 70 کی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن پر ڈرامہ سیریل ‘نامدار‘ سے کیا، جس میں ان کے ہمراہ اداکار شکیل نے اہم کردار ادا کیا لیکن انہیں مقبولیت معروف ڈرامہ نگار حسینہ معین کی تحریر کردہ ڈرامہ سیریل ‘بندش‘ سے ملی، جس کو پی ٹی وی ڈرامہ پروڈیوسر محسن علی نے پروڈیوس کیا تھا۔

    ان کے مشہور ڈراموں میں کھویا ہوا آدمی ‘ دھوپ دیوار‘ سلورجوبلی ‘ تعبیر ، پناہ ‘ بندش ‘ہاف پلیٹ اور پڑوسی شامل ہیں۔

    خالدہ ریاست نے نہ صرف سنجیدہ کردار ادا کیے بلکہ مزاحیہ اداکاری میں بھی خود کو منوایا، خالدہ ریاست کي آخری ڈرامہ سيريل پڑوسی تھی جس کے بعد انہوں نے فنی دنيا سے کنارہ کشی اختيار کرلی۔

    لوگوں کو خوشیاں دینے والی یہ باصلاحیت اداکار  کینسر سے لڑتے لڑتے 26اگست 1996 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملی مگر ان کی ٹیلی ویژن کے لیے دی جانے والی خدمات آج بھی انھیں مداحوں کے دلوں میں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔