Tag: 19 جولائی وفات

  • فرینک میکورٹ کا تذکرہ جن کی وجہِ شہرت ‘انجلاز ایشز’ ہے!

    فرینک میکورٹ کا تذکرہ جن کی وجہِ شہرت ‘انجلاز ایشز’ ہے!

    فرینک میکورٹ ان خوش نصیب قلم کاروں میں سے ایک ہیں جن کی اوّلین تصنیف ہی ’بیسٹ سیلر‘ قرار پائی اور انھیں‌ پلٹزر پرائز کا حق دار ٹھہرایا۔ سرطان کے مرض میں‌ مبتلا فرینک میکورٹ 2009ء میں آج ہی کے دن یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔

    فرینک میکورٹ کی کتاب کا نام تھا ‘انجلاز ایشز’ (Angela’s Ashes) جو دراصل ان کے بچپن کی یادداشتوں پر مشتمل تھی۔

    فرینک میکورٹ 19 اگست 1930ء کو امریکا کی ریاست نیویارک کے شہر بروکلین میں پیدا ہوئے تھے۔ اس دور میں‌ امریکا شدید اقتصادی بحران سے دوچار تھا جس کے باعث بالخصوص عام لوگوں کی زندگی شدید مشکلات سے دوچار تھی۔ تب اس خاندان نے امریکا سے ہجرت کی اور آئرلینڈ جا بسا۔ فرینک میکورٹ نے انہی دنوں کو اپنی کتاب میں‌ پیش کیا تھا۔

    فرینک کا خاندان آئر لینڈ کے شہر کی ایک چھوٹی سی بستی لائمرک میں سکونت پذیر ہوا جہاں انتہائی غربت اور مشکل حالات سے لڑتے ہوئے ان کے والدین نے زندگی کو بہتر بنانے کی جدوجہد شروع کی۔ مصنّف نے کئی برس بعد ان دنوں کو اپنے حافظے سے نکال کر لفظی منظر کشی کی اور اسے کتابی شکل میں‌ شایع کروایا جو دنیا بھر میں ان کی وجہِ شہرت بنی۔ فرینک میکورٹ نے ان دنوں کو ’غربت کا عہد‘ لکھا ہے۔ بعد میں‌ وہ امریکا منتقل ہوگئے، کتاب کی اشاعت سے پہلے فرینک میکورٹ 30 سال تک نیویارک کے ایک اسکول میں استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔

    آئرلینڈ میں ان کے بچپن کی یادوں پر مبنی کتاب انجلاز ایشز کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں اور 1996ء میں انھیں پلٹزر انعام سے بھی نوازا گیا۔

    اس کتاب پر 1999ء میں ہالی وڈ میں ایک فلم بھی بنائی گئی تھی۔ فرینک میکورٹ کی اس کتاب کو آئرلینڈ کی سماجی تاریخ کا عکس بھی کہا جاتا ہے۔

    بعد میں‌ مصنّف نے ’ٹس اور ٹیچر مین‘ کے نام سے نیویارک میں گزرے ہوئے ایّام کو محفوظ کیا تھا۔

    وفات کے وقت اس آئرش نژاد امریکی مصنّف کی عمر 78 سال تھی۔

  • ساغر صدیقی: غمِ دوراں کا شاعر جس کے لیے زندگی جبرِ مسلسل تھی

    ساغر صدیقی: غمِ دوراں کا شاعر جس کے لیے زندگی جبرِ مسلسل تھی

    آج فقیر منش ساغر صدیقی کی برسی منائی جارہی ہے۔ اردو زبان کا یہ شاعر تلخیٔ ایّام اور زمانے کی ستم ظریفی کا شکار رہا۔ اسی لیے رنج و غم، درد و الم، ناامیدی، حسرت و یاس اور دوراں کا فریب ساغر صدیقی کے کلام میں نمایاں‌ ہے۔ ساغر نے 19 جولائی 1974ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا کو الوداع کہہ دیا تھا۔

    ساغر صدیقی کے تفصیلی اور مستند حالاتِ زندگی بہت کم دست یاب ہیں۔ انھوں نے 1928ء میں انبالہ میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کا خاندانی نام محمد اختر تھا۔ غربت ان کے گھر پر گویا راج کرتی تھی۔ ان حالات میں باقاعدہ تعلیم کا حصول ممکن نہ تھا۔ اپنے محلّے کے ایک بزرگ سے کچھ لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ نوعمری میں امرتسر چلے گئے اور وہاں چھوٹے موٹے کام کرنے لگے، انھوں نے کنگھیاں بنانے کا فن سیکھا اور اسی عرصے میں‌ شعر گوئی کا سلسلہ شروع ہوا۔

    1944ء میں امرتسر میں آل انڈیا مشاعرہ منعقد ہوا، جس میں میں کسی نے ساغر کو بھی پڑھنے کا موقع دلوا دیا۔ ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا، روانی تھی اور وہ مشاعرے میں کام یاب ہوگئے۔ اسی اوّلین مشاعرے نے انھیں‌ مشہور کردیا تھا۔ وہ لاہور اور امرتسر کے مشاعروں میں باقاعدہ موعو کیے جانے لگے۔

    تقسیمِ ہند کے بعد ساغر امرتسر سے لاہور چلے آئے۔ یہاں لطیف انور گورداسپوری کی صحبت میں‌ رہے اور بہت فیض پایا۔ ساغر کو ان کی شاعری اور مشاعروں میں‌ شرکت کے سبب کچھ آمدنی ہونے لگی تھی۔ ان کا کلام ہر بڑے روزنامے، ادبی جریدوں اور رسالوں میں شایع ہونے لگا۔ اسی مقبولیت کے زمانے میں‌ ساغر کو کچھ ایسے لوگ ملے جن کی خراب صحبت نے انھیں نشّے کی لت میں‌ مبتلا کردیا۔ انھوں نے بھنگ، شراب، افیون اور چرس وغیرہ کا استعمال شروع کردیا اور مستی و بے حالی کے عالم میں‌ جہاں جگہ مل جاتی پڑ جاتے۔ مشقِ سخن تو جاری رہی، لیکن ساغر کا حلیہ، ان کی صحّت بگڑتی چلی گئی اور وہ اپنی جسمانی صفائی اور ہر بات سے بے پروا فٹ پاتھ پر زندگی بسر کرنے لگے۔

    اس زمانے میں بھی لوگ انھیں کچھ ہوش میں پاتے تو مشاعروں میں لے جاتے جہاں ان کے کلام کو بڑی پذیرائی ملتی، لیکن وقت کے ساتھ ساغر اس سے بھی گئے۔ انھیں اکثر داتا دربار کے اطراف اور احاطے میں‌ دیکھا جانے لگا تھا اور وہیں‌ قریب ہی فٹ پاتھ پر ان کے شب و روز بسر ہورہے تھے۔

    کہتے ہیں ساغر نشّے کے لیے رقم دینے والوں کے لیے کلام لکھ کر دینے لگے تھے جو وہ اپنے نام سے شایع کرواتے تھے۔ ساغر صدیقی نے ہر صنفِ سخن میں‌ طبع آزمائی کی اور ان کا کلام مقبول ہوا۔

    اس حالت کو پہنچنے سے پہلے ہی وہ امرتسر اور لاہور میں مشہور ہوچکے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام بھی خاصی حد تک مجموعوں کی شکل میں محفوظ ہوگیا۔ ان کی تصانیف میں ’زہرِ آرزو‘، ’غمِ بہار‘، شبِ آگہی‘، ’تیشۂ دل‘، ’لوحِ جنوں‘، ’سبز گنبد‘، ’مقتل گل‘ شامل ہیں۔

    ساغر فالج کا شکار ہوئے تو ان کا ایک ہاتھ‍ ہمیشہ کے لیے ناکارہ ہو گیا۔ ان کا جسم سوکھ کر کانٹا ہوچکا تھا اور ایک روز فٹ پاتھ پر ہی ساغر نے دَم توڑ دیا۔ انھیں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    ساغر صدیقی کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اس کا گلہ ہی کیا
    پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا

    بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
    تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے

    اب کہاں ایسی طبیعت والے
    چوٹ کھا کر جو دعا کرتے تھے

    زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
    جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

    ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
    ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں

  • نام ور ادیب، مؤرخ اور مترجم سیّد ہاشمی فریدآبادی کی برسی

    نام ور ادیب، مؤرخ اور مترجم سیّد ہاشمی فریدآبادی کی برسی

    علم و ادب، تاریخ و تذکرہ نویسی کے حوالے سے مستند اور جامع معلومات اپنے دل کش طرزِ تحریر میں اکٹھا کرکے اردو زبان کو تیس سے زائد یادگار کتب دینے والے سیّد ہاشمی فرید آبادی کا آج یومِ وفات ہے۔ وہ 19 جولائی 1964ء کو دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    وہ اردو زبان کے نام ور ادیب، مترجم، شاعر اور مؤرخ کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔
    سیّد ہاشمی فرید آبادی 30 جنوری، 1890ء کو پیدا ہوئے۔ متحدہ ہندوستان میں‌ فرید آباد ان کا وطن تھا۔ ان کا اصل نام سیّد میر ہاشم علی حسنی تھا اور عرفیت سیّد ہاشمی۔

    ابتدائی تعلیم فرید آباد سے مکمل کرنے کے بعد علی گڑھ سے بی اے کیا۔ بعد میں‌ دارُالتّرجمہ، جامعہ عثمانیہ، دکن میں ملازمت اختیار کی اور تاریخ کی بے شمار کتابوں کو اردو کے قالب میں ڈھالا۔ وہ ایک عرصہ تک انجمن ترقّیِ اردو پاکستان میں بابائے اردو مولوی عبد الحق کے ساتھ کام کرتے رہے۔ ان کی علمی یادگاروں میں ماآثر لاہور، تاریخِ یونان قدیم، پنجاہ سالہ تاریخِ انجمنِ ترقّیِ اردو، غازیانِ تہذیب، تاریخِ ہند، تاریخ مسلمانانِ پاکستان و بھارت اور مشاہیرِ یونان و رومہ قابلِ ذکر ہیں۔

    پاکستان آنے کے بعد سیّد ہاشمی لاہور میں‌ تصنیف و تالیف میں‌ مشغول رہے اور وہیں زندگی کا سفر تمام کیا۔ لاہور میں‌ ان کا مرقد ماڈل ٹاؤں میں ہے۔