Tag: 19 فروری وفات

  • ’ٹو کِل اے ماکنگ برڈ‘ کی خالق ہارپر لی آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوئی تھیں

    ’ٹو کِل اے ماکنگ برڈ‘ کی خالق ہارپر لی آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوئی تھیں

    ’ٹو کل اے ماکنگ برڈ‘ وہ مشہور ناول ہے جس کی مصنف ہارپر لی 55 سال تک دنیائے ادب میں اپنے اسی ناول کے سبب پہچانی جاتی رہیں اور خوب پذیرائی حاصل کی۔ 19 فروری 2016ء کو اس امریکی ناول نگار نے 89 سال کی عمر میں‌ یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    ’ٹو کِل اے موکنگ برڈ‘ جدید ادب میں کلاسیک کا درجہ رکھتا ہے۔ اسے 1961ء میں ادب کا پلٹزر پرائز بھی ملا اور اس کے اب تک چار کروڑ سے زیادہ نسخے فروخت ہو چکے ہیں۔ ہارپر لی کے اس ناول پر فلم بنائی گئی جس نے 1962ء میں تین آسکر ایوارڈ اپنے نام کیے۔

    عالمی شہرت یافتہ ہارپر لی کی زندگی اکثر لوگوں‌ کے لیے معمہ رہی ہے۔ وہ بہت کم منظرِ عام پر آئیں۔ انھیں‌ ادبی تقریبات میں‌ دیکھا گیا اور نہ ہی انھوں‌ نے ملکی یا غیر ملکی ادبی جرائد یا میڈیا پر ان کا انٹرویو پڑھا گیا۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ اس شہرت اور بے حد پذیرائی کے باوجود پہلے کی ناول کی اشاعت کے 55 سال بعد تک ان کی کوئی کتاب سامنے نہیں‌ آئی تھی، اور پھر اپنی وفات سے ایک سال قبل انھوں نے اپنے نئے ناول ’گو سیٹ اے واچ مین‘ کی اشاعت کا اعلان کیا۔

    ہارپر لی کا ناول ’ٹو کل اے ماکنگ برڈ‘ وہ تصنیف ہے جو امریکا میں‌ اسکول میں، ادب کے شعبے میں اور مسلسل ان کتابوں کی فہرست میں شامل رہی ہے جو مطالعے کے لیے لازمی سمجھی جاتی ہیں۔

    ان کا پورا نام نیل ہارپر لی تھا، وہ امریکی ریاست الاباما کے شہر مونروویل میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ایک اخبار کے مدیر اور پروپرائٹر تھے۔

    ہارپر لی نے یونیورسٹی آف الاباما سے قانون کی تعلیم حاصل کی تھی۔ 2006ء میں انھیں ناٹرڈیم یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی جب کہ اس کے ایک سال بعد امریکا میں‌ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں صدراتی ایوراڈ آف فریڈم سے نوازا گیا۔

  • جہانِ سخن میں‌ ممتاز صہبا اختر کا یومِ وفات

    جہانِ سخن میں‌ ممتاز صہبا اختر کا یومِ وفات

    آج جہانِ سخن میں ممتاز صہبا اختر کا یومِ وفات ہے جو زود گو اور ہر صنفِ سخن میں‌ طبع آزمائی کرنے والے ان شعرا میں‌ سے ہیں‌ جنھوں‌ نے غزل کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر نہایت خوب صورت نظمیں کہیں اور ادب میں بڑا نام پیدا کیا۔

    صہبا اختر کا اصل نام اختر علی رحمت تھا۔ وہ 30 ستمبر 1931ء کو جموں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی رحمت علی اپنے زمانے کے ممتاز ڈراما نگاروں میں شمار ہوتے تھے۔ یوں انھیں‌ شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول ملا اور وہ شعروسخن کی طرف مائل ہوئے۔

    صہبا اختر نے بریلی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آگئے۔ ہجرت کے بعد ان کے خاندان نے نامساعد حالات کا سامنا کیا، یہاں‌ صہبا اختر کو بالآخر محکمہ خوراک میں ملازمت مل گئی اور اسی محکمے سے ریٹائر ہوئے۔

    صہبا اختر نے حمد و نعت کے علاوہ غزل، نظم، قطعہ، گیت، ملی نغمے، دوہے، رباعی جیسی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ انھیں پاکستانی ادب کے معماروں‌ میں‌ شمار کیا جاتا ہے۔ صہبا اختر کے مجموعہ ہائے کلام میں اقرا، سرکشیدہ، سمندر اور مشعل شامل ہیں۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے ان کے لیے بعد از مرگ صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا۔

    صہبا اختر کی ایک غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے

    چہرے شادابی سے عاری آنکھیں نور سے خالی ہیں
    کس کے آگے ہاتھ بڑھاؤں سارے ہاتھ سوالی ہیں

    مجھ سے کس نے عشق کیا ہے کون مرا محبوب ہوا
    میرے سب افسانے جھوٹے سارے شعر خیالی ہیں

    چاند کا کام چمکتے رہنا اس ظالم سے کیا کہنا
    کس کے گھر میں چاندنی چھٹکی کس کی راتیں کالی ہیں

    صہباؔ اس کوچے میں نہ جانا شاید پتّھر بن جاؤ
    دیکھو اس ساحر کی گلیاں جادو کرنے والی ہیں

    اس نام وَر شاعر کو کراچی میں گلشنِ اقبال کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • لیجنڈ اداکار آغا طالش کی برسی

    لیجنڈ اداکار آغا طالش کی برسی

    آج پاکستان کی فلمی صنعت کے نام ور اداکار آغا طالش کی برسی ہے۔ وہ 19 فروری 1998ء کو وفات پاگئے تھے۔

    انھوں نے اپنی شان دار اداکاری کی بدولت پاکستان فلم نگری کا سب سے معتبر نگار ایوارڈ 7 مرتبہ اپنے نام کیا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعدد طالش نے ریڈیو پشاور سینٹر سے عملی زندگی میں‌ قدم رکھا اور پھر فلم کی طرف آگئے تھے۔

    ان کا اصل نام آغا علی عباس قزلباش تھا۔ وہ 10 نومبر 1923ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم سے قبل انھوں نے بمبئی میں بننے والی ایک فلم میں بھی کام کیا تھا۔

    پاکستان میں آغا طالش نے بڑے پردے پر مختلف کردار نبھائے اور شائقین کی توجہ حاصل کی۔ ان کی مشہور فلموں میں نتھ، جھیل کنارے، سات لاکھ، باغی، شہید، سہیلی، فرنگی، زرقا، وطن، نیند، زینت، امرائو جانِ ادا سرفہرست ہیں جو اپنے وقت کی کام یاب فلمیں تھیں۔ انھوں نے اردو زبان میں بننے والی فلموں کے علاوہ پنجابی اور پشتو فلموں میں بھی کام کیا۔

    وہ کبھی نواب کے بہروپ میں اسکرین پر نظر آئے تو کہیں‌ ایمان دار اور فرض شناس پولیس افسر، کسی فلم میں‌ انھوں نے ڈاکو کا روپ دھارا تو کہیں‌ ایک مجبور باپ کے رول میں شائقین کے دل جیتے۔ آغا طالش ان فن کاروں‌ میں شامل ہیں جنھیں‌ اداکاری کا جنون تھا اور انھیں‌ جب موقع ملا تو ہر کردار اس خوبی سے نبھایا کہ دیکھنے والے داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ انھوں‌ نے کئی فلموں‌ میں‌ منفی کردار بھی ادا کیے۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کا یہ باکمال اداکار لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہے۔