Tag: 19 مارچ وفات

  • آج اردو کے معروف شاعر اور ادیب خالد احمد کی آٹھویں برسی منائی جارہی ہے

    آج اردو کے معروف شاعر اور ادیب خالد احمد کی آٹھویں برسی منائی جارہی ہے

    آج اردو کے معروف شاعر خالد احمد کی آٹھویں برسی ہے۔ وہ 19 مارچ 2013ء کو وفات پاگئے تھے۔ خالد احمد کا شمار اردو کے اُن شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے غزل کو نئے رجحانات سے آشنا کیا۔

    خالد احمد نے 5 جون 1944ء کو لکھنؤ کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں‌ آنکھ کھولی۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آئے اور 1957ء میں مسلم ماڈل ہائی سکول لاہور سے میٹرک کیا، دیال سنگھ کالج سے بی ایس سی کا امتحان پاس کیا اور فزکس میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے بعد واپڈا میں انفارمیشن افسر کی حیثیت سے ملازمت شروع کی اور اسی محکمے سے ریٹائرمنٹ تک وابستہ رہے۔

    انھوں نے روزنامہ امروز اور بعد میں نوائے وقت کے لیے کالم لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا، وہ ادبی جریدے فنون سے وابستہ ہوئے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے متعدد ڈرامے تحریر کیے، لیکن ان کی وجہِ شہرت ان کی خوب صورت شاعری ہے۔

    خالد احمد کے بھائی توصیف احمد خان نے بھی صحافت، بہنوں ہاجرہ مسرور اور خدیجہ مستور نے اردو‌ افسانہ اور ناول نگاری میں نام پیدا کیا۔ خالد احمد بیاض کے نام سے کئی برس تک ایک ماہ نامہ بھی شایع کرتے رہے۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    میرے ناقد میں کوٸی موم کا پتلا تو نہیں
    کوٸی کس طور مرے قد سے گھٹا دے مجھ کو

    کاش کوٸی ہمیں یہ بتلا دے
    کس کے سینے سے لگ کے رونا ہے

    سبھی آنکھیں مری آنکھوں کی طرح خالی تھیں
    کیا کہوں، کون یہاں جاننے والا تھا مرا

    وہ گلی ہم سے چھوٹتی ہی نہیں
    کیا کریں آس ٹوٹتی ہی نہیں

    حکومتِ پاکستان نے ادبی خدمات پر خالد احمد کو تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • اردو کے ممتاز مزاح نگار شفیق الرحمٰن کی برسی

    اردو کے ممتاز مزاح نگار شفیق الرحمٰن کی برسی

    آج اردو کے نام وَر ادیب اور ممتاز مزاح نگار شفیق الرحمٰن کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 19 مارچ 2000ء کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ ان کا شمار اردو کے صفِ اوّل کے مزاح نگاروں میں کیا جاتا ہے۔

    شفیق الرّحمٰن 9 نومبر 1920ء کو کلا نور ضلع روہتک میں پیدا ہوئے تھے۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، لاہور سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد برطانوی دور میں انڈین آرمی کے شعبہ طب سے وابستہ ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ پاک فوج کا حصّہ بنے اور میجر جنرل کے عہدے تک ترقّی پائی۔

    شفیق الرّحمٰن کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ شگوفے 1943ء میں پہلی مرتبہ شایع ہوا۔ بعد میں دیگر کتب لہریں، مدوجزر، پرواز، حماقتیں، پچھتاوے، مزید حماقتیں، دجلہ، کرنیں اور دریچے شایع ہوئیں اور انھیں‌ ملک گیر شہرت اور پذیرائی ملی۔ ایک ناولٹ اور افسانوں کے مجموعے کے علاوہ ان کے ترجمہ کردہ ناول بھی کتابی صورت میں سامنے آئے، معاشیات اور صحّت و امراض سے متعلق بھی ان کی کتب شایع ہوئیں۔

    ڈاکٹر شفیق الرّحمٰن کی وجہِ شہرت تو ان کی مزاح نگاری ہے، لیکن ان کے رومانوی افسانے بھی مشہور ہیں۔

    وہ پاک فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد 1980ء سے 1986ء تک اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتے رہے۔ حکومتِ پاکستان نے وفات کے بعد انھیں ہلالِ امتیاز سے سرفراز کیا تھا۔ ڈاکٹر شفیق الرحمٰن کو راولپنڈی کے فوجی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • پنجابی فلموں کے مشہور کہانی نویس اور نغمہ نگار حزیں قادری کا یومِ وفات

    پنجابی فلموں کے مشہور کہانی نویس اور نغمہ نگار حزیں قادری کا یومِ وفات

    آج پاکستان کی فلمی صنعت کے مشہور کہانی نویس اور نغمہ نگار حزیں قادری کی برسی ہے۔ حزیں قادری 19 مارچ 1991ء کو وفات پاگئے تھے۔

    حزیں قادری کا اصل نام بشیر احمد تھا۔ وہ 1926ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ اردو زبان میں بننے والی فلم دو آنسو سے حزیں قادری نے انڈسٹری میں نغمہ نگار کے طور پر قدم رکھا، لیکن اس کے بعد صرف پنجابی فلموں تک محدود ہوگئے۔ انھوں نے کئی پنجابی فلموں کے اسکرپٹ اور نغمات لکھے جن میں ہیر، پاٹے خان، چھومنتر، ڈاچی، ملنگی جیسی کام یاب فلمیں‌ شامل ہیں۔

    حزیں قادری کے مشہور نغمات میں فلم ہیر کا نغمہ اسین جان کے میٹ لئی رکھ وے، فلم چھومنتر کا بُرے نصیب مرے، فلم ڈاچی کے لیے انھوں‌ نے ٹانگے والا خیر منگدا جیسا نغمہ تحریر کیا جو بے حد مقبول ہوا۔ حزیں قادری کو ان کی کہانیوں اور فلمی نغمات پر نگار ایوارڈز سے نوازا گیا۔

    وہ لاہور میں ڈی ون، گلبرگ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • نام وَر افسانہ نگار اور برصغیر کی پہلی خاتون ہوا باز حجاب امتیاز علی کی برسی

    نام وَر افسانہ نگار اور برصغیر کی پہلی خاتون ہوا باز حجاب امتیاز علی کی برسی

    اردو کی نام وَر افسانہ نگار حجاب امتیاز علی 19 مارچ 1999ء کو وفات پاگئی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ انھیں برصغیر پاک و ہند کی اوّلین خاتون ہوا باز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ علم و ادب کی رسیا اور فنونِ لطیفہ کی شائق حجاب امتیاز علی نے دنیائے ادب کو متعدد خوب صورت افسانے اور کہانیاں‌ دیں جنھیں‌‌ قارئین نے بے حد پسند کیا۔

    وہ 4 نومبر 1908ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد سید محمد اسماعیل نظام دکن کے فرسٹ سیکریٹری تھے اور والدہ عباسی بیگم اپنے دور کی نام ور اہلِ قلم تھیں۔ حجاب امتیاز علی نے عربی، اردو اور موسیقی کی تعلیم حاصل کی اور پھر افسانے لکھنے کا آغاز کیا جو مختلف ادبی رسالوں میں شایع ہوئے۔ حجاب اسماعیل کے نام سے ان کی تحریریں اس زمانے کے مقبول ترین رسالے تہذیبِ نسواں میں شایع ہوتی تھیں جس کے مدیر مشہور ڈراما و ناول نگار امتیاز علی تاج تھے۔ 1929ء میں امتیاز علی تاج نے اپنا مشہور ڈرامہ انار کلی ان کے نام سے معنون کیا اور 1934ء میں یہ دونوں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے۔

    حجاب اسماعیل نے شادی کے بعد حجاب امتیاز علی کے نام سے لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ انھوں نے متعدد افسانوی مجموعے اور ناولٹ یادگار چھوڑے جن میں میری نا تمام محبت اور دوسرے رومانی افسانے، لاش اور ہیبت ناک افسانے، خلوت کی انجمن، نغماتِ موت، ظالم محبّت، وہ بہاریں یہ خزائیں شامل ہیں۔ حجاب امتیاز علی نے تہذیب نسواں کی ادارت بھی کی۔

    ہوا بازی کا شوق رکھنے والی حجاب امتیاز علی نے ایک فلائنگ کلب کی رکنیت اختیار کرکے برصغیر پاک و ہند کی پہلی خاتون ہوا باز ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ وفات کے بعد انھیں لاہور کے مومن پورہ کے قبرستان میں سپردِ خاک کردیا گیا۔

  • شہنشاہِ جذبات محمد علی کی برسی

    شہنشاہِ جذبات محمد علی کی برسی

    آج پاکستان فلم انڈسٹری کے باکمال اور صاحبِ طرز اداکار محمد علی کی برسی منائی جارہی ہے۔ اداکار محمد علی 19 مارچ 2006ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ گئے تھے۔ فلم نگری پر تین دہائیوں سے زائد عرصے تک راج کرنے والے محمد علی کو شہنشاہِ جذبات بھی کہا جاتا ہے۔

    محمد علی کا تعلق رام پور سے تھا۔ وہ 19 اپریل 1931ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سیّد مرشد علی امام مسجد تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان کے خاندان نے ہجرت کرکے پہلے ملتان اور پھر حیدرآباد کو اپنا مستقر بنایا۔ محمد علی نے سٹی کالج حیدرآباد سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ ان کے بڑے ارشاد علی ریڈیو پاکستان سے بطور براڈ کاسٹر وابستہ تھے۔ انہی کے توسط سے محمد علی کو ریڈیو پاکستان کے مختلف ڈراموں میں کام ملا۔

    1960ء کی دہائی کے آغاز پر محمد علی کو ہدایت کار قمر زیدی نے اپنی فلم آنکھ اور خون میں کاسٹ کیا، لیکن یہ فلم مکمل نہ ہوسکی۔ 1962ء میں فلم چراغ جلتا رہا ریلیز ہوئی جس میں‌ محمد علی نے اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ یہ ان کی پہلی فلم تھی، جب کہ بطور ہیرو پہلی نمائش پذیر فلم شرارت تھی۔ اس فلم کے ہدایت کار رفیق رضوی تھے۔ اس سے قبل محمد علی مسٹر ایکس نامی جاسوسی فلم میں ہیرو کے طور پر کام کرچکے تھے، لیکن اس کی نمائش تاخیر سے ہوئی اور یوں پہلی بار شائقین نے انھیں فلم شرارت میں‌ ہیرو کے روپ میں دیکھا تھا۔

    "خاموش رہو” وہ فلم تھی جس نے محمد علی کو شہرت اور مقبولیت دی۔ اس فلم نے مصروف ترین اداکار بنا دیا۔ ان کی کئی فلمیں نمائش پذیر ہوئیں۔ محمد علی نے اداکارہ زیبا سے شادی کی اور دونوں نے فلم نگری میں عزّت، وقار اور نام و مقام پایا۔ محمد علی اور زیبا کی مشترکہ فلموں کی تعداد 70 ہے جن میں پچاس سے زائد فلموں میں وہ ہیرو، ہیروئن کے طور پر نظر آئے۔ 29 ستمبر 1966ء وہ فلم "تم ملے پیار ملا” کی عکس بندی میں مصروف تھے جب انھوں نے شادی کا فیصلہ کیا۔

    محمد علی نے مجموعی طور پر 268 فلموں میں کام کیا جن میں اردو فلموں کی تعداد 251 تھی۔ لیجنڈ اداکار محمد علی نے مجموعی طور پر 9 نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیے۔

    جذباتی مکالمات کی ادائیگی، آواز کا اتار چڑھاؤ اور تاثرات پر کمال دسترس اور حقیقت سے قریب تر اداکاری محمد علی کو اپنے زمانے کے اداکاروں میں ممتاز کرتی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ناقدین انھیں ایشیا میں سلور اسکرین کے عظیم فن کاروں میں شمار کرتے ہیں۔

    محمد علی کو ان کی شان دار پرفارمنس اور بے مثال اداکاری پر حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ حسن کارکردگی اور تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔