Tag: 19 نومبر وفات

  • رومانوی نظموں سے شہرت حاصل کرنے والے سلام مچھلی شہری کا تذکرہ

    رومانوی نظموں سے شہرت حاصل کرنے والے سلام مچھلی شہری کا تذکرہ

    سلام مچھلی شہری اپنے زمانے کے ایک مقبول شاعر تھے۔ رومانوی شاعری میں منفرد راہ نکالنے والے اس شاعر نے غزل اور نظم دونوں اصنافِ سخن میں‌ طبع آزمائی کی۔

    اس دور میں‌ سلام نے ایک بالکل نئے طرز کی رومانی شاعری کی اور خاص طور پر نوجوانوں میں‌ مقبول ہوئے۔ سلام مچھلی شہری نے اپنی ریڈیو کی ملازمت کے زمانے میں کئی منظوم ڈرامے اور اوپیرا بھی لکھے۔ وہ نثر نگار بھی تھے اور ’بازو بند کھل کھل جائے‘ کے نام سے ان کا ایک ناول بھی شایع ہوا۔

    یکم جولائی 1921ء کو انھوں نے مچھلی شہر جونپور کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ تعلیم کا سلسلہ صرف ہائی اسکول تک محدود رہا اور کسی طرح الٰہ آباد یونیورسٹی کے کتب خانے میں‌ ملازمت مل گئی۔ یہاں‌ انھوں نے علم و مطالعہ کا شوق خوب پورا کیا۔ انھیں‌ لائبریری کی ملازمت کے دوران کئی موضوعات پر کتب اور مختلف زبانوں کے ادب کو پڑھنے کا موقع ملا جس نے انھیں ادبی فکر و تخلیق میں مدد دی۔ 1943ء میں سلام مچھلی شہری لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن پر مسوّدہ نویسی پر مامور ہوئے۔ اور بعد میں اسسٹنٹ پروڈیوسر کی حیثیت سے سری نگر ریڈیو اسٹیشن پر تبادلہ ہو گیا۔ کچھ عرصے بعد دہلی میں ریڈیو اسٹیشن پر پروڈیوسر کے طور پر ان کا تقرر ہوگیا۔ اس عرصے میں ان کا شعری سفر جاری رہا اور وہ ایک رومانی شاعر کے طور پر پہچانے گئے۔ انھیں‌ بھارتی حکومت نے ’پدم شری‘ سے بھی نوازا۔

    سلام مچھلی شہری کے تین شعری مجموعے ’ میرے نغمے‘ ،’وسعتیں‘، اور’ پائل‘ شایع ہوئے۔ انھوں نے 19 نومبر 1973ء کو دہلی میں وفات پائی۔ سلام مچھلی شہری کی یہ مشہور نظم ملاحظہ کیجیے۔

    بہت دنوں کی بات ہے
    فضا کو یاد بھی نہیں
    یہ بات آج کی نہیں
    بہت دنوں کی بات ہے
    شباب پر بہار تھی
    فضا بھی خوش گوار تھی
    نہ جانے کیوں مچل پڑا
    میں اپنے گھر سے چل پڑا
    کسی نے مجھ کو روک کر
    بڑی ادا سے ٹوک کر
    کہا تھا لوٹ آئیے
    مری قسم نہ جائیے
    نہ جائیے نہ جائیے

    مجھے مگر خبر نہ تھی
    ماحول پر نظر نہ تھی
    نہ جانے کیوں مچل پڑا
    میں اپنے گھر سے چل پڑا
    میں چل پڑا میں چل پڑا
    میں شہر سے پھر آ گیا
    خیال تھا کہ پا گیا
    اسے جو مجھ سے دور تھی
    مگر مری ضرور تھی
    اور اک حسین شام کو
    میں چل پڑا سلام کو
    گلی کا رنگ دیکھ کر
    نئی ترنگ دیکھ کر
    مجھے بڑی خوشی ہوئی
    میں کچھ اسی خوشی میں تھا
    کسی نے جھانک کر کہا
    پرائے گھر سے جائیے
    مری قسم نہ آئیے
    نہ آئیے، نہ آئیے

    وہی حسین شام ہے
    بہار جس کا نام ہے
    چلا ہوں گھر کو چھوڑ کر
    نہ جانے جاؤں گا کدھر
    کوئی نہیں جو ٹوک کر
    کوئی نہیں جو روک کر
    کہے کہ لوٹ آئیے
    مری قسم نہ جائیے

    بہت دنوں کی بات ہے
    فضا کو یاد بھی نہیں
    یہ بات آج کی نہیں
    بہت دنوں کی بات ہے

  • شاہ عالم: ایک بدنصیب مغل شنہشاہ جس کے دور میں‌ اردو کو فروغ حاصل ہوا

    شاہ عالم: ایک بدنصیب مغل شنہشاہ جس کے دور میں‌ اردو کو فروغ حاصل ہوا

    شاہ عالم ہندوستان کے وہ آخری اور بدنصیب شہنشاہ مشہور ہیں جن کے زمانے میں مغل سلطنت آزاد اور خودمختار ریاستوں میں تقسیم ہوئی اور انھوں نے اپنی آنکھوں سے مغل بادشاہت کا زوال دیکھا۔

    شاہ عالم کے دور میں یہ مقولہ مشہور ہوا کہ "حکومتِ شاہ عالم، از دہلی تا پالم۔” یعنی ان کی شہنشاہی دہلی اور قرب و جوار تک محدود ہوگئی تھی۔

    شاہ عالم ثانی کا پورا نام مرزا عبد اللہ علی گوہر بہادر تھا۔ وہ عالمگیر ثانی کے بیٹے اور ولی عہد تھے۔ ان کی پیدائش کے وقت عالمگیر ثانی لال قلعہ میں نظربند تھے جب کہ انگریزوں نے ہندوستان کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا تھا۔ اسیری کے باوجود شاہ عالم ثانی کی تعلیم شاہی دستور کے مطابق ہوئی۔ وہ فارسی اردو اور ہندی کے علاوہ ترکی زبان بھی جانتے تھے۔ 25 جون 1728ء کو پیدا ہونے والے شاہ عالم نے آج ہی کے دن 1806ء میں‌ وفات پائی۔

    وہ ایک بدنصیب شہنشاہ مشہور ہیں جس نے اپنے 48 سالہ شاہی دور میں سے بارہ سال اپنی جان کے خطرے کی وجہ سے دارُالخلافہ دہلی سے باہر گزارے۔ یہی نہیں‌ بلکہ ان کا دور امرائے سلطنت کی من مانیوں اور طاقت و اختیار کے بدترین مظاہروں کا دور تھا۔ شہنشاہ کی فوج یا پہرے دار بس نام کو تھے اور انہی حالات میں غلام قادر روہیلہ نے شاہ عالم کی آنکھیں نکال کر انھیں اگلے 19 سال تک معذوری کے عالم میں‌ زندگی بسر کرنے کے لیے چھوڑ دیا۔

    شاہ عالم ثانی نے 1760ء سے 1806ء تک ہندوستان پر حکم رانی کی، لیکن دہلی میں‌ قدم رکھنے کے بعد 17 برس تک وہ محل میں سازشوں اور شورشوں کے ساتھ اپنی آنکھوں سے مغلیہ سلطنت کو زوال کی طرف بڑھتا دیکھتے رہے۔ البتہ انھیں ایسا مغل بادشاہ کہا گیا جس نے لال قلعہ اور دربار میں شاعری کا سلسلہ شروع کیا اور اردو کو فروغ دیا۔

    بادشاہ شاعر اور نثر نگار بھی تھے۔ فارسی اور اردو میں آفتاب، بھاشا میں شاہ عالم تخلّص کرتے تھے۔ وہ شاعری اور موسیقی سے بھی دل بہلاتے رہے۔ انھیں مشّاق شاعر لکھا گیا ہے جن کے اشعار میں پیچ داری، مشکل فقرے یا الفاظ اور دور از کار تشبیہات نہیں بلکہ رواں اور سیدھے سادے الفاظ میں‌ حالِ دل کا بیان ملتا ہے۔

    تذکروں‌ میں آیا ہے کہ انھوں نے اپنی معذوری کے دوران نثر میں عجائبُ القصص اور نظم میں نادراتِ شاہی املا کروائی جسے اردو نثر اور اس زبان میں منفرد تسلیم کیا گیا۔

    شاہ عالم ثانی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    عاجز ہوں ترے ہاتھ سے کیا کام کروں میں
    کر چاک گریباں تجھے بدنام کروں میں

    ہے دورِ جہاں میں مجھے سب شکوہ تجھی سے
    کیوں کچھ گلۂ گردشِ ایّام کروں میں

    آوے جو تصرّف میں مرے مے کدہ ساقی
    اک دَم میں خموں کے خمیں انعام کروں میں

    حیراں ہوں ترے ہجر میں کس طرح سے پیارے
    شب روز کو اور صبح کے تئیں شام کروں میں

    مجھ کو شہِ عالم کیا اس ربّ نے، نہ کیونکر
    اللہ کا شکرانہ انعام کروں میں

  • پاکستان کے معروف موسیقار استاد واحد حسین کی برسی

    پاکستان کے معروف موسیقار استاد واحد حسین کی برسی

    پاکستان کے نام ور موسیقار استاد واحد حسین 19 نومبر 2004ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    استاد واحد حسین خان صاحب 1923ء میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق ایک موسیقار گھرانے سے تھا۔ وہ ایسے ماحول میں‌ پروان چڑھے جہاں‌ راگ راگنیوں اور گائیکی کا تذکرہ ہوتا رہتا تھا۔ ان کا موسیقی کی طرف راغب ہونا فطری تھا۔ واحد حسین کے والد استاد الطاف حسین خان صاحب بھی اپنے زمانے کے مشہور موسیقار تھے جب کہ بھائیوں نے بھی موسیقی اور گائیکی کے فن کو اپنایا اور بڑا نام و مقام پیدا کیا۔

    واحد حسین بھی بڑے ہوئے تو اپنے والد سے موسیقی کی تربیت حاصل کی۔ موسیقی کے رموز سیکھنے کے بعد وہ اپنے بھائیوں استاد عظمت حسین خان اور استاد ولایت حسین خان صاحب کے ساتھ محافل اور موسیقی پر منعقدہ کانفرنسوں میں بھی شریک ہونے لگے۔ انھوں نے اس فن میں اپنی صلاحیتوں کا شان دار مظاہرہ کیا اور نام ور ہوئے۔

    1964ء میں ان کے والد کی وفات ہوگئی اور واحد حسین اپنے بھائی استاد ممتاز حسین خان کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئے۔ استاد واحد حسین خان نے پربھوداس اور واحد رنگ کے قلمی نام سے متعدد بندشیں بھی مرتّب کی تھیں۔