Tag: 1972 انتقال

  • ریاض شاہد: مایہ ناز فلم ساز اور مکالمہ نویس کا تذکرہ

    ریاض شاہد: مایہ ناز فلم ساز اور مکالمہ نویس کا تذکرہ

    ریاض شاہد ایک فلم ساز، ہدایت کار اور مصنّف کے طور پر شہرت رکھتے ہیں جن کی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے ہوا تھا۔ تاہم اُن کی پہچان منفرد موضوعات پر اُن کی فلمیں اور مکالمہ نگاری ہے۔

    ریاض شاہد 1972ء میں‌ آج ہی کے دن کینسر کے سبب وفات پاگئے تھے۔ لاہور کے ایک کشمیری گھرانے میں 1930ء میں آنکھ کھولنے والے ریاض شاہد کا اصل نام شیخ ریاض تھا۔ انھوں نے لاہور کے اسلامیہ کالج سے تعلیم حاصل مکمل کرنے کے بعد صحافت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور ’چٹان‘ سے منسلک ہوگئے۔ بعد ازاں فیض احمد فیض کے جریدے ’لیل و نہار‘ سے وابستہ ہوئے۔ ریاض شاہد نے ’ہزار داستان‘ کے نام سے ایک ناول تحریر کیا اور بعد میں فلموں کا اسکرپٹ لکھنے لگے۔

    پاکستان کی فلمی تاریخ میں ریاض شاہد کو ان منفرد اور کاٹ دار مکالمہ نگاری کی وجہ سے بہت سراہا گیا۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، ترقی پسند اور روشن خیال فن کاروں میں سے ایک تھے۔ انھوں نے چند فلمی نغمات بھی تحریر کیے تھے۔

    ’بھروسہ‘ بطور مصنّف ان کی پہلی فلم تھی اور یہی فلم اُن کی وجہِ شہرت بن گئی۔ یہ فلم 1958ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ اس کے بعد ریاض شاہد کی ایک اور فلم ’شہید‘ کے نام سے ریلیز ہوئی جسے پاکستانی فلم انڈسٹری کی تہلکہ خیز فلم کہا جاتا ہے۔ 1962ء میں ریاض شاہد بطور ہدایت کار سامنے آئے اور اپنی پہلی فلم ’سسرال‘ بنائی۔ یہ اپنے وقت کی ایک یادگار فلم ثابت ہوئی۔ اس کام یابی کے بعد ریاض شاہد نے فلم ’فرنگی‘ کی کہانی اور ’نیند‘ کا اسکرپٹ لکھا جب کہ 1967ء میں ایک اور فلم ’گناہ گار‘ سامنے آئی جو انہی کی تحریر کردہ تھی۔

    ریاض شاہد نے تاریخی فلمیں بھی بنائیں جنھیں ملک بھر میں‌ شائقین نے پسند کیا۔ ان شاہکار فلموں میں مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر پر ’زرقا‘ اور ’یہ امن‘ بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ فلم ’’غرناطہ‘‘ بھی تاریخ کے موضوع پر ریاض شاہد کی ایک بہترین کاوش تھی۔ ریاض شاہد نے تیس سے زائد فلموں کی کہانیاں اور مکالمے لکھے جن میں ’’شکوہ، خاموش رہو، آگ کا دریا، بدنام، بہشت اور حیدر علی‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔ انھوں نے اردو کے علاوہ کئی پنجابی فلموں کے اسکرپٹ بھی تحریر کیے جن میں مشہور فلم’’ نظام لوہار‘‘بھی شامل ہے۔

    ریاض شاہد خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے۔ انھیں پاکستانی فلمی صنعت کا معتبر نگار ایوارڈ 11 مرتبہ دیا گیا۔ ’’زرقا‘‘ ریاض شاہد کی وہ فلم تھی جسے تین نگار ایوارڈ دیے گئے تھے۔

    ریاض شاہد نے اپنے زمانے کی مقبول اداکارہ نیلو سے شادی کی تھی۔ شان انہی کی اولاد ہیں جو پاکستان میں فلم انڈسٹری کے صفِ اوّل کے اداکار ہیں۔

  • ناصر کاظمی: وہ شاعر جس نے اردو غزل کو چشمِ حیرت اور دلِ مضطر دیا!

    ناصر کاظمی: وہ شاعر جس نے اردو غزل کو چشمِ حیرت اور دلِ مضطر دیا!

    ناصر کاظمی نے اردو غزل کو جو طرزِ ادا، ندرت، برجستگی اور بانکپن عطا کیا، اس کا اعتراف ان کے ہم عصر شعرا نے بھی کیا اور باذوق قارئین نے بھی سراہا۔ تحیّر خیزی اور سوز و گداز ناصر کے اشعار کا وہ وصف ہے، جو انھیں اپنے دور کا منفرد غزل گو شاعر بناتا ہے۔ آج اردو کے اس مقبول شاعر کی برسی ہے۔

    دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
    وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

    دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
    کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

    یہ بھی پڑھیے:
    جب مشہور شاعر ناصر کاظمی اپنے ایک دوست کی وجہ سے الجھن میں گرفتار ہوئے!

    حُسن و عشق کے موضوعات اور اردو شاعری کے روایتی مضامین یعنی زندگی کی تلخیاں، محرومیاں اور دکھ، حسرتیں، یاسیت اور میّسر آجانے والے خوشی کے لمحات کا بیان ناصر کی شاعری میں بڑی شدّت سے اور انفرادیت کے ساتھ ملتا ہے۔ قابلِ‌ ذکر بات یہ ہے کہ ناصر نے روایت سے اںحراف کیے بغیر اپنے کلام کو نئے لب و لہجے سے آشنا کیا، جو عام فہم اور نہایت دل نشیں‌ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عوامی حلقوں‌ میں‌ مقبول اور ہم عصروں‌ میں‌ ممتاز ہوئے۔ ان کا ایک مشہور شعر پڑھیے۔

    ہمارے گھر کی دیواروں‌ پہ ناصر
    اداسی بال کھولے سو رہی ہے

    وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا
    جو پچھلی رات سے یاد آ رہا ہے

    ناصر کاظمی کا اصل نام سیّد ناصر رضا کاظمی تھا۔ 8 دسمبر 1952ء کو انبالہ میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سیّد محمد سلطان کاظمی فوج میں صوبے دار میجر تھے۔ والدہ بھی تعلیم یافتہ اور انبالہ میں‌ اسکول ٹیچر تھیں۔ یوں‌ وہ ایک خوش حال گھرانے کے فرد تھے جس نے بچپن لاڈ پیار میں‌ گزارا۔ تعلیم حاصل کرتے ہوئے گلستاں، بوستاں، شاہنامۂ فردوسی، قصہ چہار درویش، فسانۂ آزاد، الف لیلٰی، صرف و نحو اور اردو شاعری کی کتابیں بھی پڑھ لیں۔ کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔

    ناصر کاظمی نے دسویں کا امتحان مسلم ہائی اسکول انبالہ سے پاس کیا۔ بی اے کے لیے لاہور گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا، لیکن تقسیمِ ہند کے ہنگاموں کے سبب تعلیم چھوڑنی پڑی۔ وہ آزادی کے بعد کسمپرسی کے عالم میں پاکستان پہنچے تھے۔

    عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے اس شاعر کی لفظیات اور ان کی حسّیات کا پیمانہ رومان رہا، لیکن وہ جس عہد اور سماج سے جڑے ہوئے تھے، اُس کے مسائل کو بھی نظر انداز نہیں کرسکے اور چھوٹی بحروں‌ کے ساتھ منفرد استعاروں‌ سے یوں‌ اپنے کلام کو سجایا کہ شہرت ان کا مقدر بنی۔

    ان کا پہلا مجموعۂ کلام ’برگِ نے‘ سنہ 1954ء میں منظرِعام پر آیا تھا جسے زبردست پذیرائی نصیب ہوئی۔ اس کے بعد ’پہلی بارش‘، ’نشاطِ خواب‘، ’دیوان‘ اور ’سُر کی چھایا‘ کے نام سے ان کی کتابیں‌ شایع ہوئیں۔ وہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے اور ان کے مضامین کا ایک مجموعہ بھی شایع ہوا تھا۔

    ناصر کاظمی معروف ادبی رسالوں ’اوراقِ نو‘ ، ’ہمایوں‘ اور ’خیال‘ کی مجلسِ ادارت میں شامل تھے۔ بعد میں ریڈیو پاکستان لاہور سے بطور اسٹاف ایڈیٹر وابستہ ہوگئے۔

    ناصر کاظمی کا انتقال 2 مارچ 1972ء کو ہوا۔ وہ لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کی قبر کے کتبے پر اُنہی کا ایک شعر کندہ ہے۔

    دائم آباد رہے گی دنیا
    ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا