Tag: 1972 برسی

  • یوسف ظفر: شعر و ادب کی دنیا کا ایک بھولا بسرا نام

    یوسف ظفر: شعر و ادب کی دنیا کا ایک بھولا بسرا نام

    اردو زبان و ادب کے فروغ اور اپنے تخلیقی کاموں کی بدولت نام و مقام پانے والے یوسف ظفر کا تذکرہ آج بہت کم ہی ہوتا ہے، اور بالخصوص نئی نسل ان سے واقف نہیں ہے۔ وہ ایک کہنہ مشق شاعر، ادیب اور صحافی تھے۔ یوسف ظفر معروف ادبی جریدے ہمایوں کے مدیر اور حلقۂ اربابِ ذوق کی بنیاد ڈالنے والوں میں سے ایک تھے۔

    یوسف ظفر یکم دسمبر 1914ء کو مری میں پیدا ہوئے۔ 1936ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ وہ پندرہ سال کے تھے جب والد اور اسی روز بڑی بہن کی اچانک وفات کا صدمہ اٹھانا پڑا۔ والد کے انتقال کے بعد گھر کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر آ گئی۔ یوسف ظفر نے کنبے کی ضروریات پوری کرنے کے دوران انتہائی نامساعد حالات میں اپنی زندگی بسر کی۔ وہ معاش کے لیے مشکلات کے سائے تلے جدوجہد میں مصروف رہے۔ اس کے ساتھ ان کا شعری سفر اور ادبی سرگرمیاں بھی ان کے ذوق و شوق کی تسکین کے ساتھ غمِ دوراں سے ان کے فرار کا بہانہ بنی رہیں۔ 1939ء میں یوسف ظفر نے مشہور شاعر میرا جی کے ساتھ حلقہ ارباب ذوق کی بنیاد ڈالی۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے جہاں ادبی جریدے کی ادارت سنبھالی وہیں ریڈیو پاکستان سے بھی وابستہ ہوئے۔ وہ اسٹیشن ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔

    شاعر و ادیب یوسف ظفر کے تخلیقی سفر کو سمجھنے کے لیے ان مرکزی تحریکات و رجحانات کو مدنظر رکھنا ہو گا جن سے اردو شعر و ادب توانا ہوتا رہا اور ان تحریکوں میں خاص طور پر ترقی پسند تحریک اور تحریک حلقۂ ارباب ذوق کا نام لیا جائے گا۔ لاہور میں حفیظ ہوشیار پوری کے زیر صدارت پہلے جلسہ کے بعد جب قیوم نظر، میرا جی، ن م راشد جیسے شعرا اور ادیبوں کے ساتھ یوسف ظفر بھی شامل ہوئے تو اس کے اغراض و مقاصد میں بھی توسیع ہوئی اور اس انجمن نے پاکستان بھر میں اہل قلم شخصیات کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔

    یوسف ظفر کے شعری مجموعے نوائے ساز، عشق پیماں، حریمِ وطن، صدا بہ صحرا، زہر خند اور زنداں کے نام سے شایع ہوئی اور سوانح عمری ظفر کی بات کے عنوان سے منظر عام پر آئی۔ یوسف ظفر نے یہودیت موضوع پر بھی ایک کتاب تصنیف کی تھی۔

    7 مارچ 1972ء کو راولپنڈی میں انتقال کرنے والے یوسف ظفر کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    وہ میری جان ہے دل سے کبھی جدا نہ ہوا
    کہ اس کا غم ہی مری زیست کا بہانہ ہوا

    نظر نے جھک کے کہا مجھ سے کیا دم رخصت
    میں سوچتا ہوں کہ کس دل سے وہ روانہ ہوا

    وہ یاد یاد میں جھلکا ہے آئنے کی طرح
    اس آئنہ میں کبھی اپنا سامنا نہ ہوا

    میں اس کے ہجر کی تاریکیوں میں ڈوبا تھا
    وہ آیا گھر میں مرے اور چراغ خانہ ہوا

    وہ لوٹ آیا ہے یا میری خود فریبی ہے
    نگاہ کہتی ہے دیکھے اسے زمانہ ہوا

    اسی کی یاد ہے سرمایۂ حیات ظفرؔ
    نہیں تو میرا ہے کیا میں ہوا ہوا نہ ہوا

  • ناصر کاظمی: وہ شاعر جس نے اردو غزل کو چشمِ حیرت اور دلِ مضطر دیا!

    ناصر کاظمی: وہ شاعر جس نے اردو غزل کو چشمِ حیرت اور دلِ مضطر دیا!

    ناصر کاظمی نے اردو غزل کو جو طرزِ ادا، ندرت، برجستگی اور بانکپن عطا کیا، اس کا اعتراف ان کے ہم عصر شعرا نے بھی کیا اور باذوق قارئین نے بھی سراہا۔ تحیّر خیزی اور سوز و گداز ناصر کے اشعار کا وہ وصف ہے، جو انھیں اپنے دور کا منفرد غزل گو شاعر بناتا ہے۔ آج اردو کے اس مقبول شاعر کی برسی ہے۔

    دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
    وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

    دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
    کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

    یہ بھی پڑھیے:
    جب مشہور شاعر ناصر کاظمی اپنے ایک دوست کی وجہ سے الجھن میں گرفتار ہوئے!

    حُسن و عشق کے موضوعات اور اردو شاعری کے روایتی مضامین یعنی زندگی کی تلخیاں، محرومیاں اور دکھ، حسرتیں، یاسیت اور میّسر آجانے والے خوشی کے لمحات کا بیان ناصر کی شاعری میں بڑی شدّت سے اور انفرادیت کے ساتھ ملتا ہے۔ قابلِ‌ ذکر بات یہ ہے کہ ناصر نے روایت سے اںحراف کیے بغیر اپنے کلام کو نئے لب و لہجے سے آشنا کیا، جو عام فہم اور نہایت دل نشیں‌ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عوامی حلقوں‌ میں‌ مقبول اور ہم عصروں‌ میں‌ ممتاز ہوئے۔ ان کا ایک مشہور شعر پڑھیے۔

    ہمارے گھر کی دیواروں‌ پہ ناصر
    اداسی بال کھولے سو رہی ہے

    وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا
    جو پچھلی رات سے یاد آ رہا ہے

    ناصر کاظمی کا اصل نام سیّد ناصر رضا کاظمی تھا۔ 8 دسمبر 1952ء کو انبالہ میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سیّد محمد سلطان کاظمی فوج میں صوبے دار میجر تھے۔ والدہ بھی تعلیم یافتہ اور انبالہ میں‌ اسکول ٹیچر تھیں۔ یوں‌ وہ ایک خوش حال گھرانے کے فرد تھے جس نے بچپن لاڈ پیار میں‌ گزارا۔ تعلیم حاصل کرتے ہوئے گلستاں، بوستاں، شاہنامۂ فردوسی، قصہ چہار درویش، فسانۂ آزاد، الف لیلٰی، صرف و نحو اور اردو شاعری کی کتابیں بھی پڑھ لیں۔ کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔

    ناصر کاظمی نے دسویں کا امتحان مسلم ہائی اسکول انبالہ سے پاس کیا۔ بی اے کے لیے لاہور گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا، لیکن تقسیمِ ہند کے ہنگاموں کے سبب تعلیم چھوڑنی پڑی۔ وہ آزادی کے بعد کسمپرسی کے عالم میں پاکستان پہنچے تھے۔

    عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے اس شاعر کی لفظیات اور ان کی حسّیات کا پیمانہ رومان رہا، لیکن وہ جس عہد اور سماج سے جڑے ہوئے تھے، اُس کے مسائل کو بھی نظر انداز نہیں کرسکے اور چھوٹی بحروں‌ کے ساتھ منفرد استعاروں‌ سے یوں‌ اپنے کلام کو سجایا کہ شہرت ان کا مقدر بنی۔

    ان کا پہلا مجموعۂ کلام ’برگِ نے‘ سنہ 1954ء میں منظرِعام پر آیا تھا جسے زبردست پذیرائی نصیب ہوئی۔ اس کے بعد ’پہلی بارش‘، ’نشاطِ خواب‘، ’دیوان‘ اور ’سُر کی چھایا‘ کے نام سے ان کی کتابیں‌ شایع ہوئیں۔ وہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے اور ان کے مضامین کا ایک مجموعہ بھی شایع ہوا تھا۔

    ناصر کاظمی معروف ادبی رسالوں ’اوراقِ نو‘ ، ’ہمایوں‘ اور ’خیال‘ کی مجلسِ ادارت میں شامل تھے۔ بعد میں ریڈیو پاکستان لاہور سے بطور اسٹاف ایڈیٹر وابستہ ہوگئے۔

    ناصر کاظمی کا انتقال 2 مارچ 1972ء کو ہوا۔ وہ لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کی قبر کے کتبے پر اُنہی کا ایک شعر کندہ ہے۔

    دائم آباد رہے گی دنیا
    ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا