Tag: 1975 وفیات

  • یومِ وفات:‌ جب ‘بنتِ نیل’ کو پاکستان میں ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا

    یومِ وفات:‌ جب ‘بنتِ نیل’ کو پاکستان میں ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا

    مشرقِ وسطیٰ میں ریڈیو کے ایک پروگرام کی بدولت اُمِّ کلثوم نے گویا راتوں رات شہرت کا ہفت خواں طے کرلیے تھے۔ اور اس کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی آواز کے مداح بڑھتے گئے اور عرب دنیا ان کی شخصیت کے سحر میں‌ گرفتار ہوگئی۔

    1934ء کے بعد مصر کی امِّ کلثوم لیجنڈ گلوکارہ کے طور پر مشہور ہوئیں۔ انھیں ‘بنتِ نیل’، ‘کوکبِ مشرق’، ‘بلبلِ صحرا’ اور ‘صوۃُ العرب’ جیسے خطاب سے دیے گئے اور کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ امّ کلثوم نے دنیا کی کئی نام وَر شخصیات کی موجودگی میں اپنے فنِ گلوکاری کا مظاہرہ کیا اور داد و تحسین سمیٹی۔

    اس عظیم گلوکارہ کا انتقال 3 فروری 1975ء کو ہوا تھا۔ آج اُمِّ کلثوم کی برسی ہے۔

    اس عرب گلوکارہ نے 31 دسمبر 1898ء کو ایک کسان گھرانے میں آنکھ کھولی۔ وہ شروع ہی سے موسیقی اور گلوکاری کا شوق رکھتی تھیں۔ انھوں‌ نے کلاسیکی عرب موسیقی میں مہارت حاصل کی اور 1920ء کی دہائی میں ان کی آواز کو پہچانا جانے لگا۔ رفتہ رفتہ وہ اپنے ملک کی مقبول گلوکارہ بن گئیں۔ 1934ء میں ریڈیو قاہرہ سے ان کا جو پروگرام نشر ہوا، اس کے بعد ان کی آواز پورے خطۂ عرب میں یکساں مقبول ہوگئی۔

    امِّ کلثوم نے بدوؤں اور دیہاتیوں کی زبانی کئی لوک گیت اور کہانیاں سنی تھیں، ان کے طرزِ زندگی کو قریب سے دیکھا تھا، ان کی عرب ثقافت کے مختلف پہلوؤں پر نظر تھی۔ جب وہ گلوکاری کی طرف آئیں تو اپنے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں کلاسیکی عرب موسیقی کو اپنی آواز میں اس خوبی سے پیش کیا کہ ہر کوئی ان کا مداح ہوگیا۔ امِّ کلثوم نے قدیم اور کلاسیکی راگوں میں لوک گیت گائے اور اس فن کی بدولت ان کا نام امر ہوگیا۔ ان کے پرستاروں میں ہر خاص و عام اور ہر طبقۂ فکر کے لوگ شامل ہیں۔ امّ کلثوم کو مصر کا سب سے بڑا اعزاز ‘الکمال’ عطا کیا گیا تھا۔

    پاکستان میں امِّ کلثوم کی ایک وجہِ شہرت شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کی نظمیں شکوہ، جوابِ شکوہ ہیں جن کا عربی زبان میں‌ ترجمہ کیا گیا تھا اور پھر اس کلام کو گلوکارہ نے اپنی آواز دی تھی۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے امّ کلثوم اسی بنا پر ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔

    دماغ کی شریان پھٹ جانے کے سبب امِّ کلثوم زندگی کی بازی ہار گئی تھیں۔ اس مقبول گلوکارہ کے جنازے میں لاکھوں افراد شریک تھے جن میں‌ اعلیٰ حکومتی عہدے دار اور اہم شخصیات بھی شامل تھیں۔

  • عظیم مصوّر عبدالرّحمٰن چغتائی اور پتنگ بازی

    عبدالرّحمٰن چغتائی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ فنِ‌ مصوّری میں انھوں نے اسلامی، ہندو، بدھ ازم، مغل اور پنجاب کی زندگی کو اس تسلسل اور کمال سے پیش کیاکہ مصوّرِ مشرق کہلائے۔ چغتائی صاحب کی تصاویر دنیا کی مشہور آرٹ گیلریوں میں موجود ہیں۔

    آج اس عظیم مصوّر کی برسی ہے۔ وہ 17 جنوری 1975ء کو لاہور میں انتقال کرگئے تھے۔ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کے ’لوگو‘ عبدالرّحمٰن چغتائی کی ہی اخترا ع اور ان کے کمالِ فن کا نمونہ ہیں۔

    پاکستان کے عظیم مصوّر عبدالرّحمٰن چغتائی نے 21 ستمبر 1897ء کو لاہور میں آنکھ کھولی۔1914ء میں میؤ اسکول آف آرٹس لاہور سے ڈرائنگ کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد استاد میراں بخش سے مصوّری کے اسرار و رموز سیکھے اور پھر میؤ اسکول میں ہی تدریس کے پیشے سے منسلک ہو گئے۔ 1919ء میں جب انھوں نے ہندوستانی مصوّری کی ایک نمائش میں شرکت کی تو اپنے فن کی پذیرائی نے بڑا حوصلہ دیا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے فن پارے کلکتہ کے رسالے ’’ماڈرن ریویو‘‘ میں اشاعت کے لیے بھیجے جنھیں بہت سراہا گیا۔ یوں چغتائی کا پہلا شاہکارِ فن 1919ء میں وجود میں آیا اور دنیائے مصوری میں ان کی آمد کا شور بھی ہوا۔ چغتائی صاحب نے اس فن میں جداگانہ اسلوب اور فن کارانہ روش اختیار کی اور یہ اس قدر مشہور ہوا کہ اس اسلوب کو ’’چغتائی آرٹ ‘‘ کا نام دے دیا گیا۔ انھوں نے اقبال اور غالب کی شاعری کو اپنے فن کی بدولت نقشِ‌ دل پذیر بنا دیا۔ ان کی یہ کاوش ہم عصروں میں چغتائی صاحب کی انفرادیت اور امتیاز بن گئی۔ ناقدین نے چغتائی صاحب کو دو روایتوں کا امین کہا ہے جو ایک طرف ترک، ایرانی اور مغل مصوری پر مبنی تھا تو دوسری جانب ہندوستانی مصوری کی بنیاد پر مبنی بنگالی آرٹ تھا۔

    عبدالرّحمٰن چغتائی کی برسی پر ان کی یاد تازہ کرتے ہوئے ہم ریاض احمد کی کتاب سے چند یادیں نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنیں گی۔ وہ لکھتے ہیں:

    "چغتائی صاحب سرورق بنانے کا کوئی معاوضہ قبول نہیں کرتے تھے۔ وہ یہ کام اس نیّت سے کرتے تھے کہ ان کے فن کی زکوٰۃ نکلتی رہے۔ تقسیمِ ہند سے قبل برصغیر بھر سے جو فرمائش بھی انہیں ملی، انہوں نے اس کا احترام کیا اور سرورق بنا کر بھجوا دیا۔

    جان، انجان کی بات ہی نہیں تھی۔ اس پر میں نے کئی لوگوں کو حیران ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ واقعی چغتائی صاحب ان کی کتاب کا سرورق بنا دیں گے۔ اور وہ بھی بلا معاوضہ! لوگ سمجھتے تھے وہ کم از کم ہزاروں روپے مانگیں گے۔

    چغتائی صاحب ع کے بھی بے حد شوقین تھے۔ ہمیشہ سفید رنگ کی ایک خاص سائز کی پتنگ اڑاتے تھے۔ ہوا کا رُخ ہمارے گھر کی طرف ہوتا تو ان کی پتنگ کو دیکھتے ہی ہم پہچان جاتے کہ چغتائی صاحب شوق پورا کر رہے ہیں۔

    کبھی میں ابا جی (نذیر احمد چودھری) کی طرف سے سرورق بنانے کے لیے کہنے جاتا یا ان کے وعدے کے مطابق سرورق لینے کے لیے جاتا تو دروازے پر لگی گھنٹی بجاتا۔ وہ تیسری منزل کی کھڑکی کھول کر نیچے جھانکتے، مجھے دیکھتے اور کھڑکی بند کر کے خود سیڑھیاں اتر کر نیچے تشریف لاتے۔ ایسا وہ اس صورت میں کرتے تھے جب سرورق کے بارے میں کوئی بات سمجھانی ہوتی تھی۔ بصورتِ دیگر سرورق ایک چھینکے میں رکھ کر نیچے لٹکا دیتے تھے۔ سبزی بھی وہ یونہی خریدا کرتے تھے۔

    چغتائی صاحب تکلفات سے بے نیاز تھے۔ وہ اکثر بنیان اور دھوتی پہنے ہوتے۔ آخر میں انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا، شاید آسانی کی خاطر، کہ سرورق کو کلر اسکیم نہیں لگاتے تھے۔ مجھے کہتے: ”ریاض، بلاک بن جائے تو چار چھ پروف نکال لانا، اسی وقت رنگ لگا دوں گا۔ تُو نے کون سا دور سے آنا ہے۔ سامنے ہی تو پریس ہے۔“ میں کہتا: ”جی بہتر۔“

    اچھا چھپا ہوا سرورق دیکھ کر بے خوش ہوتے تھے اور دل کھول کر داد دیتے تھے۔ بلاک بننے میں بھی کوئی کسر رہ گئی ہوتی تو وہ فوراً بھانپ جاتے اور اس کی نشان دہی فرما دیتے۔”