Tag: 1997 انتقال

  • ضیا سرحدی: معاشرے کی خامیوں اور طبقاتی تضاد کو عیاں‌ کرنے والا فلم ساز

    ضیا سرحدی مارکسی نظریات سے متاثر تھے۔ وہ ایسے ہدایت کار اور کہانی نویس مشہور تھے جس کی فلمیں انہی نظریات کے زیرِ اثر شاہ کار ثابت ہوئیں۔ ضیا سرحدی نے اپنے سماج کے مختلف چہرے اور معاشرے میں‌ طبقاتی تضاد کو بڑے پردے پر پیش کیا اور شائقین ہی نہیں‌ ناقدین سے بھی داد پائی۔

    ضیا سرحدی کو بچپن ہی میں فلموں کا شوق پیدا ہوگیا تھا جو نوعمری میں‌ ان کا عشق بن گیا اور جب وہ مارکسی فلسفے سے آشنا ہوئے تو زندگی کو الگ ہی انداز سے دیکھنے لگے۔ تب لگ بھگ 20 سال کی عمر میں انھوں نے پشاور سے بنگال کا سفر کیا اور وہاں جاکر ہدایت کار، اسکرپٹ رائٹر اور اداکار کے طور پر قسمت آزمائی۔ بعد میں‌ بمبئی فلم انڈسٹری میں‌ کام کیا اور اپنے فن کی بنیاد پر نام و مقام بنایا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تھیٹر کے بعد سنیما کا بڑا زور تھا اور متحرک فلموں نے شائقین کو اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔

    متحدہ ہندوستان میں ”ہم لوگ” اور ”فٹ پاتھ” جیسی فلموں‌ کو آج بھی شاہکار کا درجہ حاصل ہے اور یہ فلمیں ضیا سرحدی ہی کی فنی مہارت اور تخلیقِ رسا کی دین تھیں۔

    ضیا سرحدی 27 جنوری 1997ء کو انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ پاکستان کے اس ممتاز فلم ساز اور ہدایت کار کا تعلق پشاور سے تھا جہاں انھوں‌ نے 1912ء میں آنکھ کھولی۔ ان کا خاندانی نام فضل قادر سیٹھی تھا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف اداکار خیّام سرحدی ان کے فرزند اور مشہور موسیقار رفیق غزنوی داماد تھے۔

    ضیا سرحدی گریجویشن کرنے کے بعد 1933ء میں بمبئی چلے گئے۔ وہاں اپنے وقت کے عظیم ہدایت کار محبوب کے ساتھ کہانی نگار کی حیثیت سے کام شروع کا آغاز کیا۔ اس زمانے میں‌ انھوں‌ نے "دکن کوئن، من موہن، جاگیردار، مدھر ملن، پوسٹ مین جیسی فلمیں‌ کے لیے ہدایت کاری اور اسکرپٹ رائٹنگ کی۔

    1958ء میں ضیا سرحدی پاکستان آگئے جہاں رہ گزر کے نام سے ایک فلم بنائی جو کام یاب نہ ہو سکی۔ انھوں نے فلم "لاکھوں میں ایک، غنڈہ، اور نیا سورج کی کہانی لکھی تھی، لیکن ان میں سے بھی دو مکمل نہ ہوسکیں۔ تاہم لاکھوں‌ میں ایک اپنے شان دار مکالموں اور بہترین اسکرپٹ کی وجہ سے سپر ہٹ ثابت ہوئی۔ یہاں انھیں قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے کے ساتھ فضا میں اس گھٹن کا احساس بھی ہوتا رہا جس میں ان کی تخلیقی صلاحیت اور فکر ماند پڑ رہی تھی، تب وہ بیرونِ ملک چلے گئے اور بعد میں اسپین منتقل ہوگئے تھے جہاں دمِ آخر تک قیام رہا۔

    ضیا سرحدی کو پشاور میں ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • لالہ سدھیر: ‘جنگجو ہیرو’ جس نے دلوں پر راج کیا

    پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لالہ سدھیر تاریخ کے مشہور جنگجو اور لڑاکا کرداروں کو نبھانے میں اپنے دور کے ہر اداکار سے آگے نکل گئے اور دہائیوں تک فلم انڈسٹری پر چھائے رہے۔ بلاشبہ انھوں نے سنیما بینوں کے دلوں پر راج کیا۔

    وہ پاکستان کی فلمی تاریخ کے پہلے سپر اسٹار اور ابتدائی دور کے کام یاب اور مقبول فلمی ہیرو کہلاتے ہیں۔ وہ سب کے لیے لالہ سدھیر تھے اور ہر جگہ اسی نام سے پکارے جاتے تھے۔

    لالہ سدھیر نے جنگجو اور ایک لڑاکا کے طور پر اس دور کی فلموں میں جو کردار نبھائے، وہ ان کی خاص شناخت بنے۔ میدانِ جنگ میں دشمنوں سے لڑتے ہوئے لالہ سدھیر کی متأثر کن اداکاری نے انھیں عوام میں ‘جنگجو’ مشہور کردیا تھا۔ آج پاکستانی فلمی صنعت کے اس مقبول ہیرو کا یومِ وفات ہے۔

    پاکستان کے پہلے ایکشن ہیرو کی حیثیت سے نام بنانے والے سدھیر کا اصل نام شاہ زمان تھا۔ سنیما نے انھیں سدھیر کا نام دیا اور ہر ایک نے انھیں عزّت اور احترام سے لالہ سدھیر پکارنا شروع کردیا۔ کہتے ہیں سدھیر ایک نہایت شفیق اور محبت کرنے والے انسان تھے اور اپنی اسی عادت اور خوش اخلاقی کی وجہ سے ہر کوئی انھیں پسند کرتا تھا۔

    لاہور میں 1922 کو پیدا ہونے والے سدھیر نے قیامِ پاکستان کے بعد پہلی فلم ہچکولے میں کام کیا اور اس کے بعد فلم دوپٹہ نے انھیں شہرت دی۔ اس فلم میں ان کے ساتھ نورجہاں نے کام کیا تھا۔ 1956 میں فلم ماہی منڈا اور یکے والی وہ فلمیں تھیں جنھوں نے سدھیر کی شہرت کو گویا پَر لگا دیے۔

    وہ اپنے وقت کی مشہور ایکٹریسوں نور جہاں، مسرت نذیر، صبیحہ خانم، آشا بھوسلے، لیلیٰ، زیبا، دیبا، شمیم آرا، بہار بیگم اور رانی کے ساتھ کئی فلموں میں ہیرو کے روپ میں نظر آئے اور شائقین نے انھیں بہت پسند کیا۔ سن آف اَن داتا، کرتار سنگھ، بغاوت، حکومت، ڈاچی، ماں پتر، چٹان، جانی دشمن اور کئی فلمیں ان کی شہرت اور نام وری کا سبب بنیں۔ سدھیر خود پر گیت فلم بند کروانا پسند نہیں کرتے تھے۔ اس کی بڑی وجہ ان کا ایکشن فلمی ہیرو کا وہ امیج تھا جو جنگ و جدل کے لیے تو ایک آئیڈیل ہیرو تھا لیکن رومانٹک کرداروں اور گانا گانے والے ہیرو کے لیے موزوں نہیں تھا۔

    سدھیر کو ان کے 30 سالہ شان دار فلمی سفر پر خصوصی نگار ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا تھا۔ انھوں نے کئی فلمی اعزازات اپنے نام کیے۔

    19 جنوری 1997ء کو لالہ سدھیر اس دارِ‌ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔