Tag: 1999 برسی

  • غلام محمد قاصرؔ: روایت کی سیج کو اپنے سلیقۂ سخن سے سجانے والا شاعر

    غلام محمد قاصرؔ: روایت کی سیج کو اپنے سلیقۂ سخن سے سجانے والا شاعر

    اردو شاعری میں‌ نازک خیالی اور لطیف جذبات کے اظہار نے غلام محمد قاصرؔ کو اس زبان کا معتبر اور مقبول شاعر بنایا۔ قاصرؔ نے 1999ء میں‌ آج ہی روز دنیا کو خیرباد کہا تھا۔ آج غلام محمد قاصرؔ کی برسی ہے۔

    یہاں ہم اردو کے ممتاز شاعر اور ادیب غلام محمد قاصر سے متعلق ایک قصّہ نقل کررہے ہیں جو قارئین کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ ملاحظہ کیجیے۔ "ساٹھ کی دہائی کے اواخر کی بات ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک عظیم الشّان کل پاکستان مشاعرہ منعقد ہوا جس میں اُس دور کے نامی گرامی شعرا ناصر کاظمی، منیر نیازی، احمد ندیم قاسمی، قتیل شفائی اور محبوب خزاں وغیرہ شامل تھے۔ مشاعرے کے آغاز میں ایک نوجوان شاعر کو کلام سنانے کی دعوت دی گئی۔ ایک چوبیس پچیس سالہ دبلے پتلے اسکول ٹیچر نے ہاتھوں میں لرزتے ہوئے کاغذ کو بڑی مشکل سے سنبھال کر ایسے لہجے میں غزل سنانا شروع کی جسے کسی طرح بھی ٹکسالی نہیں کہا جا سکتا تھا۔ لیکن اشعار کی روانی، غزلیت کی فراوانی اور خیال کی کاٹ ایسی تھی کہ بڑے ناموں کی باری کے منتظر سامعین بھی نوٹس لینے پر مجبور ہو گئے۔

    جب نوجوان اس شعر پر آیا تو گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے شعرا یک لخت اٹھ بیٹھے اور انھوں نے تمام سامعین کی آواز میں آواز ملا کر وہ داد دی کہ پنڈال میں دھوم مچ گئی۔ شعر تھا

    تم یوں ہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتہ
    ہم نے ہر اُس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے

    لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ یہ کون ہے؟ اس سوال کا جواب غزل کے آخری شعر میں شاعر نے خود ہی دے دیا۔

    کون غلام محمد قاصر بیچارے سے کرتا بات
    یہ چالاکوں کی بستی تھی اور حضرت شرمیلے تھے

    احمد ندیم قاسمی قاصر کے بارے میں لکھتے ہیں، ’’جب کوئی سچ مچ کا شاعر بات کہنے کا اپنا سلیقہ روایت میں شامل کرتا ہے تو پوری روایت جگمگا اٹھتی ہے۔‘‘

    غلام محمد قاصرؔ کا تعلق پاکستان کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے چند کلومیٹر دور بسائے گئے قصبے پہاڑ پور سے تھا۔ وہ 4 ستمبر 1941 میں پیدا ہوئے۔ میٹرک کرنے کے بعد تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ کوئی کالج قریب نہ تھا اور قاصر نے خود کو ماحول کے اس جبر کا شکار ہونے دیا۔ لیکن بطور پیشہ مدّرسی کو اپنایا تو راہیں کھل گئیں۔ اسی عرصہ میں‌ ایف اے کا امتحان دے کر بی اے کیا اور پھر اُردو میں ایم اے کرکے پبلک سروس کمیشن کا امتحان دے دیا۔ انٹرویو میں کام یاب ہوئے اور لیکچرار ہوگئے۔ قاصر نے شاعر سعید احمد اختر کی بیٹی سے شادی کی اور اس جوڑے کو خدا نے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔ قاصر نے پشاور میں‌ وفات پائی۔

    قاصر اپنے وقت کے مقبول اور خوش گو شاعر تھے۔ ان کے شعری مجموعے’’ تسلسل‘‘،’’ آٹھواں آسمان بھی نیلا ہے‘‘ اور ’’دریائے گماں‘‘ کے نام سے شایع ہوئے اور کلیات بھی ’’اک شعر ابھی تک رہتا ہے‘‘ کے نام سے سامنے آئی۔ غلام محمد قاصر نثر نگار بھی تھے اور ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھے۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر کا یہ شعر بہت مقبول ہوا۔

    کروں گا کیا جو محبت میں‌ ہوگیا ناکام
    مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

  • ماریو پوزو اور ‘گاڈ فادر’ کی مرعوب کُن کہانی

    ماریو پوزو اور ‘گاڈ فادر’ کی مرعوب کُن کہانی

    ماریو پوزو دنیا کے ان ناول نگاروں‌ میں سے ایک ہیں جن کا ذکر کیے بغیر پچھلی دہائیوں کا ادبی منظر نامہ مکمل نہیں‌ ہوسکتا۔ دی گاڈ فادر اس امریکی ادیب کا ایک مشہور ناول ہے جس پر فلم بھی بنائی گئی تھی۔

    ماریو پوزو(Mario puzo) کے حالاتِ زندگی اور ان کے تخلیقی سفر پر نظر ڈالتے ہوئے ہم اس فلم کی کہانی بھی بیان کریں‌ گے جو ان کے مشہور ناول پر مبنی ہے۔

    بہترین ناول نگار ہی نہیں ماریو پوزو مختصر کہانی نویسی اور اسکرین رائٹنگ میں بھی کمال رکھتے تھے۔ ان کے آباء و اجداد کا تعلق اٹلی سے تھا، لیکن ماریو پوزو جس گھرانے کے فرد تھے، وہ امریکہ آن بسا تھا۔ نیویارک کے شہر مین ہٹن میں ماریو پوزو نے 15 اکتوبر 1920ء میں آنکھ کھولی۔ وہ ایک معمولی آمدنی والے کنبے کے فرد تھے۔ ماریو پوزو نے نیویارک ہی سے گریجویشن کیا اور دوسری جنگِ عظیم کے موقع پر امریکی فضائیہ میں‌ شمولیت اختیار کرلی، لیکن نظر کمزور تھی، اس لیے ماریو پوزو کا تعلقاتِ عامّہ کے شعبے میں تبادلہ کردیا گیا۔ وہ مطالعہ اور لکھنے لکھانے کا شوق رکھتے تھے۔ دورانِ ملازمت ان کے افسانے اور کہانیاں‌ شایع ہونے لگیں اور ان کی شہرت کا سفر شروع ہوا۔

    ماریو پوزو کا پہلا افسانہ 1950ء میں شایع ہوا تھا۔ اس ناول نگار کی وجہِ شہرت مافیا پر لکھی گئی کہانیاں‌ بنیں۔ ماریو پوزو نے 11 ناول تحریر کیے، جن میں سب سے زیادہ مقبولیت گاڈ فادر کو ملی اور یہی عالمی ادب میں ماریو پوزو کی پہچان بنا۔ اس ناول پر بننے والی فلم کو تین اکیڈمی ایوارڈ بھی ملے۔ ماریو پوزو نے بعد میں‌ بحیثیت مدیر بھی کام کیا اور کہانیاں‌ لکھنے کے ساتھ مضمون نگاری بھی کی۔ پوزو کے افسانوں اور ناولوں کا امریکی معاشرے میں ذہنوں‌ پر گہرا اثر ہوا۔ وہ جن مافیاز کی کہانیاں‌ لکھتے تھے، اس میں مصنّف کی قوّتِ مشاہدہ کے ساتھ ان کی محنت، مہارت اور ذہانت کا بڑا دخل نظر آتا ہے۔

    ماریو پوزو 2 جولائی 1999ء کو چل بسے تھے مگر آج بھی ان کا نام عالمی ادب میں بہترین ناول نگار کے طور پر زندہ ہے۔

    امریکہ میں‌ مافیا کے کرداروں پر ان کے مشہور ناول دی گاڈ فادر پر بننے والی فلم کی بات کریں‌ تو یہ ایسی کہانی ہے جس کا سربراہ بِیٹو کورلیون (گاڈ فادر) نامی ایک جہاں دیدہ شخص ہے۔ یہ ناول نیویارک شہر میں مافیا کے مختلف خاندانوں‌ کی علاقے اور کاروبار کی دنیا میں ایک دوسرے پر اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے لڑائیوں کو بیان کرتا ہے۔ اس دوران کورلیون فیملی بحران کا شکار ہوجاتی ہے اور اس میں قیادت کی تبدیلی بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ مصنّف نے اپنے ناول میں بڑی تفصیل کے ساتھ کرداروں کی ذہنی کشمکش اور رویے کو‌ بیان کیا ہے جس نے اس کہانی کو مؤثر بنا دیا۔ اس ناول کی ایک خوبی دنیاوی فہم و فراست، ذہانت کے وہ باریک نکات ہیں‌ جس میں‌ ماریو پوزو نے اپنے کرداروں کو فلسفہ جھاڑے بغیر حکیمانہ انداز میں‌ گفتگو کرتے ہوئے دکھایا ہے۔ فلمی پردے پر شائقین کو یہ سسپنس سے بھرپور اور نت نئے موڑ لیتی کہانی معلوم ہوتی ہے اور یہ سب اس کا اشتیاق بڑھاتا ہے۔ اس فلم کے ڈائریکٹر فرانسس فورڈ کپولا تھے اور اس کا ایک کردار عظیم فن کار مارلن برانڈو نے ادا کیا۔ ناول کے کئی فقرے بھی مشہور ہوئے اور فلم کو بھی زبردست پذیرائی ملی۔ یہ فلم 1972ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔

    ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ مصنّف مالی آسودگی کا آرزو مند تھا اور جب وہ اپنی ابتدائی تخلیقات پر اس معاملے میں زیادہ کام یاب نہ ہوئے تو انھوں نے گاڈ فادر لکھا جس کا دنیا کی کئی زبانوں‌ میں ترجمہ کیا گیا اور یہ ناول شاہکار ثابت ہوا۔

    مصنّف کے اس ناول کی ایک اشاعت میں اُن کے بیٹے کا مضمون بھی شامل ہے جو لائقِ مطالعہ ہے اور یہ بتاتا ہے کہ اس تصنیف کے پیچھے ماریو پوزو کا مقصد کیا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ میرے والد کے لکھے دو ناول ناقدین نے تو پسند کیے مگر مالی فائدہ نہیں ملا۔ وہ مقروض تھے اور انہیں احساس تھا کہ کچھ بڑا کر کے دکھانا ہے۔ اسی جذبے کے تحت انھوں نے ناول گاڈ فادر لکھنا شروع کر دیا، جب بچّے شور کرتے تو ماریو پوزو کہتے، شور مت کرو، میں ایک شاہکار ناول لکھ رہا ہوں۔ اس پر بچّے ہنستے اور مزید شور کرنے لگتے۔ پھر سب نے دیکھا کہ گاڈ فادر واقعی بیسٹ سیلر ثابت ہوا۔ دو برسوں میں اس کی نوّے لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں اور ایک اہم بات یہ بھی کہ اسے نیویارک ٹائمز جیسے جریدے نے بیسٹ سیلر کتاب کی فہرست میں سرسٹھ ہفتے تک شامل رکھا۔

  • خمار بارہ بنکوی: معروف غزل گو شاعر جن کا ترنم بہت مشہور ہے

    خمار بارہ بنکوی: معروف غزل گو شاعر جن کا ترنم بہت مشہور ہے

    خمار بارہ بنکوی اردو غزل گو شعرا میں‌ ایک نہایت معتبر نام جس نے اپنی زندگی میں ترنم سے مشاعرہ پڑھنے کی حسین روایت کو زندہ رکھا۔ خمار 1999ء میں‌ آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔

    اترپردیش کی راجدھانی سے مشرقی کی طرف 23 کلومیٹر دور شہر بارہ بنکی واقع ہے۔ اس کی خاص بولی تو کسی قدر اودھی سے ملتی جلتی ہے لیکن تعلیم یافتہ طبقہ اور شرفاء لکھنؤ کی زبان بولتے تھے۔ شعروادب کی محفلیں اور مشاعرے اور دیگر ادبی سرگرمیاں وہاں ہوتی رہتی تھیں۔ محمد حیدر خاں اسی سرزمین کے باسی تھے اور خمارؔ تخلص تھا۔ اسکول اور کالج میں تعلیم مکمل کر کے محکمۂ پولیس میں ملازمت کرنے والے خمار بارہ بنکوی کو شعر گوئی کا شوق بچپن سے تھا۔ اسی شوق نے انھیں مقامی مشاعروں میں شرکت کا موقع دلوایا اور بعد میں ہندوستان بھر میں باقاعدہ مشاعروں میں مدعو کیے جانے لگے۔ قدرت نے انھیں بے حد دل کش اور پُرسوز آواز عطا کی تھی۔ وہ مشاعروں میں اپنے ترنم کی وجہ سے خوب مقبول تھے۔

    خمار نے اپنے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’میں نے جملہ اصنافِ سخن کا تجزیہ کرنے کے بعد اپنے محسوسات اور واردات کے اظہار کے لیے کلاسیکی غزل ہی کو سب سے زیادہ موزوں اور مناسب پایا۔ چنانچہ غزل کے خدمت گزاروں میں شامل ہوگیا۔ وقت نے کئی کروٹیں بدلیں مگر میں نے غزل کا دامن نہیں چھوڑا۔‘‘

    کہیں شعر و نغمہ بن کے کہیں آنسوؤں میں ڈھل کے
    وہ مجھے ملے تو لیکن ملے صورتیں بدل کے

    یہ وفا کی سخت راہیں یہ تمہارے پائے نازک
    نہ لو انتقام مجھ سے مرے ساتھ ساتھ چل کے

    خمارؔ کی آواز میں ان کا یہ کلام بہت مقبول ہوا۔ ان کی غزلوں کے کچھ پسندیدہ اشعار ذیل میں درج کیے جارہے ہیں۔

    دل کچھ اس طرح دھڑکا تری یاد میں
    میں یہ سمجھا ترا سامنا ہو گیا

    اشک بہہ بہہ کے مرے خاک پہ جب گرنے لگے
    میں نے تجھ کو ترے دامن کو بہت یاد کیا

    آپ کو جاتے نہ دیکھا جائے گا
    شمع کو پہلے بجھاتے جائیے

    غزلوں کے علاوہ انہوں نے منقبت اور سلام بھی کہے ہیں۔

    1945ء میں مشاعرے میں شرکت کی غرض سے خمارؔ، جگرؔ مراد آبادی اور مجروحؔ سلطان پوری کے ساتھ بمبئی گئے تھے جہاں‌ فلم ساز اے آر کاردار نے جب ان کا کلام سنا تو اپنی فلم ’’شاہ جہاں‘‘ میں گیت لکھنے کی فرمائش کی۔ خمارؔ نے یہ موقع غنیمت جانا اور یوں فلم نگری سے تعلق قائم ہوا۔ اس فلم میں نوشاد نے موسیقی دی تھی اور کندن لال سہگل نے گیت گائے تھے۔ ان کے یہ گانے مقبول ہوئے۔

    چاہ برباد کرے گی ہمیں معلوم نہ تھا
    ہم پہ ایسے بھی پڑے گی ہمیں معلوم نہ تھا

    ان کے تحریر کردہ چند اور فلمی گیت بھی بڑے مقبول ہوئے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اردو کی ادبی محفلیں اور مشاعرے تہذیب و شائستگی کا نمونہ تھے اور یہ ایک قومی تفریح کا ذریعہ تھے۔ آل انڈیا ریڈیو اور فلموں کی زبان بھی اردو تھی۔ مشاعروں میں جو سب سے زیادہ مقبول صنف سخن تھی وہ تھی ’’عروس الاصناف‘‘ یعنی غزل۔ اور خمار غزل گوئی نہیں‌ غزل سرائی میں بھی یکتا تھے۔

    خمارؔ نہایت سادگی پسند تھے اور دل چسپ گفتگو کرتے تھے۔ ہر ایک سے انکساری اور تواضع سے پیش آتے تھے۔ ان کے تین مجموعۂ کلام ’’آتش تر‘‘، ’’رقص مئے‘‘، ’’شب تاب‘‘ شائع ہوئے۔