Tag: 2 جولائی وفات

  • ماریو پوزو اور ‘گاڈ فادر’ کی مرعوب کُن کہانی

    ماریو پوزو اور ‘گاڈ فادر’ کی مرعوب کُن کہانی

    ماریو پوزو دنیا کے ان ناول نگاروں‌ میں سے ایک ہیں جن کا ذکر کیے بغیر پچھلی دہائیوں کا ادبی منظر نامہ مکمل نہیں‌ ہوسکتا۔ دی گاڈ فادر اس امریکی ادیب کا ایک مشہور ناول ہے جس پر فلم بھی بنائی گئی تھی۔

    ماریو پوزو(Mario puzo) کے حالاتِ زندگی اور ان کے تخلیقی سفر پر نظر ڈالتے ہوئے ہم اس فلم کی کہانی بھی بیان کریں‌ گے جو ان کے مشہور ناول پر مبنی ہے۔

    بہترین ناول نگار ہی نہیں ماریو پوزو مختصر کہانی نویسی اور اسکرین رائٹنگ میں بھی کمال رکھتے تھے۔ ان کے آباء و اجداد کا تعلق اٹلی سے تھا، لیکن ماریو پوزو جس گھرانے کے فرد تھے، وہ امریکہ آن بسا تھا۔ نیویارک کے شہر مین ہٹن میں ماریو پوزو نے 15 اکتوبر 1920ء میں آنکھ کھولی۔ وہ ایک معمولی آمدنی والے کنبے کے فرد تھے۔ ماریو پوزو نے نیویارک ہی سے گریجویشن کیا اور دوسری جنگِ عظیم کے موقع پر امریکی فضائیہ میں‌ شمولیت اختیار کرلی، لیکن نظر کمزور تھی، اس لیے ماریو پوزو کا تعلقاتِ عامّہ کے شعبے میں تبادلہ کردیا گیا۔ وہ مطالعہ اور لکھنے لکھانے کا شوق رکھتے تھے۔ دورانِ ملازمت ان کے افسانے اور کہانیاں‌ شایع ہونے لگیں اور ان کی شہرت کا سفر شروع ہوا۔

    ماریو پوزو کا پہلا افسانہ 1950ء میں شایع ہوا تھا۔ اس ناول نگار کی وجہِ شہرت مافیا پر لکھی گئی کہانیاں‌ بنیں۔ ماریو پوزو نے 11 ناول تحریر کیے، جن میں سب سے زیادہ مقبولیت گاڈ فادر کو ملی اور یہی عالمی ادب میں ماریو پوزو کی پہچان بنا۔ اس ناول پر بننے والی فلم کو تین اکیڈمی ایوارڈ بھی ملے۔ ماریو پوزو نے بعد میں‌ بحیثیت مدیر بھی کام کیا اور کہانیاں‌ لکھنے کے ساتھ مضمون نگاری بھی کی۔ پوزو کے افسانوں اور ناولوں کا امریکی معاشرے میں ذہنوں‌ پر گہرا اثر ہوا۔ وہ جن مافیاز کی کہانیاں‌ لکھتے تھے، اس میں مصنّف کی قوّتِ مشاہدہ کے ساتھ ان کی محنت، مہارت اور ذہانت کا بڑا دخل نظر آتا ہے۔

    ماریو پوزو 2 جولائی 1999ء کو چل بسے تھے مگر آج بھی ان کا نام عالمی ادب میں بہترین ناول نگار کے طور پر زندہ ہے۔

    امریکہ میں‌ مافیا کے کرداروں پر ان کے مشہور ناول دی گاڈ فادر پر بننے والی فلم کی بات کریں‌ تو یہ ایسی کہانی ہے جس کا سربراہ بِیٹو کورلیون (گاڈ فادر) نامی ایک جہاں دیدہ شخص ہے۔ یہ ناول نیویارک شہر میں مافیا کے مختلف خاندانوں‌ کی علاقے اور کاروبار کی دنیا میں ایک دوسرے پر اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے لڑائیوں کو بیان کرتا ہے۔ اس دوران کورلیون فیملی بحران کا شکار ہوجاتی ہے اور اس میں قیادت کی تبدیلی بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ مصنّف نے اپنے ناول میں بڑی تفصیل کے ساتھ کرداروں کی ذہنی کشمکش اور رویے کو‌ بیان کیا ہے جس نے اس کہانی کو مؤثر بنا دیا۔ اس ناول کی ایک خوبی دنیاوی فہم و فراست، ذہانت کے وہ باریک نکات ہیں‌ جس میں‌ ماریو پوزو نے اپنے کرداروں کو فلسفہ جھاڑے بغیر حکیمانہ انداز میں‌ گفتگو کرتے ہوئے دکھایا ہے۔ فلمی پردے پر شائقین کو یہ سسپنس سے بھرپور اور نت نئے موڑ لیتی کہانی معلوم ہوتی ہے اور یہ سب اس کا اشتیاق بڑھاتا ہے۔ اس فلم کے ڈائریکٹر فرانسس فورڈ کپولا تھے اور اس کا ایک کردار عظیم فن کار مارلن برانڈو نے ادا کیا۔ ناول کے کئی فقرے بھی مشہور ہوئے اور فلم کو بھی زبردست پذیرائی ملی۔ یہ فلم 1972ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔

    ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ مصنّف مالی آسودگی کا آرزو مند تھا اور جب وہ اپنی ابتدائی تخلیقات پر اس معاملے میں زیادہ کام یاب نہ ہوئے تو انھوں نے گاڈ فادر لکھا جس کا دنیا کی کئی زبانوں‌ میں ترجمہ کیا گیا اور یہ ناول شاہکار ثابت ہوا۔

    مصنّف کے اس ناول کی ایک اشاعت میں اُن کے بیٹے کا مضمون بھی شامل ہے جو لائقِ مطالعہ ہے اور یہ بتاتا ہے کہ اس تصنیف کے پیچھے ماریو پوزو کا مقصد کیا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ میرے والد کے لکھے دو ناول ناقدین نے تو پسند کیے مگر مالی فائدہ نہیں ملا۔ وہ مقروض تھے اور انہیں احساس تھا کہ کچھ بڑا کر کے دکھانا ہے۔ اسی جذبے کے تحت انھوں نے ناول گاڈ فادر لکھنا شروع کر دیا، جب بچّے شور کرتے تو ماریو پوزو کہتے، شور مت کرو، میں ایک شاہکار ناول لکھ رہا ہوں۔ اس پر بچّے ہنستے اور مزید شور کرنے لگتے۔ پھر سب نے دیکھا کہ گاڈ فادر واقعی بیسٹ سیلر ثابت ہوا۔ دو برسوں میں اس کی نوّے لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں اور ایک اہم بات یہ بھی کہ اسے نیویارک ٹائمز جیسے جریدے نے بیسٹ سیلر کتاب کی فہرست میں سرسٹھ ہفتے تک شامل رکھا۔

  • شہرۂ آفاق کہانیوں کے خالق ارنسٹ ہیمنگوے کی زندگی اور دردناک انجام کی کہانی

    شہرۂ آفاق کہانیوں کے خالق ارنسٹ ہیمنگوے کی زندگی اور دردناک انجام کی کہانی

    مشہور ہے کہ ارنسٹ ہیمنگوے کی پیدائش پر اس کے باپ نے خوشی اور مسرت کا اظہار کرنے کے لیے باقاعدہ بگل بجا کر اپنے بیٹے کی آمد کا چرچا کیا تھا۔

    ارنسٹ ہیمنگوے کے والد کی موت طبعی نہ تھی بلکہ انھوں نے خود کُشی کی تھی اور 1961ء میں آج ہی کے دن ان کے بیٹے نے بھی اپنی زندگی کا ختم کرلی۔ خود کشی کے وقت وہ 61 برس کے تھے اور انھیں ایک ناول نگار، ادیب اور صحافی کی حیثیت سے دنیا بھر میں‌ پہچانا جاتا تھا

    ارنسٹ ہیمنگوے شہرۂ آفاق تخلیق کار تھا جو 21 جولائی 1899ء کو پیدا ہوا۔ والد کلارنس ایڈمونڈس ہیمنگوے پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر اور ماں گریس ہال ہیمنگوے گلوکار اور موسیقار تھی۔ ماں باپ دونوں ہی تعلیم یافتہ اور نہایت قابل تھے اور ان کا شمار اپنے علاقے کے معزّزین میں‌ کیا جاتا تھا۔ یہ خاندان امریکا کے شہر شکاگو کے نواحی علاقے سکونت پذیر تھا۔

    ارنسٹ ہیمنگوے کے باپ کو سیر و سیّاحت کا بہت شوق تھا۔ وہ اپنے بیٹے کو بھی ساتھ لے جانے لگا۔ اس نے جنگل میں‌ کیمپ لگانا، چھوٹے جانوروں کا شکار اور دریا سے مچھلی پکڑنا اپنے باپ ہی سے سیکھا اور اس دوران فطرت کو بہت قریب سے دیکھا اور اس کا مشاہدہ کیا جس کا عکس ان کی تحریروں میں دیکھا جاسکتا ہے۔

    طالبِ علمی کے زمانے میں‌ ارنسٹ ہیمنگوے کو اسکول میگزین اور اخبار سنبھالنے کا موقع ملا اور اس کا یہ تجربہ گریجویشن کے بعد ایک اخبار میں رپورٹر کی ملازمت کے دوران بہت کام آیا۔ ارنسٹ ہیمنگوے نے یہاں چند ماہ کے دوران اچھی تحریر اور مضمون نگاری کے سنہری اصول سیکھے۔ وہ ایک ایسا صحافی اور لکھاری تھا جو کھیل کود اور مہم جوئی کا بھی دل دادہ تھا اور مطالعے کے ساتھ اسے اپنے مشاغل کے سبب جو تجربات اور مشاہدات ہوئے، ان کا اسے بہت فائدہ ہوا۔ اس نے مختلف اخبارات میں رپورٹر کی حیثیت سے کام کیا اور مضامین بھی لکھے۔ 1921ء میں شادی کے بعد وہ پیرس چلا گیا جہاں ادیبوں سے ملاقات اور ان کے ساتھ بزم آرائیوں نے اسے بھی ناول نگاری کی طرف راغب کیا۔

    یہ ادیب اور شاعر اپنے وقت کی نادرِ روزگار اور باکمال شخصیات تھیں جن میں‌ ایذرا پاؤنڈ، جیمز جوائس شامل ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی سے اس نے کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور وہ شایع ہونے لگیں۔ 1926ء میں ارنسٹ ہیمنگوے کا پہلا ناول دی سن آلسو رائزز منظرِ عام پر آگیا جو اس کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بنا۔ بعد میں‌ ایک اور ناول ڈیتھ ان آفٹر نون سامنے آیا۔ اس نے اسپین، فرانس اور دیگر ممالک کا سفر اور وہاں‌ قیام کیا اور اس دوران اپنے وسیع تجربات اور مشاہدات کو بروئے کار لاتے ہوئے انگریزی ادب کو شاہ کار کہانیاں‌ دیں جن کی بنیاد پر اس نے فکشن کا پلٹزر پرائز اور بعد میں‌ دنیا کا سب سے معتبر نوبیل انعام بھی حاصل کیا۔

    اس کا ایک ناول فیئر ویل ٹو آرمز خود اس کے دو عاشقانہ قصّوں اور ایک جنگ کے پس منظر میں لکھا گیا ہے جسے بہت پسند کیا گیا۔ اس کے ناولوں کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ سمندر اور بوڑھا اور وداعِ جنگ وہ ناول ہیں جنھیں اردو زبان کے شائقین نے بہت سراہا۔

    ارنسٹ کی زندگی بہت ہنگامہ خیز اور تیز رفتار رہی۔ اس نے محبتیں‌ بھی کیں، شادیاں بھی اور متعدد ممالک میں قیام بھی کیا۔ اس دوران اس نے جنگ میں‌ بھی حصّہ لیا، تخلیقی سفر بھی جاری رکھا، سیرو سیاحت کے ساتھ تمام مشاغل بھی پورے کیے۔ وہ بل فائٹنگ دیکھنے کا شوق رکھتا تھا اور اسی کھیل سے متعلق اس کا ایک ناول بھی منظرِ عام پر آیا جو بہت مشہور ہوا۔

    فطرت کے دلدادہ اور جہانِ ادب میں نام ور ارنسٹ ہیمنگوے کو اس لحاظ سے بدقسمت کہا جاسکتا ہے کہ والد کی طرح خود اس نے ہی گولی مار کر اپنی زندگی ختم نہیں کی بلکہ اس کی بہنوں نے بھی خود کشی کی تھی۔

  • یومِ وفات: کمپیوٹر ماؤس کے موجد ڈگلس اینگلبرٹ کو دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی

    یومِ وفات: کمپیوٹر ماؤس کے موجد ڈگلس اینگلبرٹ کو دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی

    کمپیوٹر ایک انقلابی ایجاد ہے، جس کا وسیع اور مؤثر استعمال اس سے منسلک دیگر آلات یا ڈیوائسز کی بدولت ممکن ہوتا ہے۔ کمپیوٹر ماؤس ایک ایسا ہی آلہ ہے جو بجائے خود ایک بڑی اور اہم ایجاد ہے۔ اس کے موجد ڈگلس اینگلبرٹ تھے جو 2013ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    وہ امریکا سے تعلق رکھتے تھے جہاں 30 جنوری 1925ء کو پورٹ لینڈ، اوریگون کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ حصولِ تعلیم کے دوران اینگلبرٹ سائنس اور ٹیکنالوجی میں دل چسپی لینے لگے۔ گریجویشن کے بعد 1950ء کی دہائی میں الیکٹریکل انجینئرنگ اور کمپیوٹر سائنسز میں ڈگری لی اور اسٹینفورڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ سے منسلک ہو گئے۔ وہاں انھوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر بہت سی ایسی نئی اختراعات پر کام کیا، جن کی بدولت کمپیوٹر میں‌ اہم اور مؤثر ترین تبدیلیاں ہوئیں اور اس کا استعمال سہل ہوتا چلا گیا۔

    اس حوالے سے ان کا نمایاں اور قابِل ذکر کام ای میل، ویڈیو کانفرنسنگ، ہائپر ٹیکسٹ لنکس اور انٹرنیٹ سے قبل تکمیل پانے والا نیٹ ورک ARPAnet ہے۔

    ڈگلس اینگلبرٹ کی اہم ترین ایجاد ماؤس ہے جس کے بغیر عام صارف کے لیے اس جادوئی مشین سے استفادہ کرنا محال ہو گا۔ 1970ء میں ‘پیٹنٹ’ کرائے گئے ماؤس کی ابتدائی شکل لکڑی کے ایک چھوٹے سے باکس جیسی تھی جس کے نیچے دو دھاتی پہیے نصب کیے گئے تھے۔

    ڈگلس اینگلبرٹ نے اپنی اس ایجاد کو عام کرنے سے دو برس قبل 1968ء میں سان فرانسسکو میں منعقدہ ایک ویڈیو کانفرنس کے دوران اسے استعمال کیا تھا۔ یہ دنیا میں کمپیوٹر کانفرنسنگ کا بھی پہلا مظاہرہ تھا، جس میں انھوں نے 50 کلومیٹر فاصلے پر موجود اپنے ایک ساتھی سے ویڈیو پر براہِ راست بات چیت کی تھی۔

    اس مظاہرے کو ’مدر آف آل ڈیموز‘ کا نام دیا گیا تھا۔

    ماؤس کے علاوہ کمپیوٹر کا گرافیکل یوزر انٹرفیس (GUI) بھی ڈگلس اینگلبرٹ کا تیّار کردہ تھا جو کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں مزید انقلابی تبدیلیوں‌ کا سبب بنا۔ اس کی بدولت کمپیوٹر نے ’ڈسک آپریٹنگ سسٹم‘ جسے مختصراً DOS کہا جاتا تھا، سے نکل کر ونڈوز وغیرہ کی شکل میں جدّت پائی۔

    ڈگلس اینگلبرٹ کو سن 2000ء میں ٹیکنالوجی انڈسٹری کے سب سے بڑے ایوارڈ ’نیشنل میڈل آف ٹیکنالوجی‘ سے نوازا گیا تھا۔

    اس امریکی موجد کے تیّار کردہ ماؤس کا ڈیزائن معروف کمپیوٹر ساز کمپنی ایپل کو فروخت کیا گیا تھا، جس نے پہلی مرتبہ 1983ء میں اپنے کمپیوٹر کے ساتھ اس ماؤس بھی فروخت کے لیے پیش کیا تھا۔

    امریکی ریاست کیلیفورنیا میں وفات پانے والے ڈگلس اینگلبرٹ نے زندگی کی 88 بہاریں دیکھیں۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے حوالے سے ان کے نظریات اور ایجادات کو اس شعبے میں قدم رکھنے والوں کے لیے نہایت اہمیت رکھتی ہیں۔