Tag: 2 دسمبر وفات

  • منشی ہر سُکھ رائے کا تذکرہ جنھیں ‘کوہِ نور’ کی بدولت ہندوستان گیر شہرت حاصل ہوئی

    منشی ہر سُکھ رائے کا تذکرہ جنھیں ‘کوہِ نور’ کی بدولت ہندوستان گیر شہرت حاصل ہوئی

    ‘کوہِ نور’ کی بدولت منشی ہر سُکھ رائے نے ہندوستان گیر شہرت حاصل کی اور اردو زبان و ادب کے فروغ اور تعلیم کو عام کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ وہ ایک راست گو اور نڈر صحافی تھے جنھوں‌ نے برطانوی دور میں‌ پنجاب کے شہر لاہور سے اردو کا پہلا ہفت روزہ اخبار کوہِ‌ نور جاری کیا تھا۔

    غیر منقسم ہندوستان کے اس نام وَر صحافی نے میرٹھ سے جاری ہونے والے اخبار جامِ جمشید کی ادارت کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد 1850ء میں لاہور سے حکومتی سرپرستی میں اخبار کا اجرا کیا تھا۔ وہ لاہور کی ایک بے حد مقبول شخصیت تھے۔ انھیں اس شہر کا میونسپل کمشنر بھی مقرر کیا گیا۔

    منشی ہر سکھ رائے کا سنِ پیدائش 1816ء ہے۔ وہ سکندر آباد، ضلع بلند شہر کے باسی تھے۔ ان کا خاندان علمی و ادبی روایات کا حامل تھا۔ ہر سکھ رائے نے اردو اور فارسی ادب کی تعلیم حاصل کی۔ جوانی میں لاہور آئے اور پنجاب کے بورڈ آف ایڈمنسڑیشن کی سرپرستی میں ہفت روزہ جاری کیا جو حکومت کی پالیسی کی حمایت کرتا تھا۔ یوں‌ انھیں انگریزوں‌ کا بہی خواہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا، لیکن ہر سُکھ رائے ان لوگوں میں سے تھے جو مغربی تہذیب سے خوف زدہ ہوکر اور جدید تعلیم سے محروم رہ کر ہندوستان کی ترقیّ اور خوش حالی کا خواب دیکھنے کو بے سود سمجھتے تھے۔ انھوں نے 2 دسمبر 1890ء کو وفات پائی۔

    منشی ہر سُکھ رائے ایک بلند فکر اور روشن خیال شخصیت اور صاف گو انسان تھے۔ وہ اخبار کو ملک و قوم کی بقا اور عوام کی خدمت کا مؤثر ترین ذریعہ سمجھتے تھے۔

    1857ء میں غدر سے ایک سال قبل ہر سُکھ رائے کو ایک مقدمہ میں اچانک گرفتار کرلیا گیا اور انھیں تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اسی برس انھوں نے لاہور سے ایک رسالہ خورشیدِ پنجاب بھی جاری کیا تھا جو 50 صفحات پر مشتمل تھا۔ ادھر کوہِ نو کی اشاعت میں فرق نہیں آیا اور اسے منشی ہیرا لعل باقاعدگی سے نکالتے رہے۔منشی ہر سُکھ رائے کو حکومت کے ایک فیصلے کے بعد دو سو روپے کے عوض رہائی ملی تو وہ پھر اردو زبان اور صحافت کو فروغ دینے اور تعلیم کو عام کرنے کے لیے میدان میں متحرک ہوگئے۔

    وہ ادبی مجالس اور ہفتہ وار مشاعروں کے انعقاد کے لیے بھی مشہور تھے۔ ان کے اخبار میں اردو زبان و ادب پر مضامین اور شاعری باقاعدگی سے شایع ہوتی تھی جس نے انھیں اردو زبان کے ایک شیدائی اور مخلص کے طور پر پہچان دی جب کہ ان کی ملک گیر شہرت کا باعث بننے والا ہفت روزہ کم وبیش 54 سال تک جاری ہوتا رہا۔ کوہِ نور 1904ء میں بند کردیا گیا تھا۔

  • یومِ وفات: سادگی پسند اور ہاکی کے کھلاڑی میر ظفرُ اللہ بلوچستان کے پہلے منتخب وزیرِاعظم رہے

    یومِ وفات: سادگی پسند اور ہاکی کے کھلاڑی میر ظفرُ اللہ بلوچستان کے پہلے منتخب وزیرِاعظم رہے

    23 نومبر 2002ء کو میر ظفرُ اللہ جمالی نے پاکستان میں وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا تھا۔ وہ بردبار اور دھیمے مزاج کے سیاست دان مشہور تھے۔ ان کا شمار بلوچستان کے اُن سیاست دانوں میں ہوتا ہے جنھوں نے وفاق کی سیاست کو ترجیح دی اور قوم پرست جماعتوں سے خود کو دور رکھا۔

    ظفرُ اللہ جمالی کا تعلق بلوچستان کے علاقے روجھان جمالی سے تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ اس صوبے کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم تھے۔ وہ 76 سال کی عمر میں پچھلے سال 2 دسمبر کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی پہلی برسی ہے۔ سابق وزیرِ اعظم میر ظفرُ اللہ جمالی آبائی علاقے روجھان جمالی میں آسودۂ خاک ہوئے۔

    وفات سے چند روز قبل دل کا دورہ پڑنے کے باعث انھیں راولپنڈی کے ایک اسپتال منتقل کردیا گیا تھا جہاں وہ‌ خالقِ‌ حقیقی سے جا ملے۔

    میر ظفرُ اللہ جمالی 1944ء میں پیدا ہوئے۔ پرائمری تعلیم کے بعد گھوڑا گلی مری میں بورڈنگ اسکول میں داخل ہوئے اور بعد میں لاہور کے ایچی سن کالج اے لیول کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے سیاست میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ وہ اردو کے علاوہ پنجابی، سندھی، پشتو اور براہوی زبانیں‌ جانتے تھے۔

    ان کا گھرانا مسلم لیگی تھا۔ ان کے چچا جعفر خان جمالی کو بانیِ پاکستان محمد علی جناح اور بعد میں ان کی بہن فاطمہ جناح کے قریب رہنے کا موقع ملا۔ ظفرُ اللہ جمالی نے بھی نوجوانی میں فاطمہ جناح کے انتخابی دورے کے وقت ان کے گارڈ کے طور پر فرائض سَر انجام دیے تھے اور بعد میں ان کے پولنگ ایجنٹ بھی مقرر ہوئے۔

    انھوں نے اپنے چچا کی وفات کے بعد سیاست میں قدم رکھا اور پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ 1970ء کے انتخابات میں وہ سیاسی حریف سے شکست کھا گئے اور 1977ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی میں‌ پہنچے، وہ مارشل لا کے زمانے میں اُن سیاست دانوں میں شامل تھے جنھوں نے جنرل ضیاءُ الحق کا ساتھ دیا۔

    1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں انھیں قومی اسمبلی کا رکن منتخب کیا گیا اور اس بار پانی و بجلی کی وزارت ان کے حصّے میں آئی اور محمد خان جونیجو کی حکومت کی برطرفی کے بعد ظفر اللہ جمالی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے۔ 1988ء میں ایک بار پھر انھوں نے پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا اور انتخابات میں کام یاب ہونے کے بعد صوبے کے وزیر اعلیٰ کا منصب سنبھالا۔

    میر ظفرُ اللہ جمالی وفاق میں مسلم لیگ، مسلم لیگ ق اور تحریکِ انصاف میں شامل رہے۔ وہ اپنے سیاسی سفر کے دوران سینیٹ کے رکن بھی رہے۔

    2004ء کو انھوں نے وزراتِ عظمیٰ کے منصب سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ میر ظفرُ‌اللہ جمالی کھیلوں میں‌ بڑی دل چسپی رکھتے تھے اور ہاکی ان کا پسندیدہ کھیل تھا۔ انھوں نے زمانۂ طالب علمی میں خود بھی ہاکی کھیلی تھی۔ وہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بھی رہے۔ انھوں نے 1984ء کے لاس اینجلز اولمپکس میں پاکستانی دستے کی سربراہی بھی کی تھی۔

    میر ظفرُ اللہ جمالی سادگی پسند تھے۔ انھوں نے اپنے تمام سیاسی ادوار اور وزیرِاعظم بننے کے بعد بھی شان و شوکت اپنانے کے بجائے سادہ زندگی گزاری اور کوشش کی کہ ان کی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ ان کے بارے میں‌ کہا جاتا تھا کہ سیاسی میدان میں بھی وہ کسی کو بھی اپنی بات سے رنج پہنچانے سے گریز کرتے رہے۔