Tag: 2 فروری وفات

  • محمد خالد اختر:‌ صلے اور ستائش کی تمنّا سے بے نیاز ادیب کا تذکرہ

    محمد خالد اختر:‌ صلے اور ستائش کی تمنّا سے بے نیاز ادیب کا تذکرہ

    آج اردو کے نام وَر ادیب محمد خالد اختر کی برسی ہے۔ محمد خالد اختر ان تخلیق کاروں میں سے ایک ہیں جو ساری زندگی شہرت اور ستائش سے بے نیاز اور اپنے کام میں مگن رہے۔ بطور مزاح نگار انھیں قارئین نے بہت پسند کیا اور ان کے اسلوبِ نگارش نے ہم عصر اہلِ قلم شخصیات کو بھی متاثر کیا۔

    محمد خالد اختر نے افسانہ اور ناول لکھنے کے ساتھ سفرنامے بھی تحریر کیے اور تراجم بھی کیے۔ چاکیواڑہ میں وصال ان کا ایک مشہور ناول ہے۔

    اردو زبان کے اس منفرد مزاح نگار اور صاحبِ طرز ادیب کا انتقال 2 فروری 2002ء کو کراچی میں ہوا۔ محمد خالد اختر نے زندگی کی 90 بہاریں دیکھیں۔

    اردو کے ممتاز ادیب، شاعر اور مشہور مزاح نگار ابنِ انشاء نے خالد اختر کے اسلوب اور طرزِ تحریر سے متعلق کہا تھا: "محمد خالد اختر کو پڑھنے والا اکثر یہ بھول جاتا ہے کہ وہ اردو پڑھ رہا ہے۔ اس میں انگریزی الفاظ کی بھرمار بھی نہیں ہے لیکن جملوں کی ساخت سراسر انگریزی ہے۔ شروع شروع میں یہ انداز غریب اور اکھڑا اکھڑا معلوم ہوتا ہے لیکن بعد میں اس میں بانکپن کا لطف آنے لگتا ہے۔”

    مشہور انشاء پرداز اور ممتاز عربی داں محمد کاظم نے شاید اسی بات کو اپنے انداز سے یوں بیان کیا: "اس اسلوب میں ضرور ایک اجنبی زبان کا اثر ہے، لیکن اس کے طنز و مزاح کا ماحول، اس کے افراد اور ان کی گفتگو اور چلت پھرت سب کچھ یہیں کا ہے اور دیسی ہے۔“

    چاکیواڑہ میں وصال محمد خالد اختر کا وہ ناول تھا جس نے اردو ادب اور ان کے ہر قاری کو متأثر کیا۔ شہرۂ آفاق شاعر اور نثر نگار فیض احمد فیض نے اسے اردو کا اہم ناول کہا تھا اور مشہور ہے کہ انھوں نے اس ناول پر فلم بنانے کا ارادہ بھی کیا تھا۔

    23 جنوری 1920ء کو محمد خالد اختر نے پنجاب کے ضلع بہاولپور کے ایک علاقہ میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کی ابتدائی تعلیم مقامی اسکول میں ہوئی اور بعد میں صادق ایجرٹن کالج میں داخل ہوئے جہاں سے 1938ء میں بی اے کیا۔ اسکول کے دور میں کچھ عرصہ اردو کے مشہور مزاح نگار شفیق الرّحمٰن ان کے ہم جماعت رہے تھے۔ زمانۂ طالبِ علمی میں محمد خالد اختر پروفیسر پطرس بخاری کی شخصیت کے اسیر ہوگئے اور اسی کالج میں انھیں احمد ندیم قاسمی کا قرب بھی نصیب ہوا۔ قاسمی صاحب ان سے دو برس سینئر اور اگلے درجے میں تھے۔ 1945ء میں محمد خالد اختر انجینئرنگ کالج سے الیکٹرونکس کے مضمون میں تعلیم مکمل کرکے مزید تعلیم کے حصول کی خاطر لندن چلے گئے۔ وہاں سے 1948ء میں وطن واپس آئے اور یہاں ان کی ملازمت کا آغاز الیکٹرک کمپنی سے ہوا۔ وہ 1952ء میں واپڈا میں بحیثیت انجینئر تعینات ہوگئے اور اسی ادارے سے ریٹائر ہوئے۔

    محمد خالد اختر نے اوائلِ عمری ہی سے لکھنے کا آغاز کر دیا تھا۔ جب وہ ساتویں جماعت میں تھے تو ان کے چند مضامین ماہانہ رسالے “مسلم گوجر“ میں شائع ہوئے۔ مذکورہ رسالہ گورداسپور سے شائع ہوتا تھا۔ نویں جماعت میں محمد خالد اختر کو شاعری کا شوق ہوا اور چند نظمیں بھی کہیں۔ محمد خالد اختر جب انگریزی ادب پڑھنے کی طرف مائل ہوئے تو نئے زاویے سے زندگی کو دیکھنے کا موقع ملا اور غیرملکی ادیبوں کے اسلوب سے بھی واقف ہوئے، انھوں نے انگریزی ادب پڑھنے کے ساتھ اس زبان میں کالج میگزین میں تحریریں بھی شایع کروائیں۔ محمد خالد اختر نے طنز و مزاح لکھا، افسانے اور شخصی خاکے لکھنے کے ساتھ سفر نامہ بھی تحریر کیا اور ہر صنفِ‌ ادب میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

    اردو کے اس نام ور ادب کی مزاح پر مبنی پہلی تحریر احمد ندیم قاسمی کی سفارش پر مولانا چراغ حسن حسرت نے اپنے ہفتہ وار مزاحیہ پرچے میں شائع کی تھی۔ بعد کے برسوں میں ان کے قلم کی نوک سے افسانہ و ناول، سفرناموں کے علاوہ کئی علمی و ادبی مضامین اور شخصی بھی رقم ہوئے اور انھیں پسند کیا گیا۔ محمد خالد اختر کا ناول بیس سو گیارہ کے عنوان سے 1954ء میں پہلی مرتبہ شایع ہوا تھا۔ پھر ان کا مشہور ناول چاکیواڑہ میں وصال 1964 میں اور بعد میں افسانے کی کتاب کھویا ہوا افق شایع ہوئی جسے آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ پاکستان ٹیلی وژن نے ان کی شگفتہ کہانیوں کے سلسلے ’چچا عبدالباقی‘ کی ڈرامائی تشکیل بھی پیش کی۔ محمد خالد اختر نے اندلس کے معروف سیاح ابنِ جُبیر کے سفرنامہ کی تلخیص اور ترجمہ بھی کیا جو 1994 میں شایع ہوا۔

    معروف ادیب مسعود اشعر نے محمد خالد اختر سے متعلق ایک یادگار محفل کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا: ”ملتان میں ریڈیو اسٹیشن نیا نیا کھلا تھا۔ پھر ظہور نظر بھی بہاولپور سے آگئے۔ اب خوب دھما چوکڑی مچنے لگی۔ ظہور نظر کی موجودگی میں اودھم اور دھما چوکڑی ہی مچ سکتی تھی۔ پھر ہم نے سوچا ظہور نظر کے ساتھ شام منائی جائے اور صدارت خالد اختر سے کرائی جائے۔ بڑی منت سماجت کے بعد خالد اختر صدارت کے لیے راضی ہوئے لیکن اس شرط پر کہ وہ کچھ بولیں گے نہیں، دوسروں کی سنتے رہیں گے اور آخر میں شکریہ ادا کر کے جلسہ بر خاست کر دیں گے۔ پھر ہم سب کے کہنے پر وہ مضمون لکھنے کے لیے بھی راضی ہوگئے لیکن اس شرط پر کہ کوئی اور پڑھے۔ اب کیا کیا جائے۔ خالد صاحب کو اپنا مضمون تو خود ہی پڑھنا چاہیے۔ ”یہ مجھ پر چھوڑ دو۔” ظہور نظر نے اعلان کیا۔ ”میں اس بڈھے کی ایسی مت ماروں گا کہ اسے پتہ بھی نہیں چلے گا اور وہ خود ہی اپنا مضمون پڑھ جائے گا۔“

    ”ظہور نظر کی خالد اختر کے ساتھ بہت بے تکلّفی تھی۔ خالد اختر چونکہ جوانی ہی میں بوڑھے لگتے تھے اس لیے ظہور نظر انہیں ہمیشہ بڈھا اور بڈھے کہہ کر پکارتا تھا۔“

    ”آٹھ بجے جلسہ شروع ہوا، اس وقت تک ظہور نظر اپنی سازش میں کام یاب ہو چکا تھا۔ چناچہ خالد اختر جلسے میں پہنچے اور بڑے اعتماد کے ساتھ صرف صدارت ہی نہیں بلکہ اپنا صدارتی مضمون بھی اس دھڑلے سے پڑھا کہ لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔ مضمون میں کوئی ہنسی کی بات آتی تو خود بھی ہنس پڑتے۔ وہی ہنسی جس کے بعد وہ جھینپ جاتے اور شرما کر خاموش ہو جاتے۔ ان کی ہنسی پر لوگ جب قہقہہ لگاتے تو انگریزی میں ظہور نظر کو موٹی سی گالی دیتے اور کہتے: ” ہاں یہ ایسا ہی ہے۔“ اور ہاں! اسی اسٹیج پر ظہور نظر کو ڈانٹ بھی دیا۔ اور ایسا ڈانٹا کہ ظہور نظر دھپ ہوگیا۔ ہوا یوں کہ جب وہ (خالد اختر) اپنا مضمون پڑھنے اٹھے تو کہیں پاؤں لڑکھڑا گیا اور ظہور نظر نے جو اسی جانب بیٹھا تھا، انہیں سنبھالنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ بس پھر کیا تھا۔ یک دَم ڈانٹ پڑی، اس ڈانٹ نے ان کے اندر ایسا اعتماد پیدا کیا کہ پھر کسی شرم اور جھجک کے بغیر اپنا مضمون پڑھ ڈالا۔“

    محمد خالد اختر کراچی میں پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیے گئے۔

  • علم کا شیدائی، تدریس کا ماہر برٹرینڈ رسل جسے پابندِ سلاسل کیا گیا

    علم کا شیدائی، تدریس کا ماہر برٹرینڈ رسل جسے پابندِ سلاسل کیا گیا

    برٹرینڈ رسل ایک معلّم، مؤرخ، فلسفی، ادیب اور ماہرِ منطق تھے جو 2 فروری 1970ء کو برطانیہ میں وفات پا گئے تھے۔ برٹرینڈ رسل کی وجہِ شہرت ان کا وہ فلسفہ تھا جس کے مطابق وہ روایتی تعلیم کے بجائے طالبِ علموں کو اختراع اور ایجاد کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے پر زور دیتے ہیں۔

    وہ تدریسی و تعلیمی نظام میں جدّت اور آزادیٔ اظہار کو اہمیت اور فروغ دینے کے قائل تھے جس کے ذریعے ان کی نظر میں ننھّے ذہنوں میں تخیّل اور اختراع کو بلا رکاوٹ پنپنے کا موقع دیا جاسکتا تھا۔

    علم کے شیدائی اور تدریس کے اس ماہر کا اوّلین عشق ریاضی کا مضمون تھا۔ تعلیمی میدان میں‌ ان کی مہارت صرف اسی مضمون تک محدود نہ تھی بلکہ وہ متعدد علوم پر دسترس رکھتے تھے۔ برٹرینڈ رسل نے 18 مئی 1876ء انگلستان کے مشہور علاقے ویلز میں آنکھ کھولی۔ وہ کسی معمولی خاندان کا فرد نہیں‌ تھے بلکہ ان کے والد سر جان رسل انگلستان کے وزیرِ اعظم رہے ہیں۔ ان کا گھرانہ کٹّر مذہبی اور طبقۂ اشرافیہ سے تعلق رکھتا تھا۔ ابتدائی تعلیم ویلز سے ہی حاصل کی۔ دولت مند والدین کی زندگی مصروف تھی جس نے انھیں بچپن میں خاصا وقت تنہائی میں‌ کھیل کود کے ساتھ غور و فکر اور سیکھنے سمجھنے کا موقع دیا۔ ان کی ذاتی زندگی کچھ تلخ یادوں اور مشکلات سے بھی گزری، مگر اس نے ان میں‌ وہ شوق اور لگن بھر دی جس کے باعث وہ دنیا میں‌ ممتاز ہوئے۔

    وہ بچپن سے ہی نہایت ذہین طالب علم تھے۔ 1890ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے ریاضی کی اعلیٰ سند حاصل کی۔ پھر اسی یونیورسٹی میں مدرّس کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ اس کے علاوہ نیشنل یونیورسٹی آف پیکنگ (چین)، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اور دوسرے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تدریسی مشغلہ ساری عمر رہا۔

    برٹرینڈ رسل کی علمی، ادبی اور فلسفیانہ خدمات کی بات کی جائے تو ان کے غور و فکر، مشاہدات اور تجربات نے ان سے فلسفہ، سائنس، تاریخ، سیاست، معاشرت، جنگ، امن، قانون اور انسانی حقوق سے متعلق کئی کتب اور مضامین تحریر کروائے جو آج بھی ان کی یاد دلاتے ہیں اور ہر ایک کے لیے مفید اور معلومات کا خزانہ ہیں۔ وہ ایسے بیدار مغز تھے جنھوں نے ویتنام کی جنگ میں واشگاف الفاظ میں امریکا کو مطعون کیا۔ انھیں اپنی انسان دوستی کی پاداش میں‌ پابندِ سلاسل بھی رہنا پڑا۔

    برٹرینڈ رسل کو 1950ء میں ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ 1967ء میں ان کی آپ بیتی شائع ہوئی جس کا شمار دنیا کی مقبول آپ بیتیوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے 1970ء میں عرب اسرائیل جنگ میں کھلم کھلا اسرائیل کی مخالفت کی اور اسے غاصب قرار دیتے ہوئے مغرب میں انسانیت کا پرچار کرنے والوں میں شمار کیے گئے۔

    وہ دمِ آخر تک لکھنے لکھانے اور اپنے افکار و خیالات کا اظہار کرنے میں‌ مصروف رہے۔ وہ کہانی کار بھی تھے، جن کے افسانوں کے دو مجموعے شائع ہوئے۔

  • انتظار حسین: ان کے اسلوب کی سحر انگیزی پُراسرار پہاڑ کے بلاوے کی طرح ہے!

    انتظار حسین: ان کے اسلوب کی سحر انگیزی پُراسرار پہاڑ کے بلاوے کی طرح ہے!

    انتظار حسین وہ پہلے پاکستانی تخلیق کار ہیں جنھیں بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔ ان کے فن اور گراں قدر ادبی خدمات کے اعتراف میں پاکستان ہی نہیں‌ بھارت، مشرق وسطیٰ اور یورپ میں بھی انھیں کئی اعزازات سے نوازا گیا تھا۔

    ان کا شمار موجودہ عہد میں پاکستان ہی کے نہیں بلکہ اردو فکشن، خاص طور پر افسانے اور ناول کے اہم ترین تخلیق کاروں میں کیا جاتا تھا۔

    پاکستان کے معروف فکشن نگار نے زندگی کی 93 بہاریں دیکھنے کے بعد 2 فروری 2016ء میں ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ انتظار حسین لاہور کے ایک اسپتال میں نمونیہ اور شدید بخار کی وجہ سے زیرِ علاج تھے۔

    انتظار حسین سنہ 1923ء میں ہندوستان کے ضلع میرٹھ میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے میرٹھ کالج سے اردو میں ایم اے کیا۔ تقسیمِ ہند کے وقت ہجرت کی اور پاکستان آنے کے بعد صحافت کے شعبے سے وابستہ ہو گئے۔ ان کا تخلیقی سفر شروع ہو چکا تھا اور پاکستان آنے کے بعد 1953ء میں‌ انتظار حسین کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’گلی کوچے‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ بعد کے برسوں میں افسانوں کے آٹھ مجموعے، چار ناول اور آپ بیتی کی دو جلدیں جب کہ ایک ناولٹ بھی منظرِ عام پر آیا۔ وہ اپنے اسلوب کی وجہ سے پہچان بنانے والے ادیبوں میں‌ شمار کیے جاتے ہیں جنھوں نے تراجم بھی کیے اور سفر نامے بھی لکھے۔ انتظار حسین عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ادیب تھے جن کے ناول اور افسانوں کے چار مجموعے بھی انگریزی زبان میں شائع ہوئے۔

    تاریخ، تہذیب و ثقافت اور ادبی موضوعات پر ان کے قلم کی نوک سے نکلنے والی تحریریں بہت مقبول ہوئیں۔ اس سحر طراز ادیب کی تحریریں کئی فکری مباحث کو جنم دینے کا سبب بنیں۔ ان کے یہاں ناسٹیلجیا یا ماضی پرستی بہت ہے، جس کے بیان میں وہ اپنے علامتی اور استعاراتی اسلوب سے ایسا جادو بھر دیتے ہیں جس میں ایک حسن اور سوز پیدا ہو جاتا ہے۔

    انتظار حسین کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ قرآن شریف، احادیث، صوفیائے کرام کے ملفوظات ہی نہیں، وہ ہندوستان کی قدیم تہذیبوں کی روایات، معاشرت اور ان کے رائج مذاہب اور عقائد پر بھی خوب بات کرتے تھے۔ رامائن اور بدھ مت وغیرہ پر ان کی گہری نظر تھی اور ساتھ ہی مغربی مفکرین کا مطالعہ بھی کیا تھا۔ ان کی وجہِ شہرت فکشن نگاری ہی نہیں ان کے انگریزی اور اردو زبان میں‌ شایع ہونے والے کالم بھی ہیں جنھیں علم و ادب کا شغف رکھنے والوں اور سنجیدہ قارئین نے بے حد پسند کیا۔ ان کے یہ کالم بھی کتابی شکل میں شائع ہوئے۔

    ممتاز نقّاد وارث علوی نے انتظار حسین سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں‌ کیا تھا:

    ’’انتظار حسین کے افسانوں میں اسلوب کا یہ جادو ملتا ہے، یعنی خوب صورت نظموں کی مانند ان کے افسانوں کے اسلوب کی سحر انگیزی پراسرار پہاڑ کے بلاوے کی طرح ہمیں اپنی طرف کھینچتی رہتی ہے۔ یہ کشش کہانی، کردار، واقعات یا دوسرے ارضی مواد کے سبب نہیں ہوتی جیسا کہ بیدی، منٹو یا موپساں کے افسانے میں ہوتا ہے۔ لیکن آپ انتظار حسین کی زبان و بیان کی جادو گری کا راز پانے کی کوشش کیجیے تو دیکھیں گے کہ ان کے اسلوب کی پوری سحر کاری ایک ایسے مواد کی زائیدہ ہے جو انسان کے ارضی، اخلاقی اور روحانی تجربات سے تشکیل پاتا ہے، اور یہ مواد اتنا ہی گاڑھا ہے جتنا کہ حقیقت پسند افسانے کا سماجی اور انسانی مواد اور اسی لیے اس کی پیش کش میں انتظار حسین گو اسطوری اور علامتی طریقِ کار اختیار کرتے ہیں، لیکن حقیقت پسند تکنیک کے ہتھکنڈوں یعنی واقعہ نگاری، کردار نگاری، جزئیات نگاری، مکالمے، تصویر کشی اور فضا بندی کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ اسی سبب سے ان کے افسانے تجریدی افسانوں کی ذیل میں نہیں جاتے اور ان کا اسلوب تجریدی افسانوں کی مانند شاعری کے اسلوب سے قریب ہونے کی کوشش نہیں کرتا۔ انتظار حسین کا امتیازی وصف ہے کہ ان کے کسی جملے پر شعریت، غنایت یا شاعرانہ پن کا گمان تک نہیں ہوتا، بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ان کی پوری کوشش غنایت سے گریز کی طرف ہے۔ ان کے باوجود ان کا اسلوب غنائی شاعری کے اسلوب کی مانند ہم پر وجد کی کیفیت طاری کرتا ہے۔ یہ نثر کی معراج ہے۔‘‘

    ان کی تحریروں میں اکثر پرانے اور ایسے الفاظ پڑھنے کو ملتے تھے جنھیں عام طور پر ترک کردیا گیا ہو۔ وہ اپنے کالموں میں کبھی کوئی قدیم حکایت اور داستان پیش کرتے یا اس میں بیان کیے گئے واقعے یا شخصیت کو اپنے مطالعے اور فکر کی بنیاد پر نہایت پُراثر موضوع بنا دیتے تھے۔

    انتظار حسین کی تصانیف میں آخری آدمی، شہر افسوس، آگے سمندر ہے، بستی، چاند گہن، گلی کوچے، کچھوے، خالی پنجرہ، خیمے سے دور، دن اور داستان، علامتوں کا زوال، بوند بوند، شہرزاد کے نام، زمیں اور فلک، چراغوں کا دھواں، دلی تھا جس کا نام، جستجو کیا ہے، قطرے میں دریا، جنم کہانیاں، قصے کہانیاں، شکستہ ستون پر دھوپ، سعید کی پراسرار زندگی سرِ فہرست ہیں۔

  • چراغِ علم و ادب ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کا تذکرہ

    چراغِ علم و ادب ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کا تذکرہ

    ممتاز علمی و ادبی شخصیت ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری 2 فروری 2021ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ وہ ایک محقّق، سوانح و تذکرہ نگار تھے جن کی تصانیف اردو زبان و ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔

    ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کا خاص میدان تحقیق تھا۔ انھیں ہندوستان کے نام وَر اور صاحبِ طرز ادیب اور سیاسی راہ نما مولانا ابوالکلام آزادؔ کی شخصیت، اُن کے افکار اور ان کے علمی و ادبی کارناموں پر سند تسلیم کیا جاتا تھا۔ ڈاکٹر ابو سلمان نے گزشتہ نصف صدی اور موجودہ صدی کی پہلی دہائی میں دنیائے ادب اور سیاست کی متذکرہ نابغۂ روزگار شخصیت کی زندگی اور ان کے تخلیقی سفر کے مختلف پہلوؤں‌ پر بے مثال کام کیا۔

    ڈاکٹر ابو سلمان نے ابتدائی تعلیم شاہ جہان پور سے مکمل کی۔ حفظِ قرآن کے ساتھ ابتدائی عربی اور فارسی کا درس لیا۔ تقسیم کے بعد 1950ء میں پاکستان آگئے اور کراچی یونیورسٹی سے ایم۔اے (اُردو) اور 1980ء میں سندھ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ مولانا ابوالکلام آزاد سے بہت متاثر تھے اور ان کی شخصیت اور کام کو اپنی تحقیق کا خاص موضوع بنایا۔ اسی بنا پر انھیں ‘آزاد شناس’ بھی کہا جاتا ہے۔

    ان کا سنِ پیدائش 1940ء ہے اور وطن شاہ جہاں پور (روہیل کھنڈ، یوپی)۔ والد محمد حسین خاں نے ان کا نام تصدق حسین خاں رکھا۔ لیکن علم و ادب کی دنیا میں وہ ابو سلمان الہندی کے نام سے متعارف ہوئے اور بعد میں الہندی کی جگہ ان کے آبائی علاقے کا نام جڑ گیا۔ ڈاکٹر ابو سلمان نے حامد بدایونی کالج، کراچی میں تدریس کے فرائض‌ بھی انجام دیے۔

    پاک و ہند کی سیاسی تاریخ، جدوجہد کی آزادی کی تحریکات، تنظیمات، شخصیات اور ان تحاریک کے نشیب و فراز ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کے خاص میدان رہے۔

    1957 ء تا 1974ء ابو سلمان کے سیکڑوں مضامین پاکستان اور ہندوستان کے مختلف رسائل میں شایع ہوئے۔ ان کے کئی مضامین اور مقالے کتابی شکل میں موجود ہیں۔ ان کی چند کتابوں میں‌ "اردو کی ترقی میں مولانا آزاد کا حصہ، اشفاق اللہ خاں شہید، افاداتِ آزاد، تحریکِ نظمِ جماعت،مولانا محمد علی اور ان کی صحافت، ابو الکلام و عبد الماجد، علامہ اقبال اور مولانا محمد علی، پاکستان کے اردو اخبارات و رسائل، مسلم افکارِ سیاست” کے نام شامل ہیں۔

  • اردو کے ممتاز محقّق اور مضمون نگار ابو سلمان شاہ جہاں پوری انتقال کرگئے

    اردو کے ممتاز محقّق اور مضمون نگار ابو سلمان شاہ جہاں پوری انتقال کرگئے

    اردو زبان کے نام وَر محقّق، مضمون نگار، سوانح و تذکرہ نگار ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری آج کراچی میں انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 80 برس تھی۔

    ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کا خاص میدان تحقیق تھا اور وہ مولانا ابوالکلام آزادؔ کی شخصیت، اُن کے افکار اور ان کے علمی و ادبی کارناموں پر سند مانے جاتے ہیں جو اس حوالے سے اپنی تصانیف کی وجہ سے ممتاز ہوئے۔ آپ نے گزشتہ نصف صدی اور موجودہ صدی کی پہلی دہائی میں دنیائے ادب اور سیاست کی اس نابغہ روزگار شخصیت کی زندگی اور تخلیقی سفر کے مختلف پہلوؤں‌ پر اتنا وقیع کام کیا جس کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔

    ڈاکٹر ابو سلمان نے ابتدائی تعلیم شاہ جہان پور سے مکمل کی۔ حفظِ قرآن کے ساتھ ابتدائی عربی اور فارسی کا درس لیا۔ تقسیم کے بعد 1950ء میں آپ پاکستان آگئے اور کراچی یونیورسٹی سے ایم۔اے (اُردو) اور 1980ء میں سندھ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ آپ مولانا ابوالکلام آزاد سے بہت متاثر تھے اور انھیں‌ اپنی تحقیق کا موضوع بنائے رکھا جس کی بنا پر آپ کو ‘آزاد شناس’ بھی کہا جاتا ہے۔

    آپ 1940ء میں شاہ جہاں پور (روہیل کھنڈ، یوپی) میں محمد حسین خان کے ہاں پیدا ہوئے، جنھوں‌ نے آپ کا نام تصدق حسین خان رکھا اور جب آپ نے قلمی سفر شروع کیا تو ابو سلمان الہندی کے نام سے خود کو متعارف کروایا۔ آپ نے حامد بدایونی کالج، کراچی میں تدریس کے فرائض‌ بھی انجام دیے۔

    پاک و ہند کی سیاسی تاریخ، جدوجہد کی آزادی کی تحریکات، تنظیمات، شخصیات اور ان تحاریک کے نشیب و فراز ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کے خاص میدان رہے۔

    1957 ء تا 1974ء ابو سلمان کے سیکڑوں مضامین پاکستان اور ہندوستان کے مختلف رسائل میں شایع ہوئے۔ ان کے کئی مضامین اور مقالے کتابی شکل میں موجود ہیں۔ ان کی چند کتابوں میں‌ "اردو کی ترقی میں مولانا آزاد کا حصہ، اشفاق اللہ خاں شہید، افاداتِ آزاد، تحریکِ نظمِ جماعت،مولانا محمد علی اور ان کی صحافت، ابو الکلام و عبد الماجد، علامہ اقبال اور مولانا محمد علی، پاکستان کے اردو اخبارات و رسائل، مسلم افکارِ سیاست” کے نام شامل ہیں۔

  • اردو زبان کے نام وَر ادیب محمد خالد اختر کا یومِ وفات

    اردو زبان کے نام وَر ادیب محمد خالد اختر کا یومِ وفات

    2 فروری 2002ء اردو کے نام وَر ادیب محمد خالد اختر کا یومِ وفات ہے۔ ناول، افسانہ، سفر نامے کے علاوہ انھوں نے مزاح نگاری میں نام و مقام بنایا۔ محمد خالد اختر کو ان کے ناول ‘چاکیواڑہ میں وصال’ سے بہت شہرت ملی۔

    23 جنوری 1920ء کو الہ آباد تحصیل لیاقت پور، ضلع بہاولپور میں پیدا ہونے والے محمد خالد اختر نے اوائلِ عمری ہی سے لکھنے کا آغاز کر دیا تھا۔ ان کے چند مضامین پہلی مرتبہ ایک ماہنامہ میں شایع ہوئے تھے جس سے ان کی حوصلہ افزائی ہوئی اور یوں انھوں نے باقاعدہ ادبی سفر کا آغاز کیا۔

    ان کی تصانیف میں ان کا ناول چاکیواڑہ میں وصال سرِفہرست ہے جسے اس کے اسلوب کے باعث نام ور شاعر فیض احمد فیض نے اردو کا اہم ترین ناول قرار دیا تھا۔

    محمد خالد اختر کی تصانیف میں کھویا ہوا افق، مکاتبِ خضر، چچا عبدالباقی، لالٹین اور دوسری کہانیاں سمیت سفر نامے، مضامین اور ترجمے شامل ہیں۔ 2001ء میں انہیں دوحہ قطر میں عالمی اردو ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    وہ کراچی کے پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔