Tag: 20 اگست وفات

  • یوری ایونری: فلسطینیوں کا ہم درد جسے ساری زندگی اسرائیلی انتہا پسند مطعون کرتے رہے

    یوری ایونری: فلسطینیوں کا ہم درد جسے ساری زندگی اسرائیلی انتہا پسند مطعون کرتے رہے

    فلسطینی عربوں اور اسرائیل کے امن پسند یہودیوں میں یوری ایونری کی مقبولیت اور پسندیدگی کی وجہ انسانی حقوق اور قیامِ امن کے لیے ان کی کوششیں ہیں۔ انھوں نے 2018ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔

    94 برس کی عمر میں وفات پانے والے ایونری جرمنی میں 10 ستمبر 1923ء کو پیدا ہوئے۔ اان کا اصل نام ہیلمٹ اوسٹر مین تھا۔ جرمنی میں ایڈولف ہٹلر کی قیادت میں نیشنل سوشلسٹ پارٹی کے اقتدار کے بعد ان کا خاندان 1933ء میں فلسطین ہجرت کر گیا۔ وہاں ایونری نے اسرائیلی مملکت کے لیے کام کیا، لیکن کم عمری ہی میں انھوں نے عربوں سے تعلقات بہتر بنانے اور امن کی خواہش کا اظہار شروع کردیا، اور جلد ہی انھیں یہ احساس ہوگیا کہ اسرائیلی انتہا پسندوں کی وجہ سے خطّے کے امن اور فلسطینیوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ انھوں نے ایک صحافی کی حیثیت سے اپنے قلم کی طاقت کو اسرائیلی درندگی اور سازشوں کو بے نقاب کرنے کے لیے استعمال کیا۔

    بعد کے برسوں میں وہ مشرقِ‌ وسطیٰ میں تنازع کے حل اور انسانی حقوق کے ممتاز کارکن کے طور پر ابھرے اور فلسطینیوں کی توجہ حاصل کرلی۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی میں تنازع کے منصفانہ حل کے لیے جدوجہد میں گزاری اور اپنی امن کوششوں پر کئی ایوارڈز حاصل کیے۔

    وہ ایک صحافی اور ایسے مضمون نگار، کالم نویس تھے جنھوں نے نہ صرف قیامِ امن اور پائیدار حل کے حوالے سے تجاویز پیش کیں بلکہ اسرائیل کے ظلم و ستم اور عربوں کے خلاف سازشوں کو بھی بے نقاب کرتے رہے۔ وہ انتہائی دائیں اور یہودی انتہا پسندوں سے یکساں طور پر نفرت کرتے تھے۔

    ایونری 1948 میں پہلی عرب اسرائیل جنگ کے دوران شدید زخمی بھی ہوئے تھے۔ جون 1967 میں عربوں اور اسرائیل کے درمیان چھے روزہ جنگ کے بعد وہ فلسطینیوں کے ساتھ امن کے پُرجوش حامی بن گئے اور انھیں اسرائیلی قدامت پسندوں غدار کہنا شروع کردیا تھا۔

    ایونری نے 1965 سے اسرائیلی پارلیمنٹ کے رکن کی حیثیت سے تین مدات تک خدمات انجام دیں اور فلسطینیوں کے ساتھ پائیدار اور منصفانہ امن کی ضرورت کا دفاع کرتے رہے۔

    یوری ایونری کو فلسطین کی اعزازی شہریت بھی دی گئی تھی۔ ان کے مضامین اور سیاسی رپورٹیں مختلف اخبارات میں شایع ہوتی رہی ہیں۔

  • پریت نگر اور پریت لڑی والے گور بخش سنگھ کا تذکرہ

    پریت نگر اور پریت لڑی والے گور بخش سنگھ کا تذکرہ

    سردار گور بخش سنگھ کا نام پنجابی ادب کے ایک نام وَر قلم کار کے طور پر لیا جاتا ہے جو 1977ء میں آج کے ہی دن دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ ادیب تھے۔

    26 اپریل 1895ء کو پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے گور بخش سنگھ نے والد کے انتقال کے بعد مشکلات کا سامنا کیا، لیکن کسی طرح تعلیم کا سلسلہ ترک نہ کیا، انھوں نے میٹرک کے بعد ایف سی کالج، لاہور میں داخلہ لیا، معاشی مشکلات کی وجہ سے اسی زمانے میں ایک معمولی ملازمت بھی شروع کردی، بعد میں 1913ء میں تھامسن سول انجینئری کالج، روڑکی سے ڈپلوما حاصل کیا۔ فوج میں بھرتی ہوکر عراق اور ایران گئے، 1922ء امریکا میں مشی گن یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری لے کر واپس آئے اور ریلوے انجینئر کے طور پر عملی زندگی شروع کی۔

    انھوں نے پنجابی ادب کو اپنے افسانوں، سواںح و تذکروں، تراجم، ڈراموں سے مالا مال کیا اور اپنی الگ شناخت بنائی۔ 1933ء میں انھوں نے لاہور سے پنجابی اور اُردو زبان میں ایک ماہانہ میگزین ‘‘پریت لڑی’’ جاری کیا جو لوگوں میں اتنا مقبول ہوا کہ ان کا نام ہی ‘‘گور بخش سنگھ پریت لڑی ’’پڑ گیا۔

    یہی نہیں‌ اپنے وطن سے ان کی محبّت کا بھی عجیب عالم رہا اور انھوں نے 1936ء میں لاہور اور امرتسر کے درمیان ‘‘پریت نگر ’’ یعنی محبت کرنے والوں کا شہر آباد کیا جس میں شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ انسان دوست اور فن و ثقافت سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو بسایا۔ وہ ہر سال یہاں ادبی اجتماع منعقد کرتے جس میں برصغیر کے کونے کونے سے ادیب، شاعر اور دانشور شریک ہوتے تھے۔ تقسیمِ ہند کے وقت جب یہ شہر بھی فسادات سے محفوظ نہ رہا تو گور بخش سنگھ دل برداشتہ ہو کر دہلی چلے گئے تھے۔

    انھوں نے کہانی، ناول، ڈرامے، مضامین اور بچوں کے ادب پر پچاس سے زائد کتب شائع کروائیں۔ گور بخش سنگھ نے میکسم گورکی کے مشہور ناول ‘‘ماں ’’ کا پنجابی ترجمہ بھی کیا۔

  • یومِ‌ وفات: یاقوتُ الحموی کی کتاب معجمُ البلدان کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا

    یومِ‌ وفات: یاقوتُ الحموی کی کتاب معجمُ البلدان کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا

    یاقوت الحموی ایک مسلمان جغرافیہ دان تھے جنھوں نے متعدد علمی و سائنسی موضوعات پر کتب تصنیف کیں جن میں مشہور ترین کتاب معجمُ البلدان ہے جس کا کئی زبانوں میں ترجمہ بھی کیا گیا۔ ان کا سنِ وفات 20 اگست 1229ء ہے۔

    تاریخ کے اوراق میں اس مسلمان عالم کے ولادت اور خاندانی حالات کا تذکرہ نہیں ملتا، لیکن ان کا اصل اور مکمل نام “الشیخ الامام شہابُ الدّین ابو عبد اللہ یاقوت بن عبد اللہ الحموی الرومی البغدادی” بتایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ ایک غلام تھے جنھیں روم سے قیدی بنا کر بغداد لایا گیا تھا۔ یہاں انھیں ایک تاجر “عسکر الحموی” نے خریدا تھا اور اسی نسبت وہ یاقوتُ الحموی کہلائے۔

    یاقوت الحموی کو جغرافیہ اور حساب کتاب سے خصوصی شغف تھا۔ انھوں نے جغرافیہ کے عنوان پر ایک معجم ترتیب دی جس کے مقدمے میں دیگر فنون کے علاوہ فنِ جغرافیہ پر خصوصی گفتگو کی۔ انھوں نے صرف و نحو اور لغت کے دوسرے قاعدے سیکھے اور تجارت کی غرض سے دور دراز کا سفر کیا، جس کے بعد انھیں مالک نے آزاد کردیا تھا۔ اپنے اسفار اور مختلف مقامات پر قیام کے دوران انھوں نے جغرافیائی معلومات اکٹھی کیں اور کتابی شکل میں انھیں محفوظ کیا۔

    ان کی اہم اور مشہور ترین کتاب معجم البلدان میں دیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ زمین کے بارے میں تصورات کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔

  • شاعر، ناول نگار اور نقّاد ضیا حسین ضیا کی برسی

    شاعر، ناول نگار اور نقّاد ضیا حسین ضیا کی برسی

    2019ء میں‌ آج ہی کے روز شاعر، ناول نگار اور ناقد ضیا حسین ضیا وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔ وہ ادبی رسالے زر نگار کے مدیر بھی تھے۔

    ضیا حسین ضیا اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ ابتدائی تعلیم مختلف دینی مدارس سے حاصل کی۔ پنجاب یونیورسٹی سے اردو، عربی اور علومِ اسلامیہ میں ماسٹرز ڈگری حاصل کیں۔ فارسی ادب میں ایم اے اور پھر ایم فل کیا تھا۔
    انھیں ایک ایسے ادیب کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے ہمیشہ ادبی مجالس سے دور رہ کر اپنے فن اور کام کی تشہیر کے بجائے مطالعے اور غور وفکر کو ترجیح دی۔

    ضیا حسین ضیا کا ایک ناول مابین بہت پسند کیا گیا جب کہ ان کے تنقیدی اقوال اور شذرات پر مشتمل کتاب لوحِ غیر محفوظ نے انھیں خاصی شہرت عطا کی۔ ان کی نظموں کا مجموعہ دروازہ گل کے نام سے شایع ہوا اور سنجیدہ علمی و ادبی حلقوں میں ان کی پہچان کا سبب بنا۔

    علّامہ ضیا حسین ضیا کی ادبی خدمات میں رسالہ زر نگار اس لیے اہم ہے کہ اس کے ذریعے انھوں نے ادبی دنیا میں نئے تخلیق کاروں کو متعارف کرایا۔

  • تاریخی درس گاہ سندھ مدرستہُ الاسلام کے بانی حسن علی آفندی کی برسی

    تاریخی درس گاہ سندھ مدرستہُ الاسلام کے بانی حسن علی آفندی کی برسی

    آج سندھ مدرستہُ الاسلام کے بانی اور نام وَر مسلمان دانش وَر حسن علی آفندی کا یومِ‌ وفات ہے جن کا نام ان کے فلاحی کاموں اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے خدمات کی وجہ تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ حسن علی آفندی 20 اگست 1895ء میں دارِ‌ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    حسن علی آفندی 14 اگست 1830ء کو سندھ کے شہر حیدرآباد کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے، مگر اپنی محنت اور لگن سے نہ صرف تعلیم حاصل کرکے اپنا مستقبل بنایا بلکہ سندھ کے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کی فکر کرتے ہوئے اس عظیم درس گاہ کے قیام کے اپنے خواب کو بھی پورا کیا جس سے پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے بھی تعلیم حاصل کی۔

    حسن علی آفندی نے وکالت کی تعلیم مکمل کرنے کے دوران اس راستے میں جن مسائل اور رکاوٹوں کا سامنا کیا، اسے دیکھ کر انھیں سندھ کے مسلمان نوجوانوں کے لیے تعلیمی ادارہ بنانے کا خیال آیا۔ انھوں نے اس حوالے سے ابتدائی کوششوں کے بعد ہندوستان کی دیگر قابل اور نام ور شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور ان کی مدد اور تعاون حاصل کرنے میں کام یاب رہے۔ بالآخر 1885ء میں حسن علی آفندی نے کراچی میں سندھ مدرسۃُ الاسلام کی بنیاد رکھی جو ایک اسکول تھا اور بعد میں اسے کالج کا درجہ دیا گیا۔ آج اسی تعلیمی ادارے کے بطن سے ایس ایم لا کالج سمیت کئی تعلیمی ادارے نکلے اور ان میں مستقبل کی آب یاری کا عمل جاری ہے۔

    پاکستان کے بانی، محمد علی جناح، نے سندھ مدرسہ الاسلام سے ہی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ حسن علی آفندی کے فلاحی کارناموں کے اعتراف میں برطانوی سرکار نے انہیں خان بہادر کا خطاب دیا تھا۔

    حسن علی آفندی آل انڈیا مسلم لیگ سے بھی منسلک رہے اور مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ کے رکن بھی تھے۔ 1934ء سے 1938ء تک وہ سندھ کی قانون ساز اسمبلی کے رکن بھی رہے۔

    انھیں انگریز سرکار نے تعلیمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے خان بہادر کے خطاب سے نوازا تھا۔ حسن علی آفندی نے اس اسکول کے قیام کے لیے کوششیں شروع کیں تو وہ سرسید احمد خان سے بھی ملے۔ وہ سمجھتے تھے کہ انگریزوں کے دور میں مسلمانوں نے اگر جدید تعلیم حاصل نہ کی تو وہ ہر لحاظ سے پیچھے رہ جائیں گے اور ہندوستان کی آزادی کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔

    سندھ مدرسہ نے ثابت کیا کہ حسن علی آفندی اور ان کے ساتھیوں کا ایک جدید درس گاہ کے قیام کا فیصلہ مسلمانوں کے وسیع تر مفاد میں تھا کیوں کہ بعد میں اسی ادارے سے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ کئی ایسے مسلمان راہ نما نکلے جنھوں نے مسلمانوں کی اصلاح اور تحریک پاکستان میں مرکزی کردار ادا کیا۔