Tag: 20 جولائی وفات

  • نام وَر پاکستانی مصوّرہ لیلیٰ شہزادہ کی برسی

    نام وَر پاکستانی مصوّرہ لیلیٰ شہزادہ کی برسی

    پاکستان کی نام وَر مصوّرہ لیلیٰ شہزادہ 1994ء میں‌ آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ اپنے فن پاروں کی بدولت عالمی شہرت حاصل کرنے والی لیلیٰ شہزادہ کا موضوع سندھ کی تہذیب اور ثقافت رہا۔ وہ تجریدی آرٹ کے حوالے سے پہچانی جاتی ہیں‌۔

    لیلیٰ شہزادہ 1925ء میں انگلستان میں لٹل ہیمپٹن میں پیدا ہوئی تھیں۔ انھوں نے ڈرائنگ سوسائٹی، لندن سے مصوّری کی تعلیم حاصل کی اور اس فن کو باقاعدہ سیکھا۔ 1958ء سے 1960ء کے دوران وہ مشہور مصوّر اے ایس ناگی سے ملیں‌ اور ان سے مصوّری کی مزید تربیت حاصل کی۔

    لیلیٰ شہزادہ نے 1960ء میں کراچی میں اپنے فن پاروں‌ کی پہلی انفرادی نمائش منعقد کی جس نے انھیں یہاں قدر دانوں اور ناقدین میں متعارف کروایا، بعد کے برسو‌ں میں‌ ان کے فن پاروں‌ کو پاکستان کے مختلف شہروں کی آرٹ گیلریز میں سجایا گیا اور انھیں بہت پذیرائی ملی، اسی عرصے میں بیرونِ ملک بھی آرٹ گیلریوں تک ان کے فن پارے پہنچے اور وہاں‌ ان کی کام یاب نمائش کی گئی۔

    2006ء میں پاکستان پوسٹ نے‌ لیلیٰ شہزادہ یادگاری‌ ٹکٹ کا اجرا کیا تھا جب کہ حکومتِ‌ پاکستان نے اس مصورہ کو تمغہ امتیاز اور تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔ لیلیٰ شہزادہ نے بیرونِ ملک بھی اپنے منفرد فن پاروں کی بدولت مختلف اعزازات اپنے نام کیے۔

  • گوگلیلمو مارکونی: ریڈیو کے موجد کے انتقال کی خبر انہی کی ایجاد نے دنیا تک پہنچائی

    گوگلیلمو مارکونی: ریڈیو کے موجد کے انتقال کی خبر انہی کی ایجاد نے دنیا تک پہنچائی

    20 جولائی 1937ء کو اٹلی کے شہر روم میں نوبل انعام یافتہ سائنس داں اور الیکٹریکل انجینئر گوگلیلمو مارکونی (Guglielmo Marconi) کے انتقال کی خبر ریڈیو پر سنی گئی جو انہی ہی کی ایجاد ہے۔ اسی نشریاتی میڈیم کی بدولت بعد میں‌ یہ افسوس ناک خبر دنیا بھر میں پھیل گئی۔

    مارکونی 25 اپریل 1874ء کو اٹلی کے مشہور شہر بولونیا میں پیدا ہوئے۔ نو عمری ہی میں انھوں نے وائرلیس ٹیلی گرافی، یعنی تار کے بغیر ٹیلی گراف پیغام ارسال کرنے کے خیال کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش شروع کر دی تھی۔ ایک سائنس داں کی تحریر سے متاثر ہو کر مارکونی کو وائرلیس ٹیلی گرافی کے لیے ریڈیو ویوز کے استعمال کا خیال آیا اور تب 20 سال کی عمر میں انھوں نے ریڈیو ویوز کے تجربات شروع کر دیے۔ ان کی تحقیق اور تجربات سے ثابت ہوا کہ وائر لیس کمیونیکیشن بھی ممکن ہے۔

    انیسویں صدی کے اواخر میں مارکونی نے اپنے تیار کردہ آلات سے کئی کلومیٹر کی دوری سے تار کے بغیر ریڈیو کمیونیکیشن کرنے کا مظاہرہ کیا جس نے اسے بین الاقوامی سطح پر شہرت دی۔ چند ایسے ہی تجربات کے بعد 1901ء میں وہ انگلستان سے کینیڈا وائر لیس پیغام بھیجنے میں کام یاب ہو گئے تھے۔

    مارکونی کی اس ایجاد کی باقاعدہ شکل 1922ء میں سامنے آئی جب انگلینڈ میں ریڈیو براڈ کاسٹنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔ مارکونی کو 1915ء میں نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔

  • بالی وڈ کی معروف گلوکارہ کا تذکرہ جس کی خوش گوار زندگی میں ’’محبّت‘‘ نے طوفان برپا کردیا

    بالی وڈ کی معروف گلوکارہ کا تذکرہ جس کی خوش گوار زندگی میں ’’محبّت‘‘ نے طوفان برپا کردیا

    ہندوستان کی فلمی صنعت میں پسِ پردہ گائیکی کے لیے مشہور گیتا دت 1972ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ ان کے گائے ہوئے گیت بہت مقبول ہوئے اور آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ گیتا دت نے بھارت کے نام ور فلم ساز اور ہدایت کار گُرو دت سے شادی کی تھی۔

    گیتا دت 23 نومبر1930ء کو فرید پور، بنگلہ دیش میں پیدا ہوئیں۔ ان کا خاندانی نام گیتا گھوش رائے چودھری تھا۔ ان کے والد ایک بڑے اور خوش حال زمین دار تھے۔ اس خاندان نے 40 کی دہائی میں کلکتہ اور پھر ممبئی کا رخ کیا اور تب گیتا دت کو فلم ’’دو بھائی‘‘ میں کام ملا۔ اس کے بعد فلم ’بازی‘‘ کے گانے ان کی آواز میں‌ ریکارڈ ہوئے اور یہی وہ فلم تھی جس کے دوران وہ اس وقت کے نوجوان ہدایت کار گرو دت سے ملیں اور یہ سلسلہ رومان سے شادی پر منتج ہوا۔ 1953 میں شادی کے بعد اس جوڑے کے گھر دو بیٹے پیدا ہوئے اور زندگی بڑی خوش گوار گزر رہی تھی، لیکن گرُو دت اداکارہ وحیدہ رحمان کو دل دے بیٹھے اور ان کی گھریلو زندگی میں طوفان آگیا۔

    1957ء میں گرو دت نے اپنی فلم ’’ گوری‘‘ میں گیتا دت کو مرکزی اداکارہ کے طور پر شامل کیا، لیکن یہ فلم مکمل نہ ہوسکی۔ اسی عرصے میں گورو دت وحیدہ رحمان کے عشق میں گرفتار ہوئے تھے اور گیتا دت کو جب یہ معلوم ہوا تو انھیں سخت صدمہ پہنچا اور ان کے درمیان اجنبیت کی دیوار کھڑی ہوتی چلی گئی۔ اس گلوکارہ نے مے نوشی شروع کردی اور ایک روز اچانک انڈسٹری میں گُرو دت کی موت کی خبر آئی جسے بعض لوگ خود کشی بھی قرار دیتے ہیں۔ شوہر کی ناگہانی موت نے گیتا دت کو ہلا کر رکھ دیا، وہ مالی مسائل کا بھی شکار ہو گئیں۔

    اس غم کو جھیلتے ہوئے گیتا دت نے گلو کاری کے میدان میں دوبارہ قدم جمانے کی کوشش کی۔ اسٹیج شوز میں بھی کام کیا پھر 1967ء میں ایک بنگالی فلم میں مرکزی کردار ادا کیا۔ 1971ء میں فلم ’’انو بہو‘‘ کے گیت گائے جو بہت مقبول ہوئے۔ گیتا دت نے ہندی ہی نہیں‌ بنگالی گیت بھی گائے۔ ان کی آواز بلاشبہ بہت خوب صورت تھی۔

    کئی بڑے موسیقاروں اور گلوکاروں نے ان کی فنی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ بابو جی دھیرے چلنا….وہ گیت ہے جو آج بھی سدا بہار گیتوں کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔ اسی طرح‌ فلم دو بھائی کا گیت، میرا سندر سپنا ٹوٹ گیا، دیو داس کا گانا آن ملو آن ملو، صاحب بی بی اور غلام کا گانا نہ جائو سیاں چھڑا کے بیاں اور دیگر گانے گیتا دت کی یاد دلاتے رہیں گے۔