Tag: 20 جون وفات

  • کئی لازوال اور سدا بہار گیتوں کے خالق خواجہ پرویز کی برسی

    کئی لازوال اور سدا بہار گیتوں کے خالق خواجہ پرویز کی برسی

    پاکستان کی فلمی صنعت کے معروف نغمہ نگار خواجہ پرویز 20 جون 2011ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھوں نے فلم نگری میں اپنے چالیس سالہ کیریئر کے دوران اردو اور پنجابی زبانوں میں‌ سیکڑوں گیت لکھے جو بہت مقبول ہوئے اور اکثر گیت لازوال اور یادگار قرار پائے۔

    1932ء میں ہندوستان کے شہر امرتسر میں پیدا ہونے والے خواجہ پرویز قیامِ پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور میں گوالمنڈی کے علاقے میں آبسے۔ ان کا اصل نام خواجہ غلام محی الدّین تھا جو پرویز تخلص کرتے تھے اور فلمی دنیا میں خواجہ پرویز کے نام سے مشہور ہوئے۔

    دیال سنگھ کالج سے گریجویشن کیا اور یہیں ان کی دوستی اس وقت کے معروف ہدایت کار ولی کے بیٹے سے ہوئی جن کے طفیل خواجہ پرویز ہدایت کار ولی سے ملے۔ انھوں نے 1955ء میں خواجہ پرویز کو اپنا اسٹنٹ رکھ لیا اور یہ فلمی سفر شروع ہوا۔

    خواجہ پرویز نے معاون ہدایت کار کے طور پر تین فلمیں‌ مکمل کروائیں لیکن طبیعت شاعری کی طرف مائل تھی اور یہی وجہ ہے کہ ان کی پہچان اور مقبولیت نغمہ نگاری بنی۔ انھوں نے معروف نغمہ نگار سیف الدین سیف کے ساتھ کام شروع کردیا اور ان کے اسٹنٹ بن گئے۔

    خواجہ پرویز سے ہدایت کار دلجیت مرزا نے اپنی فلم ’رواج‘ کے گیت لکھوائے۔ اس فلم میں مالا کی آواز میں ان کا گیت ’کہتا ہے زمانہ کہیں دل نہ لگانا‘ بہت مقبول ہوا۔ اس کے بعد وہ کام یابی کے جھنڈے گاڑتے چلے گئے۔ ان کا ہر گیت گویا ہٹ ہوتا رہا۔

    فلم سنگ دل میں ان کا نغمہ ’سن لے او جانِ وفا‘ اور اس کے بعد ’تمہی ہو محبوب مرے میں کیوں نہ تمہیں پیار کروں‘ بہت مشہور ہوا۔ فلم آنسو کا گانا ’تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں جیسے صدیاں بیت گئیں‘ نے مقبولیت کا گویا ریکارڈ قائم کیا اور پھر ’پیار بھرے دو شرمیلے نین‘ نے سرحد پار بھی لاکھوں دلوں میں جگہ پائی۔

    خواجہ پرویز کے بارے میں‌ مشہور ہے کہ وہ باغ و بہار شخصیت کے مالک اور دوسروں کے مددگار اور خیرخواہ تھے۔

    ذیایبطس کے مرض میں مبتلا خواجہ پرویز کو طبیعت بگڑنے پر لاہور کے میو اسپتال میں علاج کے لیے داخل کروایا گیا تھا، جہاں انھوں نے زندگی کی آخری سانس لی اور اپنے مداحوں کو سوگوار چھوڑ گئے۔

    خواجہ پرویز لاہور میں میانی صاحب قبرستان میں مدفون ہیں۔

  • عہد ساز ادیب اور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی برسی

    عہد ساز ادیب اور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی برسی

    آج اردو کے صاحبِ طرز ادیب اور معروف مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 20 جون 2018ء کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔

    مشتاق یوسفی 4 اگست 1923ء کو بھارت کی ریاست راجھستان میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان ہجرت کی اور کراچی میں سکونت اختیار کرلی۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم جے پور سے حاصل کی تھی جب کہ 1945ء گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم اے کیا اور اوّل پوزیشن حاصل کی۔

    اردو نثر اور مزاح نگاری میں انھوں نے خود کو صاحبِ‌ طرز ثابت کیا اور اعلیٰ معیار کی تخلیقات قارئین کو دیں۔ ان کے ادبی شہ پاروں میں پہلی کتاب ’’چراغ تلے‘‘ 1941ء میں، دوسری ’’خاکم بدہن‘‘ 1949ء، جب کہ ’’زرگزشت‘‘ 1974ء اور ’’آبِ گم‘‘ 1990ء میں‌ منظرِ عام پر آئی، اس عہد ساز مزاح نگار کی آخری کتاب ’’شامِ شعرِ یاراں‘‘2014ء میں شایع ہوئی تھی۔

    مشتاق یوسفی کی کتابیں ان کے وسیع ذخیرۂ الفاظ اور وسیع تر مطالعے کا ثبوت ہیں۔ وہ ایسے مزاح نگار تھے جن کے ہر ہر فقرے کو بڑی توجہ سے پڑھا جاتا ہے اور اس کا لطف اٹھایا جاتا ہے۔ ان کی تحریروں میں‌ گہرائی اور لطیف انداز میں فلسفے کی آمیزش ہے۔ یہاں‌ ہم ان کے مزاحیہ مضامین سے چند جملے آپ کے ذوق کی نذر کررہے ہیں:

    • چھٹتی نہیں ہے منھ سے یہ ‘کافی’ لگی ہوئی۔

    • مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔

    • صاحب، میں ماکولات میں معقولات کا دخل جائز نہیں سمجھتا۔

    مشتاق احمد یوسفی کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں‌ حکومتِ پاکستان کی جانب سے ستارۂ امتیاز اور ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا تھا۔

    وہ طویل عرصے سے علیل تھے اور 95 برس کی عمر میں کراچی میں انتقال کیا۔