Tag: 20 ستمبر وفات

  • بیمار بادشاہ کی دیکھ بھال نے فیروز شاہ کو ریاست کا سلطان بنا دیا

    بیمار بادشاہ کی دیکھ بھال نے فیروز شاہ کو ریاست کا سلطان بنا دیا

    ہندوستان میں سلطان غیاث الدین تغلق نے دہلی پر حکومت قائم کی تھی جس کے خاندان کا ایک مشہور حکم راں فیروز شاہ تغلق تھا۔ اس کا دور 1351ء سے شروع ہوا اور 1388ء میں‌ آج ہی کے دن اس کی وفات تک جاری رہا۔

    وہ محمد تغلق کا چچا زاد بھائی تھا جس کی بیماری کے دوران فیروز شاہ نے اس کی خوب تیمار داری کی جس سے متاثر ہو کر محمد تغلق نے اسے اپنا جانشین نام زد کر دیا تھا۔ کہتے ہیں فیروز شاہ نے بھی محمد تغلق کے بعد ملک میں ابتری اور بد انتظامی کو بہت اچھے انداز سے ختم کر کے خود کو اس منصب کا اہل ثابت کر دکھایا۔

    فیروز شاہ تغلق کے باپ کا نام سپہ سالار رجب تھا جو سلطان غیاث الدین تغلق کا بھائی تھا۔ فیروز شاہ سات سال کا تھا جب اس کے باپ کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس کے بعد تغلق شاہ نے ہی اس کی تعلیم و تربیت اور پرورش کی۔

    جب فیروز شاہ تخت نشین ہوا تو اس وقت وہ کوئی پچاس برس کا تھا۔ فیروز شاہ کو مؤرخین نے ایک عالم فاضل اور نیک انسان لکھا ہے۔ عدل اس کے کردار کی نمایاں خوبی تھی۔

    فیروز شاہ نے 40 سال کے قریب حکم رانی کی اور بوقتِ وفات 90 سال کا تھا۔

    بادشاہ کے خود تحریر کردہ حالات ایک کتاب میں موجود ہیں جو کہ فتوحات فیروز شاہی کے نام سے مشہور ہے۔

  • ممتاز ادیب، نام وَر مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی انتقال کرگئے

    ممتاز ادیب، نام وَر مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی انتقال کرگئے

    ممتاز ادیب، کالم نویس اور طنز و مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی آج اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔

    وہ طنز و مزاح نگار کی حیثیت سے مشہور تھے جب کہ علمی و ادبی موضوعات میں انھیں ایک محقق، مترجم، اور زبان و بیان کے ماہر کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے شائستہ اور بامقصد ادب تخلیق کرنے کو اہمیت دی۔ ایک بیدار مغز لکھاری کی طرح معاشرے میں بے ضابطہ پن پر ان کی گہری نظر تھی۔ انھوں نے اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان میں بھی مضامین اور کالم لکھے۔

    ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی وضع دار، بامروّت، شفیق، ملن سار، خوش مزاج مشہور تھے۔ وہ اپنے خورد معاصرین اور نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور ستائش کے ساتھ زبان و بیان اور املا انشا کی درستی میں مدد دیتے اور اصلاح کرتے۔

    ان کے علمی مضامین اور کالم باقاعدگی سے پاکستان کے مؤقر جرائد اور روزناموں میں شایع ہوتے رہے ہیں۔

    انھوں نے ایل ایل بی، ادیب فاضل اور صحافت میں ایم اے کیا اور بعد ازاں صوبائی سوشل سیکیورٹی ادارے سے وابستہ ہوئے، جامعہ کراچی میں صحافت کی تعلیم کے لیے اعزازی تقرری ہوئی۔

    مرحوم نے 1953 میں اپنی ایک تحریر کی اشاعت کے بعد مزاح نگاری کا کا سلسلہ شروع کیا اور خوب نام و مقام بنایا۔ مجید لاہوری جیسے نام ور مزاح نگار کے مقبول ترین رسالے نمکدان سے طنز و مزاح نگاری کا سفر شروع کیا۔ 1962ء میں اس رسالے کی بدولت ان کا نام طنز و مزاح نگار کے طور پر قارئین کے سامنے آیا۔ اسی میدان میں انھوں نے انگریزی زبان میں بھی قلم کو تحریک دی اور 1982 سے مشہور و مستند انگریزی جرائد اور روزناموں کے لیے کالم لکھنے لگے۔ انھوں نے ابنِ منشا کے قلمی نام سے بھی اردو کالم لکھے۔

    1983ء میں ان کی کتاب سماجی تحفظ سامنے آئی جو ایک نہایت اہم موضوع کا احاطہ کرتی ہے۔ اسی موضوع پر انگریزی زبان میں کتاب شایع کروائی جو ایم اے کے طلبا کے لیے نہایت اہم ہے۔ اس کے بعد اشتہاریات کے عنوان سے اردو میں ان کی وہ قابل قدر کاوش سامنے آئی جسے آج بھی مارکیٹنگ کے نصاب میں اوّلین اور نہایت کارآمد تصنیف کہا جاتا ہے۔
    انھوں نے پہاڑ تلے، اب میں لکھوں کہ نہ لکھوں، کتنے آدمی تھے، حواسِ خستہ جیسی شگفتہ مضامین پر کتب کے علاوہ دیگر موضوعات پر لگ بھگ 26 کتابیں یادگار چھوڑی ہیں۔

    ان کی نمازِ جنازہ اور تدفین کل (21 ستمبر 2021) کی جائے گی۔

  • اردو اور پنجابی فلموں کے مشہور اداکار یوسف خان کا یومِ وفات

    اردو اور پنجابی فلموں کے مشہور اداکار یوسف خان کا یومِ وفات

    یوسف خان پاکستان فلم انڈسٹری کے صف اوّل کے اداکاروں میں سے ایک تھے جن کا آج یومِ‌ وفات ہے۔ وہ 20 ستمبر 2009ء کو اس جہانِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔

    یوسف خان نے اردو اور پنجابی فلموں‌ میں اپنی اداکاری سے سنیما کے شائقین کو محظوظ کیا۔ انھوں نے اپنے کرداروں کو اس خوبی سے نبھایا کہ وہ یادگار ٹھہرے۔

    یوسف خان 10 اگست 1931 کو مشرقی پنجاب کے شہر فیروز پور میں پیدا ہوئے۔ 1954 میں فلم ’’پرواز‘‘ سے انھوں نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ اس فلم میں مشہور اداکارہ صبیحہ خانم ان کی ہیروئن کے روپ میں‌ نظر آئیں۔ یوسف خان نے جن اردو فلموں میں‌ کام کیا ان میں‌ چند نام مجرم، حسرت، بھروسہ، فیصلہ اور نیا دور ہیں۔ بعد میں‌ وہ پنجابی فلموں‌ کی طرف متوجہ ہوئے اور ایک نئے انداز سے شائقین کے سامنے آئے۔

    1962 میں فلم ’’پہاڑن‘‘ سے انھوں نے پنجابی فلموں میں‌ اداکاری شروع کی اور یہ سفر بہت کام یاب ثابت ہوا۔ یوسف خان نے پنجابی فلموں میں کئی یادگار کردار نبھائے۔ ان کی پنجابی فلموں میں ملنگی، یارانہ، بائو جی، ضدی، وارنٹ، ہتھکڑی، جگنی، شریف بدمعاش، قسمت، جبرو، خطرناک، حیدر خاں اور بڈھا گجر سرِفہرست ہیں۔

    یوسف خان نے اپنی شان دار پرفارمنس پر کئی اعزازات بھی اپنے نام کیے۔ 2006 میں حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ فلم نگری کا سب سے بڑا اور معتبر ایوارڈ نگار اور 1999 میں نگار ملینئم ایوارڈ بھی انھیں دیا گیا تھا۔

    یوسف خان پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کے شدید مخالف تھے، اور اس پر ہر فورم پر آواز بلند کی، مگر بھارتی فلموں کی نمائش کا سلسلہ نہ رک سکا جس پر وہ نہایت دل گرفتہ تھے۔