Tag: 20 مئی انتقال

  • کیا مشہور مہم جُو اور جہاز راں کرسٹوفر کولمبس ایک شاطر اور بدقماش شخص تھا؟

    کیا مشہور مہم جُو اور جہاز راں کرسٹوفر کولمبس ایک شاطر اور بدقماش شخص تھا؟

    تاریخ کے اوراق میں کرسٹوفر کولمبس کو ایک ایسا مہم جُو اور جہاز راں لکھا گیا ہے جو ذہین اور چالاک بھی تھا۔ یہی نہیں‌ امریکا کی دریافت کا سہرا بھی اسی کے سَر ہے۔

    مؤرخین متفق ہیں کہ وہ پہلا یورپی جہاز راں تھا جس نے پندرھویں صدی عیسوی میں امریکا دریافت کیا، لیکن اس پر شکوک و شبہات کا اظہار بھی کیا جاتا ہے اور کرسٹوفر کولمبس سے متعلق مشہور واقعات اور مختلف باتوں کی صحّت بھی مشکوک ہے۔

    کولمبس 20 مئی 1506ء کو دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔ اس کا سنِ پیدائش 1451ء بتایا جاتا ہے۔ اٹلی کے شہر جینیوا (Genoa) میں پیدا ہونے والے کولمبس نے نوعمری ہی میں اسپین کے کیتھولک بادشاہوں کے دربار تک رسائی حاصل کر لی تھی۔ کولمبس کو بہادر اور ذہین شخص کہا جاتا ہے جس نے خود کو ایک مہم جُو کے طور پر متعارف کروایا۔ کولمبس نے شاہی سرپرستی میں بحرِ اوقیانوس کے چار بحری سفر مکمل کیے۔ کہا جاتا ہے کہ ایسے ہی ایک بحری سفر کے دوران کولمبس نے پہلی بار امریکا کی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔

    اس زمانے میں بادشاہت کے زیرِ اثر نو آبادیوں کا قیام اور سمندر کے راستے نئی منڈیوں تک رسائی حاصل کرکے تجارت کو فروغ دیا جارہا تھا۔ چناں چہ اسپین کے بادشاہوں نے کولمبس کو یہ ذمہ داری سونپی تھی۔

    مشہور ہے کہ کرسٹوفر کولمبس 1492ء کو وسطی امریکا پہنچا تھا۔ یہ اکتوبر کا مہینہ اور تاریخ 12 تھی۔ اسی لیے براعظم امریکا کے متعدد ملکوں میں اسے "کولمبس ڈے” کے طور پر منایا جاتا ہے۔ لاطینی امریکا کے علاوہ اٹلی اور اسپین میں بھی کولمبس ڈے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ وہاں اسے تہذیبی اور ثقافتی یادگار کی حیثیت حاصل ہے، مگر اسی خطّے میں چند ملک میں نہ تو کولمبس کو یاد کیا جاتا ہے اور نہ ہی لوگ کولمبس ڈے مناتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ کولمبس ایسی شخصیت نہیں جس کے لیے کوئی دن مخصوص کیا جائے اور اسے عزّت اور احترام سے یاد کیا جائے۔

    اس مخالفت کی کئی وجوہ ہیں‌۔ بعض مؤرخین نے کولمبس سے متعلق اپنی کھوج اور تحقیق کے بعد جو واقعات تحریر کیے ہیں، وہ اسے ہیرو کے بجائے ایک ظالم، مفاد پرست اور سفاک شخص ظاہر کرتے ہیں۔ تاہم دنیا بھر میں‌ کتابیں کولمبس کی کام یاب بحری مہمّات اور اس کے کارناموں سے بھری پڑی ہیں۔ تاہم صنف مارک ڈیر جیسے متعدد مصنّفین نے اسے ایک وحشی، ظالم اور غارت گر لکھا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بعض مؤرخین کے مطابق امریکا کولمبس کی دریافت نہیں۔ اس نے کبھی اس سرزمین پر قدم نہیں‌ رکھا۔

    کولمبس کے مخالفین کے مطابق اس جہاز راں نے اپنی بحری مہمّات کے دوران جہاں بھی قیام کیا، وہاں مقامی لوگوں کی خدمات اور ان سے قیام و طعام کی سہولت حاصل کرنے کے باوجود انھیں‌ نقصان پہنچایا۔ وہ لوگوں کو غلام بنالیا کرتا تھا، ان سے جبری مشقت لیتا، وہ اور اس کے ساتھی قبائلی عورتوں سے جنسی زیادتی کے مرتکب ہوئے۔ کولمبس اپنی مہمّات کے دوران قبائلیوں کو دھوکا دے کر ان کے زیورات اور سونا ہتھیا لیتا تھا۔ اس طرح کی کئی باتیں اور قصّے مشہور ہیں‌ جو اس نام وَر مہم جُو کو بدقماش اور سفاک ثابت کرتے ہیں۔

  • پاکستانی فلم انڈسٹری کے باکمال موسیقار اے حمید کی برسی

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے باکمال موسیقار اے حمید کی برسی

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے لازوال اور سدا بہار دھنیں تخلیق کرنے والے اے حمید 20 مئی 1991ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج اے حمید کی برسی ہے۔ ان کا پورا نام شیخ عبدُالحمید تھا جنھیں فلمی صنعت میں اے حمید کے نام سے پہچانا جاتا ہے

    وہ 1924ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد شیخ محمد منیر موسیقی کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے اور انھوں نے دو فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی۔ یوں اے حمید میں بھی سُر ساز کا شوق، موسیقی اور گائیکی کا ذوق پیدا ہوا اور انھوں نے اسی فن میں نام و مقام حاصل کیا۔

    اے حمید کے فلمی کیریئر کا آغاز فلم انجام سے ہوا۔ فلمی دنیا میں موسیقار کی حیثیت سے ان کی شہرت کا آغاز ہدایت کار ایس ایم یوسف کی فلم سہیلی سے ہوا۔ اے حمید کی دیگر فلموں میں رات کے راہی، اولاد، آشیانہ، شریکِ حیات، پیغام، دوستی، جواب دو، ثریا بھوپالی، انگارے، بیگم جان اور نیا انداز سرِفہرست ہیں۔ انھوں نے بہترین موسیقار کا نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا تھا۔ انھیں یہ ایوارڈ "چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے” جیسے خوب صورت گیت کی لازوال دھن تخلیق کرنے پر دیا گیا تھا۔

    پاکستانی فلموں کے دیگر مقبول گیتوں میں "ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے، کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا، تھا یقیں کہ آئیں گی یہ راتاں کبھی، کس نام سے پکاروں کیا نام ہے تمہارا، یہ وادیاں یہ پربتوں کی شاہ زادیاں” شامل ہیں جن کی دھنیں اے حمید کی تخلیق کردہ ہیں۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس باکمال موسیقار کو راولپنڈی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ اے حمید نے اردو کے علاوہ متعدد پنجابی فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی۔