Tag: 2001 برسی

  • قتیل شفائی:‌ معروف غزل گو شاعر اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    قتیل شفائی:‌ معروف غزل گو شاعر اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    قتیل شفائی کو اردو ادب میں بہترین غزل گو شاعر اور مقبول ترین فلمی گیت نگار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ نصف صدی پر محیط اپنے فلمی کیریئر کے دوران انھوں نے کئی گیت تحریر کیے جو یادگار ثابت ہوئے۔ آج بھی قتیل شفائی کی فلمی شاعری مشہور گلوکاروں کی آواز میں ہماری سماعتوں میں رس گھول رہی ہے۔

    قتیل شفائی کا تعلق ہزارہ ڈویژن کے شہر ہری پور سے تھا۔ وہ 1919ء میں‌ پیدا ہوئے۔ چھوٹی عمر میں‌ ان کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ قتیل شفائی ایک پسماندہ علاقے کے ایسے ماحول میں پروان چڑھ رہے تھے جس میں علم و ادب سے کسی کو سروکار نہ تھا۔ قتیل شفائی نے معاش کے لیے ابتداً جو کوششیں کیں، ان میں کھیل کے سامان کی دکان کے علاوہ راولپنڈی جاکر ٹرانسپورٹ کمپنی کے لیے کام کرنا شامل ہے۔ وہ اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں، ’’مَیں ایک ایسے علاقے میں پیدا ہوا، جہاں علم و ادب کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔ قدرتی مناظر سے تو بھرپور تھا لیکن علم و ادب کے حوالے سے وہ ایک بنجر علاقہ تھا، سوائے اس کے کہ باہر سے کچھ پرچے آتے تھے۔ ’زمیندار‘ آتا تھا، جس میں مولانا ظفر علی خاں کی نظمیں ہوتی تھیں۔ کچھ علامہ اقبال کا احوال لکھا ہوتا تھا۔ پھر کچھ عرصے بعد اختر شیرانی کا چرچا ہوا تو لوگ رومان کی طرف لگ گئے۔‘‘

    قتیل شفائی اسکول کے زمانے میں ہی شعر و ادب سے لگاؤ رکھتے تھے اور اسی سبب بزمِ ادب کے عہدے دار بنا دیے گئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں:’’میں نے شعر و شاعری کا سلسلہ اسکول سے شروع کیا، جہاں بزم ادب میں سیکرٹری چنا گیا۔ وہاں مقابلوں میں کچھ حوصلہ افزائی ہوئی۔ تب محسوس ہوا کہ کوئی چیز اندر موجود ہے، جو میری وساطت سے باہر آنا چاہتی ہے۔ اور وہ، ظاہر ہے، شاعری تھی۔ قابلِ فخر بات میرے لیے یہ ہے کہ اُس پورے علاقے میں پہلا مشاعرہ میں نے 1939ء میں کروایا تھا، علامہ اقبال کی پہلی برسی کے موقع پر۔ آج وہاں یہ حالت ہے کہ جگہ جگہ شاعری کا چرچا ہے، اچھے اچھے شاعر پیدا ہوئے ہیں۔ تو یہ میرا آغاز تھا۔‘‘

    بعد میں‌ قتیل شفائی لاہور منتقل ہوگئے اور وہیں فلمی دنیا میں بطور گیت نگار قدم رکھنے کا موقع ملا۔ انھوں نے عمر کے آخری برسوں میں بھارتی فلموں کے لیے بھی کئی گیت لکھے، جو بہت مقبول ہوئے۔ ان میں ’تیرے در پر صنم چلے آئے‘ یا پھر ’سنبھالا ہے مَیں نے بہت اپنے دل کو‘ شامل ہیں۔ اگرچہ فلموں کے لیے گیت نگاری قتیل شفائی کی نمایاں وجہِ شہرت بنی لیکن خود انہیں ہمیشہ اس بات پر اصرار رہا کہ شعر و ادب ہی اُن کا خاص میدان ہے۔ فلمی گیت نگاری کو وہ محض ذریعۂ روزگار تصور کرتے تھے۔ قتیل شفائی نے فلموں کے لیے دو ہزار سے زائد گیت لکھے جب کہ اُن کی شاعری کے بیس سے زائد مجموعے زیورِ طبع سے آراستہ ہوئے اور باذوق قارئین نے انھیں پسند کیا۔

    قیام پاکستان کے بعد یہاں بننے والی پہلی فلم ’تیری یاد‘ تھی اور اسی فلم سے قتیل شفائی نے اپنی گیت نگاری کا آغاز کیا تھا۔ ان کے تحریر کردہ فلمی نغمات سرحد پار بھی مقبول ہوئے اور پھر انھیں بولی وڈ کے لیے بھی لکھنے کا موقع دیا گیا۔ قتیل شفائی کے پاکستانی فلموں کے لیے لکھے گئے مقبول ترین نغمات میں ’صدا ہوں اپنے پیار کی‘، ’اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں‘، ’یوں زندگی کی راہ سے ٹکرا گیا کوئی‘ دل دیتا ہے رو رو دہائی، کسی سے کوئی پیار نہ کرے، حسن کو چاند، جوانی کو کنول کہتے ہیں، جھوم اے دل وہ میرا جان بہار آئے گا، کیا ہے جو پیار، وہ پڑے گا نبھانا…. شامل ہیں۔

    غزل گو شاعر اور فلمی گیت نگار قتیل شفائی کو ان کی ادبی خدمات اور فلمی دنیا کے لیے بہترین کام پر کئی اعزازات دیے گئے اور 1994ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا۔

    قتیل شفائی نے اپنی آپ بیتی بھی تحریر کی تھی جس میں وہ لکھتے ہیں‌، میں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ اس لحاظ سے قطعاً غیر ادبی اور غیر علمی تھا کہ اس ماحول سے وابستہ لوگ ‘جن میں میرا اپنا خاندان بھی شامل تھا‘ پیسے کے پیچھے بھاگ رہے تھے اور انہیں اس چیز کا قطعاً احساس نہیں تھا کہ علم بھی زندگی کے لیے ضروری ہے اور علم سے آگے بڑھنے والا ایک راستہ ادب کا بھی ہوتا ہے۔ انھوں نے مزید لکھا، یہ اس زمانے کی بات ہے جب انگریز کا پرچم اپنی پوری شان کے ساتھ فضاؤں میں لہرار ہا تھا اور لوگوں کو غیر ملکی غلامی کے ماحول میں اور فکر کم ہوتی تھی، پیسہ کمانے کی فکر زیادہ ہوتی تھی یا پھر سرکاری دربار میں رسائی حاصل کرنے کے مواقع تلاش کرنا ان کا مطمحِ نظر ہوتا تھا۔ میرے خاندان کا المیہ یہ تھا کہ ہر شخص تقریباً لکھ پتی تھا لیکن تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے کوئی سرکاری دربار میں اوپر تک تو نہیں پہنچ سکا مگر ان پڑھ ہونے کے باوجود مقامی میونسپلٹی کی پریذیڈنٹ شپ تک ان لوگوں میں سے گئے۔

    اپنے والدین اور اپنی پیدائش سے متعلق وہ لکھتے ہیں، میں جب پیدا ہوا تو اس وقت مجھ سے پہلے گھر میں کوئی اولاد نہیں تھی۔ معاملہ یہ تھا کہ میرے باپ نے جب پہلی شادی کی تو کافی عرصہ تک کوئی اولاد نہ ہوئی۔ یوں ان کے والد نے مجبوراً دوسری شادی کی جس سے ان کو خدا نے ایک بیٹا اور بیٹی سے نوازا اور ان میں قتیل شفائی پہلی اولاد تھے۔ قتیل شفائی اس بارے میں‌ لکھتے ہیں، چونکہ یہ میرے والد کی پہلی اولاد تھی اس لئے میری پیدائش پر بہت جشن منایا گیا۔ میری تولد ہونے کے تین سال بعد میری بہن پیدا ہوئی اور خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اسی دوران پہلی ماں (والد کی پہلی زوجہ) سے بھی ایک بچّہ ہو گیا اور وہ ہمارے گھر میں آخری بچّہ تھا۔

    قتیل شفائی کا اصل نام محمد اورنگ زیب تھا۔ قتیل ان کا تخلص اور شفائی کا لاحقہ انھوں نے اپنے استاد حکیم محمد یحییٰ شفا کانپوری کی نسبت سے لگایا تھا۔ اسی نام سے وہ اردو ادب اور فلمی دنیا میں پہچانے گئے۔

    11 جولائی 2001ء کو قتیل شفائی لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں علاّمہ اقبال ٹاؤن کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • اشوک کمار ‘بَن کا پنچھی’

    اشوک کمار ‘بَن کا پنچھی’

    ہندوستانی فلمی صنعت میں اشوک کمار کو بہ طور اداکار خوب شہرت ملی، لیکن انھوں نے اداکاری کے ساتھ ساتھ گلوکاری بھی کی اور فلم ساز و ہدایت کار کے طور پر کام کیا اشوک کمار کو متعدد فلمی ایوارڈز دیے گئے۔ اشوک کمار 2001ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔

    بولی وڈ اداکار اشوک کمار نے فلموں کے علاوہ درجنوں بنگالی ڈراموں میں‌ بھی کام کیا اور ہر میڈیم کے ناظرین کو اپنی پرفارمنس سے متاثر کرنے میں کام یاب رہے۔ اشوک کمار کا فلمی کیریئر پانچ دہائیوں سے زائد عرصہ پر محیط تھا۔

    فلمی دنیا میں اشوک کے قدم رکھنے اور ایک خوب صورت ہیروئن کے ساتھ اس کی جوڑی مقبول ہونے کا قصہ اردو کے ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے یوں بیان کیا ہے: ہمانسو رائے ایک بے حد محنتی اور دوسروں سے الگ تھلگ رہ کر خاموشی سے اپنے کام میں شب و روز منہمک رہنے والے فلم ساز تھے۔ انہوں نے بمبے ٹاکیز کی نیو کچھ اس طرح ڈالی تھی کہ وہ ایک باوقار درس گاہ معلوم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بمبئی شہر سے دور مضافات میں ایک گاؤں کو جس کا نام ’’ملاڈ‘‘ ہے اپنی فلم کمپنی کے لیے منتخب کیا تھا۔ وہ باہر کا آدمی نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے کہ باہر کے آدمیوں کے متعلق ان کی رائے اچھی نہیں تھی۔ (نجمُ الحسن بھی باہر کا آدمی تھا)

    یہاں پھر ایس مکر جی نے اپنے جذباتی آقا کی مدد کی۔ ان کا سالا اشوک کمار بی ایس سی پاس کر کے ایک برس کلکتے میں وکالت پڑھنے کے بعد بمبے ٹاکیز کی لیبارٹری میں بغیر تنخواہ کے کام سیکھ رہا تھا۔ ناک نقشہ اچھا تھا۔ تھوڑا بہت گا بجا بھی لیتا تھا۔ مکر جی نے چنانچہ برسبیلِ تذکرہ ہیرو کے لیے اس کا نام لیا۔ ہمانسو رائے کی ساری زندگی تجربوں سے دو چار رہی تھی۔ انہوں نے کہا دیکھ لیتے ہیں۔

    جرمن کیمرہ مین درشنگ نے اشوک کا ٹیسٹ لیا۔ ہمانسو رائے نے دیکھا اور پاس کر دیا۔ جرمن فلم ڈائریکٹر فرانزاوسٹن کی رائے ان کے برعکس تھی۔ مگر بمبے ٹاکیز میں کس کی مجال کہ ہمانسو رائے کی رائے کے خلاف اظہارِ خیال کرسکے۔ چنانچہ اشوک کمار گانگولی جو ان دنوں بمشکل بائیس برس کا ہوگا، دیوکا رانی کا ہیرو منتخب ہوگیا۔

    ایک فلم بنا۔ دو فلم بنے۔ کئی فلم بنے اور دیوکا رانی اور اشوک کمار کا نہ جدا ہونے والا فلمی جوڑا بن گیا۔ ان فلموں میں سے اکثر بہت کام یاب ہوئے۔ گڑیا سی دیوکا رانی، اور بڑا ہی بے ضرر اشوک کمار، دونوں سیلو لائڈ پر شیر و شکر ہو کر آتے تو بہت ہی پیارے لگتے۔ معصوم ادائیں، الہڑ غمزے۔ بڑا ہنسائی قسم کا عشق۔

    لوگوں کو جارحانہ عشق کرنے اور دیکھنے کے شوق تھے۔ یہ نرم و نازک اور لچکیلا عشق بہت پسند آیا۔ خاص طور پر اس نئے فلمی جوڑے کے گرویدہ ہوگئے۔ اسکولوں اور کالجوں میں طالبات کا ( خصوصاً ان دنوں) آئیڈیل ہیرو اشوک کمار تھا اور کالجوں کے لڑکے لمبی اور کھلی آستینوں والے بنگالی کرتے پہن کر گاتے پھرتے تھے۔

    تُو بَن کی چڑیا، میں بَن کا پنچھی…. بَن بن بولوں رے

    اشوک کمار کو دو مرتبہ بہترین اداکار کے فلم فیئر ایوارڈ، سنہ 1988ء میں ہندی سنیما کے سب سے بڑے ایوارڈ دادا صاحب پھالکے اور 1999ء میں پدم بھوشن سے نوازا گیا۔

    اشوک کمار کی پیدائش بہار کے بھاگلپور شہر میں 13 اکتوبر 1911 کو ایک متوسط طبقے کے بنگالی خاندان میں ہوئی تھی۔ اشوک کمار نے اپنی ابتدائی تعلیم کھندوا شہر سے مکمل کی اور گریجویشن الہ آباد یونیورسٹی سے کیا اور یہیں ان کی دوستی ششادھر مکر جی سے ہوئی جو ان کے ساتھ پڑھتے تھے۔ جلد ہی دوستی کا یہ تعلق ایک رشتے میں تبدیل ہوگیا۔ اشوک کمار کی بہن کی شادی مکر جی سے ہوگئی اور اشوک ان کے سالے بن گئے اور انہی کے طفیل فلم نگری میں وارد ہوئے۔

    اشوک کمار کو فلمی دنیا کا سب سے شرمیلا ہیرو مانا جاتا تھا۔ "اچھوت کنیا، قسمت، چلتی کا نام گاڑی، خوب صورت” اور” کھٹا میٹھا "ان کی کام یاب ترین فلمیں ٹھہریں۔ انھوں نے لگ بھگ 300 فلموں میں کام کیا۔

  • عدیم ہاشمی:‌ مشہور شاعر اور ڈرامہ نگار کی برسی

    عدیم ہاشمی:‌ مشہور شاعر اور ڈرامہ نگار کی برسی

    عدیم ہاشمی کی وجہِ شہرت شاعری اور ڈرامہ نگاری ہے۔ انھیں شعر و سخن کی دنیا میں اُن کے منفرد لب و لہجے نے مقبولیت دی اور ان کے تحریر کردہ ڈرامے بھی یادگار ثابت ہوئے۔

    ممتاز شاعر، ادیب اور ڈرامہ نگار عدیم ہاشمی 5 نومبر 2001ء میں شکاگو میں انتقال کرگئے تھے۔ عدیم ہاشمی کا اصل نام فصیح الدّین تھا۔ ان کا تعلق متحدہ ہندوستان کے شہر ڈلہوزی سے تھا جہاں عدیم ہاشمی یکم اگست 1946ء کو پیدا ہوئے۔ عدیم ہاشمی کی زندگی کا ایک عرصہ فیصل آباد میں گزرا۔ 1970ء میں وہ لاہور آگئے تھے۔ یہاں ان کا کلام ادبی جریدوں میں باقاعدگی سے چھپنے لگا اور وہ ادبی حلقوں میں جگہ بنانے کے ساتھ قارئین میں مقبول ہونے لگے۔ اس دوران انھوں نے ریڈیو اور ٹی وی کے لیے گیت نگاری بھی کی۔

    جدید اردو شعرا میں عدیم ہاشمی اپنے منفرد لب و لہجے کے سبب ممتاز ہوئے۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شایع ہوئے جن میں ترکش، مکالمہ، فاصلے ایسے بھی ہوں گے، مجھے تم سے محبت ہے، چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے، کہو کتنی محبت ہے سرفہرست ہیں۔

    پاکستان میں ٹیلی وژن کے ناظرین میں عدیم ہاشمی نے ایک ڈرامہ نویس کے طور پر بھی پہچان بنائی۔ ’’آغوش‘‘ ان کا تحریر کردہ وہ ڈرامہ تھا جسے ملک بھر میں ناظرین نے دیکھا اور بہت پسند کیا۔ اپنے وقت کی اس کام یاب ڈرامہ سیریل کے علاوہ عدیم ہاشمی نے مزاحیہ ڈرامہ سیریز گیسٹ ہاؤس کی چند کہانیاں‌ بھی تحریر کی تھیں۔

    عدیم ہاشمی کی ایک غزل بہت مشہور ہے جسے غلام علی کی آواز میں آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
    سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

    وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سُو
    میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا

    رات بھر پچھلی سی آہٹ کان میں آتی رہی
    جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا

    میں تری صورت لیے سارے زمانے میں پھرا
    ساری دنیا میں مگر کوئی ترے جیسا نہ تھا

    آج ملنے کی خوشی میں صرف میں جاگا نہیں
    تیری آنکھوں سے بھی لگتا ہے کہ تو سویا نہ تھا

    یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیمؔ
    بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارا نہ تھا

    عدیم ہاشمی کو امریکا کے شہر شکاگو کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • قتیل شفائی: ‘حیرت ہے کہ تو اتنے برس کیسے جیا ہے!’

    قتیل شفائی: ‘حیرت ہے کہ تو اتنے برس کیسے جیا ہے!’

    قتیل شفائی کی ایک غزل کا شعر ہے

    پھیلا ہے ترا کرب قتیلؔ آدھی صدی پر
    حیرت ہے کہ تو اتنے برس کیسے جیا ہے

    فلمی نغمہ نگار کے طور پر مقبول اور غزل کے عمدہ شاعر کی حیثیت سے قتیل شفائی کو اردو ادب میں بڑے احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کا فلمی سفر نصف صدی پر محیط تھا جس میں ان کے تحریر کردہ کئی گیت یادگار رہے اور آج بھی مقبول ہیں۔

    قتیل شفائی کا تعلق ہزارہ ڈویژن کے شہر ہری پور سے تھا، جہاں وہ 1919ء میں‌ پیدا ہوئے۔ چھوٹی عمر میں‌ اپنے والد کے سائے سے محروم ہوگئے تھے۔ اپنے ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا تھا، ’’مَیں ایک ایسے علاقے میں پیدا ہوا، جہاں علم و ادب کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔ قدرتی مناظر سے تو بھرپور تھا لیکن علم و ادب کے حوالے سے وہ ایک بنجر علاقہ تھا، سوائے اس کے کہ باہر سے کچھ پرچے آتے تھے۔ ’زمیندار‘ آتا تھا، جس میں مولانا ظفر علی خاں کی نظمیں ہوتی تھیں۔ کچھ علامہ اقبال کا احوال لکھا ہوتا تھا۔ پھر کچھ عرصے بعد اختر شیرانی کا چرچا ہوا تو لوگ رومان کی طرف لگ گئے۔‘‘

    قتیل شفائی نے گیت نگاری کا آغاز پاکستانی فلموں سے کیا تاہم عمر کے آخری برسوں میں کئی بھارتی فلموں کے لیے بھی گیت لکھے، جو بہت مقبول ہوئے، جیسے ’تیرے در پر صنم چلے آئے‘ یا پھر ’سنبھالا ہے مَیں نے بہت اپنے دل کو‘ وغیرہ۔ قتیل شفائی اسکول کے زمانے میں ہی شعر و ادب سے اپنے لگاؤ کے سبب بزمِ ادب کے عہدے دار بنا دیے گئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں:’’میں نے شعر و شاعری کا سلسلہ اسکول سے شروع کیا، جہاں بزم ادب میں سیکرٹری چنا گیا۔ وہاں مقابلوں میں کچھ حوصلہ افزائی ہوئی۔ تب محسوس ہوا کہ کوئی چیز اندر موجود ہے، جو میری وساطت سے باہر آنا چاہتی ہے۔ اور وہ، ظاہر ہے، شاعری تھی۔ قابلِ فخر بات میرے لیے یہ ہے کہ اُس پورے علاقے میں پہلا مشاعرہ میں نے 1939ء میں کروایا تھا، علامہ اقبال کی پہلی برسی کے موقع پر۔ آج وہاں یہ حالت ہے کہ جگہ جگہ شاعری کا چرچا ہے، اچھے اچھے شاعر پیدا ہوئے ہیں۔ تو یہ میرا آغاز تھا۔‘‘

    اگرچہ فلموں کے لیے گیت نگاری قتیل شفائی کی نمایاں وجہِ شہرت بنی لیکن خود انہیں ہمیشہ اس بات پر اصرار رہا کہ شعر و ادب ہی اُن کا خاص میدان ہے۔ فلمی گیت نگاری کو وہ محض ذریعۂ روزگار تصور کرتے تھے۔ قتیل شفائی نے فلموں کے لیے دو ہزار سے زائد گیت لکھے جب کہ اُن کی شاعری کے بیس سے زائد مجموعے زیورِ طبع سے آراستہ ہوئے اور باذوق قارئین نے انھیں پسند کیا۔

    پاکستان کی پہلی فلم ’تیری یاد‘ سے قتیل شفائی نے فلمی گیت نگاری کا آغاز کیا تھا اور عمر کے آخری ادوار میں بھارتی فلموں‌ کے لیے بھی شاعری کی۔

    ان کے پاکستانی فلموں کے لیے لکھے گئے نغمات کو سرحد پار بھی مقبولیت ملی۔ ان کے مقبول عام گیتوں میں ’صدا ہوں اپنے پیار کی‘، ’اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں‘، ’یوں زندگی کی راہ سے ٹکرا گیا کوئی‘ دل دیتا ہے رو رو دہائی، کسی سے کوئی پیار نہ کرے، حسن کو چاند، جوانی کو کنول کہتے ہیں، جھوم اے دل وہ میرا جان بہار آئے گا، کیا ہے جو پیار، وہ پڑے گا نبھانا…. شامل ہیں۔

    قتیل شفائی کو ان کے فلمی گیتوں پر متعدد خصوصی اعزازات سے نوازا گیا جب کہ 1994ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں تمغائے حسنِ کارکردگی دیا تھا۔

    قتیل شفائی نے اپنی آپ بیتی میں‌ لکھا تھا، میں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ اس لحاظ سے قطعاً غیر ادبی اور غیر علمی تھا کہ اس ماحول سے وابستہ لوگ ‘جن میں میرا اپنا خاندان بھی شامل تھا‘ پیسے کے پیچھے بھاگ رہے تھے اور انہیں اس چیز کا قطعاً احساس نہیں تھا کہ علم بھی زندگی کے لیے ضروری ہے اور علم سے آگے بڑھنے والا ایک راستہ ادب کا بھی ہوتا ہے۔

    وہ مزید لکھتے ہیں، یہ اس زمانے کی بات ہے جب انگریز کا پرچم اپنی پوری شان کے ساتھ فضاؤں میں لہرار ہا تھا اور لوگوں کو غیر ملکی غلامی کے ماحول میں اور فکر کم ہوتی تھی پیسہ کمانے کی فکر زیادہ ہوتی تھی یا پھر سرکاری دربار میں رسائی حاصل کرنے کے مواقع تلاش کرنا ان کا مطمحِ نظر ہوتا تھا۔ میرے خاندان کا المیہ یہ تھا کہ ہر شخص تقریباً لکھ پتی تھا لیکن تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے کوئی سرکاری دربار میں اوپر تک تو نہیں پہنچ سکا مگر ان پڑھ ہونے کے باوجود مقامی میونسپلٹی کی پریذیڈنٹ شپ تک ان لوگوں میں سے گئے۔

    میں جب پیدا ہوا تو اس وقت مجھ سے پہلے گھر میں کوئی اولاد نہیں تھی۔ معاملہ یہ تھا کہ میرے باپ نے جب پہلی شادی کی تو کافی عرصہ تک کوئی اولاد نہ ہوئی۔ خاندان کے اور گھریلو مشورے سے انہیں مجبوراً دوسری شادی کرنا پڑی۔ دوسری بیوی سے بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئے جن میں قتیل شفائی پہلی اولاد تھے۔ قتیل شفائی اس بارے میں‌ لکھتے ہیں، چونکہ یہ میرے والد کی پہلی اولاد تھی اس لئے میری پیدائش پر بہت جشن منایا گیا۔ میری تولد ہونے کے تین سال بعد میری بہن پیدا ہوئی اور خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اسی دوران پہلی ماں(والد کی پہلی زوجہ) سے بھی ایک بچّہ ہو گیا اور وہ ہمارے گھر میں آخری بچّہ تھا۔

    ان کا اصل نام محمد اورنگ زیب تھا جب کہ قتیل ان کا تخلص اور شفائی کا لاحقہ انھوں نے اپنے استاد حکیم محمد یحییٰ شفا کانپوری کی نسبت سے لگایا اور اسی سے شہرت پائی۔

    11 جولائی 2001ء کو اردو کے اس معروف شاعر اور کئی مقبول فلمی گیتوں کے خالق نے لاہور میں وفات پائی اور علاّمہ اقبال ٹاؤن کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

    قتیل شفائی کے کلام سے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    پریشاں رات ساری ہے ستارو تم تو سو جاؤ
    سکوتِ مرگ طاری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

    ہمیں تو آج کی شب پو پھٹے تک جاگنا ہوگا
    یہی قسمت ہماری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

    تمہیں کیا آج بھی کوئی اگر ملنے نہیں آیا
    یہ بازی ہم نے ہاری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

    کہے جاتے ہو رو رو کر ہمارا حال دنیا سے
    یہ کیسی رازداری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

    ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے
    ابھی کچھ بے قراری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

    قتیل شفائی کی ایک مقبول غزل پیشِ خدمت ہے

    گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
    ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں

    شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے
    ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں

    بچ نکلتے ہیں اگر آتش سیال سے ہم
    شعلۂ عارض گلفام سے جل جاتے ہیں

    خود نمائی تو نہیں شیوۂ اربابِ وفا
    جن کو جلنا ہو وہ آرام سے جل جاتے ہیں

    ربطِ باہم پہ ہمیں کیا نہ کہیں گے دشمن
    آشنا جب ترے پیغام سے جل جاتے ہیں

    جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
    جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں