Tag: 2002 وفات

  • سُرور: ایک نکتہ شناس، سر بَر آوردہ نقاد

    سُرور: ایک نکتہ شناس، سر بَر آوردہ نقاد

    سُرور صاحب کی علمی و ادبی خدمات کا دائرہ وسیع ہے۔ آلِ احمد سُرور ایک نکتہ شناس، بلند فکر کے حامل نثر نگار، شاعر، سوانح نگار، صحافی اور قابل استاد بھی تھے۔ اردو زبان میں تنقید کے میدان میں انھوں نے نئے چراغ روشن کیے اور اپنی تحریروں سے اردو زبان و ادب کو مالا مال کیا۔

    آلِ احمد سرور نے ترقّی پسند تحریک، حلقۂ اربابِ ذوق اور ادب میں جدیدیت کو رنگ جماتے دیکھا اور اس کا اثر بھی قبول کیا، لیکن کسی ایک تحریک سے بندھے نہیں رہے۔ تقسیم ہند کے بعد انھوں نے بھارت ہی میں رہنا پسند کیا اور وہیں وفات پائی۔ دنیائے شعر و ادب میں سُرور اپنے وسیع مطالعہ کے ساتھ تجزیاتی فکر اور منفرد طرزِ تحریر کے سبب بلند مقام رکھتے ہیں۔

    انھوں نے تنقید کے میدان خاص مقام بنایا اور برصغیر کے عظیم شعرا میر، غالب اور اقبال پر خوب کام کیا۔ آج آلِ احمد سرور کی برسی ہے۔ ان کا تعلق بدایوں سے تھا۔ ایک انٹرویو میں آلِ احمد سرور نے اپنے وطن کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ :

    "شاید یہ بات تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ میرا آبائی وطن بدایوں ہے۔ بدایوں ایک تاریخی شہر ہے اور وہاں کے کھنڈر اور ٹوٹی پھوٹی حویلیاں اب بھی اُس کی گزشتہ عظمت کی یاد دلاتی ہیں۔ یہ بستی قدیم زمانے سے علماء و فضلا، شعرا اور صوفیائے کرام کا مرکز رہی ہے۔ میرے بچپن کا زمانہ وہیں گذرا میں نے جب آنکھ کھولی تو گھر گھر شعر و شاعری کا چرچا تھا۔ آئے دن مشاعرے ہوتے جس میں باہر سے مشہور شعرا شریک ہونے کے لیے آتے اور بدایوں کے چھوٹے بڑے سبھی اپنا کلام سناتے۔ وہاں بزرگوں کے مزار بڑی کثرت سے ہیں۔ جن کے عرس بڑی دھوم دھام سے منائے جاتے ہیں۔ بدایوں کی تہذیبی و سماجی زندگی میں ان کی بڑی اہمیت ہے۔ اس موقع پر کھیل تماشے اور میلے ٹھیلے کے علاوہ مشاعروں کا بھی رواج تھا۔”

    پروفیسر صاحب کی تاریخ‌ِ پیدائش 9 ستمبر 1911ء ہے۔ 1928ء میں ہائی اسکول پاس کیا اور سینٹ جانس کالج آگرہ سے بی ایس سی کی سند لے کر 1932ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کیا۔ 1936 میں اسی جامعہ سے اردو میں ایم اے کیا۔ 1938ء میں شعبۂ اردو میں لیکچرر ہوگئے۔ 1946 سے 1955 تک لکھنؤ یونیورسٹی میں تدریس سے منسلک رہے اور پھر علی گڑھ میں صدرِ شعبہ ہوئے۔

    لکھنؤ میں اپنے قیام کے دوران آل احمد سرور ترقی پسند تحریک سے قریب ہوئے اور انجمن کے جلسوں میں شرکت کی، لیکن کبھی نظریاتی جبر کا شکار نہیں رہے۔ ان کی ترقی پسند فکر ہمیشہ انسان دوستی کی علم بردار رہی۔ سرمایہ داری اور رجعت پسندی کے مخالف سُرور نے ادب میں اس ہنگامی اور انقلابی تصور کا ساتھ نہیں دیا جس کا پرچار اس وقت جوشیلے نوجوان کر رہے تھے۔

    سُرور کا شمار ان اہلِ قلم میں ہوتا ہے جو مغربی اور مشرقی ادب کے مطالعے کے بعد تنقید کے میدان میں اترے تھے۔ اسی وصف کی بنیاد پر ان کی تنقید میں مغرب سے استفادہ اور مشرقی رچاؤ بھی نظر آتا ہے۔

    بطور شاعر سُرور کو دیکھا جائے تو ہم ان کی غزلوں اور نظموں میں فکر انگیزی، کلاسیکی رچاؤ اور تازہ کاری محسوس کرتے ہیں۔

    آل احمد سرور کی تنقیدی اور شعری کاوشیں کتابی شکل میں ’نئے اور پرانے نظریے‘، ’تنقید کیا ہے‘، ’ادب اور نظریہ‘، ’مسرت سے بصیرت تک‘ ،’اقبال کا نظریہ اور شاعری‘ ’ذوقِ جنوں‘ (شاعری) ’خواب باقی ہیں‘(خودنوشت) کے نام سے شایع ہوئیں۔

    وہ دلّی میں مقیم تھے اور وہیں 9 فروری 2002ء کو انتقال کیا۔ آلِ احمد سُرور کو پدما بھوشن اور ساہتیا اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

  • محمد خالد اختر: جداگانہ اسلوب کے حامل مزاح نگار

    محمد خالد اختر: جداگانہ اسلوب کے حامل مزاح نگار

    شہرت اور ستائش سے بے نیاز محمد خالد اختر ایک ایسے ادیب اور مزاح نگار تھے جن کی تخلیقات اور اسلوب نے باذوق قارئین ہی کو متوجہ نہیں کیا بلکہ مشاہیرِ ادب اور ہم عصر اہلِ قلم کو بھی ان کا مداح بنا دیا۔ آج خالد اختر کی برسی ہے۔

    اردو زبان کے اس منفرد مزاح نگار اور صاحبِ طرز ادیب نے 2 فروری 2002ء کو کراچی میں وفات پائی۔ محمد خالد اختر نے زندگی کی 90 بہاریں دیکھیں۔

    اردو کے ممتاز مزاح گو شاعر اور ادیب ابنِ انشاء نے خالد اختر کے اسلوب اور طرزِ تحریر سے متعلق کہا تھا: "محمد خالد اختر کو پڑھنے والا اکثر یہ بھول جاتا ہے کہ وہ اردو پڑھ رہا ہے۔ اس میں انگریزی الفاظ کی بھرمار بھی نہیں ہے لیکن جملوں کی ساخت سراسر انگریزی ہے۔ شروع شروع میں یہ انداز غریب اور اکھڑا اکھڑا معلوم ہوتا ہے لیکن بعد میں اس میں بانکپن کا لطف آنے لگتا ہے۔”

    ممتاز ادیب و انشاء پرداز محمد کاظم نے شاید اسی بات کو اپنے انداز سے یوں بیان کیا: "اس اسلوب میں ضرور ایک اجنبی زبان کا اثر ہے، لیکن اس کے طنز و مزاح کا ماحول، اس کے افراد اور ان کی گفتگو اور چلت پھرت سب کچھ یہیں کا ہے اور دیسی ہے۔ “

    چاکیواڑہ میں وصال محمد خالد اختر کا وہ ناول تھا جس نے اردو ادب اور ہر طبقۂ قاری کو متأثر کیا اور یہ ناول ان کی وجہِ‌ شہرت بنا۔ شہرۂ آفاق شاعر اور ادیب فیض احمد فیض نے محمد خالد اختر کے اس ناول کو اردو کا اہم ناول قرار دیا تھا اور اس پر فلم بنانے کا ارادہ بھی رکھتے تھے۔

    محمد خالد اختر 23 جنوری 1920ء کو پنجاب کے ضلع بہاولپور کے ایک علاقہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم وہیں اسکول سے حاصل کی جب کہ صادق ایجرٹن کالج سے 1938ء میں بی اے کیا۔ اسکول کے دور میں کچھ عرصہ اردو کے مشہور مزاح نگار شفیق الرّحمٰن ان کے ہم جماعت رہے تھے۔ زمانۂ طالبِ علمی میں پروفیسر پطرس بخاری کی شخصیت کے اسیر ہوئے جب کہ کالج میں احمد ندیم قاسمی کا بھی ساتھ نصیب ہوا۔ قاسمی صاحب ان سے دو برس سینئر اور اگلے درجے میں تھے۔ 1945ء انجینئرنگ کالج سے الیکٹرونکس کے مضمون میں تعلیم مکمل کرکے مزید پڑھنے کے لیے لندن گئے 1948ء میں وطن لوٹے۔ ملازمت کا آغاز الیکٹرک کمپنی سے کیا اور 1952ء میں واپڈا میں بحیثیت انجینئر تعینات ہوگئے اور یہیں سے ریٹائر ہوئے۔

    محمد خالد اختر نے اوائلِ عمری ہی سے لکھنے کا آغاز کر دیا تھا۔ جب وہ ساتویں جماعت میں تھے تو ان کے چند مضامین ماہانہ رسالے “مسلم گوجر“ میں شائع ہوئے۔ مذکورہ رسالہ گورداسپور سے شائع ہوتا تھا۔ نویں جماعت میں محمد خالد اختر کو شاعری کا شوق ہوا اور پندرہ بیس نظمیں بھی کہہ لیں۔ محمد خالد اختر جب انگریزی ادب پڑھنے کی طرف مائل ہوئے تو نئے زاویے سے زندگی کو دیکھنے کا موقع ملا اور غیرملکی ادیبوں کے اسلوب سے بھی واقف ہوئے، انھوں نے انگریزی ادب پڑھنے کے ساتھ اس زبان میں کالج میگزین میں تحریریں بھی شایع کروائیں۔ محمد خالد اختر نے طنز و مزاح لکھا، افسانے اور شخصی خاکے لکھنے کے ساتھ سفر نامہ بھی تحریر کیا اور ہر صنفِ‌ ادب میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

    محمد خالد اختر کی پہلی مزاحیہ تحریر احمد ندیم قاسمی کی سفارش پر مولانا چراغ حسن حسرت نے اپنے ہفتہ وار مزاحیہ پرچے میں شائع کی تھی۔ بعد کے برسوں میں ان کے قلم کی نوک سے مضامین، خاکے، افسانے، ناول اور سفرنامے نکلتے رہے جن میں بیس سو گیارہ وہ ناول تھا جو 1954ء میں پہلی مرتبہ شایع ہوا اور پھر ان کا مشہور ناول چاکیواڑہ میں وصال 1964 میں جب کہ کھویا ہوا افق ان کے افسانے کی کتاب تھی۔ کہانیوں کو انھوں نے چچا عبدالباقی کے عنوان سے کتاب میں یکجا کیا تھا۔ محمد خالد اختر کا ابنِ جُبیر کا سفر 1994 میں شایع ہوا۔

    معروف ادیب مسعود اشعر نے اپنے زمانے کی یادگار محافل کا احوال بیان کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا: ”ملتان میں ریڈیو اسٹیشن نیا نیا کھلا تھا۔ پھر ظہور نظر بھی بہاولپور سے آگئے۔ اب خوب دھما چوکڑی مچنے لگی۔ ظہور نظر کی موجودگی میں اودھم اور دھما چوکڑی ہی مچ سکتی تھی۔ پھر ہم نے سوچا ظہور نظر کے ساتھ شام منائی جائے اور صدارت خالد اختر سے کرائی جائے۔ بڑی منت سماجت کے بعد خالد اختر صدارت کے لیے راضی ہوئے لیکن اس شرط پر کہ وہ کچھ بولیں گے نہیں، دوسروں کی سنتے رہیں گے اور آخر میں شکریہ ادا کر کے جلسہ بر خاست کر دیں گے۔ پھر ہم سب کے کہنے پر وہ مضمون لکھنے کے لیے بھی راضی ہوگئے لیکن اس شرط پر کہ کوئی اور پڑھے۔ اب کیا کیا جائے۔ خالد صاحب کو اپنا مضمون تو خود ہی پڑھنا چاہیے۔ ”یہ مجھ پر چھوڑ دو۔” ظہور نظر نے اعلان کیا۔ ”میں اس بڈھے کی ایسی مت ماروں گا کہ اسے پتہ بھی نہیں چلے گا اور وہ خود ہی اپنا مضمون پڑھ جائے گا۔“

    ”ظہور نظر کی خالد اختر کے ساتھ بہت بے تکلّفی تھی۔ خالد اختر چونکہ جوانی ہی میں بوڑھے لگتے تھے اس لیے ظہور نظر انہیں ہمیشہ بڈھا اور بڈھے کہہ کر پکارتا تھا۔“

    ”آٹھ بجے جلسہ شروع ہوا، اس وقت تک ظہور نظر اپنی سازش میں کام یاب ہو چکا تھا۔ چناچہ خالد اختر جلسے میں پہنچے اور بڑے اعتماد کے ساتھ صرف صدارت ہی نہیں بلکہ اپنا صدارتی مضمون بھی اس دھڑلے سے پڑھا کہ لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔ مضمون میں کوئی ہنسی کی بات آتی تو خود بھی ہنس پڑتے۔ وہی ہنسی جس کے بعد وہ جھینپ جاتے اور شرما کر خاموش ہو جاتے۔ ان کی ہنسی پر لوگ جب قہقہہ لگاتے تو انگریزی میں ظہور نظر کو موٹی سی گالی دیتے اور کہتے: ” ہاں یہ ایسا ہی ہے۔“ اور ہاں! اسی اسٹیج پر ظہور نظر کو ڈانٹ بھی دیا۔ اور ایسا ڈانٹا کہ ظہور نظر دھپ ہوگیا۔ ہوا یوں کہ جب وہ (خالد اختر) اپنا مضمون پڑھنے اٹھے تو کہیں پاؤں لڑکھڑا گیا اور ظہور نظر نے جو اسی جانب بیٹھا تھا، انہیں سنبھالنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ بس پھر کیا تھا۔ یک دَم ڈانٹ پڑی، اس ڈانٹ نے ان کے اندر ایسا اعتماد پیدا کیا کہ پھر کسی شرم اور جھجک کے بغیر اپنا مضمون پڑھ ڈالا۔“

    محمد خالد اختر کراچی میں پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔