Tag: 2005

  • 2005 کے قیامت خیز زلزلہ کے 20 سال بعد 2 افراد کی لاشیں برآمد

    2005 کے قیامت خیز زلزلہ کے 20 سال بعد 2 افراد کی لاشیں برآمد

    8 اکتوبر 2005 کے قیامت خیز زلزلے کو 20 سال ہونے کو ہیں تاہم اتنے طویل عرصہ بعد کھدائی میں مظفر آباد کے ملبے سے دو لاشیں ملی ہیں۔

    مظفر آباد میں گزشتہ دنوں ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ کے ملبے کو ہٹانے کے دوران ایک بڑی عمارت سے ملی ہیں جو زلزلے کے دوران منہدم ہوگئی تھی اور یہاں رہائش پذیر کئی طلبہ ملبے تلے دب گئے تھے۔

    ضلع انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مذکورہ لاشوں کے ڈی این اے نمونے لیے جا رہے ہیں جن کی رپورٹ آنے کے بعد لاشیں ورثا کے حوالے کی جائیں گی۔

    دوسری جانب ضلعی انتظامیہ پلیٹ کے مقام پر مزید لاشیں ملنے کے امکان کے پیش نظر وہاں کھدائی رکوا دی ہے۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ ریڈ کریسنٹ کے یاسر جوش کا کہنا ہے کہ اس مقام پر ریڈ کراس نے بہت سی لاشیں دفنائی تھیں۔

    واضح رہے کہ 8 اکتوبر 2005 کو 7.5 کا زلزلہ آیا تھا جس نے چند سیکنڈوں میں پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر میں قیامت ڈھا دی تھی۔

    اس زلزلے میں بالاکوٹ شہر مکمل تباہ ہوگیا تھا جب کہ مظفر آباد، باغ سمیت آزاد کشمیر کے کئی شہر شدید متاثر ہوئے تھے۔ تباہ کن زلزلے میں 88 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے جب کہ 30 لاکھ سے زائد افراد بے گھر بھی ہوئے تھے۔

    ایک اندازے کے مطابق 12000 طلبا و طالبات اور 1500 سے زائد اساتذہ زلزلے میں زندہ درگور ہوئے، 5 لاکھ سے زائد گھر، سیکڑوں کلومیٹر سٹرکیں، پُل اور ذرائع مواصلات مکمل تباہ ہوئے۔ اس کے علاوہ سول، سرکاری و غیر سرکاری ادارے اس زلزلے کی تباہ کاریوں سے مفلوج ہو چکے تھے۔

  • آج 2005کے زلزلے کو 9سال گزر گئے

    آج 2005کے زلزلے کو 9سال گزر گئے

    کراچی:آٹھ اکتوبردوہزارپانچ کے زلزلے نےایبٹ آباد میں تباہی کی انمٹ نقوش چھوڑ دیئے ہیں، بحالی کے وعدے ہوئے لیکن وعدے ایفا نہ ہوسکے۔

    آٹھ اکتوبردوہزارپانچ کوآنے والا بدترین زلزلہ نو سال گزرنے کے بعد ذہنوں سے نہیں نکل سکا، ہولناک زلزلہ کے متعلق ایبٹ آباد میں دعائیہ تقریبات کا سلسلہ جاری ہے،مختلف مذہبی، سیاسی اورسماجی رہنماؤں نے زلزلے میں جاں بحق ہونے والوں کی یادگاروں پرپھولوں کی چادریں چڑھائیں اورشہدا کے لئےدعائے مغفرت بھی کی گئی۔

     زلزلے میں چھیالیس سوسے زادئد افرادلقمہ اجل بنے اورتین لاکھ سے زائدمکانات تباہ ہوگئے،حکومت کی جانب سے بحالی کے منصوبوں کا آغازتوضرورہوالیکن وہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے۔

    تباہی کی داستانیں رقم کرنے والے اس زلزلے نے اٹھارہ ہزارسے زائد معصوم بچوں کوبھی اُن کی ماؤں سے چھین لیا،اٹھائیس سوسےزائدتعلیمی ادارے ایسے تباہ ہوئے کہ آج تک بچے کھلےآسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پرمجبورہیں۔

    تباہ کن زلزلے کے نوسال بعدبھی زلزلہ متاثرین دوبارہ اپنے آشیانے بسنے اورتوجہ کے منتظرہیں۔