Tag: 2005 برسی

  • رومانوی اور میوزیکل فلموں کے مقبول اداکار رحمان کا تذکرہ

    رومانوی اور میوزیکل فلموں کے مقبول اداکار رحمان کا تذکرہ

    رحمان، پاکستانی فلم انڈسٹری کے ایک مشہور اداکار تھے جنھوں نے رومانوی اور میوزیکل فلموں میں‌ اداکاری سے پہچان بنائی اور بطور ہیرو مقبول ہوئے۔ اردو کے علاوہ انھوں نے بنگالی فلموں میں بھی یادگار کردار نبھائے۔ پاکستانی فلمی صنعت کے زوال کے بعد رحمان بنگلہ دیش چلے گئے تھے اور وہیں وفات پائی۔

    اداکار رحمان کا پورا نام عبدالرحمان تھا۔ انہی کے زمانہ کے ایک ہم نام بھارتی فلم انڈسٹری کے اداکار بھی بہت مشہور تھے جو کئی فلموں میں بطور ہیرو کام نظر آئے مگر ان کا انتقال پاکستانی اداکار رحمان سے بہت پہلے ہوا تھا۔ پاکستانی اداکار رحمان 27 فروری 1937 کو مشرقی ہندوستان کے پنچ گڑھ کے گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے بنگالی اور اردو دونوں زبانوں کی فلموں میں کام کیا۔ وہ سب سے پہلے ہدایت کار احتشام کی بنگالی فلم ’’ایہہ دیش تمارامر‘‘ میں بطور ولن سامنے آئے تھے۔ یہ فلم 1959 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ اس کے بعد انھیں بنگالی اور اردو فلموں میں ہیرو کے طور پر لیا جانے لگا۔ رحمان اور اپنے وقت کی مشہور اداکارہ شبنم کی جوڑی بہت پسند کی گئی۔ انھوں نے 1958 سے لے کر 1970 کے آخر تک کراچی، ڈھاکہ اور لاہور کی فلموں میں کام کیا۔ رحمان نے کچھ فلموں کی ہدایت کاری بھی کی۔ رحمان کی سپرہٹ اردو فلموں میں ’’چندا (1962)، تلاش (1963)، بہانہ (1965)، درشن (1967)، دوستی (1971) اور چاہت (1974)‘‘کے نام لیے جا سکتے ہیں۔

    اداکار رحمان مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں یکساں طور پر فلم بینوں میں مقبول تھے۔ ان کی رومانوی اور میوزیکل فلمیں یادگار ثابت ہوئیں اور ہیرو رحمان پر بڑے شاندار نغمات عکس بند کیے گئے۔ اداکار نے 1974 میں ایک سسپنس فلم ’’دھماکہ‘‘ میں کام کیا تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ فلم ابنِ صفی کے ناول سے ماخوذ تھی، لیکن فلم بری طرح فلاپ ہوئی اور فلم سازوں نے مان لیا کہ رحمان صرف رومانوی اور میوزیکل فلموں کے لیے ہی موزوں ہیں۔

    متحدہ پاکستان کے دور کے اس اداکار نے 60 کی دہائی میں بطور ہدایت کار بھی کام یابیاں سمیٹیں۔ اسی زمانہ میں‌ وہ ایک حادثے کا شکار ہوئے۔ فلم ’’پریت نہ جانے ریت‘‘ کی شوٹنگ کے دوران ایک حادثہ میں وہ اپنی ایک ٹانگ سے محروم ہوگئے اور انھیں مصنوعی ٹانگ لگوانا پڑی۔ رحمان نے دوبارہ فلم انڈسٹری میں‌ کام شروع کیا اور کام یابیوں کا سفر جاری رکھا۔ 1971ء میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد رحمان نے ایک عرصہ پاکستان میں رہے، مگر 90 کی دہائی میں بنگلہ دیش چلے گئے تھے۔

    رحمان کو ایکشن فلموں میں کام کرنا پسند نہیں تھا۔ ان کی اداکاری کا سب سے بڑا وصف فطری پن تھا۔ وہ بڑے دھیمے انداز میں مکالمے بولتے تھے جسے شائقین نے سراہا۔ وہ گانے بھی بڑی عمدگی سے عکس بند کراتے تھے کیوں‌ کہ وہ خود بھی موسیقی اور گائیکی کا عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ ان کی فلموں کے کئی گیت ہٹ ہوئے جن میں یہ موسم یہ مست نظارے (درشن)، تمہارے لیے اس دل میں اتنی محبت ہے (درشن)، پیار بھرے دو شرمیلے نین (چاہت)، ایسے وہ شرمائے (دو ساتھی)، دیکھو یہ کون آ گیا (دو ساتھی) اور دوسرے گیت شامل ہیں۔

    بنگلہ دیش جانے کے بعد رحمان نے وہاں بنگالی فلموں میں کام کیا اور اپنی مقبولیت برقرار رکھی۔ وہ 18 جولائی 2005 کو طویل علالت کے بعد ڈھاکہ میں انتقال کرگئے تھے۔

  • مشفق خواجہ: ایک کھرا ادیب اور جری محقّق

    مشفق خواجہ: ایک کھرا ادیب اور جری محقّق

    مشفق خواجہ نہ صرف فکاہیہ کالم نگاری میں بلکہ اردو طنز و مزاح کی تاریخ میں ایک نہایت اہم اور بڑا نام ہیں۔ انھوں نے موضوع، مواد اور اسلوب ہر سطح پر ندرت کی مثالیں اور انفرادیت کے نقوش چھوڑے ہیں۔ وہ اردو صحافت کے ایک البیلے قلم کار تھے۔

    موضو ع کی سطح پر ان کا سب سے اہم اضافہ تو یہی ہے کہ انھوں نے باضابطہ معاصر ادیب و شعرا اور تازہ ادبی مسائل کو اپنے فکاہیہ کالموں میں سمویا اور یوں ’’ادبی کالم نگاری‘‘ کی داغ بیل پڑی۔

    کون تھا جسے انھوں نے اپنے قلم کی نوک سے نہ گدگدایا ہو اور شعر و ادب میں گروہ بندی، پست تحریروں، شہرت و جاہ اور انعامات کے لیے ادیب و شعرا کی قلابازیوں، داؤ پیچ اور سچ جھوٹ کے ساتھ ان کی بعض حرکتوں پر گرفت نہ کی ہو۔ غیر ادبی عناصر، رجحانات اور تحریکوں کے نام پر ادب کو بے ادبی سکھانے والوں کی نشان دہی اور صنفی تجربات کے نام پر مذاق کرنے والوں‌ کو انھوں نے خوب بے نقاب کیا۔ آج مشفق خواجہ کی برسی ہے۔ 21 فروری 2005ء کو وہ کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ مشفق خواجہ کو صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

    ایک قصّہ پڑھتے چلیے: مشہور ہے کہ ایک مرتبہ جگن ناتھ آزاد (شاعر، ادیب اور محقّق) مشفق خواجہ سے ملاقات کے لیے گئے۔ بات چیت کے دوران جگن ناتھ آزاد نے متعدد بار اپنی کتابوں کی غرقابی کا تذکرہ بڑے ہی درد ناک انداز میں کیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہتے رہے، ’’اس میں نہ صرف مطبوعہ کتابیں ضائع ہوئیں بلکہ کچھ غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی برباد ہوگئے۔‘‘

    خواجہ صاحب نے آٹھ دس مرتبہ سیلاب کی اس دل خراش داستان کو ان کی زبانی سننے کے بعد عرض کیا، ’’اگر اجازت دیں تو ایک درد انگیز واقعہ بلا تشبیہ میں بھی عرض کروں۔‘‘

    آزاد صاحب نے کہا سنائیے، تو خواجہ صاحب بولے: ’’چند برس قبل ایک مشہور ادیب کے ہاں اتفاق سے آگ لگ گئی۔ اس میں ان کے کتب خانے کی بہت سی نادر کتابیں اور غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی جل کر راکھ ہوگئے۔ خانہ سوختہ ادیب کے کچھ دوست اظہار ہمدردی کے لیے آئے اور ان سے افسوس کا اظہار کیا۔ ایک دوست نے اپنے جذبات کا اظہار اس انداز سے کیا۔ ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ کے کتب خانے کا جل جانا ایک درد ناک سانحہ ہے، جہاں مطبوعہ کتابوں کا جل جانا افسوس ناک ہے وہاں غیر مطبوعہ تصانیف کا غیر مطبوعہ رہ جانا اطمینان کا باعث ہے۔ یقیناً یہ آپ کا نقصان ہے لیکن یہ بھی تو دیکھیے آپ کے قارئین بے شمار متوقع نقصانات سے بچ گئے۔‘‘

    اس پر جگن ناتھ آزاد ہنسنے پر مجبور ہوگئے اور جتنے دن مشفق خواجہ کے ساتھ رہے، ان سے اپنی کتابوں کے ضایع ہوجانے کا ذکر نہیں کیا۔

    مشفق خواجہ کو اردو ادب میں‌ ایک شاعر، ادیب، نقّاد اور بلند پایہ محقّق کی حیثیت سے پہچان ملی۔ ان کی وجہِ شہرت خامہ بگوش کے عنوان سے ان کے فکاہیہ کالم بنے۔ اس قلمی نام سے انھوں نے طنز و مزاح اور فکاہیہ نگاری میں اپنے تخلیقی جوہر اور فنی مہارت کا خوب اظہار کیا۔

    ادبی موضوعات، سیاسی اور سماجی مسائل پر مشفق خواجہ ہلکے پھلکے طنز و مزاح کے ساتھ اپنے قارئین میں مقبول تھے۔ وہ ایک طرف طبقاتِ‌ عوام کی زندگی کے مسائل کو اجاگر کرتے تھے تو دوسری طرف مخصوص اور مفاد پرست ادبی ٹولے کی درگت بناتے تھے۔

    ان کا اصل نام خواجہ عبدُالحیّ اور تخلص مشفق تھا۔ 19 دسمبر 1935ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اور بی اے (آنرز) کے بعد 1958ء میں ایم اے (اردو) کیا۔ کئی برس تک انجمن میں علمی و ادارتی شعبہ کے نگراں رہے۔ یہاں خواجہ صاحب نے بحیثیت مدیر ماہ نامہ’’قومی زبان‘‘ سہ ماہی’’اردو‘‘ اور ’’قاموس الکتب‘‘ کے لیے خدمات انجام دیں۔

    مشفق خواجہ کا شمار ان اہلِ قلم اور تخلیق کاروں میں کیا جاتا ہے جنھوں نے تصنیف و تالیف کے میدان میں نہایت معیاری کام کیا۔ ان کی چند کتب ’’غالب اور صفیر بلگرامی‘‘، ’’جائزہ مخطوطاتِ اردو‘‘، ’’خامہ بگوش کے قلم سے ‘‘، ’’سخن در سخن‘‘، ’’سخن ہائے نا گفتنی‘‘، ’’سخن ہائے گسترانہ‘‘(ادبی کالموں کا انتخاب)، ’’ابیات‘‘(شعری مجموعہ)، ’’کلیاتِ یگانہ‘‘(ترتیب وتدوین) کے عنوان سے شایع ہوئیں۔ ریڈیو پاکستان کے لیے ان کے مختلف موضوعات پر فیچر بھی پسند کیے گئے۔

    مشفق خواجہ نے عمر بھر قلم سے اپنا رشتہ استوار رکھا، اُنھیں بلاشبہ اُردو کا کھرا ادیب، اور میدان تحقیق کا جری قرار دیا جاسکتا ہے۔