Tag: 2007 برسی

  • ‘آہو چشم’ راگنی کا تذکرہ جس نے ایک معمولی مکان میں زندگی کے آخری دن بسر کیے

    ‘آہو چشم’ راگنی کا تذکرہ جس نے ایک معمولی مکان میں زندگی کے آخری دن بسر کیے

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں راگنی ‘آہو چشم’ مشہور تھیں۔ روزناموں اور فلمی رسائل میں ان کا ذکر اسی لقب کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ بطور اداکارہ راگنی کا مجموعی کیریئر اتنا متاثر کن نہیں رہا، لیکن خوب صورتی، اور ان کے نشیلے نینوں نے شائقینِ سنیما کو اُن کا دیوانہ بنا دیا تھا۔ راگنی 2007ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئی تھیں۔ آج اداکارہ کی برسی ہے۔

    راگنی نے 1941ء میں مشہور پنجابی فلم دُلا بھٹی میں مرکزی کردار نبھایا تھا اور اسی فلم کے بعد وہ آہو چشم کے نام سے پکاری گئیں۔ ہدایت کار روپ۔ کے۔ شوری نے راگنی کو بطور اداکارہ فلم انڈسٹری میں متعارف کروایا تھا۔ فلم دُلا بھٹی کی نمائش کے موقع پر سنیماؤں پر جو تشہیری بورڈ اور پوسٹر آویزاں تھے، ان پر راگنی کی تصویر نے سنیما بینوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیا تھا۔نشیلی آنکھوں والی اس خوب صورت ہیروئن کی فلم دُلا بھٹی کے متعدد نغمات فلم ریلیز ہونے سے پہلے ہی ہر خاص و عام میں مقبول ہوچکے تھے۔ جب فلم ریلیز ہوئی تو شائقین کی بڑی تعداد نے سنیماؤں‌ کا رخ کیا اور دُلا بھٹی کی شان دار کام یابی کے ساتھ راگنی بھی شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگیں۔

    پاکستانی فلموں کی اس اداکارہ کا اصل نام شمشاد بیگم تھا۔ وہ 1923ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ راگنی کا خاندان بعد میں مشہور ہدایت کار کے ہمسائے میں جا بسا جہاں مسٹر شوری نے شمشاد بیگم کو دیکھا تو اسے فلم میں کام دینے کا ارادہ کیا اور ان کے والد سے اجازت مانگی۔ ان کے ہاں کرنے کی دیر تھی کہ نشیلی آنکھوں والی اس لڑکی کو فلم دُلا بھٹی میں ہیروئن کا کردار سونپ دیا گیا۔ یہ 1940ء کی بات ہے۔ فلم کے ہیرو لاہور کے ایک رنگین مزاج اور وجیہ صورت امیر زادے ایم۔ ڈی۔ کنور تھے جنھیں راگنی کے ساتھ فلمی پردے پر بہت پذیرائی ملی۔

    دُلا بھٹی کے بعد متعدد بڑے فلم سازوں نے راگنی کو اپنی فلموں میں‌ کاسٹ کرنا چاہا، لیکن اداکارہ نے اپنے والد کی اجازت سے فلم ’ہمّت‘ سائن کی۔ اس فلم کے ہدایت کار بھی روپ۔ کے۔ شوری تھے۔ یہ فلم بھی کام یاب رہی اور راگنی کو سنیما بینوں نے بہت سراہا۔ اس کے بعد اداکارہ نے فلم ’سہتی مُراد‘ میں مرکزی کردار ادا کیا جو دراصل پنجاب کی لوک کتھا پر مبنی کہانی تھی۔ اس میں‌ راگنی پر فلمایا ہوا ایک گیت انتہائی مقبول ہوا۔ خوب صورت آنکھوں والی اداکارہ راگنی نے 1941ء ہی میں تیسری کام یاب فلم ’میرا ماہی‘ میں‌ کام کیا اور پھر انھیں بمبئی سے فلم آفر ہوئی۔ لیکن اداکارہ نے انکار کردیا۔ وہ لاہور نہیں چھوڑنا چاہتی تھیں۔ لاہور کی فلمی دنیا میں‌ راگنی نے پونجی، پٹواری، داسی، من مانی، دھمکی، کیسے کہوں اور بِندیا جیسی فلموں میں کام کیا جو بہت کام یاب ثابت ہوئیں۔

    تقسیم سے قبل ایک اور فلم 1946ء میں فرض کے نام سے بنائی گئی جس میں راگنی کے مدمقابل ایک نئے ہیرو کو کاسٹ کیا گیا تھا۔ یہ اداکار سدھیر تھے جنھیں‌ بعد میں بے انتہا مقبولیت ملی اور وہ پاکستانی فلمی دنیا کے جنگجو ہیرو کہلائے۔ شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے کے بعد راگنی نے بمبئی سے بھاری معاوضے پر فلم کی آفر قبول کرلی۔ یہ فلم شاہ جہان تھی جس کے ہدایت کار اے۔ آر کار دار تھے۔ راگنی کے حسن و جمال، سہگل کی آواز اور نوشاد کی موسیقی میں فلم شاہ جہان کو زبردست کام یابی نصیب ہوئی اور ہر طرف راگنی کا ڈنکا بجنے لگا۔ اداکارہ نے فلم کا معاوضہ اُس زمانے میں پچاس ہزار لیا تھا جب اتنی رقم میں پوری فلم پروڈیوس ہوجاتی تھی۔ یہ وہ فلم تھی جس نے راگنی کو پنجاب سے نکال کر ہندوستانی فلم انڈسٹری کے بڑے مراکز کلکتہ اور بمبئی کے ذریعہ ملک بھر میں‌ شہرت دی۔ مشہور ہے کہ ہدایت کار اے۔ آر۔ کاردار نے اگلی فلم کے لیے راگنی سے رابطہ کیا تو اداکارہ نے ایک لاکھ روپے طلب کیے۔ یوں متحدہ ہندوستان کے ایک بڑے فلمی مرکز میں اداکارہ کی پہلی فلم ہی آخری ثابت ہوئی۔ لیکن قیامِ پاکستان کے بعد وہ گمنام، مندری، بے قرار، کندن، غلام، شرارے، نوکر، انارکلی، زنجیر، صاعقہ اور نائلہ جیسی کام یاب پاکستانی فلموں میں نظر آئیں‌۔ پاکستان میں اُن کی یادگار فلم انارکلی ہے جس میں انھوں نے دِل آرام کا کردار ادا کیا تھا۔ راگنی نے اس کردار میں شائقین کے دل جیتے۔

    اداکارہ راگنی صاف گو مشہور تھیں۔ ان کے کھرے اور دو ٹوک لہجے نے کئی لوگوں کو ان سے بد دل بھی کیا۔ انھیں اکثر لوگ متکبر اور گھمنڈی سمجھنے لگے تھے۔ راگنی نے دو شادیاں‌ کیں۔ لیکن وقت بدلا تو یہ خوب صورت اور آہو چشم اداکارہ تنہائی کا شکار ہوگئی اور آخری ایّام میں‌ بڑی پریشانی اور تکلیف اٹھائی۔ یہ بھی قابلِ ذکر بات ہے کہ تقسیم سے پہلے وہ ہیروئن کے روپ میں‌ خاصی کام یاب رہیں، لیکن پاکستان میں‌ انھیں‌ زیادہ تر کیریکٹر رول میں ہی پسند کیا گیا اور بطور ہیروئن وہ آگے نہ آسکیں۔

    راگنی نے لاہور کے ایک اسپتال میں دَم توڑا۔ انھوں نے زندگی کے آخری ایّام لاہور کے محلّے میں معمولی گھر میں گزارے۔ وہ اپنی اولاد پر بوجھ نہیں‌ بننا چاہتی تھیں اور اسی لیے ان سے الگ ایک مکان میں منتقل ہوگئی تھیں۔

  • انگمار برگمین: سخت گیر پادری کا بیٹا جس نے بطور ڈائریکٹر شاہ کار فلمیں بنائیں

    انگمار برگمین: سخت گیر پادری کا بیٹا جس نے بطور ڈائریکٹر شاہ کار فلمیں بنائیں

    سنیما کی تاریخ کے چند بہترین اور عالمی شہرت یافتہ ہدایت کاروں میں انگمار برگمین کا نام بھی شامل ہے۔ وہ ’کرائم اینڈ وسپرز‘، ’دی سیونتھ سیل‘ اور ’وائلڈ سٹرابری‘ جیسی شاہ کار فلمیں سنیما کو دے چکے گئے جب کہ کئی بہترین دستاویزی فلمیں‌ بھی ان کی فنی مہارت اور تخلیقی ذہن کا نتیجہ ہیں‌ انگمار کو اسٹیج اور ریڈیو کا بھی ایک منفرد ہدایت کار مانا جاتا ہے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ سنیما اور جدید دنیا سے تعلق جوڑنے والے انگمار برگمین نے ایک قدامت پسند اور شاہی دربار سے وابستہ پادری کے گھر میں‌ آنکھ کھولی تھی اور ایک ایسے ماحول میں پروان چڑھے جس میں مذہبی تعلیمات اور روایات کو اوّلیت حاصل تھی انگمار 14 جولائی 1918 کو پیدا ہوئے تھے۔ والدہ پیشے کے اعتبار سے نرس تھیں۔ انگمار کے مطابق والد کے غصّے سے سبھی ڈرتے، ان کی حکم عدولی تو درکنار، ان کے کسی اصول کو توڑنا یا مزاج کے برعکس کچھ کرنے کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا، لیکن انگمار نے اس ماحول اور والد کی خواہش کے برخلاف الگ ہی راستہ چنا۔ وہ اپنی خود نوشت The Magic Lantern میں لکھتے ہیں: چرچ میں اُن (والد) کی مصروفیت کے دوران گھر میں کچھ گایا اور سُنا جاسکتا تھا۔

    برگمین کی بیش تر فلموں کا موضوع عام حالات اور ازدواجی زندگی کے نشیب و فراز، محرومیاں اور مذہب رہا۔ یہاں Winter Light کا ذکر ضروری ہے، جو 1962 میں سنیما پر پیش کی گئی۔ اس کا اسکرپٹ اور ڈائریکشن برگمین نے دی تھی اور یہ دیہی علاقے کے ایک گرجا اور پادری کی کہانی تھی، جسے مذہب سے متعلق سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ برگمین بھی نوعمری میں‌ من مانی مذہبی تشریح پر سوال اٹھانے لگے تھے اور وہ وقت آیا کہ 1937 میں انھیں اسٹاک ہوم یونیورسٹی میں آرٹ اور لٹریچر کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخل کرا دیا گیا۔ تھیٹر اور فلم ان کا محبوب موضوع تھا۔ اسی زمانے میں‌ اسٹیج ڈراموں کے اسکرپٹس لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا اور 1942 انھیں تھیٹر اور بعد ازاں اسسٹنٹ فلم ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا۔ اگلے برس، یعنی 1943 میں ان کی زندگی میں‌ ایلس میری فشر رفیقِ حیات بن کر شامل ہوئی مگر 1946 میں ان کے درمیان علیحدگی ہوگئی۔ برگمین نے پانچ شادیاں کیں جن میں‌ سے چار ناکام رہیں۔

    1944 میں برگمین کا پہلا اسکرین پلے Torment سامنے آیا۔ یہ انسان کے جنون اور ایک قتل کی کہانی تھی، جسے بعد میں امریکا اور لندن میں بھی مختلف ٹائٹل کے ساتھ پیش کیا گیا۔ بعد کے برسوں‌ میں‌ انھوں‌ نے درجنوں فلموں کے اسکرپٹ تحریر کرنے کے ساتھ ہدایت کاری بھی کی۔ 1955 میں Smiles of a Summer Night سامنے آئے جس کے وہ ہدایت کار تھے۔ یہ کامیڈی فلم کانز کے میلے تک پہنچی تھی۔ اس کے فوراً بعد سیونتھ سیل نے برگمین کو خصوصی انعام دلوایا اور ایک مرتبہ پھر وہ کانز کے میلے تک پہنچے۔

    1960 کی ابتدا میں برگمین نے اپنے اسکرپٹس میں مذہب کو موضوع بنانا شروع کردیا۔ اس ضمن میں تین فلموں کا تذکرہ کیا جاتا ہے، جن کے ہدایت کار برگمین ہی تھے۔ یہ فلمیں خدا، انسان کے کسی نادیدہ ہستی پر یقین اور اس حوالے سے شکوک و شبہات پر مبنی تھیں۔

    1976 میں انگمار برگمین نے ایک بدسلوکی پر بددل ہوکر سوئیڈن چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ انھیں ٹیکس فراڈ کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا جو بعد میں‌ جھوٹا ثابت ہوا اور متعلقہ اداروں نے اسے غلطی قرار دے کر انگمار سے معذرت کی۔ لیکن انھوں‌ نے اپنا فلم اسٹوڈیو بند کیا اور خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی۔ وہ امریکا میں مختلف پروڈکشن ہاؤسز کے ساتھ کام کرتے رہے۔ 1982 میں وہ فلم Fanny and Alexander کی ڈائریکشن کے لیے سوئیڈن آئے اور پھر آنا جانا لگا ہی رہا۔ اسے بہترین غیرملکی فلم کے زمرے میں آسکر سے نوازا گیا تھا۔

    30 جولائی 2007 کو انگمار برگمین نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔ انفرادی طور پر نو مرتبہ اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زدگی اور تین بار ان کی فلموں کو اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ہالی وڈ نے 1970ء ہی میں انگمار کو آسکر ایوارڈ دے کر سنیما کی تاریخ کی اہم ترین شخصیت مان لیا تھا۔ اس کے علاوہ برٹش اکیڈمی آف فلم اینڈ ٹیلی ویژن آرٹس، بافٹا ایوارڈ اور گولڈن گلوب ایوارڈ بھی ان کے حصّے میں‌ آئے۔ 1997ء میں کانز کے فلمی میلے میں برگمین کو ’پام آف دا پامز‘ ایوارڈ دیا گیا تھا۔

  • اداکارہ راگنی کا تذکرہ جنھیں‌ ‘آہو چشم’ کہا جاتا تھا!

    اداکارہ راگنی کا تذکرہ جنھیں‌ ‘آہو چشم’ کہا جاتا تھا!

    27 فروری 2007ء کو آہو چشم راگنی کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہوگئیں۔ آج پاکستان فلم انڈسٹری کی اس کام یاب اداکارہ کی برسی ہے۔

    فیض صاحب کی نظم کا ایک مشہور مصرع ہے؎

    تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے

    شاید اس دور میں راگنی کو دیکھنے کے بعد اکثر لوگوں کو یہی خیال آتا ہو گا۔ بڑی بڑی آنکھوں والی اس لڑکی کو بڑی اسکرین پر اداکارہ کے طور پر متعارف کرانے والے ہدایت کار کا نام روپ۔ کے۔ شوری تھا جو معروف فلم ساز اور ہدایت کار روشن لال شوری کے صاحب زادے تھے۔ انھوں نے اپنی مشہور پنجابی فلم دُلا بھٹی میں راگنی کو مرکزی کردار دیا تھا اور 1941ء میں وہ اسی فلم کے بعد آہو چشم مشہور ہوئی تھیں۔

    فلم دُلا بھٹی کے لیے سنیماؤں کی عمارتوں جو تشہیری بورڈ اور چاکنگ کی گئی تھی، اس میں‌ نشیلی آنکھوں والی نئی ہیروئن کی تصویر نے شائقینِ سنیما کو اپنی جانب متوجہ کرلیا تھا جب کہ فلم کے 17 گیتوں میں سے متعدد فلم کی ریلیز سے پہلے ہی مقبول ہوچکے تھے۔

    پاکستان کی اس مشہور فلمی اداکارہ کا اصل نام شمشاد بیگم تھا۔ وہ 1923ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ راگنی کا خاندان بعد میں مشہور ہدایت کار کے ہمسائے میں جا بسا جہاں جوہر شناس مسٹر شوری نے شمشاد بیگم کو دیکھا تو دل میں‌ ارادہ کیا اور ان کے والد سے اسکرین ٹیسٹ کی اجازت مانگی۔ جیسے اُن کے ہاں کرنے کی دیر تھی اور وہ ’راگنی‘ کے نام سے فلم دُلا بھٹی میں کاسٹ کر لی گئیں۔ اس فلم کے ہیرو لاہور کے ایک شوقین مزاج اور وجیہ صورت امیر زادے ایم۔ ڈی۔ کنور تھے جنھیں فلم میں راگنی کے ساتھ بہت پذیرائی ملی۔

    دُلا بھٹی کی کام یابی کے بعد کئی فلم سازوں نے راگنی کو کاسٹ کرنا چاہا لیکن اپنے والد کے مشورے سے راگنی نے فلم ’ہمت‘ میں کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فلم کے ہدایت کار بھی روپ۔ کے۔ شوری تھے۔ یہ فلم بھی زبردست ثابت ہوئی اور راگنی کو بہت سراہا گیا، اس کے بعد اداکارہ نے فلم ’سہتی مُراد‘ میں مرکزی کردار ادا کیا جو دراصل پنجاب کی لوک کتھا پر مبنی کہانی تھی۔ اس میں‌ راگنی پر فلمایا ہوا شمشاد بیگم کی آواز میں ایک گیت انتہائی مقبول ہوا تھا۔ خوب صورت آنکھوں والی اداکارہ راگنی نے 1941ء ہی میں تیسری کام یاب فلم ’میرا ماہی‘ دی اور پھر انھیں بمبئی جانے اور فلموں میں کام کی آفر ہوئی۔ لیکن انھوں نے لاہور چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ یہاں لاہور میں فلمی دنیا میں‌ راگنی نے پونجی، پٹواری، داسی، من مانی، دھمکی، کیسے کہوں اور بِندیا جیسی فلموں میں کام کیا جو بہت کام یاب ثابت ہوئیں۔

    1946ء میں راگنی کو فرض نامی فلم میں‌ ایک نئے ہیرو کے ساتھ کاسٹ کیا گیا۔ یہ اداکار سدھیر تھے جنھیں‌ بعد میں بے انتہا مقبولیت اور پذیرائی ملی اور وہ پاکستانی فلموں کے جنگجو ہیرو کہلائے۔ بعد میں راگنی نے بمبئی میں بھاری معاوضے پر فلم شاہ جہان سائن کی جس کے ہدایت کار اے۔ آر کاردار تھے۔ راگنی کے حسن و جمال، سہگل کی آواز اور نوشاد کی موسیقی میں اس فلم نے مقبولیت کی بلندیوں کو چھوا اور ہر جانب فلم شاہ جہان کا ڈنکا بجنے لگا۔

    اس فلم کا معاوضہ راگنی نے اس زمانے میں پچاس ہزار لیا تھا جب اتنی رقم میں پوری فلم پروڈیوس ہوجاتی تھی۔ یہ وہ فلم تھی جس نے راگنی کو پنجاب سے نکال کر ہندوستانی فلم انڈسٹری کے بڑے مراکز کلکتہ اور بمبئی کے ذریعہ ملک بھر میں‌ شہرت دی تھی اور جب ہدایت کار اے۔ آر۔ کاردار نے اگلی فلم کے لیے راگنی سے رابطہ کیا تو اداکارہ نے ایک لاکھ روپے طلب کیے۔ یوں پہلی ہی فلم متحدہ ہندوستان میں اداکارہ کی آخری فلم ثابت ہوئی لیکن قیامِ پاکستان کے بعد وہ گمنام، مندری، بے قرار، کندن، غلام، شرارے، نوکر، انارکلی، زنجیر، صاعقہ اور نائلہ جیسی کام یاب پاکستانی فلموں میں نظر آئیں‌۔ پاکستان میں اُن کی یادگار فلم انارکلی ہے جس میں انھوں نے دِل آرام کا کردار ادا کیا تھا۔ راگنی نے اپنے فنِ اداکاری سے اس کردار کو لافانی بنا دیا اور شائقین کا دل جیت لیا۔

    مشہور ہے کہ وہ ایک صاف گو خاتون تھیں اور ان کے کھرے اور بے باک لہجے نے کئی لوگوں کو ان سے بددل بھی کردیا تھا۔ انھیں اکثر لوگ متکبر اور گھمنڈی سمجھنے لگے تھے۔ انھوں نے دو شادیاں‌ کی تھیں۔ وقت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ دہائیوں قبل دیگر ہیروئنوں کی نسبت کئی گنا زیادہ معاوضہ لینے والی وہ اداکارہ جس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے کئی لوگ جمع ہو جایا کرتے تھے، اس نے آخری ایّام میں پریشانی دیکھی اور تنہائی کا شکار رہی۔ یہ بھی قابلِ ذکر بات ہے کہ تقسیم سے پہلے وہ ہیروئن کے روپ میں‌ خاصی کام یاب رہیں، لیکن پاکستان میں‌ انھیں‌ زیادہ تر کیریکٹر رول میں ہی پسند کیا گیا اور بطور ہیروئن وہ آگے نہ آسکیں۔

    متحدہ ہندوستان کی یہ معروف فلمی ہیروئن جنھوں نے پاکستان میں ابتدائی فلموں میں کریکٹر رول ادا کرکے شائقین کی توجہ حاصل کی تھی، لاہور کے ایک اسپتال میں وفات پائی۔ بدقسمتی سے ان کی زندگی کے آخری ایّام لاہور کے محلّے میں معمولی گھر میں گزرے، وہ اپنی اولاد پر بوجھ بننے کے بجائے الگ رہنے لگی تھیں۔