Tag: 2007 وفیات

  • نثار بزمی: لازوال دھنوں کے خالق کا تذکرہ

    نثار بزمی: لازوال دھنوں کے خالق کا تذکرہ

    پاکستان میں فضل احمد کریم فضلی کی فلم ’ایسا بھی ہوتا ہے‘ بطور موسیقار نثار بزمی کی پہلی فلم تھی، لیکن تقسیمِ‌ ہند سے قبل اور بعد میں‌ بھارت میں قیام کے دوران وہ 40 سے زائد فلموں کی موسیقی ترتیب دے چکے تھے۔ آج نثار بزمی کی برسی ہے۔ وہ 2007ء میں‌ اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    نثار بزمی نے پہلی بار فلم جمنار پار کے لیے موسیقی ترتیب دی تھی۔ یہ 1946ء کی بات ہے اور 1961ء تک وہ بھارت میں فلم انڈسٹری کے لیے کام کرتے رہے۔ تاہم کوئی خاص کام یابی ان کا مقدّر نہیں بنی تھی۔ نثار بزمی نے 1962ء میں پاکستان ہجرت کی تو جیسے قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوگئی۔ وہ اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے کراچی آئے تھے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ پاکستان میں نثار بزمی نے فلم انڈسٹری کے لیے لازوال دھنیں تخلیق کیں۔

    فلم ‘لاکھوں میں ایک’ کا مشہور گیت ’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘ کی دھن نثار بزمی نے ترتیب دی تھی۔ اس کے علاوہ ‘اے بہارو گواہ رہنا، اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا، رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ، آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آ گئے، دل دھڑکے، میں تم سے یہ کیسے کہوں، کہتی ہے میری نظر شکریہ، کاٹے نہ کٹے رتیاں، سیاں تیرے پیار میں جیسے لازوال گیتوں کے اس موسیقار نے یہاں‌ عزّت، مقام و مرتبہ پایا۔ ان کی ترتیب دی ہوئی دھنوں پر اپنے دور کے مشہور و معروف گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔

    دسمبر 1924ء کو صوبہ مہاراشٹر کے ایک ضلع میں آنکھ کھولنے والے نثار بزمی کا اصل نام سید نثار احمد تھا۔ نوعمری ہی سے انھیں موسیقی سے لگاؤ پیدا ہوگیا تھا اور ان کا شوق اور موسیقی سے رغبت دیکھتے ہوئے والد نے انھیں استاد امان علی خان کے پاس بمبئی بھیج دیا جن سے انھوں نے اس فن کے اسرار و رموز سیکھے۔

    نثار بزمی نے آل انڈیا ریڈیو میں چند سال میوزک کمپوزر کی حیثیت سے کام کیا اور 1946ء میں فلم نگری سے موسیقار کے طور پر اپنا سفر شروع کیا، وہ تقسیم کے پندرہ برس تک ہندوستان کی فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے اور پھر پاکستان آگئے جہاں اپنے فن کی بدولت بڑا نام اور مرتبہ پایا۔

    نثار بزمی نے طاہرہ سیّد، نیرہ نور، حمیرا چنا اور عالمگیر جیسے گلوکاروں کو فلمی دنیا میں آواز کا جادو جگانے کا موقع دیا۔ مختلف شعرا کے کلام پر دھنیں ترتیب دینے والے نثار بزمی خود بھی شاعر تھے۔ ان کا مجموعۂ کلام ’پھر سازِ صدا خاموش ہوا‘ کے نام سے شایع ہوا۔

    حکومتِ‌ پاکستان نے نثار بزمی کو پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا تھا۔

  • آرٹ بکوالڈ کا تذکرہ جنھوں نے امریکا کے اعلیٰ طبقات کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا

    نکتہ رس اور تیز فہم آرٹ بکوالڈ نے زندگی کا خوب مطالعہ کیا اور اپنے گہرے مشاہدے اور وسیع تجربے سے جو کچھ حاصل کیا، اسے اپنے کالموں کے ذریعے قارئین تک پہنچا دیا۔ انھیں امریکی سماج اور سیاست کا نکتہ چیں کہہ سکتے ہیں۔

    آرٹ بکوالڈ (art buchwald) مشہور کالم نویس تھے۔ وہ اپنی قوّتِ مشاہدہ اور حسِّ ظرافت کے زیرِ اثر واشگٹن کی زندگی اور وہاں کے حالات کو اس خوب صورتی سے اپنی تحریر میں سموتے تھے کہ اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ لاکھوں لوگ آرٹ بکوالڈ کے مداح تھے۔ دنیا بھر میں انھیں بہترین طنز نگار مانا گیا۔

    بکوالڈ نے امریکا کے ایک مؤقر اور کثیرالاشاعت اخبار کے لیے 40 سال تک کالم لکھے جو ہر خاص و عام میں‌ مقبول ہوئے۔ آرٹ بکوالڈ کی کتابوں کی تعداد 33 تھی۔

    کالم نگار کی حیثیت سے سماجی اور سیاسی نوعیت کے موضوعات کے ساتھ آرٹ بکوالڈ کو ان کے گہرے طنزیہ اور تیکھے جملوں نے امریکیوں میں مقبول بنایا۔ ان کا ایک مشہور جملہ ہے، ’اگر آپ کسی انتظامیہ کو طویل عرصے تک نشانہ بنائے رکھیں تو وہ آپ کو اپنا رکن منتخب کر لے گی۔‘

    صرف امریکا میں ان کے مداح لاکھوں میں تھے۔ بعد میں انھیں دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایک طنز نگار کے طور پر شہرت حاصل ہوئی۔ بکوالڈ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ پانچ سو سے زائد امریکی اور غیر ملکی اخبارات میں لکھتے رہے۔ واشنگٹن پوسٹ میں بکوالڈ کی شایع شدہ تحریروں پر نظر ڈالیں تو وہ سیاست اور سماج پر گہری چوٹ کرتے ہیں جس نے انھیں ایک بیدار مغز قلم کار کی حیثیت سے ہم عصروں میں بھی ممتاز کیا۔

    امریکا اور دنیا بھر میں اپنا زورِ‌ قلم اور طنز و مزاح کو منوانے والے بکوالڈ 2007ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ ان کی عمر 82 سال تھی۔ ’ٹو سون ٹو سے گڈ بائے‘ وہ کتاب تھی جسے بکوالڈ نے اپنی وفات سے ایک برس قبل اشاعت کے لیے ناشر کے سپرد کیا تھا۔

    آرٹ بکوالڈ کا پہلا کالم 1949ء میں اس وقت شائع ہوا جب وہ پیرس میں رہائش پذیر تھے۔ انھوں نے بعد میں وطن واپس آکر اخبارات کے لیے ہزاروں کالم لکھے جس میں خاص طور امریکا میں اعلیٰ طبقے اور اشرافیہ پر گہرا طنز ملتا ہے۔ انھوں نے اپنا عروج 1970ء کی دہائی کے آغاز میں دیکھا۔

    بکوالڈ کا سنہ پیدائش 1925ء ہے۔ وہ نیویارک کے ایک یہودی گھرانے کے فرد تھے۔ اپنے والد کے کاروبار میں ناکامی کے بعد انھیں کئی برس یتیم خانے میں گزارنا پڑے۔

    1982ء میں بکوالڈ کو ان کے طنز و مزاح پر مبنی اخباری تبصروں پر پلٹزر انعام سے بھی نوازا گیا۔ 1990ء کے آغاز پر انھوں نے مشہورِ زمانہ پیراماؤنٹ پکچرز پر مقدمہ کردیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ایڈی مرفی کی فلم ’کمنگ ٹو امریکا‘ کا مرکزی خیال ان کی تحریروں سے ماخوذ ہے۔ اس مقدمے کا امریکا میں‌ بہت شہرہ ہوا اور بکوالڈ کو عدالتی فیصلے کے بعد نو لاکھ ڈالر ملے۔ اسی مقدمہ بازی کے بعد فلم ساز اداروں نے امریکی قوانین میں یہ تبدیلی کروائی کہ کسی کہانی کے بنیادی خیال پر فلم بندی کے لیے مصنّف کو معاوضہ نہیں دیا جائے گا۔

    آرٹ بکوالڈ کی تحریروں کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ارد گرد بکھرے ہوئے موضوعات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے اور اپنے مختصر جملوں میں چونکا دینے والی باتیں کر جاتے۔ ان کا طرزِ بیاں دل پذیر اور شگفتہ ہوتا تھا جو طنز مزاح کی چاشنی میں‌ ڈھل کر بلیغ و بامقصد ہوجاتا۔ آرٹ بکوالڈ کی شہرت اور مقبولیت آج بھی برقرار ہے اور اہلِ قلم اور کالم نگار ان کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

  • محسن بھوپالی: اردو کے مقبول شاعر اور ’’نظمانے‘‘ کے موجد

    محسن بھوپالی اردو کے اُن شعراء میں سے تھے جنھوں نے خود کو رائج اصنافِ سخن میں طبع آزمائی تک محدود نہیں رکھا بلکہ ان کے تخلیقی جوہر اور کمالِ‌ فن نے کوچۂ سخن کی رونق میں ’’نظمانے‘‘ کی صورت خوب صورت اضافہ بھی کیا۔ آج محسن بھوپالی کی برسی ہے۔

    اردو کے اس مقبول شاعر نے غزل جیسی معتبر اور معروفِ عام صنفِ سخن کو اپنی فکر اور ندرتِ خیال کے ساتھ اس طرح سجایا کہ ہم عصر شعرا سے بھی داد پائی اور نقّادوں نے بھی ان کے فن کو سراہا۔ محسنؔ بھوپالی کی شاعری نے علمی و ادبی حلقوں کی پذیرائی اور ہر سطح پر باذوق قارئین سے قبولیت کی سند پائی۔ 17 جنوری 2007ء کو محسن بھوپالی نے اس دارِ فانی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔

    محسنؔ بھوپالی کا اصل نام عبدالرّحمٰن تھا۔ انھوں نے 1932ء میں بھوپال کے قریب واقع ہوشنگ آباد کے ایک قصبے سہاگپور میں آنکھ کھولی۔ 1947ء میں ان کا خاندان پاکستان آگیا اور لاڑکانہ میں سکونت اختیار کی۔ محسن بھوپالی نے این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کورس کے بعد 1952ء میں محکمۂ تعمیرات حکومتِ سندھ میں ملازمت اختیار کر لی۔ ان کی ملازمت کا سلسلہ 1993ء تک جاری رہا۔ اسی عرصے میں انھوں نے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    ملازمت اور حصولِ تعلیم کے دوران محسن بھوپالی کا ادب اور شاعری سے تعلق مضبوط تر ہوتا رہا اور ان کی شاعری مختلف اخبارات، ادبی رسائل کی زینت بنتی رہیں۔ انھیں علمی و ادبی حلقوں میں پہچان ملی تو کراچی اور ملک بھر میں منعقدہ مشاعروں میں شرکت کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا اور وہ عوام میں بطور شاعر مشہور ہوگئے۔ محسن بھوپالی نے شعر گوئی کا آغاز 1948ء میں کیا تھا۔

    محسن بھوپالی کے مجموعہ ہائے کلام شکستِ شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گردِ مسافت کے عنوان سے شایع ہوئے۔ ان کی دیگر کتابوں میں قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، مجموعۂ سخن، موضوعاتی نظمیں، منظر پتلی میں، روشنی تو دیے کے اندر ہے، جاپان کے چار عظیم شاعر، شہر آشوب کراچی اور نقدِ سخن شامل ہیں۔

    یہ منفرد اعزاز بھی محسنؔ بھوپالی کو حاصل تھا کہ 1961ء میں ان کے اوّلین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے کی تھی اور یہ کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریبِ رونمائی تھی جس کے دعوت نامے بھی تقسیم کیے گئے تھے۔

    کئی مشہور اور زباں زدِ عام اشعار کے خالق محسنؔ بھوپالی کا یہ قطعہ بھی ان کی پہچان بنا۔

    تلقینِ صبر و ضبط وہ فرما رہے ہیں آج
    راہِ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
    نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
    منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

    محسن بھوپالی کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔

    غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا
    وہ شخص لہجہ بہت دل نشین رکھتا تھا

    پاکستان کی معروف گلوکارہ گلبہار بانو کی آواز میں‌ محسن بھوپالی کی ایک غزل آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنی جاتی ہے جس کا مطلع ہے۔

    چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری
    لوگوں کا کیا، سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبوری

    اردو میں ’’نظمانہ‘‘ وہ صنفِ سخن ہے جس کے موجد محسنؔ بھوپالی نے افسانہ نگاری بھی کی تھی۔ انھوں نے آزاد نظم کی ہیئت میں ایک تجربہ کیا اور اپنی ایجاد کو تخلیقی وفور کے ساتھ وجود بخشا جو اخبارات اور رسائل و جرائد میں ’’نظمانے‘‘ کے طور پر شایع ہوئے اور باذوق قارئین نے انھیں پسند کیا۔ ’’نظمانے‘‘ کو ہم افسانے کی منظوم اور مختصر شکل کہہ سکتے ہیں۔

    محسن بھوپالی کی شاعری ان کی فکر و دانش اور وسیع مطالعہ کے ساتھ معاشرے کے مختلف طبقات پر ان کی گہری نظر اور قوّتِ مشاہدہ کا عکس ہے۔

    انھوں نے معاشرتی موضوعات کے ساتھ سیاسی حالات کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا جس کی مثال ان کا یہ قطعہ بھی ہے۔

    جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
    اس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے
    مے خانے کی توہین ہے، رندوں کی ہتک ہے
    کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے

    محسن بھوپالی نے جاپانی ادب کو اردو کے قالب میں ڈھالا اور ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی۔ انھیں ایک ایسے شاعر کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس کا اسلوب منفرد اور کلام شستہ و رواں ہے۔ محسن بھوپالی کی شاعری انسانی جذبات و احساست کے ساتھ اُن مسائل کا احاطہ بھی کرتی ہے جس سے عام آدمی کی طرح ایک شاعر بھی متأثر ہوتا ہے۔

    کراچی میں وفات پانے والے محسن بھوپالی پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔