Tag: 2008 وفات

  • بی آر چوپڑا: نام وَر بھارتی فلم ساز جو کبھی لاہور کو نہ بھول سکے

    بی آر چوپڑا: نام وَر بھارتی فلم ساز جو کبھی لاہور کو نہ بھول سکے

    بھارتی فلمی صنعت میں بلدیو راج چوپڑا کو ایک ستون مانا جاتا ہے۔ ہمہ جہت بلدیو راج نے عام روش سے ہٹ کر فلمیں بنائیں جنھیں سنیما بینوں‌ نے بہت پسند کیا۔ فلم ساز اور ہدایت بلدیو راج 2008ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ ان کی عمر 94 برس تھی۔

    بی آر چوپڑا 1914ء میں لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا بچپن اور جوانی لاہور میں‌ گزری۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے لاہور یونیورسٹی سے انگریزی لٹریچر میں ایم اے کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد بی آر چوپڑا بھارت چلے گئے تھے جہاں دہلی میں‌ قیام کے بعد ممبئی منتقل ہوئے۔

    بی آر چوپڑا کو شروع ہی سے ادب کا شوق تھا۔ وقت کے ساتھ ان کی فنونِ لطیفہ میں دل چسپی بڑھ گئی اور فلم ان کا خاص موضوع بنی۔ اس زمانے میں انگریزی لٹریچر پڑھنے کے ساتھ وہ انگریزی ماہ نامے میں فلموں پر تبصرے لکھنے لگے اور اس طرح صحافت کا آغاز کیا۔ ادب کی تعلیم نے انھیں تخلیقی شعور دیا تھا اور بی آر چوپڑا نے فلموں کا تنقیدی جائزہ لینا شروع کردیا۔ وہ اس زمانے میں‌ بننے والی فلموں اور ان کے اسکرپٹ کی کم زوریوں اور خامیوں پر تبصرہ کرنے لگے جس نے انھیں فلمی نقّاد کے طور پر شہرت دی۔ ان کی یہ قابلیت اور تنقیدی بصیرت ممبئی اُس وقت خود اُن کے کام آئی جب بی آر چوپڑا نے بھی فلم سازی اور ہدایت کاری کا آغاز کیا۔

    دیکھا جائے تو فلم نگری سے ان کا تعلق ایک فلمی صحافی کے طور پر بنا تھا، لیکن 1955ء میں انھوں نے بی آر فلمز کے نام سے باقاعدہ فلم کمپنی قائم کر لی تھی۔ اس سے قبل وہ دو فلمیں بنا چکے تھے۔ بی آر چوپڑہ تخلیقی ذہن کے مالک اور محنتی ہی نہیں‌ تھے بلکہ انفرادیت کے قائل بھی تھے۔ انھوں نے اس زمانے میں بھی عام ڈگر سے ہٹ کر کام کیا۔ ان کی روایت شکنی اور انفرادیت نے انھیں باکمال فلم ساز بنا دیا۔ بی آر چوپڑا نے فلم انڈسٹری کے تقریباً ہر شعبہ میں طبع آزمائی کی۔ فلمیں بنانا، ہدایت کاری، فلمی کہانیاں لکھنا اور اداکاری بھی کی۔

    1949ء میں بی آر چوپڑا نے ’کروٹ‘ سے فلم سازی کا آغاز کیا تھا جو فلاپ فلم ثابت ہوئی۔ 1951ء میں ان کی بطور ہدایت کار فلم ’افسانہ‘ سامنے آئی اور یہ ان کی پہلی کام یاب فلم بھی تھی۔ جب انھوں نے بی آر فلمز قائم کیا تو اس کی سب سے پہلی فلم ’نیا دور‘ تھی۔ فلم بینوں نے اسے بہت سراہا اور اس فلم نے کام یابی کا ریکارڈ قائم کیا۔ ان کی زیادہ تر فلموں میں‌ سماج کے لیے کوئی پیغام ہوتا تھا۔ انھوں نے ’باغبان اور بابل‘ جیسی فلموں کی کہانی بھی لکھی۔ ان کی فلم ’نیا دور‘ کا موضوع اس وقت کی فلموں کی روش سے بالکل مختلف تھا اور یہ تھا نئے مشینی دور میں مزدور اور مالک کا رشتہ۔ بی آر چوپڑا فلم ’گھر‘ میں بطور اداکار بھی جلوہ گر ہوئے۔ ان کی ہدایت کاری اور پروڈکشن میں کئی کام یاب فلمیں بنی ہیں جن میں ’نکاح‘، ’انصاف کا ترازو‘، ’پتی پتنی اور وہ‘، ’ہمراز‘، ’گمراہ‘، ’سادھنا‘ اور ’قانون‘ شامل ہیں۔

    بھارت کے اس معروف فلم ساز اور ہدایت کار کے دل سے لاہور اور یہاں‌ جیون کے سہانے دنوں کی یاد کبھی محو نہ ہو سکی۔ وہ ابتدائی زندگی کے بارے میں بتاتے ہیں ’ہم لوگ پہلے گوالمنڈی میں رہا کرتے تھے، لیکن 1930ء میں میرے والد کو جو کہ سرکاری ملازم تھے چوبرجی کے علاقے میں ایک بنگلہ الاٹ ہوگیا، جب میں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا تو انھی دنوں والد صاحب کا تبادلہ امرتسر ہوگیا۔ میں کچھ عرصہ لاہور ہی میں مقیم رہا کیوں کہ میں آئی سی ایس کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا۔ بعد میں جب مجھے فلموں میں دل چسپی پیدا ہوئی تو میں نے ماہ نامہ سِنے ہیرلڈ کے لیے مضامین اور فلمی تبصرے لکھنے شروع کر دیے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ میرا قیام تو والدین کے ساتھ امرتسر ہی میں تھا لیکن فلمی رسالے میں حاضری دینے کے لیے مجھے ہر روز لاہور آنا پڑتا تھا۔ رسالے کا دفتر مکلیوڈ روڈ پر تھا، چنانچہ کچھ عرصے بعد میں نے بھی اس کے قریب ہی یعنی نسبت روڈ پر رہائش اختیار کر لی۔ فلمی رسالے میں نوکری کا سلسلہ 1947ء تک چلتا رہا، جب اچانک فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا اور مجھے انتہائی مایوسی اور دل شکستگی کے عالم میں اپنا پیارا شہر لاہور چھوڑنا پڑا۔‘

    بھارت میں بی آر چوپڑا کو فلم نگری اور سرکاری سطح پر کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ 1998ء میں انھیں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ دیا گیا۔ اس سے قبل انھوں نے فلم فیئر ایوارڈ بھی حاصل کیا تھا۔

  • چارلٹن ہسٹن: جب ہالی وڈ اسٹار کراچی آئے اور اپنے ایک مداح سے ملے

    چارلٹن ہسٹن: جب ہالی وڈ اسٹار کراچی آئے اور اپنے ایک مداح سے ملے

    رمضان کا پہلا عشرہ تھا جب امریکی اداکار چارلٹن ہسٹن کراچی میں موجود تھے۔ وہ افغان پناہ گزینوں‌ کی پاکستان میں‌ حالتِ زار پر دستاویزی فلم کی تیّاری کے سلسلے میں‌ یہاں آئے تھے۔

    یہ بات ہے 1980- 82 کی۔ چارلٹن ہسٹن نے اپنی آمد کے اگلے روز امریکن قونصلیٹ کی لائبریری میں ایک پریس کانفرنس کے بعد صحافیوں سے ملاقات بھی کی تھی۔ کراچی کے سینئر صحافی نادر شاہ عادل جو اچھی فلمیں‌ دیکھنے کا شوق بھی رکھتے ہیں‌، اس اداکار کے مداحوں‌ میں سے ایک ہیں۔ اُن دنوں‌ وہ ایک روزنامے سے وابستہ تھے اور ادارے کی جانب سے چارلٹن ہسٹن سے اس فلم سے متعلق گفتگو کے لیے انہی کو ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ وہ لکھتے ہیں، ڈائریکٹر پبلک افیئرز شیلا آسٹرین نے میری چارلٹن ہسٹن سے ملاقات کرائی۔ میں نے انھیں 8 سالوں پر محیط وہ ساری تصاویر اور ان کے خطوط دکھائے جو انھوں نے مجھے بھیجے تھے، چارلٹن بہت خوش ہوئے، گفتگو مختصر مگر بہت یادگار رہی۔ شیلا سے کہنے لگے اس صحافی نے مجھ پر کئی مضامین لکھے، مجھے ایک ایمبرائیڈرڈ ٹوپی بھیجی تھی، میں ان کا ممنون ہوں۔ جی ہاں، نادر شاہ اس امریکی اداکار کے ایسے مداح تھے جس کی ہسٹن کے ساتھ ایک عرصہ تک خط کتابت بھی ہوتی رہی۔

    مشہور امریکی اداکار چارلٹن ہسٹن نے امریکہ میں 4 اکتوبر 1923ء کو آنکھ کھولی، ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرکے وہ نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی پہنچے اور یہاں سے سند لینے کے بعد تین برس تک امریکی فضائیہ میں‌ خدمات انجام دیں۔ انھیں اداکاری کا شوق ایسا تھاکہ باقاعدہ تربیت حاصل کی اور فوج سے الگ ہونے کے بعد اداکاری کا آغاز کیا، لیکن اس کے لیے انھیں‌ بڑی تگ و دو اور محنت کرنا پڑی تھی۔

    ایک زمانہ تھا جب وہ اور ان کی اہلیہ لِڈیا شکاگو میں فقط ایک کمرے میں‌ رہے اور مقامی آرٹسٹوں کے لیے معمولی معاوضہ پر لائیو ماڈلنگ کرتے رہے تھے۔ قسمت نے پلٹا کھایا اور پھر ان کا شمار بہترین اداکاروں‌ میں‌ ہونے لگا وہ متعدد اعزازات سے نوازے گئے جن میں‌ آسکر نمایاں‌ ہے۔

    چارلٹن ہسٹن ہالی وڈ کی تاریخی و مذہبی موضوعات پر مبنی فلموں میں اپنے کرداروں کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں‌ گے۔ انھوں نے بن حُر جیسی عہد آفریں‌ فلم کا مرکزی کردار نبھا کر شہرت حاصل کی۔

    1952ء میں چارلٹن ہسٹن نے براڈوے میں کام کرنے کے بعد فلم ’دی گریٹیسٹ شو آن ارتھ‘ میں رِنگ ماسٹر کا کردار نہایت خوبی سے نبھایا۔ اس کے چار برس بعد وہ ’دی ٹین کمانڈمینٹس‘ میں مذہبی پیشوا کے روپ میں‌ نظر آئے اور یہ ان کے کیریئر کا اہم موڑ ثابت ہوا۔ انھیں‌ اس فلم میں‌ بہترین اداکاری پر اکیڈمی ایوارڈ دیا گیا۔ اسی طرح بِن حُر کے کردار نے ان کے کیریئر کو گویا بلندیوں‌ پر پہنچا دیا۔

    ہسٹن ایسے اداکار تھے جس نے ہالی وڈ کی ایپک فلموں کے دیو مالائی کرداروں میں اپنی افسانوی شخصیت اور قد و کاٹھ سے جان ڈال دی تھی۔ ساٹھ کی دہائی میں اس دور کی ایک مقبول سائنس فکشن فلم ’پلینٹ آف دی ایپس‘ پردے پر سجی تو چارلٹن ہسٹن کے مداحوں‌ کی تعداد میں‌ زبردست اضافہ ہوا اور وہ ستّر کی دہائی میں کئی فلموں میں‌ مرکزی کردار نبھاتے ہوئے نظر آئے۔

    اس کے علاوہ ایک ماحولیاتی سائنس فکشن ’سوئیلینٹ گرین‘ کے سنسنی خیز ڈرامے میں ان کے مرکزی کردار کو بہت سراہا گیا۔

    چھے فٹ چار انچ کے قد کے ساتھ اس اداکار کی گہری اور گونج دار آواز فلم بینوں پر جادو کردیتی تھی۔ انھیں‌ معروف فلمی ہدایت کار مائیکل اینجلو ایک تراشیدہ مجسمہ سے تشبیہ دیتے تھے۔

    ہسٹن کے چہرے کے نقوش ایسے تھے جیسے کسی ماہر سنگ تراش نے اسے نکھارا ہو اور اپنے فن کی انتہا کو چُھو لیا ہو۔ ہالی وڈ کے اس اداکار نے 2008ء میں آج ہی دن وفات پائی تھی۔

    آنجہانی چارلٹن ہسٹن سر لارنس اولیویئر کے زبردست مداح تھے، ان کا کہنا تھا کہ اس بڑے اداکار سے میں نے چھ ہفتے میں اداکاری کے جو رموز سیکھے دوسرے اداکار عمر بھر نہیں سیکھ پاتے۔ چارلٹن ہسٹن کی ایک آپ بیتی بھی شایع ہوئی تھی جس میں‌ انھوں نے اپنی زندگی اور فنی سفر کے کئی واقعات رقم کیے ہیں جو دل چسپ بھی ہیں اور اس اداکار کی شخصیت اور جدوجہد کا بھی احاطہ کرتے ہیں۔

    چارلٹن ہسٹن نے اداکاری کے سفر میں‌ لگ بھگ 100 فلموں‌ اور ڈراموں‌ میں‌ کام کیا اور اپنے کریئر میں‌ فلمی پردے کے لیے مختلف شعبوں‌ میں‌ اپنی صلاحیتوں کو آزمایا۔ ان میں ہدایت کاری کے علاوہ مکالمہ اور منظر نویسی کے علاوہ صدا کاری بھی شامل ہے۔