Tag: 2012 برسی

  • راجیش کھنہ: بولی وڈ سپراسٹار جنھوں نے دلوں پر راج کیا

    راجیش کھنہ: بولی وڈ سپراسٹار جنھوں نے دلوں پر راج کیا

    ایک زمانہ تھا جب بولی وڈ پر راجیش کھنہ کا راج تھا۔ فلم بینوں اور مداحوں نے ان کے لیے جس دیوانگی کا مظاہرہ کیا وہ بہت کم فن کاروں کا مقدر بنا ہے۔ عالم یہ تھا کہ مداح لڑکیاں‌ ان کی کار پر بوسے دیتیں، چہرے اور بازو پر آٹو گراف دینے کی فرمائش کی جاتی اور راجیش کھنہ کی ایک جھلک دیکھنے کو گھنٹوں ان کے مداح سڑک پر کھڑے رہتے۔ اس اداکار کو بولی وڈ کا پہلا سپر اسٹار کہا جاتا ہے 1960 سے 70 کے عشرے میں راجیش کھنہ نے جس فلم میں بھی کام کیا وہ باکس آفس پر ہٹ ہوگئی اور فلم ساز ان سے وقت لینے کے لیے گھر کے باہر کھڑے نظر آتے۔

    راجیش کھنہ سے پہلے بھی کئی نام مقبولیت کی بلندیوں‌ کو چھو رہے تھے جن میں دلیپ کمار، دیو آنند اور راج کپور جیسے اداکار شامل تھے۔ لیکن مداحوں نے راجیش کھنہ کے لیے جس جنون اور وارفتگی کا مظاہرہ کیا وہ بہت کم دکھائی دیتا ہے۔

    اداکار راجیش کھنہ 29 دسمبر 1942ء کو غیر منقسم پنجاب میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی پہلی فلم ’آخری خط‘ تھی۔ راجیش کھنہ کو شہرت جس فلم سے ملی وہ ارادھنا تھی۔ اس سے پہلے راجیش کھنہ 1966ء میں چیتن آنند کی فلم آخری خط میں‌ کام کرچکے تھے مگر ارادھنا نے انھیں شہرت کی جن بلندیوں پر پہنچایا وہ خود ان کے لیے ناقابل فراموش ثابت ہوا۔ فلم نے گولڈن جوبلی مکمل کی۔ فلم میں ان کا ڈبل رول تھا اور راجیش کھنہ کی نشیلی آنکھیں‌ اور سر کو جھٹکنے کا انداز شائقین کو بہت بھایا۔ اس کے بعد انھوں نے متواتر کئی ہٹ فلمیں انڈسٹری کو دیں۔

    راجیش کھنہ کی مشہور اور ہم فلموں میں ’دو راستے‘، ’خاموشی‘، ’آنند‘ اور ’سفر‘ شامل ہیں‌ جب کہ ’آپ کی قسم‘، ’دو راستے‘، ’دشمن، ’روٹی‘ اور ’سچا جھوٹا‘ سپر ہٹ فلمیں ثابت ہوئیں۔ لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ راجیش کھنہ کی مقبولیت کا یہ سلسلہ طویل نہیں تھا بلکہ جس تیزی سے انھوں نے شہرت کے ہفت افلاک طے کیے، اسی طرح ایک ٹھہراؤ بلکہ زوال کا آغاز بھی ہوا۔ راجیش کھنہ نے اپنے بنگلے کا نام آشیرواد رکھا تھا جس میں وہ فلم بابی کی ہیروئن ڈمپل کپاڈیہ کو بیاہ کر لائے تھے۔ وہ فلمی دنیا میں اور اپنے مداحوں کے درمیان بھی ’کاکا‘ کے نام سے مشہور تھے۔ ان کی بیٹی ٹوئنکل کھنہ اور رنکی کھنہ ہیں۔ اداکار کئی عوارض کی وجہ سے جسمانی پیچیدگیوں کا سامنا کررہے تھے جس کے بعد ان کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا اور 18 جولائی 2012ء کو راجیش کھنہ انتقال کرگئے۔ غصہ کرنا اور شراب نوشی راجیش کھنہ کی وہ خراب عادات تھیں جس نے ان کی خانگی زندگی کو بھی نقصان پہنچایا اور ٹوئنکل کھنہ بہت جلد ان سے دور ہوگئیں۔ وہ وقت بھی آیا کہ انھوں نے اپنی بیٹیوں کے ساتھ وہ گھر چھوڑ دیا جس میں وہ سپر اسٹار کی شریکِ سفر بن کر آئی تھیں۔

    راجیش کھنہ پر فلمائے گئے مقبول ترین گیتوں میں ’میرے سپنوں کی رانی‘، ’کورا کاغذ تھا یہ من میرا‘ اور ’روپ تیرا مستانہ‘، ’یہ جو محبت ہے‘، ’یہ شام مستانی‘ اور ’ہمیں تم سے پیار کتنا‘ شامل ہیں۔

    اداکار کی آخری کام یاب فلم نوّے کی دہائی میں ’سوّرگ‘ تھی۔ بعد میں انھوں نے ’آ اَب لوٹ چلیں‘، ‘کیا دل نے کہا‘ اور ’وفا‘ نامی فلموں میں بھی کام کیا مگر اب اُن کا دور ختم ہو چکا تھا۔ دلوں میں بسنے اور باہر کی دنیا میں ہر وقت سیکڑوں نگاہوں میں‌ رہنے والا یہ اداکار عمر کے آخری دنوں میں‌ تنہائی کا شکار رہا۔

  • لطف اللہ خان: آوازوں کے غیرمعمولی خزانے کا مالک

    لطف اللہ خان: آوازوں کے غیرمعمولی خزانے کا مالک

    لطف اللہ خان ایک ایسے خزانے کے مالک تھے جس کا تعلق فن و تہذیب سے تھا۔ انھوں نے اہلِ‌ علم و فن کی آواز میں ہر قسم کے ریکارڈ کو محفوظ کیا۔ وہ اپنی نوعیت کی ایک منفرد ‘آواز لائبریری’ کے منتظم اور مصنّف کے طور پر مشہور تھے۔ 2012 میں لطف اللہ خان آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    لطف اللہ خان پاکستان کے مشہور آرکائیوسٹ اور کلکٹر تھے۔ انھوں نے پاکستان اور جنوبی ایشیاء کے نام ور فن کاروں، شاعروں، مصنفین اور دیگر شخصیات کی کی تخلیقات کو مختلف مواقع پر ان کی آواز میں‌ اور ان کی پرفارمنس کو ریکارڈ کر کے اپنی لائبریری میں‌ محفوظ کیا۔

    لطف اللہ خان 25 نومبر 1916 کو مدراس میں پیدا ہوئے تھے، جسے اب چنئی کہا جاتا ہے۔ ان کے والد ساؤتھ انڈین ریلوے کمپنی میں ملازمت کرتے تھے۔ لطف اللہ نے اپنی بنیادی تعلیم مدراس میں حاصل کی تھی اور تقسیم ہند کے بعد 1947 میں پاکستان ہجرت کرنے کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کی جہاں تشہیری ادارے سے منسلک رہے۔

    لطف اللہ خان کے پاس ہر بڑے فن کار کی آواز کا ریکارڈ موجود تھا اور اس کے لیے انھوں‌ نے بڑی بھاگ دوڑ کی اور ایسے تمام ریکارڈ کو مختلف ٹیکنالوجی کی مدد سے محفوظ رکھا۔ فیض احمد فیض کی آواز ہو یا مولانا احتشام الحق تھانوی کا درس اور وعظ، یہ سب ان کی لائبریری میں‌ مل جاتا ہے۔ لطف اللہ خان نے کئی بڑے منصوبوں پر دن رات کام کیا اور علم و فنون سے وابستہ ممتاز ہستیوں اور مذہبی اسکالرز کی قرأت و دروس کو بھی ان کی آواز میں‌ محفوظ کیا۔

    ہندوستان بھر میں شاعری، افسانہ، موسیقی اور سیاست سمیت کئی شعبۂ حیات کی نام ور اور قابلِ‌ ذکر شخصیات کی آوازیں لطف اللہ خان کے ریکارڈ روم میں‌ موجود ہیں‌ جن میں‌ گاندھی، نہرو اور قائداعظم کی تقریریں، لیاقت علی خان اور بھٹو کی تقریر کے علاوہ مولانا مودودی کی آواز بھی شامل ہے۔ اس کام کو ازحد محفوظ رکھنے اور سب انتظام کرنے کے لیے لطف اللہ خان نے اپنی جیب سے رقم خرچ کی۔ یہ تمام ریکارڈ ان کی ساری عمر کی محنت اور ریاضت کا ثمر ہیں اور بدقسمتی سے اس کا اعتراف کرنے اور انھیں‌ سراہنے میں‌ بہت دیر کی گئی۔

    لطف اللہ خان کی برسی پر ہم اردو کے نام ور شاعر اور استاد پروفیسر سحر انصاری کے ایک مضمون سے چند پارے نقل کررہے ہیں‌، ملاحظہ کیجیے۔

    "شیخ سعدیؒ کے ایک مصرعے کا مطلب یہ ہے کہ خالق نے ہر کسی کو کسی خاص کام کے لیے تخلیق کیا ہے۔ ایک ایسی ہی مخصوص، مختلف اور منفرد شخصیت لطف اللہ خان صاحب کی تھی۔ وہ ایک اشتہار ساز ادارے کے بانی و سربراہ تھے۔ مدراس جس کا نام اب چنئی ہے، ان کی جائے پیدائش تھی۔ لطف اللہ خان صاحب کو ادب، فنون لطیفہ، موسیقی، شاعری اور شخصیات کے مطالعے کا گہرا شغف تھا۔ وہ اشتہار سازی کے سلسلے میں جب ٹیپ ریکارڈر سے پہلی بار متعارف ہوئے تو انھیں اپنی والدہ محترمہ کی گفتگو کو محفوظ کرنے کا خیال ہوا۔ اس کے بعد وہ کلاسیکی موسیقی مشاعرے، تقاریر، شخصیات کے انٹرویو وغیرہ کی ریکارڈنگ کی طرف متوجہ ہوئے۔ رفتہ رفتہ ایک ایسا بے مثال خزانہ فراہم ہو گیا جس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ خدا نے انھیں ایک طویل عمر دی اور وہ ساری زندگی نہایت مستقل مزاجی سے کسی صلے کی پروا کیے بغیر آنے والی نسلوں کے لیے یہ بے مثل آواز خزانہ جمع کرتے رہے۔ وہ اس فن میں ذاتی محنت، جاں کاہی اور تکمیلیت کا اعلیٰ معیار قائم رکھتے تھے۔ لطف اللہ خان صاحب نے کتابیں بھی تصنیف کی ہیں جن میں موسیقی، یادداشتیں، سفرنامے اور بعض اہم شخصیات کے خاکے شامل ہیں۔”