لطف اللہ خان ایک ایسے خزانے کے مالک تھے جس کا تعلق فن و تہذیب سے تھا۔ انھوں نے اہلِ علم و فن کی آواز میں ہر قسم کے ریکارڈ کو محفوظ کیا۔ وہ اپنی نوعیت کی ایک منفرد ‘آواز لائبریری’ کے منتظم اور مصنّف کے طور پر مشہور تھے۔ 2012 میں لطف اللہ خان آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔
لطف اللہ خان پاکستان کے مشہور آرکائیوسٹ اور کلکٹر تھے۔ انھوں نے پاکستان اور جنوبی ایشیاء کے نام ور فن کاروں، شاعروں، مصنفین اور دیگر شخصیات کی کی تخلیقات کو مختلف مواقع پر ان کی آواز میں اور ان کی پرفارمنس کو ریکارڈ کر کے اپنی لائبریری میں محفوظ کیا۔
لطف اللہ خان 25 نومبر 1916 کو مدراس میں پیدا ہوئے تھے، جسے اب چنئی کہا جاتا ہے۔ ان کے والد ساؤتھ انڈین ریلوے کمپنی میں ملازمت کرتے تھے۔ لطف اللہ نے اپنی بنیادی تعلیم مدراس میں حاصل کی تھی اور تقسیم ہند کے بعد 1947 میں پاکستان ہجرت کرنے کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کی جہاں تشہیری ادارے سے منسلک رہے۔
لطف اللہ خان کے پاس ہر بڑے فن کار کی آواز کا ریکارڈ موجود تھا اور اس کے لیے انھوں نے بڑی بھاگ دوڑ کی اور ایسے تمام ریکارڈ کو مختلف ٹیکنالوجی کی مدد سے محفوظ رکھا۔ فیض احمد فیض کی آواز ہو یا مولانا احتشام الحق تھانوی کا درس اور وعظ، یہ سب ان کی لائبریری میں مل جاتا ہے۔ لطف اللہ خان نے کئی بڑے منصوبوں پر دن رات کام کیا اور علم و فنون سے وابستہ ممتاز ہستیوں اور مذہبی اسکالرز کی قرأت و دروس کو بھی ان کی آواز میں محفوظ کیا۔
ہندوستان بھر میں شاعری، افسانہ، موسیقی اور سیاست سمیت کئی شعبۂ حیات کی نام ور اور قابلِ ذکر شخصیات کی آوازیں لطف اللہ خان کے ریکارڈ روم میں موجود ہیں جن میں گاندھی، نہرو اور قائداعظم کی تقریریں، لیاقت علی خان اور بھٹو کی تقریر کے علاوہ مولانا مودودی کی آواز بھی شامل ہے۔ اس کام کو ازحد محفوظ رکھنے اور سب انتظام کرنے کے لیے لطف اللہ خان نے اپنی جیب سے رقم خرچ کی۔ یہ تمام ریکارڈ ان کی ساری عمر کی محنت اور ریاضت کا ثمر ہیں اور بدقسمتی سے اس کا اعتراف کرنے اور انھیں سراہنے میں بہت دیر کی گئی۔
لطف اللہ خان کی برسی پر ہم اردو کے نام ور شاعر اور استاد پروفیسر سحر انصاری کے ایک مضمون سے چند پارے نقل کررہے ہیں، ملاحظہ کیجیے۔
"شیخ سعدیؒ کے ایک مصرعے کا مطلب یہ ہے کہ خالق نے ہر کسی کو کسی خاص کام کے لیے تخلیق کیا ہے۔ ایک ایسی ہی مخصوص، مختلف اور منفرد شخصیت لطف اللہ خان صاحب کی تھی۔ وہ ایک اشتہار ساز ادارے کے بانی و سربراہ تھے۔ مدراس جس کا نام اب چنئی ہے، ان کی جائے پیدائش تھی۔ لطف اللہ خان صاحب کو ادب، فنون لطیفہ، موسیقی، شاعری اور شخصیات کے مطالعے کا گہرا شغف تھا۔ وہ اشتہار سازی کے سلسلے میں جب ٹیپ ریکارڈر سے پہلی بار متعارف ہوئے تو انھیں اپنی والدہ محترمہ کی گفتگو کو محفوظ کرنے کا خیال ہوا۔ اس کے بعد وہ کلاسیکی موسیقی مشاعرے، تقاریر، شخصیات کے انٹرویو وغیرہ کی ریکارڈنگ کی طرف متوجہ ہوئے۔ رفتہ رفتہ ایک ایسا بے مثال خزانہ فراہم ہو گیا جس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ خدا نے انھیں ایک طویل عمر دی اور وہ ساری زندگی نہایت مستقل مزاجی سے کسی صلے کی پروا کیے بغیر آنے والی نسلوں کے لیے یہ بے مثل آواز خزانہ جمع کرتے رہے۔ وہ اس فن میں ذاتی محنت، جاں کاہی اور تکمیلیت کا اعلیٰ معیار قائم رکھتے تھے۔ لطف اللہ خان صاحب نے کتابیں بھی تصنیف کی ہیں جن میں موسیقی، یادداشتیں، سفرنامے اور بعض اہم شخصیات کے خاکے شامل ہیں۔”