Tag: 2013 برسی

  • فرمان فتح پوری: اردو کے بلند پایہ نقّاد اور محقق

    فرمان فتح پوری: اردو کے بلند پایہ نقّاد اور محقق

    اردو زبان و ادب میں ڈاکٹر فرمان فتح‌ پوری کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہے، وہ بہت کم اہلِ قلم کو نصیب ہوتا ہے وہ ایک بلند پایہ نقّاد، معتبر محقق اور ماہرِ لسانیات تھے۔ فرمان فتح پوری کئی کتابوں کے مصنّف تھے۔ ان کے مضامین و مقالات اردو زبان و ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔

    وہ غیرمنقسم ہندوستان میں فتح پور شہر میں 26 جنوری 1926ء کو پیدا ہوئے فرمان فتح پوری کا اصل نام سیّد دلدار علی تھا۔ ابتدائی تعلیم گھرپر والد اور چچا سے حاصل کی۔ علاوہ ازیں، قرآن کریم اور فارسی کی ابتدائی تعلیم کے ساتھ مصدرنامہ، گلستان بوستان بھی گھر ہی پر پڑھیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ابتدائی تعلیم فتح پور، الہ آباد اور آگرہ سے حاصل کی۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ یہاں کراچی میں سکونت اختیار کی اور تعلیمی سلسلہ جاری رکھتے ہوئے جامعہ کراچی سے اردو ادب میں ایم اے اور بعد میں پی ایچ ڈی کیا۔ بعدازاں اسی مادرِ‌ علمی میں اردو ادب کی تدریس کا آغاز کیا۔

    فرمان فتح پوری کا میدان تنقید اور تحقیق تھا اور وہ زبان و بیان کی باریکیوں کے ساتھ علمی و ادبی موضوعات کے بڑے نکتہ بیں تھے۔ انھیں ندرتِ خیال اور نکتہ رسی کے لحاظ سے اردو زبان میں پائے کا نقّاد مانا جاتا ہے۔ ان کی پچاس سے زائد تصانیف ہیں جو اردو زبان و ادب کا گراں‌ قدر سرمایہ ہیں۔ بڑے بڑے ادیب اور ناقد ان کی ادبی خدمات اور کارناموں کے معترف رہے اور انھیں پائے کا نقّاد تسلیم کیا جن کے ہاں موضوعات کا تنوّع پایا جاتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب درس و تدریس کے ساتھ ساتھ نظم و نثر اور ادب کی جملہ اصناف اور متعدد اسالیب پر اپنی مدلّل اور جامع رائے اور تنقید کی وجہ سے ہم عصروں میں ممتاز رہے۔ فرمان فتح پوری نے اردو رباعی کا فنی و تاریخی ارتقا، ہندی اردو تنازع، غالب: شاعرِ امروز و فردا، زبان اور اردو زبان، دریائے عشق اور بحرالمحبّت کا تقابلی مطالعہ اور اردو املا اور رسم الخط اور دیگر موضوعات پر خوب کام کیا۔ وہ تقریباً تین دہائیوں تک اردو لغت بورڈ سے وابستہ رہے اور 2001ء سے 2008ء تک اس ادارے کے صدر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ اردو لغت کی کئی جلدیں ان کی نگرانی میں مکمل ہوئیں۔ کہتے ہیں کہ فرمان فتح پوری کا حافظہ نہایت قوی تھا۔ رفتگانِ علم و ادب کے نام اور ان کے کام کی تفصیل انھیں ازبر تھی۔ جامعہ کراچی نے فرمان فتح پوری کو پروفیسر ایمیریٹس بنایا۔ جہاں ڈاکٹر صاحب کے تحریر کردہ مضامین ایک دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں وہیں ان کی کتاب ’اردو ہندی تنازع‘ نہایت مستند مانی جاتی ہے۔

    ڈاکٹر فرمان فتح پوری 2013ء میں آج ہی کے روز انتقال کرگئے تھے۔ حکومتِ‌ پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔

  • پران: وہ ولن جس نے بڑے پردے پر راج کیا

    پران: وہ ولن جس نے بڑے پردے پر راج کیا

    اداکار پران نے ہندی سنیما کو اپنی زندگی کے پورے چھے عشرے دیے۔ 1998ء میں دل کا دورہ پڑنے کے بعد فلموں سے دور ہوجانے والے پران نے 12 جولائی 2013ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    پران کے بارے میں‌ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے بڑے پردے پر راج کیا اور ایک بولی وڈ کے ایسے ولن رہے جن کی مقبولیت کبھی کم نہیں ہوئی۔ بھارتی سنیما میں اگر امیتابھ بچن کو ‘ہیرو آف ملینیئم’ کے طور پر جانا گیا تو پران کو ‘ولن آف دی ملینیئم’ کہا جاتا ہے۔ 1969ء اور 1982ء کے دوران وہ سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اداکار رہے ہیں۔ پران نے 350 سے زائد فلموں میں کام کیا۔

    بھارت کے اس مشہور فلمی اداکار کا پورا نام پران کرشن سکند تھا جو پرانی دہلی کے علاقے بلی ماراں میں 12 فروری 1920ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد سول انجینیئر تھے جن کا قیام سرکاری کاموں‌ کی غرض سے مختلف شہروں میں رہا۔ تعلیم کے شعبے میں پران نے بڑی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا، وہ ریاضی کے مضمون میں طاق تھے اور اس مضمون میں خاص مہارت رکھتے تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ دہلی میں بطور پروفیشنل فوٹوگرافر کام کرنے لگے تھے۔ اور پھر ایک اسکرپٹ رائٹر کے کہنے پر فلم نگری میں‌ چلے آئے، لیکن یہ بات تقسیمِ ہند سے قبل کی ہے جہاں لاہور میں پران نے اداکاری کا آغاز کیا۔ انھوں نے اپنے فلمی کیريئر کی ابتدا بہ طور ہیرو کی تھی اور 1940ء میں پہلی مرتبہ ’جٹ یملا‘ میں نظر آئے تھے۔ لیکن ان کی شکل و صورت، چال ڈھال اور انداز ایسا تھا کہ انھیں ہدایت کاروں نے ولن کے روپ میں‌ پردے پر آزمانا زیادہ بہتر سمجھا اور یوں پران نے اس سمت میں اڑان بھری۔ تقسیمِ ہند کا اعلان ہوا تو پران بمبئی کی فلمی صنعت سے وابستہ ہوگئے اور جلد ہی جگہ بنالی، فلم بین واقعی ان کے منفی روپ سے نالاں اور بطور ولن ان کے عزائم اور ارادوں سے متنفر نظر آتے تھے۔ لیکن صفِ اوّل کے ولن پران نے اسی روپ میں‌ مزاحیہ اداکاری بھی اس طرح کی کہ ولن کے کیریکٹر کو ایک الگ پہچان ملی۔

    اداکار پران نے فلم ضدی، بڑی بہن، میرے محبوب، زنجیر کے علاوہ کئی سپرہٹ فلموں میں ولن کا رول ادا کیا اور امیتابھ بچن اور سپر اسٹار کا درجہ رکھنے والے کئی اداکاروں کے ساتھ کام کرکے اپنا لوہا منوایا۔ انھوں نے ہندی سنیما کی دھوم مچا دینے والی فلم ڈان، امر اکبر انتھونی اور شرابی میں بھی کردار ادا کیے تھے۔ اسی طرح دلیپ کمار کی فلموں دیوداس، مدھومتی، دل دیا درد لیا، رام اور شیام اور آدمی میں بھی بطور ولن پران کی اداکاری کو بہت پسند کیا گیا۔

    آواز میں انفرادیت اور مکالمے ادا کرنے کا انداز بھی بطور ولن پران کی اس قدر مقبولیت کی ایک وجہ تھا۔ انھوں نے مار دھاڑ کرنے والے، ایک بدمعاش، قاتل اور چور اچکے کا ہی کردار نہیں نبھایا بلکہ ایک نیک سیرت اور رحم دل انسان کے طور پر بھی ناظرین کے سامنے آئے اور ان مضبوط کرداروں میں پران کی شان دار پرفارمنس نے شائقین کو ان کا مداح بنا دیا۔

    فلم اور شوبزنس انڈسٹری کے علاوہ سرکاری سطح پر بھی پران کو اعزازات سے نوازا گیا اور فنِ اداکاری میں ان کی بے مثال پرفارمنس کو تسلیم کیا گیا۔ سنہ 1997 میں انھیں لائف ٹائم ایوارڈ دیا گیا اور پھر وہ ’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘ سے نوازے گئے۔ اداکار پران نے 1945ء میں شکلا اہلووالیا سے شادی کی تھی اور وہ دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے باپ تھے۔