Tag: 2016 برسی

  • معراج محمد خان کا تذکرہ جن کے لہجے کی سچائی عوام کے دلوں میں آباد تھی

    معراج محمد خان کا تذکرہ جن کے لہجے کی سچائی عوام کے دلوں میں آباد تھی

    معراج محمد خان کو اپنے مقصد سے عشق تھا اور اس راستے میں‌ جتنے بھی سخت مقام آئے، وہ ان سے گزر گئے۔ ملک کے مظلوم طبقات، مختلف گروہوں کے حقوق اور جمہوریت کے لیے لڑنے والے معراج محمد خان 22 جولائی 2016ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔

    معراج محمد خان پاکستان میں بائیں بازو کے نظریات رکھنے والوں کے پیر و مرشد رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے سیاسی سفر میں اپنے نظریات پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا اور جمہوریت کو پامال کر کے اپنی حاکمیت کا اعلان کرنے والے ہر آمر کو للکارا۔ قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں، سڑکوں پر احتجاج کیا اور پولیس کا لاٹھی چارج سہا۔ مگر عوامی حکومت کے لیے اُن کی جدوجہد اور طبقاتی نظام کے خلاف اُن کی آواز کبھی مدھّم نہیں‌ پڑی۔ جاہ و منصب، مال و زر اور مراعات کی پیشکش معراج محمد خان کو اُن کے اپنے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹا سکے۔

    اُن کے نظریات اور سیاسی جدوجہد کی داستان طویل ہے جسے کئی صفحات پر پھیلایا جاسکتا ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں‌ کے لیے ”معراج بھائی“ تھے، اور اُن کے یہ متوالے اُن کی قیادت میں ظلم اور جبر کے خلاف سراپا احتجاج رہے۔

    معراج محمد خان نے ساری زندگی اپنے نظریات پر کاربند رہتے ہوئے سنجیدہ سیاست کی۔ ایک طرف تو لاٹھی چارج، جیل اور مقدمات انھیں اُن کے نظریات سے دستبردار نہیں کروا سکے اور دوسری طرف وزارت اور مراعات کی پیشکش بھی معراج محمد خان کو اُن کے اصولوں سے پیچھے نہیں ہٹا سکی۔

    معراج محمد خان نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز طلبہ سیاست سے کیا اور بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) سے منسلک رہے۔ معراج محمد خان لگ بھگ 10 سال تک این ایس ایف کی قیادت میں شامل رہے اور اپنے زمانۂ طالبِ علمی سے سیاست تک لگ بھگ 13 سال جیلوں سے واسطہ پڑا۔

    مئی 1974 میں معراج محمد خان نے کراچی میں مزارِ قائد کے باہر خواتین اساتذہ کی جانب سے کیے جانے والے مظاہرے میں شرکت کی تھی اور اس مظاہرے میں وہ زخمی ہوئے تھے۔ سنہ 1983 میں معراج محمد خان کو پولیس نے ایم آر ڈی کے ایک اجلاس میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے گھیر لیا تھا اور ان پر لاٹھی چارج کیا گیا۔ کراچی اور ملک کے دیگر شہروں‌ میں‌ کئی سیاسی جلسوں میں معراج محمد خان کی گرجدار آواز میں تقریر اور ان کا پُرجوش انداز آمروں اور ان کا ساتھ دینے والے سیاست دانوں پر لرزہ طاری کرتا رہا۔ ایوب خان کی فوجی آمریت نے سر اٹھایا تو ہر طرف سکتہ طاری تھا۔ یہ معراج اور ان کے ساتھی ہی تھے جنھوں نے ماشل لاء ضوابط کو ٹھکراتے ہوئے سب سے پہلے اس آمریت کے خلاف جنگ کا آغاز کیا۔ جب فوجی آمر ضیاءُ الحق نے بھٹو صاحب کے خلاف گھیرا تنگ کیا، اور بعد میں اسٹیبلشمنٹ نے بے نظیر بھٹو پر عقوبتوں کے دروازے کھولے، تو معراج محمد خان اور ان کے صداقت شعار ساتھیوں نے اس کے خلاف شد و مد سے آواز بلند کی۔ معراج صاحب کے ولولہ انگیز خطبات آج بھی اس نظامِ کہنہ اور ہر آمر و جفا پیشہ کے لیے گویا تازیانہ ہیں۔

    وہ پیپلز پارٹی کے بانی قائدین اور ذوالفقار علی بھٹو کے انتہائی قریبی اور بااعتماد ساتھیوں میں سے ایک تھے اور بعد میں وہ بے نظیر بھٹو کے قریب بھی رہے، لیکن وہ جس مقصد کے لیے اتنی کٹھنائیاں جھیلتے رہے، اس کی تکمیل میں‌ کئی رکاوٹیں حائل تھیں، جس نے معراج صاحب کو اپنا راستہ بدلنے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ 1970ء کے عام انتخابات میں کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن بنے تھے۔دسمبر 1971ء میں انھیں‌ وزیرِ محنت و افرادی قوّت بنایا گیا۔ پیپلز پارٹی کی تشکیل اور اس کے منشور کی تدوین میں جن ترقی پسند راہ نماؤں اور دانش وروں نے حصّہ لیا ان میں معراج محمد خان بھی شامل تھے۔ بھٹو صاحب نے ایک مرتبہ انھیں اپنا جانشین بھی قرار دیا تھا۔ بعد میں بھٹو صاحب سے سخت اختلافات کے باعث وہ پارٹی سے دور ہوگئے۔ یہ 1977ء کی بات ہے اور بعد میں معراج صاحب نے قومی محاذ آزادی بنائی، اور پھر وہ تحریک ِ انصاف سے جڑ گئے، لیکن اس پارٹی کو بھی خیر باد کہہ دیا۔ اپنی زندگی کے آخری ایّام میں عملی سیاست سے کنارہ کش ہوچکے تھے۔ معراج محمد خان کی دلیری اور سچائی کا چرچا عام تھا اور یہی وجہ تھی کہ ان کی بنائی ہوئی قومی محاذ آزادی کی بہت جلد ملک بھر میں شاخیں پھیل گئیں۔ بائیں بازو کے نوجوانوں میں یہ پارٹی خاص طور پر بہت مقبول تھی، اور بے وسیلہ ہونے کے باوجود جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور حکمراں طبقات کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی، کیونکہ اس کا منشور دو ٹوک انداز میں نادار طبقوں کی حکمرانی پر اصرار کرتا تھا۔ لیکن پھر یہ باب بھی بند ہوگیا۔

    20 اکتوبر 1938ء کو معراج محمد خان نے برٹش انڈیا کے ایک چھوٹے سے قصبے قائم گنج میں آنکھ کھولی تھی۔ تقسیمِ ہند کے ایک برس بعد وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں سیاسی اور عوامی حقوق کے لیے ان کی جدوجہد شروع ہوئی۔ معراج محمد خان کے ایک بھائی قلمی نام دکھی پریم نگری کے نام سے بہت مشہور تھے، وہ فلمی گیت لکھا کرتے تھے، جب کہ ایک بھائی منہاج برنا صحافی تھے جو پی ایف یو جے اور ایپنک یونین کے صدر رہے اور ان اداروں کو بنانے کے لیے کام کیا اور صحافت کی آزادی کے لیے قربانیاں بھی دیں۔

  • آغا ناصر کا تذکرہ جو ’’جیتے جی مصروف رہے!‘‘

    آغا ناصر کا تذکرہ جو ’’جیتے جی مصروف رہے!‘‘

    ’’تعلیمِ بالغاں‘‘ اور ’’الف نون‘‘ پاکستان ٹیلی وژن کے سنہرے دور کے لازوال ڈرامے ہیں اور آج تک ان کی مقبولیت برقرار ہے۔ ان ڈراموں کے ہدایت کار آغا ناصر تھے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    آغا ناصر پاکستان میں پروڈیوسر اور ریڈیو اور ٹی وی کے ایسے ہدایت کار کے طور پر شہرت رکھتے ہیں جن کے تذکرے کے بغیر پی ٹی وی کی تاریخ مکمل نہیں‌ ہوسکتی۔ 12 جولائی 2016ء کو اسلام آباد میں‌ آغا ناصر انتقال کر گئے تھے۔

    9 فروری 1937ء میں آغا ناصر نے میرٹھ کے قصبے فرید نگر میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں‌ نے بی اے کا امتحان سندھ مسلم کالج سے پاس کیا اور پھر قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آگئے، اور یہاں آنے کے بعد تاریخ کے مضمون میں جامعہ کراچی سے ایم اے کیا۔ آغا ناصر نے اپنے کیریئر کا آغاز 1955ء میں ریڈیو پاکستان سے بحیثیت براڈ کاسٹر کیا تھا۔ بعد میں وہ اس ادارے میں ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ملک میں ٹیلی ویژن سینٹر کے قیام کے بعد آغا ناصر جیسے قابل اور باصلاحیت براڈ کاسٹر اور پروڈیوسر کو پی ٹی وی سے منسلک ہونے کا موقع ملا اور 1964ء میں انھوں نے نشریاتی ادارے میں اپنا سفر شروع کیا۔ کچھ عرصہ پی ٹی وی کے مینیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے پر بھی کام کیا جب کہ شالیمار ریکارڈنگ کمپنی اور نیف ڈیک کے سربراہ رہے۔

    آغا ناصر ایک علمی و ادبی شخصیت تھے جن کے بارے میں‌ کشور ناہید اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں، "وہ شخص جس نے ساری عمر میڈیا میں گزاری۔ فیض صاحب سے عشق کیا۔ ان کے شعروں اور نظموں کی ایسی تشریح کی کہ ہم جیسے لوگ جو فیض صاحب سے قربت کا دعویٰ کرتے تھے، وہ بھی کتاب پڑھ کر حیران رہ گئے۔ اس کو آپ سب اور ہم آغا ناصر کے نام سے پکارتے، جانتے اور پہچانتے تھے۔ اس نے ایک سال تک موت کو للکارا، صفیہ کی محبت اور بچوں کی خدمت کا امتحان لیا۔ جب اسے اطمینان ہوگیا کہ اب سب سوئے ہوئے ہیں۔ خاموشی سے نیند کے عالم میں اپنی محبتوں، دوستیوں اور کتابوں کو خدا حافظ کہا۔”

    1974 میں اسلامی ممالک کی کانفرنس کا سارا انتظام بھی آغا صاحب کے ذمہ تھا۔ اس سے قبل بھارت سے جنگ کے زمانے میں انھوں نے عالی جی اور دیگر شعرا سے قوم کا لہو گرمانے اور محاذ پر لڑنے والے اپنے فوجی بھائیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے نغمات لکھوائے اور انھیں پی ٹی وی سے نشر کیا گیا۔

    خواجہ معین الدّین کے سماجی طنز و مزاح پر مبنی ڈرامہ ’’تعلیمِ بالغاں‘‘ کو آغا ناصر نے بہ طور ہدایت کار پی ٹی وی پر پیش کیا تھا۔ 1966ء میں اس ڈرامے نے مقبولیت کی تمام حدیں گویا توڑ دی تھیں۔ اس سے قبل پی ٹی وی کے ناظرین ڈرامہ سیریز ’’الف نون‘‘ سے لطف اندوز ہوئے اور یہ بھی مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک تھا جس کے ہدایت کار آغا ناصر ہی تھے۔ ریڈیو پاکستان کے لیے ان کے پیش کردہ پروگراموں‌ میں ’’اسٹوڈیو نمبر 9 ‘‘ اور’’حامد میاں کے ہاں‘‘ بہت مشہور ہوئے۔

    ریڈیو اور پی ٹی وی کے اس باکمال اور ماہرِ نشریات نے ڈرامے لکھے اور ان کی خودنوشت سوانح آغا سے آغا ناصر بھی سامنے آئی۔ آغا ناصر نے اپنی یادوں، باتوں اور ملاقاتوں پر مبنی تذکرے، دورانِ ملازمت پیش آنے والے واقعات کو بھی رقم کیا اور اس خودنوشت کے علاوہ ان کی کتابیں ’گمشدہ لوگ‘، ’ گلشنِ یاد‘ اور’ہم، جیتے جی مصروف رہے‘ کے نام سے سامنے آئیں۔

    فنِ نشریات اور پیش کاری کے لیے آغا ناصر کی شان دار خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔ انھیں اسلام آباد کے ایک قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

  • روبن گھوش: بے مثال موسیقار، لازوال دھنوں کا خالق

    روبن گھوش: بے مثال موسیقار، لازوال دھنوں کا خالق

    روبن گھوش کی بے مثال موسیقی کا سب سے نمایاں وصف جدت اور شوخ ردھم ہے اور اپنے وقت کے مشہور گلوکاروں‌ کی آواز میں ان کے کئی گیت امر ہوئے۔

    1977ء کی فلم آئینہ سے اپنے فنی کریئر کی بلندیوں کو چھونے والے روبن گھوش آج ہی کے دن 2016ء میں وفات پاگئے تھے۔

    روبن گھوش نے 1962 میں فلم ’چندا‘ کے ذریعے پاکستان کی فلم انڈسٹری میں اپنا سفر شروع کیا تھا اور یہ وہ دور تھا جب وہاں بڑے موسیقاروں کا راج تھا۔ مگر نوجوان روبن گھوش نے انڈسٹری میں‌ محنت اور لگن کے ساتھ اپنی تخلیقی صلاحیتوں‌ سے اپنا راستہ بنایا اور موسیقی کی دنیا میں نام و مقام بنانے میں‌ کام یاب ہوگئے۔ انھوں نے اپنے کیریئر کے آغاز پر فلم ’تلاش‘ کے لیے جو کام کیا، اس نے سب کو حیران کر دیا۔ وہ 1963ء کی اس فلم کے لیے بہترین موسیقار کا نگار ایوارڈ لے اڑے۔ روبن گھوش کی کئی دھنیں‌ ان کی فن کارانہ چابک دستی اور فنِ موسیقی میں ان کے کمال کا نمونہ ہیں۔

    فلمی ناقدین تسلیم کرتے ہیں کہ فلم ’آئینہ‘ کو سپر ہٹ بنانے میں روبن گھوش کی لازوال دھنوں کا بڑا دخل تھا۔ اس فلم کے یہ گانے آپ نے بھی سنے ہوں گے جن کہ بول تھے ’کبھی میں سوچتا ہوں،‘ اسے مہدی حسن نے گایا تھا۔ اسی طررح ’مجھے دل سے نہ بھلانا وہ گیت تھا جس میں مہدی حسن کے ساتھ گلوکارہ مہناز نے آواز ملائی تھی۔ گزشتہ سال دنیا سے رخصت ہوجانے والی گلوکارہ نیرہ نور کی آواز میں‌ یہ گیت بہت مقبول ہوا ’روٹھے ہو تم، تم کو میں کیسے مناؤں پیا‘ اور یہ گیت بھی اسی فلم میں‌ شامل تھا۔

    روبن گھوش کے کئی مقبول گیت ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر بھی پیش کیے گئے اور سامعین و شائقین نے انھیں بہت پسند کیا۔ اخلاق احمد کی آواز میں روبن گھوش کی موسیقی میں اس گیت ’سونا نہ چاندی نہ کوئی محل‘ نے مقبولیت کا ریکارڈ بنایا۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کو سپر ہٹ فلمیں دینے میں ان کی لازوال موسیقی کا بھی بڑا کردار رہا۔ مہدی حسن کی آواز میں ’کبھی میں سوچتا ہوں…،‘، ’مجھے دل سے نہ بھلانا،‘ نیّرہ نور کا گایا ہوا ’روٹھے ہو تم، تم کو میں کیسے مناؤں پیا… وہ گیت تھے جنھیں پاک و ہند میں‌ مقبولیت حاصل ہوئی اور آج بھی ان کی سحر انگیزی برقرار ہے۔

    روبن گھوش کے کئی مقبول گیت ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر بھی نشر ہوئے جن میں ’کبھی تو تم کو یاد آئیں گے‘، ’مجھے تلاش تھی جس کی‘ ، ’ساون آئے ساون جائے‘ ، ’دیکھو یہ کون آ گیا وغیرہ شامل ہیں۔

    روبن گھوش 1939ء میں‌ بغداد میں پیدا ہوئے تھے۔ وہاں ان کے والد اپنے کنبے کے ساتھ بغرضِ ملازمت سکونت پذیر تھے، اور چھے سال کی عمر میں روبن گھوش کا خاندان ڈھاکا چلا گیا تھا جہاں نوعمری میں‌ روبن گھوش کو موسیقی سے دل چسپی پیدا ہوئی۔ انھوں نے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی اور کام شروع کیا۔ ان کی ملاقات ڈھاکا ہی میں‌ شبنم سے ہوئی تھی جو وہاں فلم میں‌ معمولی کردار ادا کرتی تھیں‌ اور بعد میں پاکستان کی ایک مقبول فلمی اداکارہ بنیں، دونوں رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوگئے، یہ جوڑی 1996ء میں بنگلہ دیش منتقل ہو گئی تھی۔ سقوطِ ڈھاکا کے وقت روبن گھوش نے مشرقی پاکستان کے بجائے مغربی پاکستان میں سکونت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور کچھ عرصہ کراچی میں مقیم رہنے کے بعد لاہور شفٹ ہو گئے تھے۔

    موسیقار روبن گھوش نے 1961ء میں بنگالی فلموں سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا اور بعد میں اردو فلموں کے لیے کام شروع کیا۔ پاکستان میں ان کی آخری فلم ’جو ڈر گیا وہ مر گیا‘ تھا جس کی موسیقی بہت پسند کی گئی۔ انھیں چھے مرتبہ پاکستان کی فلم انڈسٹری کا سب سے معتبر نگار ایوارڈ دیا گیا تھا۔

    ڈھاکا میں وفات پانے والے روبن گھوش کی عمر 76 برس تھی اور وہ کچھ عرصے سے علیل تھے۔