Tag: 2024 US elections

  • ہماری جدوجہد جاری رہے گی، کملا ہیرس کا شکست کے بعد پہلا خطاب

    ہماری جدوجہد جاری رہے گی، کملا ہیرس کا شکست کے بعد پہلا خطاب

    واشنگٹن : امریکی صدارتی انتخاب 2024 میں ٹرمپ سے شکست کا سامنا کرنے والی ڈیمو کریٹک امیدوار کملا ہیرس نے کہا ہے کہ ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔

    الیکشن میں شکست کے بعد ہاورڈ یونیورسٹی سے خطاب میں کملا ہیرس کا الیکشن مہم میں ساتھ دینے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہمیں الیکشن کے نتائج کھلے دل سے تسلیم کرنے چاہئیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ سے ہارنے والی کملا ہیرس نے شکست قبول کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن میں ہار مانتی ہوں، اقتدار کی پر امن منتقلی یقینی بنانےکیلئے پرعزم ہیں۔

    امریکی صدارتی انتخاب 2024

    ان کا کہنا تھا کہ ہم ہمت نہیں ہاریں گے، ہماری جدوجہد جاری رہے گی اور ہماری جدوجہد امریکا کے بہتر مستقبل کیلئے تھی۔

    کاملاہیرس نے کہا کہ آئین اور قانون کی بالادستی کیلئے ہماری تحریک جاری رہے گی، جمہوریت کا یہی اصول ہے کہ اگر ہارو تو شکست بھی تسلیم کرو، جمہوریت اورآمریت میں یہی فرق ہے۔

    امریکی نائب صدر نے بتایا کہ ہم نے انتخابی مہم میں تمام لوگوں کو متحد کرنے کی کوشش کی، ہمیں تاریکی میں چمکتے ہوئے ستاروں سے بھی امید کی کرن لینی ہے۔

    کاملا ہیرس نے کہا کہ گن وائلنس سے اپنے شہریوں کو محفوظ رکھنے کیلیے کسی بھی جنگ میں ہار نہیں مانیں گے، ہماری لڑائی امریکا کے بہتر مستقبل کی لڑائی ہے۔

  • ٹرمپ کا دوسرا دور صدارت : تارکین وطن کا کیا ہوگا؟

    ٹرمپ کا دوسرا دور صدارت : تارکین وطن کا کیا ہوگا؟

    واشنگٹن : امریکی صدارتی انتخاب 2024 میں شاندار کامیابی حاصل کرنے والے ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد حکومتی اداروں کو متحرک کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں تاکہ وہ ریکارڈ تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرسکیں۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کے گزشتہ دور حکومت میں کیے گئے اقدامات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اس بار امریکہ کی قیادت کس طریقے سے کریں گے؟ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ اپنی صدارت وہیں سے شروع کریں گے جہاں یہ 2020 میں اختتام پذیر ہوئی تھی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق نو منتخب امریکی صدر کا غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ اپنی پہلی مدت میں کیے گئے اقدامات کو تقویت دینے کا عزم کا اظہار ہے، جس کے تحت وہ تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لائیں گے۔

    امریکی صدارتی انتخاب 2024

    ٹرمپ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ صدر منتخب ہونے کے بعد ٹرمپ ملک بدری کے وعدے کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے اپنے منصوبے میں امریکی فوج سے لے کر غیر ملکی سفارت کاروں تک سب کو شامل کریں گے۔

    ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران عوام کو اپنے منشور سے آگاہ کرتے ہوئے کامیابی کی صورت میں وسیع پیمانے پر سخت امیگریشن قوانین کا وعدہ کیا تھا، ٹرمپ کو اپنی پہلی مدت 2017-2021میں ملک بدری کے عمل میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

    انتخابی مہم میں انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ریکارڈ تعداد میں تارکین وطن کو ملک بدر کردیں گے۔ ان کے نائب جے ڈی وینس نے بتایا کہ یہ منصوبہ سالانہ 10 لاکھ افراد کو ملک بدر کرسکتا ہے۔

    دوسری جانب اس منصوبے کی مخالفت میں تارکین وطن کے حقوق کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ بہت مہنگا، متنازع اور غیر انسانی ہوگا، جس سے خاندان جدا ہوں گے۔

    ایڈیسن ریسرچ کے ایگزٹ پولز کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 39فیصد ووٹرز نے کہا کہ امریکہ میں غیر قانونی طور پر موجود تارکین وطن کو ملک بدر کیا جانا چاہیے جبکہ 56فیصد کا کہنا تھا کہ ان تارکین وطن کو قانونی حیثیت کے لیے درخواست دینے کی اجازت دی جانی چاہیے۔

    یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ لاکھوں افراد کو ملک بدر کرنے کے لیے زیادہ تعداد میں افسران، حراستی مقامات اور امیگریشن ججوں کی ضرورت ہوگی۔ امریکن امیگریشن کونسل کا تخمینہ ہے کہ امریکہ میں 13 ملین غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کی لاگت دس سالوں میں تقریباً 968 ارب ڈالر ہوگی۔

    یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ 1798 کے ایک جنگی قانون جسے ’ایلین اینمیز ایکٹ‘ کہا جاتا ہے کو ممکنہ طور پر استعمال کرسکتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ تارکین وطن کو فوری طور پر ملک بدر کیا جاسکے، تاہم یہ ایک ایسی کارروائی ہے جسے مخالفین کی جانب سے یقینی طور پر عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔

  • امریکی صدارتی انتخاب 2024 : ڈونلڈ ٹرمپ اپنے عہدے کا حلف کب اٹھائیں گے؟

    امریکی صدارتی انتخاب 2024 : ڈونلڈ ٹرمپ اپنے عہدے کا حلف کب اٹھائیں گے؟

    امریکی صدارتی انتخاب 2024 میں ڈونلڈ ٹرمپ عہدۂ صدارت کے لیے لازمی 270 الیکٹورل ووٹ حاصل کرنے میں بالآخر کامیاب ہوگئے، اب وہ ایک بار پھر چار سالہ مدت کیلیے وائٹ ہاؤس کے مکین بن جائیں گے۔

    صدارتی انتخاب کے روز آخری لمحات تک ڈیمو کریٹ امیدوار کاملا ہیرس اور ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان مقابلہ بازی انتہائی سخت سمجھی جا رہی تھی لیکن جیسے جیسے نتائج سامنے آنا شروع ہوئے صورتحال واضح ہوتی گئی اور ٹرمپ نے فتح کیلئے مقررہ سے زائد ووٹ حاصل کرلیے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپوٹ کے مطابق امریکہ میں 130 سال کے طویل عرصے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ پہلے صدر ہوں گے جو دوبار اس عہدے پر فائز ہوں گے اور 78 سال کی عمر میں امریکی صدر کے طور پر منتخب ہونے والے سب سے زیادہ عمر والے شخص بھی بن جائیں گے۔

    امریکی صدارتی انتخاب 2024

    نومنتخب صدر پیر 20 جنوری 2025 کو یو ایس کیپیٹل کمپلیکس میں اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے، یہ امریکی تاریخ کا 60 واں صدارتی حلف ہوگا۔ اس تقریب کے دوران نومنتخب صدر اپنا افتتاحی خطاب بھی کریں گے۔

    صدارتی انتخابات میں صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کو خدشات تھے کہ کچھ اہم "سوئنگ” ریاستوں میں انتہائی سخت مقابلے نے نتائج کو غیر یقینی بنا دیا ہوگا۔ تاہم، نارتھ کیرو لائنا، جارجیا، پنسلوانیا اور وسکونسن میں توقع سے زیادہ کامیابی اور ریپبلکن ریاستوں میں فتوحات نے ٹرمپ کو صدارت حاصل کرنے کے لئے لازمی 270 الیکٹورل ووٹ حاصل کرنے میں مدد فراہم کی۔

    کیا ڈونلڈ ٹرمپ اب صدر ہیں؟

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس جیت کے بعد کیا ڈونلڈ ٹرمپ اب صدر بن گئے، جی نہیں! کیونکہ ٹرمپ ابھی صرف صدر اور ان کے ساتھی جے ڈی وینس نائب صدر منتخب ہوئے ہیں۔ 20جنوری 2025 کو باقاعدہ حلف اٹھائیں گے، جس کے بعد وہ قانونی طور پر صدارت کی کرسی اور اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔

    انتخابات اور حلف برداری کے درمیانی عرصے میں کیا ہوتا ہے؟

    تمام درست ووٹوں کو حتمی نتائج میں شامل کرنے کا وہ عمل جسے ’الیکٹورل کالج‘ کہا جاتا ہے، انتخابی نتائج کی تصدیق کرتا ہے۔

    ہر ریاست میں مختلف تعداد میں الیکٹورل کالج ووٹ دستیاب ہوتے ہیں۔ عام طور پر ریاستیں اپنے تمام الیکٹورل کالج ووٹ اسی امیدوار کو دیتی ہیں جو عوامی ووٹ میں فاتح قرار پاتا ہے جس کے بعد کانگریس 6 جنوری کو الیکٹورل کالج ووٹوں کی گنتی کرکے نئے صدر کے نام کی تصدیق کرتی ہے۔

    آنے والے صدر اور نائب صدر اس دوران کیا کریں گے؟

    نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ساتھی جے ڈی وینس اپنی ٹیم کے ساتھ صدر بائیڈن کی انتظامیہ سے اقتدار کی منتقلی کی تیاری کا کام کریں گے۔ اس دوران وہ وہ اپنی پالیسیوں کو مرتب اور حکومت کے اہم عہدوں کے لئے ممکنہ امیدواروں کی جانچ پڑتال شروع کریں گے۔

    اس دوران ٹرمپ اور ان کی ٹیم کو قومی سلامتی کے امور سے متعلق خفیہ بریفنگز بھی ملنا شروع ہو جائیں گی۔ ساتھ ہی نئے صدر اور نائب صدر کو امریکی سیکرٹ سروس کی جانب سے سیکیورٹی بھی فراہم کردی جائے گی۔

    امریکی روایت کے مطابق موجودہ صدر کی جانب سے نئے صدر کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا جاتا ہے تاکہ تقریب حلف برداری میں شرکت اور اقتدار کی منتقلی پُرامن طریقے سے کی جاسکے۔

  • امریکی صدارتی انتخاب 2024 : کاملا ہیرس کی شکست کے ذمہ دار جوبائیڈن ہیں، ڈیموکریٹس

    امریکی صدارتی انتخاب 2024 : کاملا ہیرس کی شکست کے ذمہ دار جوبائیڈن ہیں، ڈیموکریٹس

    امریکی صدارتی انتخاب 2024 میں ڈونلڈ ٹرمپ کی شاندار کامیابی اور کاملا ہیرس کی شکست ڈیمو کریٹک پارٹی کے عہدیداران اور ووٹرز کیلئے کسی دھچکے سے کم نہیں۔

    انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد ڈیمو کریٹک پارٹی رہنماؤں نے اپنا شدید ردعمل دیتے ہوئے حیرت اور غم و غصہ کا اظہار کیا ہے، ڈیموکریٹس رہنما صدر جوبائیڈن کو کمالا ہیرس کی شکست کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق کمالا ہیرس نے خود کو ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں ایک کمتر امیدوار کے طور پر پیش کیا تھا اور تین ماہ پہلے ہی انتخابی دوڑ میں شامل ہوئی تھیں۔ تاہم، ان کی شکست نے کچھ ڈیمو کریٹس کو پارٹی کے مستقبل پر سوال اٹھانے پر مجبور کردیا ہے۔

    امریکی صدارتی انتخاب 2024

    ناقدین کا کہنا ہے کہ پارٹی نے صدر جوبائیڈن کی دماغی صحت کے بارے میں اپنے حامیوں سے جھوٹ بولا۔

    جوبائیڈن کے اس جھوٹ کا پردہ گزشتہ جون میں ٹرمپ کے ساتھ ایک ٹی وی مباحثے میں فاش ہوا، جس سے لوگوں میں تشویش پیدا ہوئی اور بالآخر بائیڈن کو صدارتی دوڑ سے دستبردار ہونا پڑا۔

    ایک ڈیمو کریٹک ڈونر نے سوال کیا کہ جوبائیڈن نے اتنے عرصے تک کیوں خود کو کیوں سامنے رکھا ؟ انہیں اپنی صحت کے بارے میں قوم کو سچ بتا کر پہلے ہی پیچھے ہٹ جانا چاہیے تھا۔

    اس حوالے سے 81 سالہ صدر جوبائیڈن نے ایک نجی محفل میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ واحد ڈیمو کریٹ رہنما ہیں جو ٹرمپ کو شکست دے سکتے ہیں اور انہوں نے قوم کو یقین دلایا کہ وہ اگلے چار سال کے لیے بھی صدر بننے کے قابل ہیں۔

    بعد ازاں جب انہوں نے جولائی میں دوڑ سے دستبرداری کا اعلان کیا تو کہا کہ یہ میری پارٹی اور ملک کے بہترین مفاد میں ہے کہ میں اس دوڑ سے دستبردار ہو جاؤں۔

    ایک اور ڈیمو کریٹک ڈونر بل ایکمین کا کہنا تھا کہ پارٹی کے اندر "مکمل تبدیلی” کی ضرورت ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر پیغام میں انہوں نے لکھا کہ پارٹی نے صدر کی ذہنی صحت اور اہلیت کے بارے میں امریکی عوام سے جھوٹ بولا ہے اور اس کے بعد انہیں تبدیل کرنے کے لیے کوئی پرائمری الیکشن بھی منعقد نہیں کیا۔

    ایک ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کے عہدیدار نے بتایا کہ گزشتہ رات پارٹی اراکین کی جانب سے ناراضگی کے پیغامات موصول ہورہے تھے جیسے وہ محسوس کر رہے تھے کہ ان سے جھوٹ بولا گیا۔

    واضح رہے کہ صدارتی انتخاب میں کمالا ہیرس کی ہار ڈیمو کریٹس کی تین میں سے دو تلخ ناکامیوں میں دوسری شکست ہے۔ 2016 میں بھی ہلیری کلنٹن کی شکست نے بائیڈن کے لیے میدان ہموار کیا تھا۔

    دوسری جانب ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ سزا یافتہ ٹرمپ کی غیر روایتی اقتصادی تجاویز، جن میں درآمدات پر مکمل ٹیکس بھی شامل ہے، ان کے غیر قانونی طور پر مقیم لاکھوں افراد کو ملک بدر کرنے کے منصوبے سے صنعتوں کو بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، اس کے باوجود ٹرمپ نے لاطینی ووٹرز میں اپنی حمایت بڑھائی اور جارجیا اور نارتھ کیرو لائنا میں آسانی سے جیت حاصل کی، جہاں ڈیمو کریٹس سمجھتے تھے کہ ان کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔

  • امریکی صدارتی انتخاب 2024 : خلا بازوں نے بھی ووٹ کاسٹ کرلیا

    امریکی صدارتی انتخاب 2024 : خلا بازوں نے بھی ووٹ کاسٹ کرلیا

    امریکی صدارتی انتخابات میں زمین کے بعد خلا میں بھی ووٹنگ کا عمل جاری رہا، ناسا کے خلا بازوں نے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) سے اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی خلا بازوں نے بھی اپنے ووٹ کا حق استعمال کرلیا ہے۔

    ناسا کے خلابازوں نے ووٹ ڈالنے کے بعد خلائی اسٹیشن سے تصویر شیئر کردی، امریکی خلا بازوں نے الیکٹرک بیلٹ کے ذریعے ووٹ کاسٹ کیا۔

    رپورٹ کے مطابق ٹیکساس میں ہیرس کاؤنٹی کلرک آف کورٹ آفس نے بتایا ہے کہ ناسا کے خلابا زبچ ولمور، سنی ولیمز اور ڈان پیٹیٹ نے انتخابات کے دن سے ایک روز قبل بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) سے اپنا ووٹ ڈالا۔

    ناسا کے خلا باز نِک ہیگ کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر یہ تصویر پوسٹ کی گئی، جس میں انہوں نے "Proud to be American” (امریکی ہونے پر فخر ہے) والے موزے پہن رکھے تھے۔

    تصویر کے کیپشن میں انہوں نے لکھا کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ بیٹھے ہیں، کھڑے ہیں یا خلا میں تیر رہے ہیں، اہم بات یہ ہے کہ آپ ووٹ ڈالیں۔

    NASA

    اسمتھ سونین ایئر اینڈ اسپیس میوزیم کے مطابق انتخابی دن سے پہلے ایک خفیہ الیکٹرانک بیلٹ اسپیس سنٹر کو بھیجا جاتا ہے، جسے خلا باز ای میل کے ذریعے حاصل کردہ اسناد سے رسائی حاصل کرکے واپس ہیریس کاؤنٹی کلرک کے دفتر بھیجتے ہیں۔

  • امریکی صدارتی انتخاب 2024 : پولنگ اسٹیشنوں پر بم کی اطلاع

    امریکی صدارتی انتخاب 2024 : پولنگ اسٹیشنوں پر بم کی اطلاع

    واشنگٹن/ جارجیا : امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے موقع پر ووٹنگ کے عمل کے دوران دو پولنگ اسٹیشنوں پر بم کی افواہ نے ہلچل مچا دی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق جارجیا کے دو پولنگ اسٹیشنز پر بم کی اطلاع ملنے پر ووٹنگ کا عمل روکنا پڑگیا، تاہم بعد میں اطلاع جھوٹی نکلی۔ بم کی جھوٹی اطلاع پر فلٹن کاؤنٹی کے دو مقامات پر تقریباً آدھے گھنٹے تک پولنگ معطل رہی۔

    الیکشن ڈائریکٹر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ شکر ہے پولنگ اسٹیشن محفوظ ہیں، ووٹنگ کا عمل دوبارہ شروع کردیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ پولنگ کا وقت بڑھانے کے لیے عدالت سے رجوع کررہے ہیں۔

    Georgia رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز جارجیا میں ایک پول ورکر کو گرفتار کیا گیا تھا جس پر الزام تھا کہ اس نے انتخابی عملے کو دھمکی آمیز خط بھیجا تھا جس میں بم کی اطلاع دی گئی تھی اور اس نے خط کو اس طرح لکھا جیسے وہ ریاست کے ایک ووٹر کی طرف سے آیا ہو۔

    یاد رہے کہ جارجیا اُن سات اہم ریاستوں میں سے ایک ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان صدارتی انتخاب کے نتیجے کا فیصلہ کرنے میں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔

    دوسری جانب امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے پولنگ کا عمل زور شور اور پر امن طریقے سے جاری ہے، تاہم اس موقع پر دہشت گردی کے خطرے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔

    رپورٹ کے مطابق امریکی صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ امیدوار کملا ہیرس اور ریپبلیکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان مختلف ریاستوں میں کانٹے کا مقابلہ ہورہا ہے اور انتخابی گہما گہمی بھی جاری ہے۔

    Election security

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی انتخابات میں دہشت گردی کے خطرے کی فیک نیوز وائرل کی جارہی ہیں، اس حوالے سے ایف بی آئی نے بھی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی سے متعلق فیک الرٹ جان بوجھ کر پھیلا گیا۔

    ایف بی آئی حکام نے کہا ہے کہ پولنگ اسٹیشنوں پر دہشت گرد حملے کا کوئی خطرہ نہیں، سوشل میڈیا پردہشت گردی سے متعلق فیک الرٹ وائرل ہوا ہے۔

  • امریکا الیکشن : ہیریس اور ٹرمپ کے آخری روز عوام سے وعدے اور دلاسے

    امریکا الیکشن : ہیریس اور ٹرمپ کے آخری روز عوام سے وعدے اور دلاسے

    امریکا میں صدارتی انتخاب کے دو مضبوط امیدواروں نائب صدر کاملا ہیریس اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ قومی، ریاستی اور مقامی سطح پر بھی الیکشن ہو رہے ہیں۔

    امریکی صدارتی انتخاب کی مہم آخری روز میں داخل ہوتے ہی ریاست پنسلوینیا انتخابی طور پر میدان جنگ بن گئی جسے جیتنے کے لیے دونوں صدارتی امیدوار ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔

    یہاں ڈونلڈ ٹرمپ اور کاملاہیرس کی ووٹرز کو قائل کرنے کی آخری اور سر توڑ کوششیں جاری ہیں انتخابی مہم کے آخری روز کاملاہیرس کی ریاست پنسلوانیا پر توجہ مرکوز رہی۔

    امریکی صدارتی انتخاب 2024

    ڈونلڈ ٹرمپ کا حامیوں سے خطاب

    سابق صدرڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کیرولینا، پنسلوانیا اور مشی گن کا ہنگامی دورہ کیا، ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے خطاب میں کہا کہ ہم جوہری جنگ عظیم سوئم کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں، صدر منتخب ہوکر تیسری جنگ عظیم شروع ہونے سے روکوں گا۔

    ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اگرمیں صدر ہوتا تو 7 اکتوبر کا واقعہ کبھی رونما نہ ہوتا، صدر بننے کے بعد مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی ختم کروں گا، ہم جوبائیڈن کے خراب نظام کو ٹھیک کریں گے، اقتدار میں آکر نئی نوکریاں فراہم کرکے عوام کو خوشحال بنائیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ الیکشن کے نتائج 5نومبر کو ہی سامنے آنے چاہئیں، یہ ہمارے لیے ہمیشہ کے لئے آخری موقع ہے۔

    کاملا ہیرس کا حامیوں سے خطاب

    دوسری جانب کاملا ہیرس نے بھی اپنے حامیوں سےخطاب میں یقین دہانی کرائی کہ منتخب ہوکر تمام امریکیوں کی صدر بنوں گی، ہم جیتیں گے کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ کس مقصد کیلئے کھڑے ہیں۔

    کاملاہیرس کا کہنا تھا کہ نئی شروعات کیلئے تیار ہیں جہاں امریکیوں کو دشمن نہیں پڑوسی کے طور پر دیکھا جائیگا، ٹرمپ کا قبل از وقت جیت کا دعویٰ حقیقت سے توجہ ہٹانا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ 2020کا صدارتی انتخاب شفاف تھا جس میں ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست ہوئی، ہمیں اب بھی امید ہے کہ 2024کا انتخاب بھی صاف و شفاف ہوگا۔

  • امریکی انتخابات 2024: اعداد و شمار کے آئینے میں

    امریکی انتخابات 2024: اعداد و شمار کے آئینے میں

    واشنگٹن : امریکہ کے سال 2024 کے صدارتی انتخابات کو مختلف عددی پہلوؤں سے سمجھا جاسکتا ہے، جن میں سات اہم ریاستیں، الیکٹورل کالج کے ووٹ، بیلٹ پر موجود امیدوار اور لاکھوں ووٹر شامل ہیں۔

    امریکی صدارتی الیکشن میں عوام اپنے صدر کا براہ راست انتخاب نہیں کرتے بلکہ الیکٹورل کالج کو ووٹ دیتے ہیں، یہی الیکٹورل کالجیٹ صدر اور نائب صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔

    آج ہونے والے انتخابات میں متعدد آزاد امیدوار بھی حصہ لے رہے ہیں، جن میں رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر خصوصی طور پر میڈیا کی توجہ حاصل کررہے ہیں۔

    صدارتی انتخاب

    ان صدارتی انتخابات کو اگر مختلف اعداد کے حوالے سے دیکھا جائے تو صورت حال کچھ اس طرح سامنے آئے گی۔

    دو

    امریکا کی صدارت حاصل کرنے کا اصل مقابلہ اس بار دو مضبوط سیاسی حریفوں اور مرکزی امیدواروں ڈیموکریٹ کی کاملہ ہیرس اور ریپبلکن کے ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہے۔

    پانچ

    5نومبر امریکا میں صدارتی انتخابات کا دن ہے جس کا انعقاد روایت کے مطابق نومبر کے پہلے منگل کو کیا جاتا ہے۔

    سات

    امریکا میں مجموعی طور پر 50 ریاستیں ہیں اور ان میں سات ریاستیں ایسی ہیں جو کسی ایک جماعت کی حمایت میں واضح نہیں ہیں یعنی یہاں کسی ایک جماعت کو واضح برتری حاصل نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں “سوئنگ ریاستیں” کہا جاتا ہے۔ یہ ریاستیں انتخابی نتائج کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔

    Trump

    کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں امیدوار ایریزونا، جارجیا، مشیگن، نیواڈا، نارتھ کیرو لائنا، پنسلوانیا، اور وسکونسن میں اپنے ووٹرز کو متحرک کرنے میں مصروف ہیں تاکہ فتح حاصل کی جاسکے ان ریاستوں میں معمولی فرق سے بھی جیت ہار کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔

    Electoral College

    34 اور 435

    انتخابات کے دن امریکی رائے دہندگان نہ صرف اگلے صدر کا انتخاب کریں گے بلکہ کانگریس کے ارکان کے انتخابات بھی عمل میں آئیں گے۔

    سینٹ کی چونتیس نشستیں اور ہاؤس آف ریپریزنٹیٹوز کی تمام 435 نشستیں بھی انتخابات کے لیے دستیاب ہوں گی۔

    ہاؤس کے ارکان دو سال کی مدت کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں اور اس وقت ریپبلکن پارٹی کے پاس اکثریت ہے، جبکہ ڈیموکریٹس اپنی طاقت بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں۔

    سینیٹ میں 100 میں سے 34 نشستیں 6سال کے لیے ہیں اور یہاں ریپبلکن جماعت ڈیموکریٹس سے اکثریت واپس لینے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔

    538

    الیکٹورل کالج جو کہ امریکی صدارتی انتخابات کا ایک بالواسطہ نظام ہے، مجموعی طور پر 538 الیکٹرز پر مشتمل ہے۔

    Electoral works

    ہر ریاست کو الیکٹرز کی تعداد ریاست کے آبادی کے لحاظ سے ایوان نمائندگان میں موجود نشستوں اور دو سینیٹرز کی تعداد کے حساب سے دی جاتی ہے۔

    مثال کے طور پر کم آبادی والی ریاست ورمونٹ کے پاس صرف 3 الیکٹرل ووٹ ہیں جبکہ زیادہ آبادی والی ریاست کیلیفورنیا کے پاس 54 ووٹ ہیں۔ 50 ریاستوں میں مجموعی طور پر 538 الیکٹرز ہیں۔

  • امریکی انتخابات : وہائٹ ہاؤس کو آہنی قلعے میں کیوں تبدیل کیا گیا؟

    امریکی انتخابات : وہائٹ ہاؤس کو آہنی قلعے میں کیوں تبدیل کیا گیا؟

    امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج کے روز کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کیلئے وائٹ ہاؤس کو لوہے کے قلعے میں تبدیل کر دیا گیا یے۔

    اس حوالے سے بیورو چیف جہاں زیب علی نے اے آر وائی نیوز کے ناظرین کو وائٹ ہاؤس کے باہر سے براہ راست تفصیلات سے آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ اس وقت امریکا کی سیاست اہم موڑ پر ہے، امریکی الیکشن اب گھنٹوں کی دوری پر ہے، وائٹ ہاؤس کی سیکیورٹی کے حوالے سے خدشات اس لیے بھی ہیں کہ 6 جنوری کو جو واقعہ ہوا اس کو مد نظر رکھتے ہوئے خصوصی حفاظتی انتطامات کیے گئے ہیں تاکہ دوبارہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔

    انہوں نے بتایا کہ یہاں مظاہروں کے زیادہ خطرات ہیں، واشنگٹن ڈی سی میں پرتشدد مظاہرے ہوسکتے ہیں، اس کے علاوہ ان حفاظتی اقدامات کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں ایک بہت بڑا اسٹیج بھی تیار کیا جارہا ہے۔

    انتخابات میں کامیابی کے بعد وائٹ ہاؤس کا جو بھی نیا مکین آئے گا اس کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب کا انعقاد کیا جاتا ہے، اس وقت وائٹ ہاؤس کے باہر شہریوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو اپنے امیدوار کے حق میں پلے کارڈز لیے کھڑے ہیں۔

    امریکی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ اور کاملا ہیرس میں کانٹے کا مقابلہ ہے، امریکی صدارتی انتخابات ہر چار سال بعد نومبر کے پہلے منگل کو منعقد ہوتے ہیں، اس بار ڈونلڈ ٹرمپ اور کاملا دیوی ہیرس میں کانٹے کا مقابلہ ہے۔

    دونوں امیدوار عوام سے خطابات میں ایک دوسرے پر مسلسل الزامات عائد کررہے ہیں، ووٹرز کو رام کرنے کیلئے ایک دن میں دو دو بار سوئنگ اسٹیٹس کے دورے کررہے ہیں۔

    یہ دنیا کی تاریخ کے مہنگے ترین الیکشن ہیں، ایک طرف دنیا کے امیرترین شخص اور ٹیسلا کے مالک ایلن مسک ٹرمپ کے ساتھ کھڑے ہیں تو دوسری جانب مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس کاملا ہیرس کے حمایتی ہیں۔

    کاملا ہیرس نے آج اٹلانٹا،جارجیا اور نارتھ کیرولائنا کا دورہ کیا، ریلی خطاب میں کاملا ہیرس نے کہا کہ اپنے ملک کیلئے لڑنے کو تیار ہیں،ہم لڑیں گے اور جیتیں گے،مخالفین سے انتقام کی بجائے انہیں ٹیبل پرلائیں گے۔

    دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ نے نارتھ کیرولائنا اور ورجینیا میں اپنے حمایتیوں سے خطاب کیا اور فتح کا دعویٰ کیا، ٹرمپ نے کہا کہ جوبائیڈن اور کاملا ہیرس کی معاشی پالیسیاں ناکام رہی ہیں، اقتدار میں آکر مجرموں کا امریکا میں داخلہ بند کردیں گے۔

  • ڈونلڈ ٹرمپ نے نیشنل رائفلز ایسوسی ایشن سے پھر مدد مانگ لی

    ڈونلڈ ٹرمپ نے نیشنل رائفلز ایسوسی ایشن سے پھر مدد مانگ لی

    ڈیلاس: سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیشنل رائفلز ایسوسی ایشن سے انتخابات کے سلسلے میں ایک بار پھر مدد مانگ لی ہے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق صدارتی الیکشن میں فنڈنگ کے لیے ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے پھر این آر اے سے رجوع کر لیا ہے، این آر اے نے گزشتہ الیکشن میں ٹرمپ کے لیے 30 ملین ڈالر کی فنڈنگ کی تھی۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کو ٹکساس کے شہر ڈیلاس میں این آر اے کنونشن میں جو بائیڈن کی گن کنٹرول پالیسی پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ آئین اسلحہ رکھنے کی اجازت دیتا ہے مگر بائیڈن انتظامیہ ایسا نہیں چاہتی، بارڈر پر کنٹرول نہ ہونے کے باعث جرائم پیشہ افراد ملک میں آ چکے ہیں۔

    واضح رہے کہ امریکا میں رواں سال گن وائلنس سے 6 ہزار 218 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی طویل تقریر میں وعدہ کیا کہ وہ جیت گئے تو گن کنٹرول پالیسی کو ختم کر دیں گے، لیکن اس کے لیے اسلحہ رکھنے والوں کو جا کر ان کے حق میں ووٹ ڈالنا ہوگا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آپ ایک باغی گروپ ہیں، لیکن آئیے اس بار باغی ہو کر ہی ووٹ دیں۔ خیال رہے کہ امریکا کے سب سے بڑے اس ’گن رائٹس گروپ‘ نے ٹرمپ کی 2016، 2020 اور 2024 میں تین بار حمایت کی ہے۔