Tag: 21 اپریل وفات

  • طلوعِ صبح آزادی اور مصطفٰی علی ہمدانی

    طلوعِ صبح آزادی اور مصطفٰی علی ہمدانی

    برصغیر کے مسلمانوں کو 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب آزاد وطن کی نوید سنانے والے مصطفٰی علی ہمدانی کی برسی آج منائی جارہی ہے۔ وہ 1980ء میں‌ آج ہی کے دن کراچی میں انتقال کرگئے تھے۔

    مصطفیٰ علی ہمدانی 29 جولائی 1909ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے قیامِ پاکستان کا تاریخی اعلان کرتے ہوئے ریڈیو پر جو الفاظ ادا کیے تھے وہ آج بھی ریکارڈ کا حصّہ ہیں: اس براڈ کاسٹر اور معروف شاعر نے کہا تھا، ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم، السلامُ علیکم 14 اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی شب، رات کے 12 بجے پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس طلوعِ صبح آزادی۔‘‘

    ان کا بچپن اردو کے مایہ ناز انشا پرداز مولانا محمد حسین آزاد کے گھر میں گزرا تھا جس نے ان کے اندر مطالعہ اور علم و ادب کا شوق پیدا کردیا۔ 1939ء میں وہ لاہور ریڈیو اسٹیشن سے بطور براڈ کاسٹر وابستہ ہوئے اور 1969ء میں ریٹائر ہوگئے۔

    مصطفٰی علی ہمدانی ہی نے لاہور اسٹیشن سے بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح کی وفات کی جانکاہ خبر بھی سنائی تھی۔ انھوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے دوران لاہور اسٹیشن سے خصوصی نشریات کے دوران قوم اور سرحدوں پر دشمن کا مقابلہ کرنے والے سپاہیوں کا عزم و حوصلہ بڑھایا۔

    مصطفٰی علی ہمدانی اردو کے علاوہ عربی اور فارسی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ انھیں تلفظ اور الفاظ کی درست ادائی کے حوالے سے سند تسلیم کیا جاتا تھا۔

  • مارک ٹوین: مشہور امریکی طنز نگار جن کی حاضر جوابی کی بھی مثال دی جاتی ہے

    مارک ٹوین: مشہور امریکی طنز نگار جن کی حاضر جوابی کی بھی مثال دی جاتی ہے

    مارک ٹوین دنیا بھر میں‌ طنز نگار کے طور پر مشہور ہوئے۔ وہ ایک ناول نگار، صحافی اور مدرّس کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ 21 اپریل 1910ء کو مارک ٹوین نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    اس امریکی مصنّف کا اصل نام سیموئل لینگ ہارن کلیمنز تھا جو 1835ء میں فلوریڈا میں پیدا ہوئے۔ وہ جہانِ ادب میں مارک ٹوین کے نام سے مشہور ہوئے۔ انھیں ایک بے باک مزاح نگار کہا جاتا ہے۔ ان کے ناول ’’دی ایڈوینچرز آف ہکل بیری فن‘ اور ’دی ایڈوینچرز آف ٹام سایر‘ بھی شائقینِ ادب میں بہت مقبول ہوئے۔

    مارک ٹوین گیارہ سال کی عمر میں اپنے والد کی شفقت سے محروم ہوگئے تھے۔ انھیں مالی مسائل کی وجہ سے مجبوراً اسکول چھوڑنا پڑا اور وہ ایک اخبار کے دفتر میں کام سیکھنے لگے۔ وہیں اخبار بینی کے ساتھ مارک ٹوین کو مختلف علوم اور ادب کے مطالعے کا شوق پیدا ہوا۔ اسی ذوق و شوق کے ساتھ جب انھوں نے لکھنے کے لیے قلم تھاما تو ان کا شمار مقبول ترین مزاح نگاروں میں ہونے لگا۔ مارک ٹوین کے کئی اقوال بھی مشہور ہیں اور آج بھی تحریر سے تقریر تک اظہارِ خیال کے لیے ان کا سہارا لیا جاتا ہے اور یہ اقوال پڑھے اور شایع کیے جاتے ہیں۔

    مارک ٹوین نہ صرف عوام میں مقبول تھے بلکہ سیاست دانوں، صنعت کاروں اور فن کاروں سے بھی ان کے گہرے مراسم اور تعلقات تھے جو ان کی بذلہ سنجی اور حاضر جوابی سے بے حد متاثر تھے۔ مارک ٹوین کو ناقدین اور ہم عصروں میں ان کے منفرد طرزِ فکر اور طنز و مزاح کے سبب بہت سراہا گیا۔

    اس امریکی طنز نگار کی ذاتی زندگی میں کئی الم ناک موڑ بھی آئے جن میں مالی خسارے کے ساتھ ٹوین کی بیٹیوں اور اہلیہ کی موت ایسے صدمات تھے جنھوں نے مارک ٹوین و توڑ کر رکھ دیا تھا۔ اپنی دوسری بیٹی کی وفات کے اگلے ہی برس مارک ٹوین بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

  • اقبال بانو جنھیں فیض کی نظم گانے کی ‘سزا’ ملی

    اقبال بانو جنھیں فیض کی نظم گانے کی ‘سزا’ ملی

    پاکستان میں غزل گائیکی کے فن کو بامِ عروج پر پہنچانے والی اقبال بانو سُر اور ساز ہی نہیں اردو زبان کی لطافت اور چاشنی سے بھی خوب واقف تھیں۔ ان کا تلفظ نہایت عمدہ اور ادائیگی کا انداز پُراثر تھا۔ شاعری سے انھیں خاص لگاؤ تھا جس نے ان کی گائیکی کو بے مثال بنا دیا تھا۔ آج اس گلوکارہ کی برسی ہے۔

    اقبال بانو کی آواز حاضرین اور سامعین کو جیسے اپنی گرفت میں لے لیتی اور محفل پر دیر تک ان کا اثر رہتا۔ برصغیر پاک و ہند کی یہ منفرد اور بے مثال گلوکارہ 21 اپریل 2009ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئیں۔

    پاکستان میں غزل گائیکی کے فن کو عروج پر لے جانے والی اقبال بانو کی تاریخِ پیدائش 28 دسمبر 1935 ہے۔ ان کی والدہ بھی گلوکارہ تھیں۔

    اقبال بانو کی آواز میں ایک خاص کھنک تھی جو انھیں اپنے دور کے دیگر گلوکاروں سے جدا کرتی ہے۔ انھوں نے گائیکی کی باقاعدہ تربیت لی۔ وہ دلی کے باکمال اور اپنے فن کے ماہر استاد چاند خان کی شاگرد تھیں۔

    آل انڈیا ریڈیو سے اپنے فن کا آغاز سترہ برس کی عمر میں‌ کرنے والی اقبال بانو نے 1952 میں ہجرت کی اور پاکستان کے شہر ملتان میں قیام پذیر ہوئیں۔

    انھوں نے یہاں اپنی گائیکی سے اپنے وقت کے مشہور موسیقاروں اور باذوق حلقے کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ان کی آواز گونجی تو مداحوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی گئی۔ اقبال بانو کی آواز میں مشہور شاعر فیض احمد فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘ لوگوں تک پہنچی تو یہ کلام ہر خاص و عام میں‌ ایسا مقبول ہوا کہ ایک نعرے کی صورت میں اس کی گونج سنائی دینے لگی۔

    اقبال بانو کی گائی ہوئی غزل ’داغ دل ہم کو یاد آنے لگے‘ پاکستان، سرحد پار اور ہر اس شخص کے ساتھ گویا خوش بُو کی طرح سفر کرتی رہی جو اردو جانتا تھا اور باذوق تھا۔

    ’تُو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے‘ جیسا گیت اقبال بانو کی آواز میں‌ امر ہوگیا۔

    فیض احمد فیض کا انقلابی کلام گانے کے بعد اقبال بانو کی پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پروگراموں میں شرکت پر پابندی لگا دی گئی۔ وہ دورِ آمریت تھا جس میں‌ ایک فن کار کو پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم وہ نجی محافل میں‌ شرکت کرتی رہیں اور ان کی آواز میں فیض کی یہ مشہور نظم فرمائش کرکے سنی جاتی تھی۔

    اقبال بانو کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا اور اپنے وقت کے باکمال اور نام ور موسیقاروں اور گلوکاروں نے بھی ان کے فن کا اعتراف کیا۔

  • امریکا کے مشہور طنز نگار، بذلہ سنج اور حاضر جواب مارک ٹوین کا تذکرہ

    امریکا کے مشہور طنز نگار، بذلہ سنج اور حاضر جواب مارک ٹوین کا تذکرہ

    دنیا بھر میں مارک ٹوین کی وجہِ شہرت ان کی طنز نگاری ہے۔ انھیں ایک ناول نگار اور مدرّس کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ مارک ٹوین کی زندگی کا سفر 21 اپریل 1910ء میں ہمیشہ کے لیے تمام ہوگیا تھا۔ آج علم و ادب کے شیدا اور مارک ٹوین کے جوہرِ تخلیق کے معترف ان کی یاد منا رہے ہیں۔

    1835ء میں فلوریڈا میں پیدا ہونے والے سیموئل لینگ ہارن کلیمنز کو جہانِ ادب میں مارک ٹوین کے نام سے شہرت ملی۔ انھیں ایک بے باک مزاح نگار کہا جاتا ہے جن کے ناولوں ’’دی ایڈوینچرز آف ہکل بیری فن‘ اور ’دی ایڈوینچرز آف ٹام سایر‘ کو بہت پذیرائی ملی اور یہ شائقینِ ادب میں مقبول ہوئے۔

    مارک ٹوین گیارہ سال کی عمر میں اپنے والد کی شفقت سے محروم ہوگئے تھے۔ انھیں مالی مسائل کی وجہ سے مجبوراً اسکول چھوڑنا پڑا اور وہ ایک اخبار کے دفتر میں کام سیکھنے لگے۔ وہیں اخبار بینی کے ساتھ مارک ٹوین کو مختلف علوم اور ادب کے مطالعے کا شوق پیدا ہوا۔ اسی ذوق و شوق کے ساتھ جب انھوں نے لکھنے کے لیے قلم تھاما تو ان کا شمار مقبول ترین مزاح نگاروں میں ہونے لگا۔ مارک ٹوین کے کئی اقوال بھی مشہور ہیں اور آج بھی تحریر سے تقریر تک اظہارِ خیال کے لیے ان کا سہارا لیا جاتا ہے اور یہ اقوال پڑھے اور شایع کیے جاتے ہیں۔

    مارک ٹوین نہ صرف عوام میں مقبول تھے بلکہ سیاست دانوں، صنعت کاروں اور فن کاروں سے بھی ان کے گہرے مراسم اور تعلقات تھے جو ان کی بذلہ سنجی اور حاضر جوابی سے بے حد متاثر تھے۔ مارک ٹوین کو ناقدین اور ہم عصروں میں ان کے منفرد طرزِ فکر اور طنز و مزاح کے سبب بہت سراہا گیا۔

    اس امریکی طنز نگار کی ذاتی زندگی میں کئی الم ناک موڑ بھی آئے جن میں مالی خسارے کے ساتھ ٹوین کی بیٹیوں اور اہلیہ کی موت ایسے صدمات تھے جنھوں نے انھیں توڑ کر رکھ دیا اور دوسری بیٹی کی وفات کے اگلے ہی برس وہ بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

  • ریڈیو پر قیامِ پاکستان کا اعلان کرنے والے مصطفٰی علی ہمدانی کی برسی

    ریڈیو پر قیامِ پاکستان کا اعلان کرنے والے مصطفٰی علی ہمدانی کی برسی

    برصغیر کے مسلمانوں کو 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب آزادی کی نوید سنانے والے پاکستان کے نام وَر براڈ کاسٹر اور شاعر مصطفٰی علی ہمدانی کی برسی آج منائی جارہی ہے۔ وہ 21 اپریل 1980ء کو کراچی میں انتقال کرگئے تھے۔

    29 جولائی 1909ء کو لاہور میں پیدا ہونے والے مصطفیٰ علی ہمدانی نے قیامِ پاکستان کے موقع پر ان الفاظ میں تاریخی اعلان کیا تھا: ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم، السلامُ علیکم 14 اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی شب، رات کے 12 بجے پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس طلوعِ صبح آزادی۔‘‘

    ان کا بچپن اردو کے مایہ ناز انشا پرداز مولانا محمد حسین آزاد کے گھر میں گزرا تھا جس نے ان کے اندر مطالعہ اور علم و ادب کا شوق پیدا کردیا۔ 1939ء میں وہ لاہور ریڈیو اسٹیشن سے بطور براڈ کاسٹر وابستہ ہوئے اور 1969ء میں ریٹائر ہوگئے۔

    مصطفٰی علی ہمدانی ہی نے لاہور اسٹیشن سے بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح کی وفات کی جانکاہ خبر بھی سنائی تھی۔ انھوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے دوران لاہور اسٹیشن سے خصوصی نشریات کے دوران قوم اور سرحدوں پر دشمن کا مقابلہ کرنے والے سپاہیوں کا عزم و حوصلہ بڑھایا۔

    مصطفٰی علی ہمدانی اردو کے علاوہ عربی اور فارسی زبانوں پر عبور رکھتے تھے اور انھیں تلفظ و ادائی میں سند تسلیم کیا جاتا تھا۔

  • اقبال بانو کی برسی جنھوں نے غزل گائیکی کو بامِ عروج پر پہنچایا

    اقبال بانو کی برسی جنھوں نے غزل گائیکی کو بامِ عروج پر پہنچایا

    سُر اور ساز ہی نہیں اقبال بانو اردو زبان کی لطافت، چاشنی اور الفاظ کی تاثیر کو بھی خوب سمجھتی تھیں۔ تلفظ اور ادائی ہی نہیں انھیں شعر کا بھی خوب فہم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا گایا ہوا کلام سامعین کے دل میں اتر جاتا تھا۔ برصغیر پاک و ہند کی اس منفرد اور باکمال گلوکارہ نے 21 اپریل 2009ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ آج اقبال بانو کی برسی ہے۔

    پاکستان میں غزل گائیکی کو بامِ عروج تک لے جانے والی اقبال بانو کی تاریخِ پیدائش 28 دسمبر 1935 ہے۔ ان کی والدہ بھی گلوکارہ تھیں۔

    اقبال بانو کی آواز میں ایک خاص کھنک تھی جو انھیں اپنے دور کے دیگر گلوکاروں سے جدا کرتی ہے۔ انھوں نے گائیکی کی باقاعدہ تربیت لی۔ وہ دلی کے باکمال اور اپنے فن کے ماہر استاد چاند خان کی شاگرد تھیں۔

    انھوں نے آل انڈیا ریڈیو سے اپنے فن کا آغاز کیا تھا۔ ان کی عمر سترہ برس تھی جب انھوں نے پاکستان ہجرت کی اور ملتان میں آباد ہوئیں۔ یہ 1952 کی بات ہے۔

    اقبال بانو نے اپنی گائیکی سے پاکستان کے مشہور موسیقاروں اور بڑے حلقے کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ ان کے مداحوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ معروف شاعر فیض احمد فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ کو جب اقبال بانو نے گایا تو جیسے یہ کلام ہر خاص و عام کا ترجمان بن گیا۔ یہ نظم ہر طرف ایک نعرے کی صورت گونجنے لگی۔

    ان کی گائی ہوئی ایک غزل ’داغ دل ہم کو یاد آنے لگے‘ پاکستان، سرحد پار اور ہر اس شخص کے ساتھ گویا خوش بُو کی طرح سفر کرتی رہی جو اردو جانتا تھا اور باذوق تھا۔

    ’تُولاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے‘ جیسے گیت کو شاید ہی ہم فراموش کرسکیں جسے اقبال بانو نے گا کر امر کر دیا۔

    فیض کا کلام ’ہم دیکھیں گے‘ گانے کے بعد اقبال بانو کو شہرت اور بے حد پیار تو ملا، مگر پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر ان کی آواز اور پروگراموں میں شرکت پر پابندی لگا دی گئی۔

    اقبال بانو کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا، لیکن ان کا سب سے بڑا اعزاز اور تمغہ مداحوں کی محبت اور ہر جگہ ملنے والی پزیرائی تھی۔ انھیں اپنے وقت کے باکمال اور نام ور موسیقاروں اور گلوکاروں نے نہ صرف سراہا بلکہ ان کے فن کی عظمت اور ان کی منفرد گائیکی کا اعتراف بھی کیا۔ انھیں لاہور کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • شاعرِ مشرق علّامہ محمد اقبال کی زندگی کے چند اوراق

    شاعرِ مشرق علّامہ محمد اقبال کی زندگی کے چند اوراق

    حکیمُ الامت، شاعرِ مشرق ڈاکٹر علّامہ محمد اقبال کی شخصیت اور ان کی شاعری سے دنیا واقف ہے اور ان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ علّامہ اقبال 21 اپریل 1938ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ انھیں مصوّرِ پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔

    علّامہ اقبال ایک شاعر ہی نہیں عظیم مفکر، مدبّر، قانون دان بھی تھے جس نے برصغیر کے مسلمانوں، خصوصاً نوجوانوں کی راہ نمائی کی اور انھیں ایک سمت میں آگے بڑھتے ہوئے منزل تک پہنچنے کا راستہ دکھایا۔

    9 نومبر 1877ء کو شیخ نور محمد کے گھر آنکھ کھولنے والے محمد اقبال عہد شناس اور عہد ساز شاعر مشہور ہوئے۔ انھوں نے مشرق و مغرب کے سیاسی، تہذیبی، معاشرتی اور روحانی حالات کا گہرا مشاہدہ اور مطالعہ کیا اور پھر مشرق کو اس کی بدحالی اور خاص طور پر مسلمانانِ ہند کو ان کی کم زوریوں اور خامیوں پر خبردار کیا اور اپنی شاعری کے ذریعے ان کی اصلاح کرتے ہوئے علم و عمل کی جانب راغب کیا۔

    اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمان نوجوان کو حیات و کائنات کو مسخر کرنے اور اسلاف کے فراموش کردہ کردار اور ورثے کو پانے اور اس کا احیا کرنے کی طرف متوجہ کیا۔

    اقبال نے کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ 1890ء کے ایک طرحی مشاعرہ میں اقبال نے محض 17 سال کی عمر میں اپنے کلام سے اس وقت کے جیّد شعراء کو اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا۔

    اقبال کی شاعری میں مقصد کو اوّلیت حاصل ہے۔ وہ اپنے کلام سے اقوامِ مشرق پر چھائی کاہلی اور جمود کو توڑنا چاہتے تھے اور اس کے لیے وہ عشق، عقل، مذہب، زندگی اور فن کو اک مخصوص زاویہ سے دیکھتے تھے۔

    علّامہ اقبال کا کلام دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور ان کے کلام کے کئی مجموعے شایع ہوئے۔ ان کا یہ شعر دیکھیے جس میں انھوں نے ایک آفاقی پیغام دیا ہے:

    خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
    خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے