Tag: 21 جنوری وفات

  • جارج آرویل کا ”اینیمل فارم“ اور ”1984ء“ !

    جارج آرویل کا ”اینیمل فارم“ اور ”1984ء“ !

    ایرک آرتھر بلیئر کے والد انڈین سول سروس سے وابستہ تھے اور ان کا کنبہ ہندوستان کی ریاست بہار میں‌ مقیم تھا۔ ایرک یہیں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایک سال کے تھے جب اپنی والدہ کے ساتھ انگلستان گئے اور کبھی ہندوستان واپس نہیں‌ لوٹے، لیکن کئی برس بعد ایرک آرتھر بلیئر کو ان کے قلمی نام جارج آرویل سے ہندوستان بھر میں‌ پہچانا گیا۔ وہ ناول نگار، صحافی اور نقّاد کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔

    1903ء میں برطانوی راج میں پیدا ہونے والے جارج آرویل بیدار مغز اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ایسے مصنّف تھے جنھوں‌ نے کمیونزم کو پھلتے پھولتے دیکھا۔ دو عظیم جنگوں کی تباہ کاریوں کا مشاہدہ کیا۔ برطانوی نوآبادیاتی نظام کو بکھرتے ہوئے دیکھا اور قلم کی طاقت کو آزماتے ہوئے قابلِ‌ ذکر تصانیف قارئین کے سامنے رکھیں۔

    1933ء سے 1939ء کے درمیان ان کی یکے بعد دیگرے سات کتابیں منظرِ عام پر آئیں، لیکن 1945ء میں ان کا سیاسی تمثیلی ناول ”اینیمل فارم“ دنیا بھر میں‌ ان کی وجہِ شہرت بنا۔ برطانوی مصنف کا یہ ناول علامت نگاری کی عمدہ مثال ہے جس میں ایک فارم میں بسنے والے جانور اپنے استحصال سے بیزار ہو کر اپنے مالکان کو بھاگنے پر مجبور کردیتے ہیں اور پھر فارم پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ اس کہانی کو دنیا بھر میں پسند کیا گیا اور ناول کا اردو اور متعدد دیگر زبانوں میں‌ ترجمہ کیا جاچکا ہے۔

    اسی طرح 1949ء میں انھوں نے ایک خیالی دنیا پر ”1984“ کے عنوان سے ناول سپردِ قلم کیا جو شہرۂ آفاق ثابت ہوا۔ آرویل نے اس ناول میں ایک ایسی حکومت کا نقشہ کھینچا ہے، جس میں نگرانی کا ایک غیر معمولی نظام ہر وقت متحرک رہتا ہے، اور جبر کی فضا کا عالم یہ ہے کہ عوام اپنے ذہن میں بھی کوئی سوچ یا تصوّر نہین رکھ سکتے جو حکومت کی نظر میں قابلِ اعتراض ہو۔ یعنی ہر وہ سوچ جو حکومت کی منشا کے خلاف جنم لے گی، اس کڑے پہرے داری نظام میں گرفت میں‌ آجائے گی اور ایسا فرد سزا پائے گا۔ الغرض یہ ناول ایک مطلق العنان حکومت کے مختلف ہتھکنڈوں کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔

    انگریزی کے اس مشہور مصنّف اور صحافی نے 21 جنوری 1950ء کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ بند کرلی تھیں۔

  • یومِ وفات: ماں کا کردار نبھانے میں سلمیٰ ممتاز کا کوئی ثانی نہ تھا

    یومِ وفات: ماں کا کردار نبھانے میں سلمیٰ ممتاز کا کوئی ثانی نہ تھا

    سلمیٰ ممتاز پاکستانی فلم انڈسٹری کی پہلی اداکارہ تھیں جنھیں ملکۂ جذبات کا خطاب دیا گیا تھا۔ انھوں نے اردو اور پنجابی فلموں میں ماں کے روپ میں شان دار پرفارمنس سے بے پناہ شہرت حاصل کی۔ آج ماضی کی اس اداکارہ کا یومِ وفات ہے۔

    اداکارہ سلمیٰ ممتاز نے 21 جنوری 2012ء کو لاہور میں وفات پائی۔ انھوں نے اردو فلموں سے اداکاری کا سفر شروع کیا تھا اور بعد میں سماجی موضوعات پر بنے والی پنجابی فلموں میں زیادہ تر ماں کے کردار ادا کیے جو یادگار ثابت ہوئے۔

    پنجابی فلموں میں جب ایکشن فلموں کا دور دورہ ہوا تو اداکارہ پس منظر میں چلی گئی تھیں کیوں کہ وہ لاؤڈ ڈائیلاگ نہیں بول سکتی تھیں۔ سلمیٰ ممتاز ایسی کام یاب اداکارہ تھیں جنھوں نے ہیروئن کا رول نہ کرنے کے باوجود کئی فلموں میں اپنی پرفارمنس سے زبردست شہرت حاصل کی۔

    لگ بھگ تین سو فلموں میں کام کرنے والی سلمیٰ ممتاز کی پہلی فلم دربار بعض کے نزدیک نیلو فر تھی۔ یہ 1958ء کی بات ہے، لیکن 1963ء میں بننے والی فلم موج میلہ سے انھیں بریک تھرو ملا تھا۔ موج میلہ وہ فلم تھی جس میں اداکارہ ولن کی ماں کے روپ میں سامنے آئیں اور یادگار پرفارمنس دی۔ یہ ایسا کردار تھا جس سے سب ڈرتے تھے، لیکن وہ اپنی ماں کے سامنے بھیگی بلّی بن جاتا ہے۔ اگلے سال فلم ہتھ جوڑی آئی اور یہ بھی اداکارہ کی یادگار فلم تھی۔

    اداکارہ نے یوں تو کئی فلموں میں ماں کے روپ میں‌ عمدہ جذبات نگاری کی، لیکن فلم جگ بیتی جو 1968ء میں ریلیز ہوئی، اس میں ان کے کردار نے شائقین کو بہت محظوظ کیا۔ وہ ہر وقت سَر پر کچھ باندھے، مصنوعی بیماری کا رونا روتے اور خاص طور پر اپنی بہو اور اپنے پچھلوں کو کوستے ہوئے دن گزارنے والی ایسی عورت بنی تھیں جو ہمارے معاشرے کا جیتا جاگتا کردار تھی۔ اس عورت کا غصّہ اس وقت آسمان کو چھونے لگتا جب اس کی معصوم پوتی کھیلتے ہوئے اپنی دادی نقل اتارتی ہے۔

    سلمیٰ‌ ممتاز 1926ء کو جالندھر میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کی زندگی کئی مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے گزری جس میں‌ تقسیم کے بعد ہجرت اور پاکستان میں‌ قیام اور معاشی حالات کے ساتھ زندگی کی کئی تلخیاں شامل ہیں، ان کا اصل نام ممتاز بیگم تھا۔ انھوں نے ریڈیو کے ڈراموں میں بھی کام کیا۔

    انھوں نے معاون اداکارہ کے علاوہ کیریکٹر ایکٹریس کی حیثیت سے بھی اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا اور خود کو منوایا۔ وہ فلم ساز اور ہدایت کارہ بھی رہیں۔ سلمیٰ ممتاز نے محمد علی، وحید مراد، شاہد اور سدھیر کے ساتھ کئی فلموں میں کام کیا۔

    فلم ’ہیر رانجھا‘ میں اداکارہ نے ہیر کی ماں کا کردار ادا کیا تھا جس میں مکالموں کی ادائیگی کے ساتھ ان کے چہرے کے تاثرات نے اس کردار کو لازوال بنا دیا۔ سلمیٰ ممتاز کا فلمی کیریئر تین دہائیوں پر محیط رہا۔

    سلمیٰ ممتاز ایسی خاتون تھیں جنھیں فلم انڈسٹری میں نہایت عزّت اور احترام دیا گیا اور انھوں نے پُروقار انداز سے اپنا سفر جاری رکھا اور شائقینِ سنیما سے بھی پذیرائی کے ساتھ بڑا احترام پایا۔